کوہِ ایلم: رام چندر جی کی جائے مراقبہ

سطحِ سمندر سے 9200 فٹ کی بلندی پر واقع ’’جوگیانو سر‘‘ (جوگیوں کی چوٹی یا Yougis' Peak) ہندو اور سکھ برادری کے لیے یکساں طور پر مقدس جگہ ہے۔ یہ چوٹی وہ مقدس مقام ہے جہاں رام چندر جی نے اپنی محبوب بیوی سیتا کے ساتھ بن باس لیا تھا۔ یہ جگہ رام تخت کے نام سے بھی مشہور ہے۔

لفظ ’’جوگیان‘‘ پشتو زبان میں جوگیوں کو کہتے ہیں اور ’’سر‘‘ کے معنی ’’چوٹی‘‘ کے ہیں۔ سوات کے ثقہ مؤرخ ڈاکٹر سلطان روم کی تحقیق کے مطابق کشمیر کے امر ناتھ غار کے بعد سوات کے ایلم پہاڑ میں قائم "جوگیانو سر، رام تخت" ہندوؤں کی دوسری بڑی مقدس جگہ ہے، جہاں کئی ہزار سال قبل رام چندر جی نے سیتا کے ساتھ بن باس لیا تھا۔ اگرچہ ہندوؤں کی مقدس کتابوں میں اس کا ذکر نہیں ملتا اور رامائن بھی اس حوالے سے خاموش ہے لیکن ہندو پھر بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ کوہِ ایلم کے جوگیانو سر میں بن باس لیا گیا ہے۔

ایلم گاؤں میں کھیتوں کے درمیان بنے ایک گھر میں شام کا کھانا تیار ہونے کی غرض سے دھواں اٹھ رہا ہے۔
ایلم گاؤں میں کھیتوں کے درمیان بنے ایک گھر میں شام کا کھانا تیار ہونے کی غرض سے دھواں اٹھ رہا ہے۔
ایلم گاؤں سے جوگیانو سر کی لی گئی ایک تصویر۔
ایلم گاؤں سے جوگیانو سر کی لی گئی ایک تصویر۔
ایلم گاؤں سے رام تخت تک جانے والا کچا راستہ۔
ایلم گاؤں سے رام تخت تک جانے والا کچا راستہ۔
راستے میں مقامی لوگ یاتریوں یا سیاحوں کی تواضع گاڑھی چھاچھ سے ضرورکرتے ہیں۔
راستے میں مقامی لوگ یاتریوں یا سیاحوں کی تواضع گاڑھی چھاچھ سے ضرورکرتے ہیں۔

ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق رام چندر جی نے کوہِ ایلم کی چوٹی جوگیانو سر میں اپنی محبوب بیوی سیتا کے ساتھ چھ تا سات مہینے مراقبے میں گزارے ہیں، اس لیے اس واقعے کی یاد میں ہر سال منعقد ہونے والے میلے میں دور دراز کے علاقوں سے سکھ اور ہندو یاتری سوات بڑی تعداد میں آیا کرتے تھے۔

سوات کے مینگورہ گرودوارے کے ہیڈ گرنتھی اندرجیت کے مطابق سکھ اس میلے کو ’’بیساکھی‘‘ کا نام دیتے ہیں جبکہ ڈاکٹر سلطان روم ہندوؤں کے حوالے سے اسے "ساون سنگران" کا نام دیتے ہیں۔ میلے کے موقع پر ہندو اور سکھ (مرد و عورت دونوں) کثیر تعداد میں جوگیانو سر دو تین دن پہلے حاضر ہوتے تھے۔ میلے کے لیے رام تخت کو رنگا رنگ کپڑوں اور جھنڈیوں سے سجایا جاتا تھا۔ تمام یاتریوں پر لازم ہوتا تھا کہ وہ غیر معمولی اخلاص کے ساتھ میلے میں شریک ہوں۔ ساون کی پہلی رات انہیں عبادت اور اپنی مقدس کتاب کو پڑھنے میں بتانی ہوتی تھی۔ علی الصباح تمام یاتریوں کو پنڈت کی رہنمائی میں رام تخت تک پہاڑ پر چڑھنا ہوتا تھا۔

