پاکستان کی سمندری حدود میں اضافہ کیسے ہوا؟

پاکستان کی سمندری حدود میں اضافہ کیسے ہوا؟

تحریر : جویریہ حنا

سمندروں کا عالمی دن ہر سال آٹھ جون کو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے جس کا مقصد دنیا بھر میں پانی اور سمندروں کی اہمیت اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ سمندری حیات کی بقاء اور آبی آلودگی کو کم کرنے کے لیے شعور و آگہی بیدار کرنا ہے۔

پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی یہ دن منایا جاتا ہے لیکن رواں سال یہ دن اس وجہ سے کچھ خاص ہے کہ پاکستان کی سمندری حدود میں اضافے کا مطالبہ اقوام متحدہ کی جانب سے قبول کر لیا گیا ہے جس میں وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی، نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اوشیانوگرافی کے ساتھ ساتھ ملک کی سمندری سرحدوں کی محافظ پاکستان نیوی کا بھی خاصا اہم کردار ہے۔

بشکریہ پاکستان نیوی—۔
بشکریہ پاکستان نیوی—۔

اقوام متحدہ کےکمیشن برائے بحری قوانین کے تحت کانٹینینٹل شیلف کی قانونی تعریف کے مطابق یہ کسی ملک کے ساحلوں کے ساتھ موجود سمندری حدود ہے جو اُس ملک کی ملکیت شمار ہوتی ہے اوراقوامِ متحدہ کے کنونشن برائے بحری قوانین کے تحت اس میں موجود وسائل کی دریافت اور استعمال کے خصوصی حقوق اس ملک کو حاصل ہوتے ہیں۔

پاکستان کی سمندری حدود (کانٹینینٹل شیلف) میں اضافے کی خبر تو ہم سب نے ہی سنی تھی اور اس حوالے سے زیادہ معلومات نہ ہونے کے باوجود اسے ملک کے بہتر مفاد میں ایک اہم کاوش کے طور پر تسلیم کیا تھا، لیکن اس اہم موڑ تک پہنچنے کے لیے کی جانے والی کاوشوں سے شاید سب لوگ واقف نہیں۔

مزید پڑھیں:پاکستان کی سمندری حدود میں اضافہ

اس حوالے سے پاکستان نیوی میں بطور ہائیڈرو گرافر خدمات سرانجام دینے والے کموڈور محمد ارشد نے بتایا کہ 2000 میں انٹرنیشنل سی بیڈ اتھارٹی (ISBA) کی ایک اسٹڈی کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ پاکستان کے کانٹینینٹل شیلف اور اس کے اطراف میں مینگنیز، کوبالٹ اور نکل جیسی دھاتیں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔

2009 میں وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی بشمول پاکستان نیوی کے ہائیڈروگرافرزاور نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اوشیانوگرافی کے سائنس دانوں نے گہرے سمندر میں سروے کے لیے مطلوب جہازوں سے محروم ہونے کے باوجود اقوامِ متحدہ کی جانب سے مطلوب فارمیٹ اور تفصیلات کے مطابق بہت ہی پیچیدہ قِسم کا ڈیٹا جمع کرایا،جو یقیناً ایک بڑی کامیابی تھی۔

اس کے بعد اقوامِ متحدہ کے کمیشن برائے کانٹینینٹل شیلف حدود نے پاکستان کے کانٹینینٹل شیلف کی بیرونی حدود بڑھانے کا مطالبہ قبول کرلیا اور اب پاکستان کی سمندری حدود 200 ناٹیکل میل سے بڑھ کر 350 ناٹیکل میل ہوگئی ہیں۔

بشکریہ پاکستان نیوی—۔
بشکریہ پاکستان نیوی—۔

اس کے نتیجے میں پاکستان کو اب اپنے ساحل کے ساتھ موجود 2 لاکھ 90 ہزار مربع کلومیٹر کی سمندری اراضی پر معدنیات اور ہائیڈروکاربنزکی دریافت اور استعمال کے حقوق حاصل ہوگئے ہیں۔ یہ رقبہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کے رقبہ کے بعد ملک کا دوسرا بڑا رقبہ ہے۔

کموڈور محمد ارشد، جواقوامِ متحدہ کے کمیشن برائے کانٹینینٹل شیلف حدود کے ممبر بھی ہیں، کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ پاکستان کے سمندری وسائل سے فائدہ اٹھانے کی غرض سے اصل تخمینہ لگانے کے لیے ایک سورس میپ تیار کیا جارہا ہے، جس کے بعد ان وسائل تک رسائی یعنی کھدائی کی جائے گی۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کھدائی (Excavation) کی تکنیک پاکستان میں موجود نہیں، لہذا اس کام کے لیے باہر سے ماہرین (آؤٹ سورسنگ) کی مدد لی جائے گی۔ اگرچہ پاکستان نیوی کے پاس سروے کے لیے ایک جہاز 'بحر پیما' موجود ہے لیکن وہ خاصا پرانا ہوچکا ہے، تاہم محمد ارشد کے مطابق پاک بحریہ جلد ہی ایک نیا جہاز بھی خرید رہی ہے۔

