کراچی سرکلر ریلوے کی سنہری یادیں

16 نومبر 2015
روزانہ لاکھوں لوگوں کو فائدہ پہنچانے والی اس سروس کو بتدریج ختم کر دیا گیا جس سے شہر کے ٹریفک مسائل میں اضافہ ہوا ہے. فوٹو شیراز حسن۔
روزانہ لاکھوں لوگوں کو فائدہ پہنچانے والی اس سروس کو بتدریج ختم کر دیا گیا جس سے شہر کے ٹریفک مسائل میں اضافہ ہوا ہے. فوٹو شیراز حسن۔

تقریباً دو کروڑ آبادی والا پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی اب تک پبلک ٹرانسپورٹ کی مناسب سہولیات سے محروم ہے۔ کراچی کی تیزی سے بڑھتی اپنی آبادی اور پاکستان کے مختلف شہروں سے روزگار کے لیے آنے والے لوگوں کی تعداد میں روز بروز اضافے کے باوجود اس شہر میں رہنے والے شہریوں کو وہ سفری سہولیات میسر نہیں ہیں جو ہونی چاہیئں۔

یوں تو ہر آنے والی حکومت نے اس شہر کے ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے کئی اعلانات کیے جن میں گرین بس اور میٹرو بس وغیرہ شامل ہیں، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کسی بھی اعلان کردہ منصوبے پر عمل نہیں ہوا، یا پھر اگر کسی پر ہوا بھی تو اسے کچھ ہی عرصے بعد ختم کردیا گیا۔

ماضی میں اس شہر میں بہت سی سرکاری بسیں (کے ٹی سی) کے تحت چلتی تھیں جن میں طلباء کو بھی رعایتی کرائے پر سفری سہولت حاصل تھی، لیکن رفتہ رفتہ یہ بسیں بند کر دی گئیں۔ ان بسوں کے ٹرمینلز، جنہیں ڈپو کہا جاتا ہے، شہر کے کئی مقامات پر اب بھی موجود ہیں۔

اسی طرح ماضی میں اس شہرِ کراچی میں ریلوے کا ایک مربوط نظام سرکلر ریلوے کی صورت میں موجود تھا جس سے اس شہر کو صاف ستھری بہترین سفری سہولت میسر تھی۔ سرکلر ریلوے کا منصوبہ 1969 میں پاکستان ریلوے کی جانب سے شروع کیا گیا تھا، جس کے تحت ڈرگ روڈ سے سٹی اسٹیشن تک خصوصی ٹرینیں چلائی گئیں، جو نہایت کامیاب رہیں۔

ایک اندازے کے مطابق اس سہولت سے سالانہ 60 لاکھ افراد کو فائدہ پہنچتا تھا۔ عوام میں بے پناہ پذیرائی اور ریلوے نظام کو کافی فائدہ ہونے کی بنا پر 1970 سے 1980 کے درمیان کراچی سرکلر ریلوے کے تحت روزانہ کی بنیاد پر 104 ٹرینیں چلائی جانے لگیں، جن میں سے 24 ٹرینیں لوکل لوپ ٹریک اور 80 مین ٹریک پر چلائی گئیں۔ کراچی سرکلر ریلوے لائن ڈرگ روڈ اسٹیشن سے شروع ہو کر لیاقت آباد سے ہوتی ہوئی کراچی سٹی اسٹیشن پر ختم ہوتی تھی جب کہ پاکستان ریلوے کی مرکزی ریلوے لائن پر بھی کراچی سٹی اسٹیشن سے لانڈھی اور کراچی سٹی اسٹیشن سے ملیر چھاؤنی تک ٹرینیں چلا کرتی تھیں جن سے ہزاروں لوگ روز مستفید ہوتے تھے۔

جن لوگوں نے کراچی سرکلر ریلوے سے سفر کیا ہے وہ اس پر لطف سفر سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اس سرکلر ریلوے میں ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد سفر کرتے تھے۔ یہاں تک بھی دیکھا جاتا تھا کہ لوگ اپنی کاریں ریلوے اسٹیشن پر پارک کر کے اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے اس سرکلر ریلوے کے سفر کو ترجیح دیتے تھے۔ طالب علم، ملازمت پیشہ افراد، تاجر اور کارباری حضرات نہ صرف روزانہ ٹکٹ لے کر سفر کرتے تھے بلکہ ماہانہ پاس بھی بنوائے جاتے تھے اور ٹکٹ بوگی میں ہی فراہم کرنے کی سہولت بھی موجود تھی۔