ہیڈ گرنتھی اندرجیت کے مطابق ایلم کی چوٹی کو رام تخت کہتے ہیں، ’’یہ کوئی باقاعدہ طور پر تعمیر شدہ تخت نہیں تھا۔ بس چوٹی کے اوپر پڑے سب سے بڑے پتھر کو روز اول سے رام تخت کہتے ہیں۔‘‘

جوگیانو سر کے راستے میں ایک بچی مویشی چرا رہی ہے.
جوگیانو سر کے راستے میں ایک بچی مویشی چرا رہی ہے.
ٹریکرز جوگیانو سر جا رہے ہیں.
ٹریکرز جوگیانو سر جا رہے ہیں.
وہ کچے کوٹھے جہاں رات گزاری جاسکتی ہے۔
وہ کچے کوٹھے جہاں رات گزاری جاسکتی ہے۔
تصویر میں جنگل کی بے دریغ کٹائی دیکھی جاسکتی ہے۔
تصویر میں جنگل کی بے دریغ کٹائی دیکھی جاسکتی ہے۔
درخت کی جڑوں کو آگ لگائی گئی ہے، تاکہ اس کے کاٹنے کا جواز پیدا کیا جاسکے۔
درخت کی جڑوں کو آگ لگائی گئی ہے، تاکہ اس کے کاٹنے کا جواز پیدا کیا جاسکے۔
درخت پر کلہاڑے کی تازہ ضرب موجود ہے۔
درخت پر کلہاڑے کی تازہ ضرب موجود ہے۔

میلے کے دوران راہنما پنڈت کئی رسوم ادا کرنے کے بعد یاتریوں میں پرشاد بانٹتا تھا۔ اس عمل کے بعد تمام یاتری رام تخت کے گرد خدا کی رحمت کا حقدار ٹھہرنے کے لیے دائرے کی شکل میں کھڑے ہوتے تھے۔ یاتری اس موقع پر اپنی کلائی کے گرد مقدس تار یا بریسلٹ ٹائپ کی چیزیں باندھتے تھے۔ تبرک کے طور پر اپنے عزیز و اقارب کے لیے بھی مذکورہ چیزیں ساتھ لے جانا گویا یاترا کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔ دشت کے عین وسط میں ایک چھوٹے سے تالاب میں یاتری اشنان کیا کرتے تھے۔ تالاب کے حوالے سے مشہور ہے کہ سردیوں میں اس کا پانی گرم اور گرمیوں میں سرد ہوتا تھا۔ آخر میں اجتماعی دعا کے ساتھ اس میلے کا اختتام ہوتا تھا۔

مگر افسوس کہ اب ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ سوات میں طالبانائزیشن کے بعد اب حکومتی رٹ بحال ہے مگر ایلم کی چوٹی ویران پڑی ہے۔ اس کے حوالے سے منفی تاثر پھیلایا گیا ہے کہ شورش کے دوران یہ طالبان کا گڑھ تھا۔ تاحال مقامی و غیر مقامی یاتریوں اور سیاحوں کے دل میں وہی خوف پل رہا ہے۔

یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ ریاستی دور (1917ء) سے پہلے یہاں پر ہندو اور سکھ یاتریوں کے لیے باقاعدہ طور پر رات کے قیام کا بندوبست تھا۔ چھوٹے چھوٹے جھونپڑی نما کوٹھے قائم تھے۔ 1917ء میں جدید ریاست سوات کی بنیاد ڈالی گئی۔ میانگل عبدالودود بادشاہ صاحب تخت پر بیٹھ گئے۔ چونکہ وہ مذہب سے خاص لگاؤ رکھتے تھے، اس لیے انہوں نے جوگیانو سر میں یاتریوں کے لیے قائم تمام کوٹھے ختم کر دیے۔ لیکن آج مختلف شکلوں میں انہیں ایک بار پھر جگہ جگہ دیکھا جا سکتا ہے جن میں خانہ بدوش موسم گرما میں رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ ان کوٹھوں میں رات گزارنے کے لیے یاتریوں یا سیاحوں پر کوئی پابندی نہیں۔

