سکڑتے وسائل اور برباد ہوتی ماحولیات کا درد

کراچی سے اگر ٹھٹھہ کے لیے نکلیں تو ٹول پلازہ کی دروازوں والی دیوار سے گزرتے ہی بہت کچھ پیچھے چھوٹ جاتا ہے۔ بڑی عمارتیں، وسیع راستے، خوبصورت سی گلیاں، گہما گہمی، شور و غُل، تارکول کے سیاہ راستوں پر چلتی گاڑیاں اور اُن کا شور، لوگوں سے بھرے ریلوے اسٹیشن، ایئرپورٹ پر اُترتے اور پرواز کرتے ہوئے اُڑن کھٹولے، یعنی آپ منظروں کی ایک ضخیم سی کتاب چھوڑ کر نکل آتے ہیں۔

ٹھٹھہ سے گزر کر ہم سجاول آتے ہیں اور پھر سجاول سے آپ جنوب کی طرف چلتے جائیں تو سمندر اپنے ہونے کا احساس دلانا شروع کردیتا ہے۔ کہیں کہیں زمین میں شوریدہ سفیدی کی ایک تہہ نمودار ہونے لگتی ہے، تو کہیں راستے کے مشرقی اور کبھی مغربی کنارے پر جھاڑی دار درختوں کی باڑ میں چھوٹے چھوٹے گاؤں نظر آنے لگتے ہیں۔ پھیکے پھیکے سے اور بے رنگ۔ جنھیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے ابھی اُگے ہیں .

یہاں میٹھے پانی کی شدید کمی ہے، اس لیے وہ زمینیں جن میں کبھی دھان ہوتی تھی اب وہاں کچھ نہیں ہوتا۔ ہاں البتہ کسی بنجر زمین میں کچھ بھیڑیں دیکھنے کو مل جاتی ہیں جو کبھی کسی سوکھے تنکے کو توڑ کر اُسے چباتی ہیں اور لاپرواہی سے آگے بڑھ جاتی ہیں تاکہ ایک اور گھاس کا تنکا مل جائے، چاہے سُوکھا ہی سہی.

راستہ کبھی آپ کے ساتھ نہیں چلتا بس آپ اُس پر چلتے جاتے ہیں۔ ہم بھی اس راستہ پر چل کر جاتی کے چھوٹے سے شہر میں پہنچے۔

کہتے ہیں کہ 'جیمس برنس' 1828ء میں 'کَچھ' سے حیدرآباد کی طرف جا رہا تھا تو راستے میں اُسے ایک سو اونٹوں کا قافلہ ملا جو 'جاتی' سے 'کَچھ' کی طرف جا رہا تھا. ان اونٹوں پر دیسی گھی کے ڈبے لدے ہوئے تھے۔ اب جو 'جاتی' کو دیکھو تو یہ محض ایک افسانہ ہی لگتا ہے۔

سمندر کے کناروں کے شہروں کا بھی اپنا ہی مزاج ہے. میں 'جاتی' کے مقامی صحافی زاہد اسحاق سومرو سے ملا اور ہم ساحلی پٹی پر گذرے شب و روز دیکھنے کے لیے نکل پڑے، تو ساتھ میں کوسٹ بیلٹ کی باتیں بھی نکل پڑیں۔

''1999ء سے پہلے یہاں کے حالات بہتر تھے۔ چھوٹی بڑی ایک سو سے زیادہ جھیلیں تھیں، ان جھیلوں میں مچھلی کا بیج دریا کی میٹھی نہروں کے ذریعہ آجاتا۔ پھر مچھلی بڑی ہوتی تو خوراک کی کمی بھی نہیں ہوتی. اس کو بیچ کر اچھی خاصی آمدنی بھی ہوجاتی اور پھر تھوڑی بہت دھان کی فصلیں بھی ہو جاتیں جس سے مویشیوں کو گھاس کی صورت میں خوراک مل جاتی، مطلب زندگی ایک ڈگر پر تھی نہ زیادہ کی طلب تھی اور نہ اتنی بڑی پریشانیاں۔"