صبح کے اوقات میں ان بوگیوں میں وہ منظر دکھائی دیتے تھے کہ جیسے کہ کوئی پوری سوسائٹی ریلوے لائین پر دوڑ رہی ہو۔ خواتین کی بوگیوں میں اسکول و کالج کی بچیاں مطالعہ کرتے ہوئے سفر کرتی تھیں تو ایک بوگی میں لوگ قرآن کی تلاوت کرتے نظر آتے تھے۔ کسی بوگی میں درسِ قرآن ہو رہا ہوتا تھا تو کسی میں سیاسی حالات پر بحث مباحثہ ہو رہا ہوتا تھا۔ کسی بوگی میں اخبارات کا مطالعہ ہو رہا ہوتا تھا تو کسی میں اخبارات کے ہاکر اخبارات کو ترتیب دے رہے ہوتے تھے اسی طرح شام میں جب لوگ اپنے گھروں کو لوٹتے تھے تو ان ٹرینوں کا منظر کچھ اور ہوتا تھا۔ کسی بوگی میں لوڈو، کسی میں کیرم اور کسی میں تاش کھیلا جا رہا ہوتا تھا۔ آج کل کے سوشل میڈیا سے وہ سوشل ٹرینوں کے رابطے کہیں زیادہ مضبوط تعلقات کا ذریعہ سمجھے جاتے تھے۔

لیکن بدقسمتی سے 1992 کی دہائی میں کئی ٹرینیں ریلوے کو خسارہ ہونے کی بنیاد بتا کر بند کر دی گئیں۔ اس وقت یہ خبریں بھی اخبارات کی زینت بنیں کہ نجی ٹرانسپورٹ مافیا کو فائدہ پہنچانے کے لیے اس نظام کو بتدریج زوال کی طرف لے جایا گیا۔ بالآخر 1999 میں عوامی بھلائی کے اس منصوبے کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا۔

بعد میں ہر آنے والی حکومت نے اس شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی اور ضروریات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس منصوبے کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے کئی بار فزیبیلٹی رپورٹ تیار کی مگر اس کی منظوری ہونے کے باوجود اس منصوبے کو شروع نہ کیا جا سکا۔

2005 کے اوائل میں اس وقت ایک امید کی کرن نظر آئی تھی جب جاپان انٹرنیشنل کوپریشن ایجنسی نے کراچی سرکلر ریلوے کے لیے آسان شرائط پر قرضہ دینے کی پیشکش کی اور اس پیشکش کی منظوری کی صورت میں اس ایجنسی کے اشتراک سے کراچی سرکلر ریلوے کے منصوبے پر کام شروع کرنے کا اعلان کیا گیا۔ جاپان کی ایجنسی نے اس منصوبے کے لیے دو ارب چالیس کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی پیشکش کی تھی لیکن ایک بار پھر یہ منصوبہ فائلوں کی نذر کر دیا گیا۔

اس کی بھی بنیادی وجہ جو سامنے آئی تھی وہ یہ کہ جاپان نے اس منصوبے میں سرمایہ کاری کو کرپشن سے پاک رکھنے کے لیے اپنی زیرِ نگرانی سخت مانیٹرنگ سے مشروط کیا تھا اور دوسری شرط یہ رکھی گئی تھی کہ اس پچاس کلومیٹر طویل سرکلر ٹریک کے روٹ میں آنے والی ریلوے اراضی پر جو لوگ قابض ہیں، انہیں حکومت قبضہ ختم کرنے کے عوض معاوضہ دے یا متبادل اراضی دے۔

اس بات پر کبھی بھی متاثرین اور حکومت کے درمیان اتفاق نہیں ہو سکا اور ساتھ ہی ٹرانسپورٹ مافیا جسے اس سرکلر ریلوے سروس شروع ہونے سے شہر میں اپنی گرفت کمزور اور اجارہ داری ختم ہوتی نظر آ رہی تھی، وہ بھی اس منصوبے کی راہ میں مشکلات پیدا کرنے میں متحرک ہوگئی۔

جب انڈیا کی وزارت ریلوے لالو پرشاد یادو کے پاس تھی تو انہوں نے انڈیا کے ریلوے نظام میں ایک نئی جان ڈال کر دنیا کو حیران کر دیا تھا۔ لیکن افسوس کہ ہمارا ریلوے نظام اس عشرے میں بھی تنزلی کا شکار تھا۔ بجائے اس کے کہ ریلوے نظام پر توجہ دی جاتی اور اسے بہتر کیا جاتا، مزید دو اہم ٹرینیں اچانک بند کردی گئیں۔

