میڈیا میں اردو زبان کا غلط استعمال

اپ ڈیٹ 04 اگست 2015
ٹی وی چینل زبان کی درستی اور ترویج میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، لیکن خود ہی بگاڑ کا سبب بن رہے ہیں۔
ٹی وی چینل زبان کی درستی اور ترویج میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، لیکن خود ہی بگاڑ کا سبب بن رہے ہیں۔

یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اردو زبان کو پاکستان کی قومی زبان ہونے کے باوجود ملک میں وہ مقام حاصل نہ ہوسکا جو ہونا چاہیے تھا لیکن اس کے برعکس زبانِ غیر ہونے کے باوجود انگریزی ملک میں راج کررہی ہے۔

چلیں یہاں تک تو پھر بھی قابلِ برداشت ہے۔ لیکن قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ پاکستان میں روز بروز ترقی کرنے والا الیکٹرونک میڈیا اردو زبان کی مزید زبوں حالی کا سبب بن رہا ہے۔ زبان کے قواعد و ضوابط کے اعتبار سے اردو کا غلط استعمال الیکٹرونک میڈیا پر عام ہے جو یقیناً اہلِ زبان اور صاحبانِ علم کے لیے انتہائی تشویش کا باعث ہے کیونکہ غلط یا غیر معیاری زبان کا فروغ پہلے ہی سے ملک میں عدم توجہ کا شکار اردو کی مزید بربادی کا باعث بن رہا ہے، حالانکہ یہی تفریحی اور خبروں کے چینل اردو زبان کے فروغ میں ایک اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

غلط اردو کا استعمال ٹی وی ڈراموں، اشتہارات، سیاسی و معاشرتی مباحثوں، خبروں، اور صبح نشر ہونے والے مارننگ شو وغیرہ میں عام ہوچکا ہے جس کے نتیجے میں ایک انتہائی غیر معیاری اور غلط زبان وجود میں آرہی ہے۔

ٹی وی چینلوں پر سیاسی اور سماجی مسائل پر بے باک اور بے لاگ تبصرہ کرنے والے اور خبریں پڑھنے والے خواتین و حضرات کی اردو سے شرمناک حد تک ناواقفیت بھی زبان و لسان کی اس زبوں حالی کی اہم وجوہ میں سے ایک ہے، لیکن اس اعتبار سے سرکاری ٹی وی نے اپنے معیار کو تا حال بلند کر رکھا ہے۔

سرکاری ٹی وی پر باقاعدہ اردو شناس افراد کو ملازم رکھا جاتا رہا ہے، تاکہ زبان کا صحیح استعمال ہوسکے۔ میزبانوں کے انتخاب میں سرکاری ٹی وی کا معیار بالخصوص ماضی میں اتنا بلند ہوا کرتا تھا کہ قریش پور،عبیداللہ بیگ، ضیاء محی الدین، طارق عزیز، مستنصر حسین تارڑ، انور مقصود، لئیق احمد، اور فراست رضوی جیسے شاعروں، ادیبوں، دانشوروں اور صاحبانِ مطالعہ افراد کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں۔

لیکن دورِ حاضر میں نجی چینلوں پر معاملہ یکسر مختلف نظر آتا ہے۔ یہاں زبان انتہائی مظلوم نظر آتی ہے۔ تذکیر و تانیث، تلفظ اور بنیادی قواعد کی غلطیاں عام ہوچکی ہیں۔

پڑھیے: اردو ہے جس کا نام

تلفظ کے بارے میں تو صاحبانِ زبان و لسان ذرا رعایت سے کام لیتے ہیں، کیونکہ بعض افراد جن کی مادری زبان اردو کے علاوہ کوئی اور ہو تو وہ تلفظ میں تھوڑی بہت غلطیاں کرتے ہیں جو کسی حد تک مخارج کی مجبوری ہوا کرتی ہیں۔ جیسے پنجابی حضرات 'ق' کو 'ک'، اور فارسی بان 'ق' کو 'غ' پڑھتے ہیں، گجراتی بولنے والے 'س' کو 'ش' اور 'ش' کو 'س' تلفظ کرتے ہیں، بھارت میں سنسکرت بولنے والوں میں 'ج' کو 'ز' یا 'ذ' تلفظ کرنے کا عام رجحان ہے۔