"پھر 1999ء میں جو سائیکلون آیا تو اُس نے یہاں کے طبعی حالات کو بدل کر رکھ دیا۔ اس 36 گھنٹے چلنے والے سائیکلون نے زمینیں، واٹرکورس اور چھوٹی موٹی جھیلیں ریت اور مٹی سے بھر دیں۔ اگر سائیکلون کے بعد ایریگیشن ڈپارٹمنٹ ان سب کو پھر سے بحال کردیتا تو شاید موجودہ حالت نہ ہوتی۔"

مجھے نہیں پتہ کہ پہلے یہ علاقہ کیسا تھا لیکن اب حالتیں زیادہ بہتر نہیں تھیں۔ ہم جیسے ہی گاڑی سے باہر آئے ایک کثیف کڑوے دھویں نے ہمارا استقبال کیا۔ راستے کے مغربی کنارے پر کوئلہ بنانے کی بھٹیاں لگی تھیں جن سے یہ کَثیف گیلا دھواں اُٹھتا اور دور تک آسمان کی طرف جاتا اور جب ہوا کا جھونکا لگتا تو قرب و جوار کے لوگوں کے پھیپھڑوں میں گُھسنے کی کامیاب کوشش بھی کرتا۔

بھٹی سے نکلنے والے دھویں نے فضا میں عجیب سی کڑواہٹ پھیلا رکھی تھی
بھٹی سے نکلنے والے دھویں نے فضا میں عجیب سی کڑواہٹ پھیلا رکھی تھی

ان بھٹیوں پر کٹی ہوئی لکڑیوں کے ڈھیر لگے تھے۔ ہم وہاں کچھ منٹ ہی کھڑے ہوئے،اس دوران اس کٹی ہوئی لکڑی سے لدی کئی گدھا گاڑیاں آگئی تھیں۔ ان گدھا گاڑیوں کو بچے چلاتے اور ساتھ میں اپنا منہ بھی چلاتے کہ گٹکا منہ میں پڑا ہوا تھا جس کو چبانا بھی فرض تھا۔

گدھا گاڑی پر لکڑیاں لادے کچھ بچے
گدھا گاڑی پر لکڑیاں لادے کچھ بچے

"یہاں کس درخت کی لکڑیاں کٹ کر آتی ہیں؟" میں نے ان بھٹیوں کے مالک سے سوال کیا۔ جو لکڑیوں کے 40 کلو دو سو روپے میں خرید کر ایک کلو کوئلہ 40 روپے میں فروخت کرتا.

"زیادہ تو 'دیوی' (Mesquite) کی لکڑی آتی ہے۔ پھر کبھی کبھار ببول اور پیلو (Salvadora) کی لکڑی بھی آجاتی ہے۔"

پیلو کا پھل
پیلو کا پھل

کچھ بھٹیاں دھواں اُگل رہی تھیں اور کچھ بھٹیوں کے پیٹ میں ایک طریقہ سے لکڑیاں رکھی جا رہی تھیں اور جب لکڑیوں سے بھٹی بھر جاتی تو اُسے اینٹوں سے چن کر بند کرکے آگ لگا دی جاتی تاکہ اِن گیلی لکڑیوں سے کوئلہ بن سکے، جسے بیچ کر اچھی خاصی رقم کمائی جا سکے.

میں ایک گدھا گاڑی کے پاس گیا جس پر کچھ بچے ابھی لکڑیاں کاٹ کر لائے تھے۔ میں نے جو سوال کیے اور مجھے جو جواب ملے اور اس گفتگو سے جو نتیجہ نکلا وہ کچھ یہ تھا کہ"یہ دیوی کی لکڑی اگرچہ خاردار ہے اور اسے کاٹنا بہت مشکل اور محنت کا کام ہے، لیکن چونکہ میٹھے پانی کی کمی ہے اور فصلیں اور گھاس بہت کم ہوتی ہے، جبکہ سمندر میں بھی مچھلی روزبروز کم ہوتی جا رہی ہے تو گزر بسر کے لیے انھیں یہ لکڑیاں کاٹنی پڑتی ہیں۔ اگر گھر کے دو تین مرد صبح سے شروع کریں تو شام تک وہ 5،6 من تک لکڑی کاٹ لیتے ہیں اور پھر اگر یہ لکڑی پہنچا دیں گے تو 40 کلو کے 170 روپے سے 200 روپے تک قیمت مل جاتی ہے، جبکہ گدھا گاڑی پر 6 سے 8 من تک لکڑیاں آجاتی ہیں۔"