یہ ٹرینیں مہران ایکسپریس اور شاہ لطیف بھٹائی ایکسپریس تھیں جو کراچی سٹی اسٹیشن سے میرپور خاص تک دن کے مختلف اوقات میں چلا کرتی تھیں۔ ان ٹرینوں سے حیدرآباد، ٹنڈوجام، ٹنڈوالہیار اور میرپور خاص کے لوگوں کو بہت سہولیات میسر تھیں جن میں سب سے زیادہ فائدہ ان ملازمت پیشہ لوگوں کو تھا جو روزانہ حیدرآباد سے کراچی یا کراچی سے حیدرآباد جایا کرتے تھے۔

ایک ٹرین صبح میرپور خاص سے چلتی تھی کراچی کے لیے اور دوسری اسی وقت کراچی سے چلتی تھی میرپورخاص کے لیے۔ ان ٹرینوں کی بندش سے بھی دراصل فائدہ ان ٹرانسپورٹرز کو پہنچا جن کی کوچز کراچی سے میر پور خاص چلا کرتی ہیں۔

جب میں نے محکمہ ریلوے کے ایک ریٹائرڈ افسر سے پوچھا کہ سرکلر ریلوے کا نظام عمدہ ہونے کے باوجود اسے بند کرنے کی کیا وجہ تھی، تو ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی منصوبہ اس وقت تک ناکام نہیں ہوتا، جب تک اسے اس کے اندر سے نقصان نہ پہنچایا جائے۔ کراچی سرکلر ریلوے سے لوگوں نے اس وقت منہ موڑنا شروع کردیا تھا جب ان ٹرینوں کا تاخیر سے آنا جانا روز کا معمول بن گیا تھا۔

ظاہر ہے کہ ان ٹرینوں میں طالب علم، ملازمت پیشہ افراد اور تاجران کی کثیر تعداد سفر کرتی تھی، لیکن جب وہ وقت پر اپنے اداروں میں نہیں پہنچ پاتے تھے تو ان کے لیے یہ سفری سہولت بے فائدہ تھی۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ ٹرینیں کیوں تاخیر کا شکار ہونے لگیں، تو انہوں نے بتایا کہ انہیں دانستہ تاخیر سے لایا جاتا تھا جن میں ریلوے کے افسران اور ملازمین ملے ہوئے تھے، جنہیں اس کے عوض معاوضہ دیا جاتا تھا۔ گویا یوں کہنا بجا ہوگا کہ گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔

جون 2013 میں سندھ کے وزیرِ اعلیٰ سید قائم علی شاہ نے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے 26 لاکھ امریکی ڈالر کے منصوبے کی منظوری دی جس میں کئی نئے اسٹیشن اور ان اسٹیشنوں کے مطابق کئی نئے بس روٹس چلانے کا اعلان بھی کیا گیا، لیکن ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر نہ جانے کن وجوہات کی بناء پر یہ منصوبہ کھٹائی کا شکار ہوگیا اور اب کچھ معلوم نہیں کہ یہ سرکلر ریلوے منصوبہ کبھی بھی پایہء تکمیل تک پہنچ سکے گا یا اس شہر کے لوگ ایک آہ بھر کر اس ماضی کی سنہری یاد کو ہمیشہ ماضی کا ایک خوبصورت باب جان کر ہی یاد کریں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (14) بند ہیں