لیکن انتہائی افسوس ناک بات یہ ہے کہ پاکستان دنیا کی شاید وہ واحد قوم ہے جو اپنی قومی زبان کے اصول و قواعد یعنی گرامر ہی تبدیل کرنے پر آمادہ نظر آتی ہے۔ اس حوالے سے چند جملے بطورِ مثال پیش خدمت ہیں، جیسے 'آپ کیا کرتے ہو'، 'آپ جاؤ گے'، 'آپ چائے پیو گے' یعنی ایک ہی جملے میں تعظیم بھی ہے اور تذلیل بھی۔ اسے اصطلاح میں شترگربہ کہتے ہیں۔

لڑکیوں کے لیے لفظ 'بیٹی' کی جگہ 'بیٹا' استعمال کرنا غلط العام تصور کیا جاتا ہے۔ بیٹیوں یا لڑکیوں کے لیے ان جملوں کا استعمال کہ 'بیٹا آپ کہاں جارہے ہو' یا 'آپ کیسے ہو' وغیرہ نہ صرف قواعد کی رُو سے غلط ہیں بلکہ ناقابلِ قبول بھی ہیں۔

اردو قواعد کی غلطیاں اتنی عام ہوچکی ہیں کہ لفظ 'عوام' کی جنس ہی تبدیل کردی گئی ہے، یعنی اس انتہائی عام لفظ کو مذکر سے مونث بنا دیا گیا ہے۔ سیاستدان اور بالخصوص الیکٹرونک میڈیا کے نمائندگان اکثر و بیشتر یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ 'عوام بیچاری مہنگائی کے بوجھ تلے دب گئی ہے'، 'عوام تو بے اختیار ہوتی ہے'، وغیرہ۔ قواعد کے اعتبار سے یہ غلطیاں سنگین تصور کی جاتی ہیں۔

کچھ غیر معیاری الفاظ عام بول چال میں استعمال ہوتے ہیں، ان الفاظ کے استعمال سے پرہیز کرنا چاہیے۔ جیسے لفظ 'گڑبڑ' کی جگہ 'پنگے' کو استعمال کرنا، اسی طرح 'کہا' کے بجائے 'بولا'، 'مجھے' کی جگہ ' میرے کو'، 'کیا 'کی جگہ 'کرا' وغیرہ۔ ان غیر معیاری الفاظ کا استعمال الیکٹرونک میڈیا پر صحافی کثرت سے کرتے ہیں۔ اس حوالے سے صحافیوں پر زیادہ تنقید کا سبب ان کی سماجی اور پیشہ ورانہ حیثیت ہے۔

چاہے پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرونک، صحافت الفاظ کو مستحسن انداز میں برتنے کا نام ہے۔ خبروں اور مباحثوں پر مبنی مختلف پروگراموں میں جلوہ افروز ہونے والے میزبانوں (جنہیں دورِ حاضر میں اینکرپرسن کہا جاتا ہے) کی گفتگو سنی جائے یا خبر پڑھنے والوں کو سنا جائے، تو بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ زیادہ تر افراد اردو زبان کے بنیادی اصولوں سے نہ صرف ناواقف ہیں بلکہ ذخیرۂ الفاظ کی قلت کا بھی شکار ہیں۔ موزوں اور مناسب الفاظ کے انتخاب کا جوہر ہر صحافی میں ہونا چاہیے۔

مزید پڑھیے: اردو زبان کے بارے میں چند غلط تصورات

دوسری جانب الفاظ کا درست تلفظ بالخصوص الیکٹرونک شعبۂ خبر سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کے لیے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اردو میں لکھی جانے والی اچھی کتب کا مطالعہ کسی بھی فرد کو زبان کے بنیادی اسرار و رموز سے آشنا کرتا ہے، مگر کتب بینی کی ثقافت ہمارے معاشرے سے ناپید ہوتی جارہی ہے، اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات بھی یقیناً اس تنزلی کا شکار ہیں۔

