پوٹھوہار کے گمنام گردوارے

پوٹھوہار کے گمنام گردوارے

ذوالفقار علی کلہوڑو

جنگ یا انخلاء کے بعد جب ایک برادری اپنی مذہبی یا سیکیولر عمارات کو پیچھے چھوڑ جاتی ہے، تو ہمیشہ ہی کوئی دوسری برادری ان عمارات پر قابض ہوجاتی ہے۔ ایسا ہی کچھ پاکستان اور ہندوستان کی تقسیم کے بعد ہوا۔

ایسی عمارات کی اکثریت ہے جو کبھی سکھوں اور ہندوﺅں سے تعلق رکھتی تھی جو ہندوستان چلے گئے۔ ان عمارات میں اب بھی خاندان آباد ہیں مگر میں یہ دریافت کر کے حیران رہ گیا کہ ان کا اسٹرکچر اور دیواروں پر آرٹ ورک تاحال موجود ہے۔

تحصیل کلر سیداں کے سفر کے دوران میں نے متعدد ہندو اور سکھ یادگاروں، مندروں اور گردواروں کو دیکھا جو اس خطے کے منظرنامے کی شان بڑھا رہے ہیں۔ تین گردوارے کنوہا، دوبیراں کلاں اور موہارا بھٹہ میں واقع ہیں اور ان کی نفاست اور تصاویر خاص طور پر دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان میں سے جو سکھ گودوارہ کلر سیداں سے دس کلومیٹر دور کنوہا میں واقع ہے وہ سب سے زیادہ نمایاں ہے۔

کنوہا گردوارہ
کنوہا گردوارہ

میں کنوہا متعدد بار جا چکا ہوں، یہ گردوارہ یہاں کافی فاصلے سے بھی واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ اس وقت یہ ایک مسلم خاندان کے زیر استعمال ہے جس نے اسے رہائشی کوارٹر میں تبدیل کردیا ہے۔ میں اس بات کو بہت زیادہ سراہتا ہوں کہ یہ عمارات پوٹھوہاری افراد کے قبضے میں ہیں جو دیگر مذاہب کا احترام کرتے ہیں اور وہ اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ اس کے اندر موجود پینٹگز یا نقاشی کو مسخ نہ کیا جائے۔

تاریخی طور پر گودوارے یہاں کی سکھ برادری کی مذہبی اور سماجی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ سکھوں کے چھٹے گرو گرو ہرگوبند (1604-1644) کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ انہوں نے پہلی بار لفظ ' گردوارہ' استعمال کیا۔

اس سے قبل اس طرح کی عمارات کے لیے 'دھرم شالہ' کا لفظ استعمال کیا جاتا تھا جس کا مطلب مسافروں کی آرام گاہ تھا مگر سکھ مت کے ابتدائی دنوں میں ایک کمرے یا عمارت کو مختص کرکے اس میں بھجن (کیرتن) اور دعائیں کی جاتی تھیں۔

کنوہا کا گردوارہ ایک بہت بڑی تین منزلہ عمارت ہے جس کا تاج ایک اوپر بنی ایک سفید رنگ کا چھوٹا سا کمرہ یا شامیانہ ہے جو کہ پوٹھوہاری انداز کے گردواروں کی امتیازی خاصیت ہے۔ اسے چوکور انداز میں تعمیر کیا جاتا ہے جس میں ایسے سکھ خاندان رہتے تھے جو گرو گرنتھ صاحب پڑھنے اور دیگر مذہبی رسومات ادا کرنے کے لیے یہاں آتے تھے۔

اس عمارت کے چاروں اطراف محرابیں موجود ہیں جو اس کی متوازن خوبصورتی کو بڑھاتے ہیں۔ دوسری اور تیسری منزل سمیت عمارت کے چاروں اطراف مصنوعی جھروکے موجود ہیں، جبکہ چاروں اطراف داخلی راستے بھی موجود ہیں یعنی گردوارے میں چاروں جانب سے داخل ہوا جاسکتا ہے تاہم اس کا مغربی دروازہ اب یہاں موجود خاندان نے بند کردیا ہے۔

ہر داخلی دروازے کے اوپر گورمکھی زبان میں کندہ کاری کی گئی ہے۔

شمالی دیوار کی قریب سے لی گئی تصویر
شمالی دیوار کی قریب سے لی گئی تصویر
مشرقی دیوار پر گورمکھی کندہ کاری
مشرقی دیوار پر گورمکھی کندہ کاری
شمالی دیوار پر گورمکھی کندہ کاری
شمالی دیوار پر گورمکھی کندہ کاری
جنوبی دیوار پر آویزاں گورمکھی کندہ کاری
جنوبی دیوار پر آویزاں گورمکھی کندہ کاری

گردوارہ کا مرکزی داخلی دروازہ جنوب میں کھلتا ہے، جہاں سے داخل ہونے پر لوگ مرکزی ہال میں پہنچتے ہیں جو کہ دائیں اور بائیں جانب موجود چھوٹی کھولیوں میں تقسیم ہوجاتا ہے جبکہ دیواروں پر محراب جیسی گہری طاقیں موجود ہیں۔