fiza Nov 16, 2015 03:41pm
ye service dobara start honi chaye ...
Haider Shah Nov 16, 2015 07:17pm
I still have sharp memories of catching train from Nazimabad Station and get off under the SSC Board Office Station to go to the school. This rail corridors already had stop back 1988.Far as I understand If I have flush back my memories back to Karachi Master Plan 2000 which had launched under KDA Survey department in 1985 and I had anticipated my roll as Mapping and calculating area's of Karachi (This was the days when Karachi University had shut down for 11 months where I was studying in mathematic dept and got this job on daily basis Rs 70. a day ) to designed study report how Karachi would looks in 2000 in terms of Public transport, population growth, Hospital, School, Universities...... list goes on it was comprehensive report for better Karachi. But corrupted KDA ,MD Z A Nizami never proceed this plan on Next stage. when you look at Karachi now you just can't control crying blood eye's .....Wish and Pray One day Karachi will back it sparkling shining life style.
Faisal Hussain Nov 16, 2015 08:01pm
Quit interesting. Kindly keep aware us on such type of issues.
M.A. KHAN Nov 16, 2015 08:35pm
Pakistan Railways ka Indian Railways se muqabla ya comparison aisa he hai jaisay Paris ka muqabla BhaiPhero se. Bombay ke local train system dekh kar Karachi Local railways per rona aata hai.
Saleem Siddiqi Nov 16, 2015 08:43pm
Ary sahib kia yad dila dya jb men eis train per city station tak safer kerta jb men S.M.Law college men student tha .kia haseen safer hota tha . bohat zaberdast likha ap ne yaqeen janeye yaden taza hogyen shukria eis tereer ke leye
Zohaib Khan Nov 16, 2015 09:05pm
Great nice blog after long time some one refresh my memory yes I remember this journey from Nazimabad to City station and playing luddo in train with friends and some time we arrange Kasoti or bait bazi , yes now I say Aaaaaaaaaaaaaaaaah kia safer tha . ya Allah it will again start :(
Waseem Jilani Nov 16, 2015 11:14pm
واہ کیا زبردست یادیں تازہ کردیں قریشی صاحب ۔ درست کہا ایک بہترین سوشل ذریعہ بھی تھا آپ کا بلاگ پڑھ کر آج ایک بات کا انکشاف کررہا ہوں ۔ میرا رشتہ بھی اسی سرکلر ٹرین میں طے ہوا تھا ۔ میرے سسر اور والد کی دوستی اسی ٹرین میں ہوئی جو رشتہ داری میں بدل گئی
Aslam Jalali Nov 16, 2015 11:26pm
Thanks for putting me in the era of golden days. I do remember not only comfortable timely and affordable journey but people became train friends.
Uroosa Nov 17, 2015 10:14am
I am from Lahore but my place of birth is Karachi and I also journey in these trains from home to my University 1979 to 1982 really it was too good and yes I better know it was social gathering point . we make much friendship and called to friends she is my train friends . missing these kind of journey .
noone Nov 17, 2015 07:20pm
ہمارے ملک میں لوگوں کے ذاتی کاروبار کو عوامی مفاد پر اہمیت حاصل ہے۔ اگر یہ سروس چلتی رہتی تو یقیقن ٹرانسپورٹ مافیا متاثر ہوتی، صرف یہ ہی اصل وجہ تھی
یمین الاسلام زبیری Nov 17, 2015 11:18pm
مجھے اب بھی یاد ہے ذرا ذرا، پر اب میں امریکہ میں رہتا ہوں۔ میں کوئی سولہ سال پہلے واشنگٹن ڈی سی آیا تھا۔ یہاں کی مقامی ریلوں کا نظام دیکھ کر متاثر ہوا تھا اور میں نے ایک خط ڈان کو اس وقت لکھا تھا جو اب بھی کاغزی ڈان کی فائلوں میں چھپا ہوا موجود ہو گا۔ ڈی سی ایریا میں تمام بسیں حکومت کی چلتی ہیں اور یہ بسیں ساری کی ساری مقامی ریل اسٹیشن سے شروع ہو تی ہیں۔ اس طرح وہ علاقے کے شہروں کے مختلف علاقوں کو بھی ملاتی ہیں اور بہت دور جانے والوں کو اسٹیشن بھی پہنچاتی ہیں۔ نچی کمپنیوں کی بسیں بھی چلتی ہیں لیکن دور دراز علاقوں کے لیے۔ بس کا ٹکٹ دینے کے لیے کوئی کنڈکٹر نہٰں ہوتا ایک برقی مشین پیسے لیتی ہے، یا پھر آپ پہلے سے کارڈ بنوالیتے ہیںجو ٹرین پر بھی کام آتا ہے۔ ہم ہر قسم کا فیشن تو امریکہ سے سیکھ لیتے ہیں لیکن جو کام کی بات ہے اس پر توجہ نہیں دیتے۔ آپ اسے بھی امریکی سازش کہہ سکتے ہیں۔
Mahmood Khan Nov 18, 2015 06:24pm
Ye iss qom ka ilmiya hay ke har faaeday mand aur achhi cheez bas aik sunheri yaad he banti ja rahi hay ... malum nahi ham kab apni islah ka amal shuru karengay?
Zeshan Ahmed Nov 19, 2015 09:19pm
Waqi wo baten parhany ke milen eis blog men ju men apni ankhon se dekha chuka tha , men bhi en treainon ka aik musafir tha or mera ziker eis tehreer men bhi he . ab men aik talemi idary men achi post per hon mery baity ne kal mujh batay ke ju train kahani ap suaty hen wo dawn page per bhi post hoye hy . Arshad Qureshi sahib bohta sach or acha likha apny , han ap ko bata don mera ziker is tehreer men train men akhbar terteeb deny waly hakron men hy jb men subha akhbar suply kerta tha or sham me college jata tha . mujhe ap ke umer ka andaza naahi lakin ap ki photo se andaza hota hy men ap se kuch bara hun eis leye dil se dua daita hun khush rahen aor ap ke tehreer ko hum tak pohanchany waly bhi abad rahen
Sharminda Nov 22, 2015 03:17pm
Trasnport Mafia's victim.