ہمیں چینلوں پر اکثر میزبان طویل سوالات کرتے نظر آتے ہیں جو پیشہ ورانہ مہارت کے خلاف ہے، لیکن اس کی وجوہ میں ذخیرۂ الفاظ کی کمی ہے اور یہ کمی کثرتِ مطالعہ سے دور ہوتی ہے۔

معروف اردو تاریخ دان ڈاکٹر سلیم اختر نے لفظ کی قدروقیمت کو اجاگر کرتے ہوئے اپنی کتاب 'اردوادب کی مختصرترین تاریخ' میں لکھا ہے کہ 'لفظ کی اپنی انفرادیت ہوتی ہے، لہٰذا آدمی کی مانند اس کا احترام بھی لازم ہے۔ لیکن خود غرضی کی جس فضا میں ہم سانس لے رہے ہیں اس کے باعث انصاف، اداروں اور قدروں کے ساتھ ساتھ لفظ بھی بے اعتبار ہوا، پہلے سیاستدانوں کے ہاتھوں، پھر مُلاؤں کے ہاتھوں، پھر صحافیوں اور ادیبوں کے ہاتھوں۔'

پاکستان کے مقابلے میں بھارت کا معاشرہ زیادہ انگریزی زدہ ہے، مگر بھارتی ہندی چینلوں پر کثرت سے سنسکرت کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ انگریزی اور بالخصوص اردو کے الفاظ کے استعمال سے اجتناب برتیں۔

اس کے برعکس پاکستانی اردو چینلوں پر آدھی اردو اور آدھی انگریزی بولنے کا رواج ہے۔ تفریحی چینلوں پر جو ڈرامے نشر کیے جاتے ہیں، ان میں تو کہیں کہیں کردار کے لحاظ سے اچھی اردو سننے کو مل جاتی ہے، مگر خبروں کے چینلوں پر گفتگو کے دوران آدھی اردو اور آدھی انگریزی کا ہی سہارا لیا جاتا ہے۔

کچھ انگریزی کے الفاظ ایسے بھی ہیں جو خبروں کے چینلوں پر کثرت سے اردو میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ جیسےcategorically ،heading ، having said that ،short break ،political turmoil ،law and order ،parliament ،legislation یا legislator وغیرہ۔

معروف شاعر اور ماہرِ اردو لسانیات ساحر لکھنوی کے بقول 'بعض الفاظ اپنی اصل زبان سے دوسری زبانوں تک پہنچ کر اس کا حصہ بن جاتے ہیں، ہم اسے الفاظ کی ہجرت کہتے ہیں۔' اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ ایک عمرانی عمل (social process) ہے جو از خود وقوع پذیر ہوتا ہے، مگر زبردستی ایک زبان میں دوسری زبان کے الفاظ استعمال کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے بلکہ سامعین کے لیے سمع خراشی کا بھی سبب بنتا ہے۔

اردو میں انگریزی کے الفاظ کا استعمال اس وقت زیادہ ضروری محسوس ہوتا ہے جب انگریزی لفظ کا کوئی مناسب اور جامع مترادف موجود نہ ہو۔ لیکن انگریزی لفظ categorically کا مترادف اردو میں 'دو ٹوک' ہے، جو زیادہ جامع اور زوردار لفظ ہے، مگر ہمارے چینلوں کے نمائندگان انگریزی الفاظ استعمال کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ شاید وہ انگریزی زبان سے مرعوب سامعین و ناظرین پر اپنا علمی رعب بٹھانا چاہتے ہیں۔

مزید پڑھیے: میری اردو بہت خراب ہے!

