خبردار ! کون وہاں جارہا ہے؟

شائع March 8, 2015

کراچی : راستے میں آپ کے سامنے ایک بیرئیر یا رکاوٹ ہے جو یہ یاد دلاتا ہے کہ آپ یہاں سے تعلق نہیں رکھتے یا اس رکاوٹ کے پیچھے کھڑا فرد نہیں چاہتا کہ آپ اس کے پاس آئیں اور یہ سب سیکیورٹی کے لیے ہے، جبکہ ہم سب خوفزدہ ہیں۔

اونچی دیواریں، بلندر دروازے، کتوں سے خبردار رہنے کا اشارہ، جالیاں، بیرئیرز، سیمنٹ بلاکس جو بلند سے بلند تر ہوتے ہیں، خاردار تاریں وغیرہ بدصورت ہیں اور اس میں کوئی شبہ نہیں مگر جب خطرہ محسوس ہورہا ہو تو خوبصورتی کے بارے میں کون سوچے گا؟

پردیپ کمار کراچی کے سول ہسپتال کے بالکل سامنے ایک کیمسٹ شاپ چلاتے ہیں، وہ اور ان کا عملہ ایک چھوٹے سے دروازے سے لگ بھگ رینگتے ہوئے دکان میں داخل ہوتے ہیں کیونکہ داخلی دروازے کو بہت بھاری سفید گرل نے کور کر رکھا ہے۔

دکان ہے یا چڑیا گھر کا کوئی جنگلہ
دکان ہے یا چڑیا گھر کا کوئی جنگلہ

وہ صارفین سے بالکل اس طرح معاملات طے کرتے ہین جیسے ایک بینک کا کیشیئر شیشے کے گلاس میں بنے ایک چھوٹے سے سوراخ سے کرتا ہے۔

یہاں پردیپ کمار اور ان کا عملہ گرل میں بنے سوراخوں سے ادویات دیتے اور پیسے لیتے ہیں۔

ان کے بقول " آٹھ مرتبہ گن پوائنٹ پر لٹنے کے بعد ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں رہ گیا تھا کہ خود کو جنگلے میں قید کرلیں"۔

جب انہیں یاد دلایا گیا کہ اسلحہ تو اب بھی گرل کے سوراخوں سے ان کی جانب اٹھایا جاسکتا ہے تو ان کا کہنا تھا " ہاں مگر اس سے کافی بڑا فرق پڑا ہے کیونکہ پہلے جب وہ آتے تھے تو وہ کم از کم تین ہوتے تھے جن میں سے ایک گن سنبھالے رکھتا تھا، دوسرا اسے کور دیتے ہوئے نگرانی کرتا تھا جبکہ تیسرا بھاگنے کے لیے سواری تیار رکھتا تھا، مگر اب وہ کسی طرح اندر آ بھی جائیں تو بھی ان کے لیے آسانی سے فرار ممکن نہیں ہوسکے گا تو وہ بس ہماری دکان کو چھوڑ کر کسی اور جگہ کا رخ کریں گے اور کسی اور جگہ اپنی واردات کریں گے"۔

انہوں نے مزید بتایا " دیکھیں لوگ یا ڈسٹری بیوٹر یہاں اشیاءآتے ہیں تو وہ کور پک اپ میں ہوتے ہیں اور ایک گارڈ ان کا تحفظ کررہا ہوتا ہے اور اگر وہ خود کو کسی مشکل صورتحال میں پھنسا ہوا محسوس کریں تو ان کے پاس ڈرائیونگ نہ کرنے کا آپشن ہوتا ہے، مگر یہاں بیٹھ کر ہم بیٹھی ہوئی بطخیں بن کر رہ گئے ہیں"۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے بھی مسلح سیکیورٹی گارڈ کی خدمات کیوں نہیں حاصل کیں تو ان کا کہنا تھا کہ اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا " سب سے پہلے تو اس سے ہمارے لیے مسئلہ پیدا ہوجائے گا کیونکہ ایک گارڈ کے نظر آنے سے یہ تاثر پیدا ہوگا کہ ہمارا کاروبار اچھا چل رہا ہے اور ہماری دکان میں کافی پیسہ ہے، اور پھر گارڈز بہت اچھے تربیت یافتہ نہیں ہوتے درحقیقت انہوں نے خطرناک ہتھیار تھامے ہوتے ہیں، وہ اپنے اور ہمارے لیے بھی ایک خطرہ ہوتے ہیں ، کچھ کے پاس اپنے ہتھیاروں کا مناسب لائسنس بھی نہیں ہوتا کیونکہ بیشتر سیکیورٹی کمپنیوں نے بیس ہتھیاروں کے لیے بس ایک لائسنس لیا ہوتا ہے، اس طرح اگر کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو ہم ایف آئی آر تک درج نہیں کروا سکتے کیونکہ ہمارے گارڈ کے پاس لائسنس تک نہیں ہوتا"۔