مرکزی ہال کی امتیازی خوبی اس کے پتوں کی شکل کے ستون اور مشرقی دیوار میں موجود نقاشی کا کام ہے۔ اس زمانے کے رواج کے مطابق اسے پینٹنگز سے سجایا گیا ہے، مگر بدقسمتی سے اب وہاں کا پلستر جھڑنے لگا ہے۔

عمارت کی پہلی اور دوسری منزل کو رہائشی کوارٹرز میں تبدیل کردیا گیا ہے جہاں یہاں رہائش پذیر خاندان کے افراد رات کو سوتے ہیں۔ دوسری منزل کے کمروں میں متعدد چارپائیاں رکھی ہوئی ہیں۔

مرکزی ہال میں گورمکھی کندہ کاری
مرکزی ہال میں گورمکھی کندہ کاری

گردوارے کے بالائی حصے پر موجود شامیانے کے لیے آپ کو لگ بھگ 40 سیڑھیاں چڑھنا پڑتی ہیں۔ یہ شامیانہ اندر سے آٹھ زاویوں پر مشتمل ہے جبکہ باہر سے چوکور ہے۔ اس کے سر کا تاج اس کے اوپر لگا تابدار گنبد ہے۔ آپ اس شامیانے کے چاروں کونوں میں چھوٹے چھوٹے مینار نما اسٹرکچر دیکھ سکتے ہیں جو اس کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں۔ شامیانے کے اندر سے آپ کنوہا گاﺅں کے ساتھ ساتھ چاﺅ خالصہ کے نظارے سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔

اوپری منزل پر واقع شامیانہ
اوپری منزل پر واقع شامیانہ

کنوہا گردوارے کے ساتھ ساتھ ایک اور گردوارہ دوبیراں کلاں قصبے میں واقع ہے۔ یہ گردوارہ کنوہا کے مقابلے میں چوڑائی میں چھوٹا ہے مگر یہ بہت زیادہ لمبا ہے۔ اس کا نچلا حصہ یا حجرہ چوکور ہے جبکہ اس کا اوپر حصہ ہشت پہلو ہے اور اس کے اوپر ایک تابدار گنبد تاج کی طرح موجود ہے۔ اس گردوارے کے ہشت پہلو حصے کو مصنوعی جھروکوں سے سجایا گیا ہے۔

دوبیراں کلاں گردوارہ
دوبیراں کلاں گردوارہ
گردوارے کا گنبد
گردوارے کا گنبد
گردوارے کا قریبی منظر
گردوارے کا قریبی منظر

موہارا بھٹہ کا گردوارہ اپنے قرون وسطیٰ کے مندروں جیسے انداز کی وجہ سے خاص ہے۔ اس خود ساختہ گردوارہ کی عبادت گاہ منقسم محرابوں سے سجی ہے جنھٰں مشرقی، مغربی اور شمالی دیواروں پر دریافت کیا جاسکتا ہے۔ اس گردوارے کا داخلی دروازہ جنوبی کی جانب کھلتا ہے جبکہ مرکزی ہال عبادت گاہ کے شمال میں واقع ہے۔ اس کا اوپر حصہ پینٹنگز سے مزین کیا گیا تھا جن کے آثار تاحال دیکھے جاسکتے ہیں۔

میں نے کبھی اس انداز کا گردوارہ پورے پوٹھوہار کے خطے میں نہیں دیکھا جس کا اوپر کا حصہ قرون وسطیٰ کے مندروں جیسا ہے۔

میں نے اب وہاں رہنے والے ایک فرد سے کہا " یہ گردوارہ نہیں بلکہ ایک مندر ہے"، جس کی اس نے تردید کرتے ہوئے پراعتماد انداز میں کہا " یہ ایک گردوارہ تھا جو پہلے سکھوں سے تعلق رکھتا تھا"۔

موہارا بھٹہ مندر کا اوپری حصہ
موہارا بھٹہ مندر کا اوپری حصہ
مندر کے اندر بنی ایک پینٹنگ
مندر کے اندر بنی ایک پینٹنگ
موہارا بھٹہ مندر
موہارا بھٹہ مندر

یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ پنجاب کے محکمہ سیاحت کو ایسی واضح حکمت عملی تشکیل دینی چاہیے جو تحصیل کلر سیداں میں مذہبی سیاحت کو فروغ دے سکے۔ یہ قابل تعریف اور تاریخی آثار سے بھرور گردوارے سیاحوں کے توجہ کا مرکز بن سکتے ہیں، جو سکھ حسن ابدال میں گودوارہ پنجہ صاحب جاتے ہیں وہ یہاں بھی آسکتے ہیں۔

— تصاویر بشکریہ لکھاری

انگلش میں پڑھیں۔


ذوالفقار علی کلہوڑو اینتھروپولوجسٹ ہیں، اور پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس اسلام آباد میں ٹورازم، گلوبلائزیشن، اور ڈویلپمنٹ پڑھاتے ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: Kalhorozulfiqar@