کسی بھی معاشرے میں نئی نسل کے لیے اس معاشرے میں رائج زبان سیکھنے کے بہتر مواقع خاندان، اسکول اور ان کے بعد ٹی وی چینلوں سے حاصل ہوتے ہیں۔ مگر ہمارے معاشرے میں اس حوالے سے خاندان اور تعلیمی ادارے کوئی واضح کردار ادا کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں، جبکہ چینلوں نے تو نئی نسل کو اچھی اردو سننے کے مواقع دینے کے بجائے زبان کو بگاڑنے کی کوشش کی ہے۔ یقیناً یہ دانستہ عمل نہیں ہے، بلکہ علم و ادب سے دوری کا نتیجہ ہے۔

اس قومی المیے کے سدھار کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ الیکٹرونک میڈیا کے مالکان کا بھی یہ سماجی فریضہ ہے کہ وہ اپنے اداروں میں ایسے افراد کی خدمات حاصل کریں جو اردو زبان پر عبور رکھتے ہوں، تاکہ کم ازکم ان کے نمائندگان کی زبان کی اصلاح ہو سکے۔

پیمرا کو چاہیے کہ وہ تمام چینلوں کو اس بات کا پابند کریں کہ وہ اپنی معاشرتی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے اور عوامی دلچسپی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اردو کے فروغ کے لیے مہینے میں کم از کم ایک یا دو پروگرام لازمی نشر کریں، تاکہ نئی نسل میں معیاری اردو سننے اور سمجھنے کا ذوق پیدا ہوسکے۔