کموڈور محمد ارشد نے نہایت حتمی لفظوں میں کہا کہ پاکستان کی سمندری حدود اب حتمی ہیں اور کوئی بھی ملک اس پر اعتراض نہیں کرسکتا۔

بشکریہ پاکستان نیوی—۔
بشکریہ پاکستان نیوی—۔

پوری دنیا میں معدنیات اور قیمتی دھاتوں کی دریافت اور حصول کے لیے دوڑ جاری ہے اور اس مقصد کے لیے سمندر کے سینے میں دفن ان پوشیدہ خزانوں سے رسائی بھی وقت کی اہم ضرورت ہے، لہذا پاکستان بھی اس حوالے سے پیچھے نہیں ہے اور سمندری سروے اور زیرِ سمندر موجود قدرتی وسائل کی مقدار کا اندازہ لگانے کے لیے مناسب وسائل اور تکنیک کے حصول کی کوششیں جاری ہیں۔

تاہم محض اقوام متحدہ کی جانب سے ہمارے دعوے کو مان لینا کافی نہیں ہے، اس سلسلے میں مناسب منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا تاکہ گہرے سمندر میں موجود معدنی ذخائر سے بھرپور فائدہ اٹھایا جاسکے۔

زیرِ سمندر موجود معدنی وسائل تک رسائی کے ساتھ ساتھ سمندروں اور آبی حیات کی بقاء کی ذمہ داری بھی ہم پر ہی عائد ہوتی ہے۔ اسٹاک ہوم ڈیکلیریشن کے مطابق ہر ملک اس بات کا ذمہ دار ہے کہ وہ موجودہ دور میں اپنے فائدے اور اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کی خاطر محتاط منصوبہ بندی اور مناسب انتظامی اقدامات کے ذریعے اپنی سمندری حدود میں موجود قدرتی وسائل کا تحفظ یقینی بنائے، جبکہ ہر ریاست پر اس حوالے سے بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس کی حدود میں سمندری ماحول کو پہنچنے والے نقصان سے پڑوسی ممالک کا آبی ماحول متاثر نہ ہو۔

پانی بقائے انسانی کے لیے وہ ضروری جزو ہے، جس کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا اور اس بات سے قطع نظر کہ آپ دنیا میں کہاں رہتے ہیں، ہر انسان اپنی بقاء کے لیے پانی پر انحصار کرتا ہے،لیکن گذشتہ دہائیوں کے دوران جیسے جیسے انسان ترقی کی منازل طے کرتا جارہا ہے، سمندری آلودگی اس کے لیے ایک بڑا چیلنج بن کر سامنے آرہی ہے۔

بشکریہ پاکستان نیوی—۔
بشکریہ پاکستان نیوی—۔

پاکستان کو بھی اس وقت بہت سے پیچیدہ اور مشکل ماحولیاتی چیلنجز کا سامنا ہے،ایک اندازے کے مطابق صرف کراچی سے روزانہ 300 ملین گیلن آلودہ پانی (جس میں زہریلا فضلہ اور کیمیکلز شامل ہوتے ہیں) پیدا ہوتا ہے جس کا 50 فیصد اُسی حالت میں مختلف نالوں اور دریاؤں کے ذریعے سمندر میں داخل ہوتا ہے۔اس آلودہ پانی کا بڑا منبع چمڑے کی فیکٹریاں، ادویات بنانے والی کمپنیاں، پیٹرولیم مصنوعات بنانے والی کمپنیاں، ریفائنریاں،کیمیکل، ٹیکسٹائل، کاغذ کی صنعتیں، انجینئرنگ ورکس اور تھرمل پاور پلانٹ ہیں۔

یہ صنعتی فضلہ ساحلوں پر لنگر انداز جہازوں، بندرگاہوں، سمندری ایکو سسٹم، ماہی گیروں کی زندگیوں اور سمندر کے قرب وجوار میں موجود آبادی کی صحت پر بری طرح اثر انداز ہو رہا ہے اور بدقسمتی سے ماحول کی بہتری کے لیے مناسب اقدامات کی کمی کے باعث بہت سے ماحولیاتی مسائل پیدا ہو چکے ہیں۔

رواں سال اقوام متحدہ کی جانب سے سمندروں کا عالمی دن "صحت مند سمندر، صحت مند سیارہ" کے عنوان کے تحت منایا جارہا ہے۔ یہ دن منانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ سمندر اور آبی حیات کی حفاظت کے ساتھ ساتھ آبی آلودگی کو کم سے کم کرنے کے لیے شعور و آگہی بیدار کی جائے،کیوں کہ اگر سمندر ختم ہوجائیں تو شاید سیارہ زمین پر زندگی باقی نہ رہے۔