درختوں کی غیر قانونی کٹائی کا ایک اور منظر۔
درختوں کی غیر قانونی کٹائی کا ایک اور منظر۔
رام تخت کی حدود شروع ہوا چاہتی ہیں۔
رام تخت کی حدود شروع ہوا چاہتی ہیں۔
رام تخت پر پانی کے لئے بنائی گئی چھوٹی سی جگہ، ایک عام خیال ہے کہ یہ جگہ رام چندر جی کی بنائی ہوئی ہے۔
رام تخت پر پانی کے لئے بنائی گئی چھوٹی سی جگہ، ایک عام خیال ہے کہ یہ جگہ رام چندر جی کی بنائی ہوئی ہے۔
رام تخت کے نیچے قائم کھلا میدان جہاں ہندو اور سکھ یاتری قیام کرتے تھے۔
رام تخت کے نیچے قائم کھلا میدان جہاں ہندو اور سکھ یاتری قیام کرتے تھے۔
رام تخت کے نیچے قائم کھلا میدان جہاں ہندو اور سکھ یاتری قیام کرتے تھے۔
رام تخت کے نیچے قائم کھلا میدان جہاں ہندو اور سکھ یاتری قیام کرتے تھے۔
وہ چھوٹا سا تالاب جہاں ہندو اور سکھ یاتری اشنان کرتے تھے۔
وہ چھوٹا سا تالاب جہاں ہندو اور سکھ یاتری اشنان کرتے تھے۔

ایلم پہاڑ ضلع سوات اور بونیر کے سنگم پر واقع ہے۔ بالفاظ دیگر اس پر دونوں ضلعوں کا یکساں حق ہے۔ اس کے حوالے سے یہ بھی مشہور ہے کہ یہ ضلع سوات، بونیر اور شانگلہ کا سب سے اونچا پہاڑ ہے۔ اس کی چوٹی تک پہنچنے کے لیے چھ سات مختلف راستے ہیں۔ مگر دو راستے ایسے ہیں جنہیں مقامی لوگ نسبتاً آسان اور محفوظ سمجھتے ہیں۔ ایک راستہ درہ مرغزار سے سرباب گاؤں کے راستے ایلم کی چوٹی تک پہنچتا ہے، جو چھ تا سات گھنٹے میں طے کیا جاسکتا ہے۔ دوسرا راستہ بھی درہ مرغزار ہی سے جوزو پاس سے ہو کر ایلم گاؤں تک پہنچتا ہے۔ وہاں سے آگے پانچ گھنٹے میں جوگیانو سر تک پہنچا جاسکتا ہے۔ یہ پیدل سفر سات تا آٹھ گھنٹوں کی طویل اور سخت مسافت کے بعد طے ہوتا ہے۔

سرباب گاؤں کا رہائشی تلاوت خان آج کل حصول رزق کے لیے سعودی عرب میں محنت مزدوری کرتا ہے۔ اس کے بقول میلے کے دنوں میں اس کی اور اس جیسے دیگر جوانوں کی مزدوری کھری ہوا کرتی تھی۔ ’’آج سے آٹھ دس سال پہلے یہاں ہندو اور سکھ بڑی تعداد میں اپنی مذہبی رسوم ادا کرنے آیا کرتے تھے۔ جگہ جگہ عارضی چائے خانے کھل جاتے تھے۔ عمر رسیدہ یاتریوں کو ہم پالکی یا یہاں کی روایتی ڈولی میں بٹھا کر لے جایا کرتے تھے جس کی ہمیں ٹھیک ٹھاک مزدوری ملا کرتی تھی، مگر اب یہاں کوئی نہیں آتا اور ایلم کی چوٹی ویران پڑی رہتی ہے۔‘‘