تبصرے (18) بند ہیں

یمین الاسلام زبیری Apr 16, 2015 09:13pm
میں جو بولا تو کہا کہ یہ آواز۔اسی خانہ خراب کی سی ہے۔ میر :عسکری صاحب یہ مسئلہ اٹھانے کا شکریہ۔ جہاں تک شتر گربہ یاعوامی گفتگو کی بات ہے اس کا ہم کچھ نہیں کر سکتے کہ یہ تعلیم کی کمی کی وجہ سے ہے۔ جہاں تک ٹی وی کی بات ہے تو باہر کے ملکوں میں اگر پروگرام کرنے والے کی زبان و لہجہ درست نہیں ہے تو اسے ملازمت مل ہی نہیں سکتی۔ ہمارے ہاں لگتا ہے کہ بھرتی کرنے والا خود نا اہل ہے، یا مالکان خود انتخاب کر رہے ہیں۔ انگریزی کے الفاظ و جملے بولنے کی نفسیات غالباً یہ ہے کہ اس سے آدمی پڑھا لکھا لگتا ہے۔ اب آپ دیکھیے تو ہمارے ٹی وی پروگراموں کے آدھے سے زیادہ نام انگریزی میں ہیں، اور تو اور انور مقصود کے پروگراموں کے نام بھی آدھے انگریزی میں ہیں۔ عسکری صاحب نے جو سب سے اچھی بات کہی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے اسکولوں کو بچوں میں اردو کتابوں کے پڑھنے کے رجحان کو فروغ دینا ہوگا۔ حکومت کو چاہیے کہ بچوں کے لیے اردو کتابیں لکھنے والوں کے انعامی مقابلے منعقد کرے۔ 'دو ٹوک' کی طرح ہمارے پاس 'ڈرون' سے زیادہ بہتر لفظ 'بھنورا' موجود ہے۔ اس سلسلے میں نوجوان والدین منظم طور پر آگے آئیں، بچوں کے مستقبل کا سوچیں۔
نجیب احمد سنگھیڑہ Apr 16, 2015 10:12pm
سطحی سوچ کا اظہار کیا گیا ہے بلاگ میں۔ اردو سے اندھی محبت کے نشے میں سرشار رہتے ہوئے بہت سے نکات کو دوران قلم گھمائی سوچا ہی نہیں گیا۔ زبان میں ارتقاء، ٹیکنالوجی کی بھرمار خاص کر دنیائے انٹرنیٹ، جدیدیت اور روایت پسندی، گلوبلائزیشن، مادری زبان اور قومی زبان میں فرق، ملکی اور غیرملکی زبان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے کئی نکات ہیں جن پر اگر لکھنے سے پہلے غور و غوض کیا جاتا تو بلاگ کا لب لباب سراسر ہذا بلاگ کے الٹ نکلتا۔ مرزا غالب کی اردو ہی کیا اردو ہے؟ یو پی سی پی کی اردو ہی کیا اردو ہے؟ جناب اعلٰی یہ پاکستان ہے کوئی لکھنو اور دھلی نہیں۔ زمینی اور ثقافتی حقائق کے ساتھ ساتھ پاکستانی اور غیرپاکستانی اصطلاحات کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے تھا۔
Muhammad Anwar Apr 16, 2015 10:52pm
@یمین الاسلام زبیری ، آپ دونوں صاحبان کا بہت بہت شکریہ۔ اگر آپ جیسے صاحبان علم دو چار قدم آگے بڑھ کر مہجور و مظلوم اردو کو دلاسہ دینے کا بیڑا اُٹھائیں ، اور ہاں تسلسل شرط ہے محنت اور عزم مصمم کیساتھ تو انشاء اللہ اُمید ہے کہ ہم جیسے بے زبان مخلوق کو بھی آپ کا سا تھ دینا پڑیگا۔ بس ایک مہم کی ضرورت ہے ۔ قومی مایوسی جی ہاں بحثیت مجموعی قومی نفسیات پر مسلط انگریزی رعب کو دور کرنا ہوگا۔ انگریزی اس دور میں وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اس کی اہمیت سے نہ تو انکار کی گنجائش ہے اور نہ ہمیں خُدا واسطے کا بیر ہے انگریزی سے ،پر قومی زبان کو یوں انگریزی زدہ کرنا بھی پست و مایوس ذہنیت کی عکاس ہے ۔ کا ش یہ سیاہ کار اردو زبان سے مکمل مسلح ہوتا تو آج ہی سے مہم شروع کرتا ،لیکن اپنا تو حال یہ ہے کہ املاء و انشاء تذکیر و تانیث کی بظاہر معمولی لیکن دراصل سنگین غلطیوں کا ارتکاب ہر دوسرے تیسرے لفظ کے بعد ہو رہا ہے ۔ اگر چہ ان غلطیوں کو جن کو بقلم خود بار بار دہرا رہا ہوں ،ظاہرا جرم قابل دست اندازی پولیس نہیں ہے لیکن ایک جونئیر ترین صحافی کے طور پر خجالت محسوس کر رہاہوں