میں نے جب اُن بچوں سے اسکول کے متعلق پوچھا تو اُن کے چہرے پر کسی قسم کی ندامت کے بجائے بس ایک مسکراہٹ ابھر آئی اور انھوں نے کہا، "اب مزدوری کریں یا پڑھیں..!؟" سوال میں نے کیا تھا پر جواب میں مجھ سے بھی ایک سوال کیا گیا۔ جس کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

میں اپنے ساتھی زاہد اسحاق سے مخاطب ہوا کہ یہاں اس کوسٹ بیلٹ پر ایسی کتنی بھٹیاں ہونگی؟ تو جواب آیا:"سینکڑوں! جہاں چلے جائیں بدین، سجاول، جاتی، ٹھٹھہ آپ کو یہ بھٹیاں ہی ملیں گی، جہاں ہزاروں ٹن لکڑیاں روز کٹ کر بکتی ہیں اور ہزاروں لوگ ہیں جو درخت کاٹنے کے اس کام میں لگے ہوئے ہیں۔"

زاہد کے اس جواب سے مجھے یقیناً مایوسی ہوئی۔ اس وقت جب ہم گلوبل وارمنگ (Global Warming) اور ماحولیاتی تبدیلی Climate) Change) کی وحشتوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ جہاں ہر برس بلین میٹرک ٹن میتھین (Methene) اور کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس فضا میں شامل ہورہی ہے، جس سے گرین ہاؤس گیسز (Greenhouse gases) میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے خطرناک ماحول میں یہاں اگر یہ حالات ہیں تو حالات اچھے نہیں ہیں۔

سارا دن میں جاتی کی ساحلی پٹی پر گھومتا رہا۔ یہاں مقامی بزرگوں سے بھی باتیں ہوئیں اور پڑھے لکھے لوگ بھی ملے۔ درختوں کا ہوتا ہوا قتل عام بھی دیکھا، جس تیزی سے یہاں سے 'دیوی' اور 'پیلو' کے درخت کٹ رہے ہیں۔ پانچ دس برس کے بعد صورتحال انتہائی خراب ہونے والی ہے۔

جنگلات اور درختوں کی اپنی ایک الگ حیثیت اور تنوع ہے۔ یہ Biodiversity کا مرکزی نقطہ ہیں۔ ان درختوں میں مقامی پرندے اور جنگلی حیات پنپتی ہے جو اس قدرتی نظام کو چلانے کے لیے انتہائی ضروری ہیں. یہ ایک ماحولیاتی چین (Eco chain) ہے جس میں فطرت نے ہم سب کو باندھ رکھا ہے۔ بالکل ایسے جیسے ہمارے جسم میں اگر آکسیجن کی مقدار کم ہونے لگے تو ہم مرنے کے قریب آنے لگتے ہیں اور یہاں بھی صورتحال شاید اس سے الگ نہیں ہے۔

ایک بزرگ نے بتایا کہ ایک زمانے میں یہاں بڑے تیتر اور بٹیر ہوتے تھے۔ انھوں نے بہت ساری چڑیوں کی قسمیں یہاں دیکھیں، بلکہ انھوں نے یہاں 'شکر خورے' (Hammingbird) کی بھی کچھ نسلیں دیکھی تھیں۔ شکرخورا اصل میں وہاں پایا جاتا ہے، جہاں چھوٹے بڑے پھولوں والی فصلیں اُگتی ہوں یا پھر ایسے درخت ہوتے ہوں جن کے پھولوں میں شیرینی بھری ہوتی ہے۔

