قصور: 'بچوں کے ساتھ میرے سامنے زیادتی کی گئی'

10 اگست 2015
وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی جانب سے قصور واقعے کی جوڈیشل انکوائری کے اعلان کے بعد لوگ جمع ہیں— فوٹو: محمد عارف/ وائٹ اسٹار
وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی جانب سے قصور واقعے کی جوڈیشل انکوائری کے اعلان کے بعد لوگ جمع ہیں— فوٹو: محمد عارف/ وائٹ اسٹار

قصور: پنجاب کے علاقے قصور کے گاؤں حسین خان والا میں بچوں کے ساتھ زیادتی اور اس کی فلم بندی کے واقعے کے مرکزی ملزم کا کہنا ہے کہ یہ جرائم اکیڈمی کے کلاس روم میں اس کی موجودگی میں ہوئے ہیں۔

میڈیا میں آنے والی رپورٹس کے مطابق ملزمان نے اقرارِ جرم کرلیا ہے تاہم ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) رائے بابر نے ڈان کو بتایا ہے کہ کسی بھی مجرم نے اپنا جرم قبول نہیں کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس تحقیقات کررہی ہیں اور جلد رپورٹ عدالت میں پیش کردی جائے گی۔

ڈی پی او کا کہنا ہے کہ ایک اور نامزد ملزم عثمان کو گرفتار کرلیا گیا ہے جبکہ مرکزی ملزم حسیم عامر سمیت 6 ملزمان کو جمعرات کے روز گرفتار کیا گیا تھا۔

ڈی پی او کے مطابق درج کروائی جانے والی ایف آئی آر میں 15 ملزمان کو نامزد کیا گیا ہے، پولیس کی جانب سے دیگر دو ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں جبکہ دیگر ملزمان ضمانت حاصل کرچکے ہیں۔

مزید پڑھیں: ‘بچوں سے زیادتی اور فلم بندی زمین کا تنازع'

ملزمان کو سیکیورٹی وجوہات کی بناء پر قصور پولیس اسٹیشن بی ڈویژن میں رکھا گیا ہے۔

ملزمان میں 6 کی عمریں 20 سال سے کم ہیں تاہم ایک ملزم کی عمر 14 سال ہے۔ ان تمام ملزمان کا کہنا ہے کہ وہ بے گناہ ہیں۔

واقعے میں مرکزی ملزم قرار دیئے جانے والے 25 سالہ حسیم کا کہنا ہے کہ وہ بے گناہ ہے جیسا کہ پولیس کو حاصل ہونے والی فلموں میں کسی بھی زیادتی کے واقعے میں وہ شامل نہیں ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ کیا اس نے فلم بندی کی ہے؟ ملزم حسیم کا کہنا تھا کہ جس وقت اس کے کلاس کے ساتھی جرم کررہے تھے وہ کلاس میں موجود تھا۔

حسیم نے دعویٰ کیا ہے کہ اسے اور دیگر لوگوں کو ایک خود ساختہ کیس میں ملوث کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کیونکہ کچھ لوگ ان کے خاندان کی جانب سے خریدی جانے والی ساڑھے 16 ایکٹر اراضی پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔

دوسری جانب جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے گاؤں کے دورے کے موقع پر واقعے کو انتہائی بدترین جرم قرار دیتے ہوئے اس کی جوڈیشل انکوئری کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: قصور: 'بچوں سے ریپ کی رپورٹس بے بنیاد'

پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما محمود الرشید نے بھی گاؤں کا دورہ کیا اور ملزمان کو سخت سے سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا۔

انھوں نے الزام لگایا کہ پولیس ملزمان کو مدد فراہم کررہی ہے۔

پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رہنما جہاں آراء نے بھی متاثرہ خاندانوں سے ملاقات کی اور ان کے مسئلے کو ہر پلیٹ فارم پر اٹھانے کی یقین دہانی کروائی۔

ادھر وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی جانب سے واقعے کی جوڈیشل انکوئری کا حکم دے دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ قصور کا واقعہ انتہائی افسوس ناک ہے اور ملزمان کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے گی۔

گذشتہ دنوں پنجاب کابینہ میں شامل وزیررانا ثناء اللہ نے تمام معاملے کو بے بنیاد قرار دے دیا تھا جبکہ ڈی پی او رائے بابر نے اس کو دو گروپوں کے دومیان زمین کا تنازع قرار دیا۔

خیال رہے کہ گذشتہ دنوں میڈیا میں آنے والی خبروں میں کہا گیا تھا کہ قصور سے 5 کلو میٹر دور قائم حسین خان والا گاؤں کے 280 بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے جبکہ اس دوران ان کی ویڈیو بھی بنائی گئی، ان بچوں کی عمریں 14 سال سے کم بتائی گئی ہیں.

رپورٹس کے مطابق ان بچوں کے خاندان کو بلیک میل بھی کیا جاتا رہا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

Muhammad Ayub Khan Aug 10, 2015 11:07am
yani sanaullah humesha kiy tarah jhoot bol reha hey
Kotak Aug 10, 2015 01:28pm
kuch shaq nahi k punjab Govt apna sara wazan taqatwar k taraf hi dalay gi. Ghareeb ko kabi b insaf nahi melaga jesay k Model Town k case may hua ta .