M Daniyal Junaid Apr 17, 2015 12:10am
bohat hi umda article laga mujhe.baat yeh hai k hamari qom angraizi ko or angraizon ko khud se barh kr samajhti hai or khud pe fakhar krne ki bjaye ghairon ki cheez ko apnana chaahti hai.jo qom khud pe or khud k samaaj pe fakhar nhi krti wo kbi ek achi qom nhi bn skti . hamain khud pe fakhar krna hoga or is k liye qaabil logon ko agay laana paray ga.yeh zimedaari hakumat pr laagu hoti hai k wo hmaray muashray main behtri k liye qadam uthaye
Muhammad Bux Waryah Apr 17, 2015 12:46am
urdu bnyadi tur pe daravari zuba he jo hindi se ubri he phr us me kuchh beroni zbabo k alfaz shaml ho gae ye zyada tr mughal dour me hoa jb farsi un mughlon ke zuban the mgr us se urdu ko buht faeda hoa phr Angrezi dour meye mazed waseh ho gai jo es me angrezi alfaz bhi jama ho gae jb beresagher ka batwara hoa tu es me wadia Sindh k zebano ke alfazon ka be ezafa hoa mgr ye guzesta 700 soo sal se ye zuban dosri zubano ke alfaz tu lete rahe or apne ko wase tu krte rahe mgr un ko apne un ko apne andaz me apne ander zaam nahi kr sake es urdu zuban me jesa ke bnyadi tur pe hindi se nkle he us lea es me horoof elaet nahi hen es lea ye peesh ko waoo zabar ko alef oor zeer ko yee parte hen jesa k hindi wale soo ye aarabi ko galat parte hen soo quran majeed bhi aarabi me he ye quran bhi galat parte hen ye bunyadi khamyan hen jo durst nahi ho sakte baqi raha English ke alfazon ke bheer mar tu ye he tu urdu ka matlab or maqsd he ye ase zuban alfazoon ke majmue se he wusaht le te hen urdu ko wase banane k lea mukhtalif zubanu k alfazoon ka our muhaharoon ka aa jana ashhad zaroori he agar aap aesa na kreen ge tu urdu , urdu nahi Hindi he baqi rah jae ge aap samjha kroo !
ماجد چانڈیو Apr 17, 2015 03:20am
@نجیب احمد سنگھیڑہ : جناب آپ کی بات سے میں سہمت ہوں....
یمین الاسلام زبیری Apr 17, 2015 03:44am
@نجیب احمد سنگھیڑہ صاحب اکثر اس قسم کے مضامین کی مخالفت میں وہ لوگ خط لکھا کرتے ہیں جن کی مادری زبان اردو نہیں ہوتی، اور انہیں لگتا ہے کہ ان کی زبان کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ ایسا نہیں ہے، لکھنے والا جب اردو کے بارے میں لکھتا ہے تو اس کا مطلب و مقصد یہی ہوتا ہے کہ پاکستان کی ساری زبانوں کو ترقی کے مواقع ملیں۔ میں جب کچھ لکھتا ہوں تو کوشش کرتا ہوں کہ مجھے جتنی بھی سندھی آتی ہے میں اسے استعمال کروں، مثلاً میں ڈرائنگ روم کی بجائے اوطاق لکھتا ہوں، اور ولج کی بجائے گوٹھ کا لفظ استعمال کرتا ہوں۔ میری مہم ہے کہ اگر ہمیں الفاظ لینا ہی ہیں تو ہم اپنی مقامی زبانوں سے کیوں نہ لیں۔ کوئی زبان بھی مکمل نہیں ہوتی؛ آج جنگل کا لفظ بھی انگریزی ہوگیا ہے۔ عسکری صاحب نے شتر بے مہار کی مثال سے زبان کے آگے بڑھنے پر اعتراض کیا ہے۔ دراصل ہمارے ہاں، اور شعبوں کی طرح، زبان کے معملے میں بھی کوئی رہبر نہیں ہے۔ جہاں تک مقامی زبانوں کا تعلق ہے تو ان کے بولنے والوں کو کتابیں لکھنی چاہیے ہیں؛ انہیں عسکری صاحب کی طرح اپنی زبان کے بارے میں لکھنا چاہیے، محض شکایت سے بات نہیں بنے گی۔