ان کا کہنا تھا " میری دکان میں ہر ڈکتی کے بعد ہمیں تھفظ کے لیے ایک پولیس وین بھی ملی مگر وہ زیادہ دن تک نہیں رہی، تو بہتر یہ ہے کہ اپنا تحفظ خود کریں، آج ہم یہاں تک دیکھتے ہیں کہ سامنے سول ہسپتال میں طبی امداد کے لیے آنے والے غریب افراد تک سے ان کے بٹوے، موبائل فونز چھین لیے جاتے ہیں، حالانکہ یہاں جگہ جگہ نگرانی کے کیمرے ہیں جن کے ذریعے پولیس موثر طریقے سے صورتحال کو مانیٹر کرسکتی ہے مگر ایسا نہیں ہورہا"۔

پردیپ کمار جیسے خیالات کا اظہار متعدد کاروباری افراد اور دکانداروں نے کیا، رہائشی علاقوں میں بھی لوگوں نے اپنی سیکیورٹی اپنے ہاتھوں میں لے لی ہے۔

لگ بھگ تیس سال پہلے علاقے کے لوگ ایک سیکیورٹی گارڈ کی خدمات کچھ معاوضے کے عوض حاصل کرتے تھے جو علاقے میں گشت کرتا تھا ، آج وہ بیرئیر کی تعمیر کے لیے پیسہ اکھٹا کرتے ہیں اور رکاوٹوں سے بند گلی میں گارڈز تعینات کرتے ہیں جو رہائشیوں کی شناخت کرتا ہے اور صرف ان کے لیے ہی بیرئیر ہٹاتا ہے۔

بیرئیر والی ایک گلی
بیرئیر والی ایک گلی

سیکیورٹی کے نام پر کچھ گلیوں کو سیمنٹ کے بھاری بلاکوں کے ساتھ مستقل طور پر بند کردیا گیا ہے۔

سفارتخانوں یا قونصل خانے تک تین سے بارہ فٹ اونچے ایسے بلاکس کو استعمال کرتے ہوئے شاہراﺅں پر تجاوزات قائم کردیتے ہیں اور صرف اپنے لیے محفوظ راستہ بناتے ہیں۔

گھر خاص طور پر وہ مکان جہاں پہلے کبھی غیر مطلوب افراد آچکے ہوں، کی دیواریں اونچی کرا دی گئی ہیں اور اگر یہ بھی کافی نہیں لگتا تو اس کے اوپر شیشوں کے ٹکڑے لگا دیئے جاتے ہیں بلکہ کچھ نے تو مہنگی خاردار تاریں بچھا رکھی ہیں جن میں برقی رو دوڑتی رہتی ہے۔

ڈیفینس فیز 1 کی متعدد بند گلیوں میں سے ایک
ڈیفینس فیز 1 کی متعدد بند گلیوں میں سے ایک

اور یہ سب صرف کرپشن اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اندر احساس ذمہ داری کی کمی کا نتیجہ ہے۔

پولیس کی ترجیح عوام کی بجائے وی آئی پیز کا تحفظ ہے تو عام افراد اسی طرح اپنا تحفظ خود کرتے ہیں۔

ایسا ہورہا ہے اور ایسا ہوتا رہے گا اور وہ وقت دور نہیں جب لوگوں کا حکومتی اداروں سے اعتماد اٹھ جائے گا اور وہ قانون اپنے ہاتھوں میں لے لیں گے۔

تبصرے (1) بند ہیں

SMAZ Mar 09, 2015 03:11pm
Important to note. Specially in karachi. Hope things change

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2025
کارٹون : 21 دسمبر 2025