تاریخ کے ساتھ شغف رکھنے والے ایک مقامی نجی کالج کے لیکچرار مظفر خان کے بقول ’’رام چندر جی ایلم کے پہاڑ پر گھنے جنگلات میں بن باس لینے کے ساتھ ساتھ یہاں پر خونخوار جانوروں کو رام کرنے کی غرض سے آئے تھے، جن کی وجہ سے یہاں کی مقامی آبادی تکلیف میں مبتلا تھی۔‘‘

سانپ کی طرح پن پھیلائے کھڑا پتھر۔
سانپ کی طرح پن پھیلائے کھڑا پتھر۔
رام تخت کے نیچے قائم میدان کا دوسرا منظر جہاں ہندو اور سکھ یاتری قیام کرتے تھے۔
رام تخت کے نیچے قائم میدان کا دوسرا منظر جہاں ہندو اور سکھ یاتری قیام کرتے تھے۔
کمرہ نما پتھر جس میں مقامی لوگوں کے کہنے کے مطابق رام چندر جی قیام پذیر رہے ہیں۔
کمرہ نما پتھر جس میں مقامی لوگوں کے کہنے کے مطابق رام چندر جی قیام پذیر رہے ہیں۔
رام تخت سے ضلع بونیر کا منظر۔
رام تخت سے ضلع بونیر کا منظر۔
وہ پہاڑ جہاں رام تخت قائم ہے۔
وہ پہاڑ جہاں رام تخت قائم ہے۔
واپسی پر راستے میں سرمئی شام کا ایک دلفریب منظر۔
واپسی پر راستے میں سرمئی شام کا ایک دلفریب منظر۔

اس حوالے سے پشتو کی ایک کہاوت بھی ڈاکٹر سلطان روم کی کتاب ’’متلونہ‘‘ میں صفحہ نمبر 183 پر رقم ہے۔ کہاوت پشتو زبان میں کچھ یوں ہے: ’’مار چی کامل شی، نوایلم طرفتہ مخہ کی۔‘‘ یعنی جب سانپ مکمل ہوجاتا ہے، تو ایلم کی جانب نکل پڑتا ہے۔ علاقائی لوگوں کے مطابق زیادہ خطرناک اور زہریلے سانپوں کو رام چندر جی پتھر کی مورتی میں تبدیل کیا کرتے تھے۔ کئی پتھر اب بھی جوگیانو سر میں ایسے ملتے ہیں جیسے کوئی سانپ پھن پھیلائے کھڑا ہو۔

علاقائی لوگوں کے مطابق ایلم پہاڑ جنگلات سے اٹا پڑا تھا، اس میں ہر قسم کی لکڑی دستیاب تھی مگر پچھلے بیس پچیس سال میں انہیں بے دردی سے کاٹا گیا۔ حکومتی رٹ بحال نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے جنگلات کا صفایا کیا گیا اور آج نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ ایلم پر بمشکل بیس فیصد جنگل باقی رہ گیا ہے۔ جنگل کاٹنے کا سلسلہ رکا نہیں ہے۔ آج بھی لمبے لمبے درختوں کی جڑوں کو آگ لگا کر اسے سکھایا جاتا ہے تاکہ انہیں کاٹنے کا راستہ ہموار ہوسکے۔

ایلم گاؤں کے 80 سالہ فراموش کاکا جنگل کی بے دریغ کٹائی سے دلبرداشتہ ہوچکے ہیں اور اپنے گھر تک محدود ہیں ۔ان کے بقول اگر آج رام چندر جی نے دوبارہ جنم لیا، تو رو رو کر اپنا جی ہلکان کردیں گے کیونکہ ایلم وہ چوٹی نہیں رہی جو کبھی جنگلات اور جنگلی حیات سے بھرپور تھی۔

— تصاویر بشکریہ لکھاری


امجد علی سحاب فری لانس صحافی ہیں اور تاریخ و تاریخی مقامات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