Abdul Jabbar Apr 17, 2015 07:13am
بہت اچھا لکھا گیا آرٹیکل ہے۔۔ لیکن ان وجوحات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا: 1. پاکستان میں اکثیرت عوام کی مادری زبان اردو نا ہونا ہے۔۔ جیسے: سندھی، بلوچ، پختون اور پنجابی گھروں میں اردو نہیں بولی جاتی، لیکن ان میں سے جب کوئی شخص میڈیا میں آتے ہیں تو تلفظ میں کوشش کے باوجود فرق ظاھر ہوتا ھے۔ جس کو اتنا معیوب نہیں سمجھا جانا چاہیے، آخر مادری زبان کا اثر، لہجا رہتا ہی ہے، جیسے انگریزی زبان میں برٹش، آسٹریلین اور امیریکن لہجے میں واضع فرق ہوتا ہے کسی کو بُرا یا شرمناک نہیں کہا جا سکتا۔۔ 2. ھماری الیکرانک میڈیا پر ھندی میڈیا کا بہت اثر ہے۔ خاص طور پر ایف ایم چینلس پر۔
Imran Ahmad Apr 17, 2015 09:17am
زبان کا بگڑنا قدرتی عمل ہے اور ہمارے ملک میں یہ عمل خا صا تیز ہے۔ اگر پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا بشمول اردو ویب سائٹس کو ہی مورد الزام ٹھرانا مقصود ہے تو ذمہ داری ادارتی ٹیم پر جاتی ہے۔ اگر مدیر صاحبان اپنا کام ٹھیک سے کر رہے ہوں تو بگاڑ کا عمل سست ہو جائے گا۔ ویسے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو اردو میں کیا کہتے ہیں؟؟
SYED JAFAR ASKARI Apr 17, 2015 12:56pm
@Imran Ahmad درست فرمایا آپ نے، جس انگریزی لفظ کا اگر کوئی بھرپور مترادف اُردو میں موجود نہیں ہے تو اسکے استعمال میں کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے، جیسے آپ نے فرمایا کہ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کا مترادف کیا ہے، یقیناً ان الفاظ کا کوئی زوردار مترادف کم اس کم میری قلیل معلومات کے مطابق تو اُردو میں موجود نہیں ہے، شاید اس وجہ سے یہ الفاظ اُردو میں بھی رائج ہیں۔ معزرت کے ساتھ عرض کروں کہ زبان کا بگڑنا قدرتی عمل نہیں ہے بلکہ اس میں تبدیلی واقع ہونا قدرتی عمل ہے یعنی سماجی تبدیلوں کا نتیجہ ہوتا ہے، اب تبدیلی مثبت ہے یا منفی یہ ایک الگ بحث ہے۔ جیسے شیکسپئیر کی انگریزی آج رائج نہیں، یہ تبدیلی قدرتی ہے مگر غلط انگریزی کا استعمال تبدیلی میں شمار نہیں ہوگا، جیسے قدیم اُردو میں کبھی کی جگہ کبھو کہا جاتا تھا مگر اب یہ لفظ جدیداردو میں رائج نہیں ہے۔
naveed ahmad butt Apr 17, 2015 01:28pm
bohat zabardast comments hain, i appreciate it , really based on factual analysis, thanks for valuable sharing
سید تجمل نقوی Apr 18, 2015 01:45am
تنزلی نہیں جناب تنزل لفظ ہوتا ہے، اردو زبان کے حوالے سے یہ ایک اچھا مضمون لکھا گیا ہے، لائق تحسین ہے
SYED JAFAR ASKARI Apr 18, 2015 12:48pm
@سید تجمل نقوی تجمل صاحب، مضمون کی تعریف کرنے کا شکریہ، جہاں تک تعلق لفظ "تنزل" یا "تنزلی" کا ہے تو آپ کی بات درست ہے کہ یہ لفظ ایسے ہی ہے مگر ہمیشہ لغت کے سہارے الفاظ کو نہیں برتنا چاہیے، میری معلومات کے مطابق لفظ "تنزل" کے ساتھ ساتھ "تنزلی" کا استعمال بھی جائز ہے، ایک مثال پیشِ خدمت ہے کہ ایک لفظ "تک" ہے مگر بڑے بڑے اساتذہ نے اسے اپنے کلام میں بطورِ "تلک" بھی استعمال کیا ہے، مولانا حسرت موہانی نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب "نکاتِ سخن" میں اس لفظِ "تلک" کے استعمال کو جائز قرار دیا ہے جب کہ لغت کے اعتبار سے لفظ "تک" ہی درست ہے۔ یاد دہانی کا شکریہ۔