جہاں زمینیں زرخیز ہوں، وہاں ایک درخت ہوتا ہے، جسے سندھی میں 'کرڑ' (Capparis deciduas) کہتے ہیں. اس درخت پر جب سُرخ پھول آتے ہیں تو ہرایک پھُول میں شہد جیسی شیرینی بھری ہوتی ہے اور جب ان پھولوں کے بعد اُن پر تیز سُرخ رنگ کا میوہ لگتا ہے تو بہت سارے پرندوں اور جنگلی حیات کی خوراک کا بندوبست ہو جاتا ہے۔ یہ سارے درخت اور حالات ماضی میں یہاں تھے،اس لیے شکرخورے کی موجودگی کی بھی نشانیاں ملتی ہیں۔

دیوی کے بعد یہاں بڑا ظلم پیلو پر ہوا، جس کی جڑیں کھود کر مسواک کے لیے استعمال ہوئیں اور اس درخت کی شامت آگئی۔ اب تو یہ کہیں کہیں نظر آجاتا ہے، لیکن ایک زمانے میں یہ معصوم سے درخت اس علاقے کے لیے ایک نعمت تھے۔ تیز دھوپ میں ٹھنڈی چھاؤں..جس کی جھاڑی سے مسواک بن جاتا اور بغیر کسی برش اور ٹوتھ پیسٹ کے منہ اور دانت صاف۔

اکتوبر کے مہینے میں اس پر ننھے منھے پھول لگتے اور پھر ان پھولوں میں ایک بڑے دانے جتنا میوہ لگتا، جسے 'پیروں' کہا جاتا ہے۔ پیروں کو لوگ بھی کھاتے اور پرندوں اور بکریوں کے لیے بھی یہ انتہائی اہم خوراک ہوتی۔ معصوم سے چھوٹے چوہے اس میں پنپتے جبکہ دوسری جنگلی حیات کے رہنے کے لیے بھی پیلو کا درخت بڑا پُرسکون سا گھر تھا.

اس درخت کے ناپید ہونے سے ہم نے زیریں سندھ سے Rock Eagle owl پرندے کی نسل کو تقریباً گنوا دیا ہے۔ کیونکہ یہ پیلو کی جھاڑیوں میں نیچے زمین پر اپنے رہنے کا مسکن بناتی ہے، لیکن پیلو کی جڑیں کچھ روپوں کے نظر ہوگئیں. پیلو کا تنا تو بس بے بسی اور بے کسی سے دیکھتا ہی رہ گیا، لیکن ہم نے نہ جانے کیا کیا گنوا دیا ہے۔۔۔!!!

ان درختوں کے کٹ جانے سے بہت کچھ بدل گیا ہے۔ گیدڑ، خرگوش، بہت ساری چڑیوں کی نسلیں، سانپوں کی نسلیں اور بہت ساری مقامی جنگلی حیات کے اب بس نام ہی رہ گئے ہیں۔

میں نے اُس دن جو دیکھا وہ رونے کے لیے بہت تھا۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا تھا، جس سے لگتا ہو کہ یہ ماحولیات کے بھلے اور تحفظ کے لیے ہو رہا ہے۔ ہم جب ماحولیات کی بات کرتے ہیں تو ہم کسی اور سیارے کا ذکر نہیں کر رہے ہوتے بلکہ اپنے مستقبل کی ہی بات کر رہے ہوتے ہیں۔

وسائل کے سکڑنے کا ذکر ہم پہلے بھی کر چکے ہیں، لیکن اُس کا یہ مقصد تو نہیں ہونا چاہیے کہ ہم اپنی جڑیں کھودنا شروع کردیں۔ ہم جو اتنا کچھ گنوا چکے ہیں، ہمیں اُس کا درد کیوں نہیں ہوتا؟ ہم جو بھُگت رہے ہیں، اس کا احساس ہمیں کب ہوگا؟ یہ جو سب کچھ بربادی کی طرف جا رہا ہے اسے ہم کب روکیں گے؟

— تصاویر بشکریہ ابوبکر شیخ


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