SYED JAFAR ASKARI Apr 18, 2015 01:30pm
@نجیب احمد سنگھیڑہ نجیب احمد صاحب، آ پ کو صفتی الفاظ یعنی "سطحی سوچ"، "نشے میں سرشار"، "اندھی محبت" کے بے دریغ استعمال سے گریز کرنا چاہیے تھا، بہر حال آپ کا اعتراض بے معنی ہے کیوں کہ سماجی اور سائنسی ترقی سے زبان میں وسعت پیدا ہوتی ہے بگاڑ نہیں ، اگر ایساہے تواس کا اثر دنیا کی دیگر زبانوں یعنی جاپانی، فرانسیسی، فارسی، عربی وغیر ہ پر کیوں نہیں ہوتا صرف اُردوپر ہی کیوں ہے، آپ کی بات درست ہے کہ یہ لکھنؤاور دھلی نہیں ہے ،گو کہ زبان ثقافت کا ہی حصہ ہے مگر یہاں بات ثقافت کی نہیں زبان کے د رست استعمال کی ہورہی ہے ، آپ کا تلفظ کیسا ہی کیوں نہ ہو اس پر رعایت برتی جاتی ہے مگر قواعد کی غلطیاں جائزتصوّر نہیں کی جائیں گی۔ پاکستانی اور غیرپاکستانی اصطلاحات سے آ پ کی کیا مراد ہے یقین جانیے میں نہیں سمجھ سکا۔ جہاں تک تعلق اُردو سے میری اندھی محبت کا ہے تو یقیناًایسا ہی ہے مگر صرف اس لئے نہیں کہ یہ میری مادری زبان ہے بلکہ اس لئے بھی ہے کہ یہ میری قومی زبان بھی ہے، اور مجھے بحیثیت پاکستانی اس بات پرفخر ہے۔
یمین الاسلام زبیری Apr 19, 2015 12:15am
@SYED JAFAR ASKARI، جناب میں نے تنزل اور تنزلی دونو ں ایک برقی لغت میں تلاش کیے اور مجھے عربی کے یہ دونوں الفاظ مل گئے۔ لغت ہے http://urdulughat.info/۔
مزمل علی زیدی Apr 19, 2015 03:27am
پاکستان اور خصوصاً کراچی میں اردو کے ساتھ زیادتی بہاری کباب۔بھاری کباب دہلی نہاری۔دُھلی نھاری گہر۔گھر ہو گیا چہرہ-چھرہ ہو گیا پہر۔پھر ہو گیا پہرا۔پھرا ہو گیا دہی۔دھی ہو گیا پہل۔پھل ہو گیا جہل۔جھل ہو گیا بہک۔بھک ہو گیا بہلانا۔بھلانا ہو گیا بہترین۔بھترین ہو گیا پہن۔پھن ہو گیا بہن۔بھن ہوگئ ٹہرا۔ٹھرا ہو گیا دہلنا۔دُھلنا ہو گیا پہلی۔پھلی ہو گئ دہن۔دھن ہو گیا اردو ہم بھول گے، انگریزی سے ہم نابلد ہیں، تو کیا کچھ عرصے بعد ہم اشاروں کی زبان میں بات کریں گے۔
مزمل علی زیدی Apr 19, 2015 03:30am
@ماجد چانڈیو صاحب یہ سہمت کس زبان کا لفظ ہے
[email protected] Apr 20, 2015 11:53am
اردو زبان کے گرتے معیار پر جب بھی بات ہوگی پاکستان کے نجی اردو چینلز کا کردار ضرور زیرِ بحث لایا جائیگا جن کا اردو زبان کے بگاڑ میں بہت بڑا کردار ہے- نجی جینلز کی نشریات شروع ہونے سے پہلے دو دہائیوں سے زیادہ عرصے تک پی ٹی وی کی نشریات میں ہم نے کبھی تلفظ (اور اِملے) کی غلطی نہیں سنی/دیکھی بلکہ پی ٹی وی پر بولی جانے والی زبان کو ہم اپنی اصلاح کے لئے استعمال کرتے رہے- درجنوں نجی اردو چینلز کے آنے سے اردو کی ترقی تو خیر کیا ہوتی پیچاری اردو کا تیا پانچہ ہوگیا- چینلز کے جن خواتین وحضرات کی مادری زبان اردو انکو لہجے کی تو سو فیصد رعایت دی جاسکتی ہے مگر یہ رعایت تلفظ میں ہرگز ہرگز نہیں مل سکتی دوسری بات یہ کہ ہر زندہ زبان میں ذخیرہً الفاظ کا اضافہ ہوتا رہتا ہے مگر اسکی پہلی شرط ہے کہ اِس زبان میں پہلے سے اُس لفظ کا اردو متبادل موجود نہ ہو- معترضین یہ کلّیہ آخر کیوں فراموش کردیتے ہیں- ایک چھوٹے سے بریک کو میں ایک چھوٹا سا وقفہ کیوں نہ کہوں اور ہمارے ساتھ رہئیے گا کو ''اِسٹے ودھ اَس'' کیوں کہوں؟؟؟