شائع December 30, 2015 اپ ڈیٹ January 1, 2016

ہم جب تاریخ کی کتابوں کا مطالعہ کر رہے ہوتے ہیں تو ذہن کے آسمان پر اندر کی کیفیتوں کی عجیب و غریب شبیہیں بنتی جاتی ہیں۔ کہیں پر بادشاہ کا دربار لگا ہوا ہے اور فیصلے سنائے جا رہے ہیں۔ کہیں پر شہروں کے بازاروں میں لوگوں کی چہل پہل ہے۔ کہیں محلاتی سازشیں اپنے عروج پر نظر آتی ہیں تو کہیں میدانِ جنگ جنگجوؤں کے خون سے سرخ ہوتے جاتے ہیں۔

کہیں راستوں پر بیوپاریوں کے قافلے ہیں جو اونٹوں کی قطاروں پر سامان لادے ایک شہر سے دوسرے شہر جا رہے ہیں۔ پھر وہ بندرگاہیں بھی ہیں جو نہ فقط دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے سامان کی خرید و فروخت کرتے ہیں بلکہ علم و فضل کے بھی یہ دروازے ہیں جہاں سے بڑے بڑے عالم، فاضل، محقق اور تخلیق کار نئی زمین پر قدم رکھتے ہیں اور اپنی اپنی تخلیقات اور تحقیق کو نئی جہتیں دیتے ہیں۔ پھر ہمیں وہ سلطنتیں بھی دکھائی دے جاتی ہیں جن کے نصیبوں میں سکھ کی سانسیں لینے کے لیے بہت ہی قلیل عرصہ تحریر کیا گیا مگر دکھ اور ویرانیوں کے لیے ساری عمر رقم کر دی گئی۔

ٹھٹھہ سے آپ اگر سجاول کے شہر آئیں اور پھر شہر سے جنوب کی طرف نکلتا ہوا سیدھا راستہ لے لیں جو آپ کو سندھ کے ایک چھوٹے سے مگر مصروف اور لوگوں سے بھری ہوئی گلیوں اور راستوں والے شہر چوہڑ جمالی لے آئے گا۔ یہاں سے مشرق کی طرف شاہ یقیق اور جلالی بابا کی مشہور درگاہیں ہیں لیکن ہم شہر سے جنوب کی طرف جانے والے راستے سے جنوب کی طرف چلیں گے۔

آپ کچھ کلومیٹر جنوب کی طرف سفر کریں گے تو مشرق کی طرف کچھ پہاڑیاں اچانک سے آپ کو نظر آنے لگتی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ابھی ابھی اس زمین پر اگی ہیں۔ پہاڑیوں کا یہ سلسلہ آپ کے ساتھ کچھ زیادہ نہیں چلتا۔ کچھ کلومیٹر کے بعد ان کا حجم کم ہو کر چھوٹا ہوتا جاتا ہے اور بالآخر یہ پہاڑی سلسلہ گم ہوجاتا ہے۔

چوہڑ جمالی شہر سے تقریباً اٹھارہ کلومیٹر کے فاصلے پر میں جب پہنچا تو سمندر کی ایک کریک (کھاڑی) تھی جس پر کچھ چھوٹی بڑی کشتیاں لیٹی ہوئی تھیں کیونکہ بھاٹے (low tide) کا وقت تھا۔ بس پانی کی ایک لکیر تھی جس سے اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ اس کریک کا سمندر سے ابھی تک رشتہ جڑا ہوا ہے، وہی رشتہ جو 1759 میں اس وقت سندھ کے بادشاہ غلام شاہ کلہوڑو نے شاہ بندر کی تعمیر کر کے یہاں سے جوڑا تھا۔

جوار نہ ہونے کی وجہ سے کشتیاں کنارے پر کھڑی ہیں.
جوار نہ ہونے کی وجہ سے کشتیاں کنارے پر کھڑی ہیں.
کبھی یہاں ایک عظیم الشان بندرگاہ تھی.
کبھی یہاں ایک عظیم الشان بندرگاہ تھی.
ماضی میں یہاں سے یورپ تک سامان کی ترسیل کی جاتی تھی.
ماضی میں یہاں سے یورپ تک سامان کی ترسیل کی جاتی تھی.

1737 میں ٹھٹھہ میں کلہوڑوں کی حکومت قائم ہوئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سندھ کا سیاسی منظرنامہ انتہائی پیچیدہ صورتحال میں لپٹا ہوا تھا۔ ایک طرف بلوچ تھے۔ دوسری طرف ایسٹ انڈیا کمپنی تھی، پھر ککرالہ کے جام تھے۔ 1747 میں کلہوڑو حاکموں نے کلمتیوں اور جوکھیوں کو اپنی طرف کیا، اسی دوران کھارو چھان سے کیٹی بندر اور گھارو کے قریب جو چھوٹے چھوٹے بندر تھے ان کے ہندو بیوپاریوں نے کراچی بندر کا رخ کیا، جو کھڑک بندر میں ریت بھرنے کی وجہ سے 1725 سے آباد ہونا شروع ہوا اور 1729 میں کراچی بندر کا 35 ایکڑ میں کوٹ (قلعہ) بھی تعمیر ہوچکا تھا، اور مسقط سے توپیں منگوا کر کوٹ کی دیواروں پر جما دی گئی تھیں۔

غلام شاہ کلہوڑو ایک ذہین اور حالات پر گہری نظر رکھنے والا حاکم تھا۔ اس نے جب بندرگاہوں کی یہ صورتحال دیکھی تو زیریں سندھ میں بیوپار کو بڑھاوا دینے کے لیے اس نے 1759 میں شاہ بندر تعمیر کروایا۔ اورنگا بندر جو اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا، وہاں سے بیوپاریوں کو شاہ بندر لے آیا اور ساتھ میں انگریز فیکٹری بھی یہاں لے آیا۔ اس بندر پر میاں غلام شاہ کے پندرہ جہاز کھڑے ہوتے تھے۔ بیوپار اور آمد و رفت بڑھنے کی وجہ سے یہ ایک کامیاب بندر ثابت ہوا۔ یہاں کے کچھی اور بھاٹیا قوم کے بیوپاری، مسقط اور دوسرے ممالک سے بیوپار کرتے تھے۔

1758 میں ایسٹ انڈیا کمپنی یہاں پر اپنی کوٹھیاں کھولنا چاہتی تھی (یہاں انگریزی لفظ فیکٹری کے حوالے سے کچھ ابہام ہے جس کو دور کرنا ضروری ہے۔ فیکٹری کا نام سن کر ذہن میں جو مشینری کا تصور پیدا ہوتا ہے، یہاں ایسا نہیں ہے۔ فیکٹری کو گودام یا بیوپاری کوٹھی کہنا مناسب ہوگا۔ ان کوٹھیوں کے قائم کرنے کا مقصد یہ تھا کہ سندھ میں پیدا ہونے والی زرعی اجناس کے علاوہ چینی، قلمی شورہ اور نیر (Indigo) کو یورپی منڈیوں تک پہنچایا جائے)۔ غلام شاہ نے اس سلسلے میں تین پروانے جاری کیے، جن کے نتیجے میں ٹھٹھہ اور شاہ بندر میں بیوپاری کوٹھیاں کھولنے اور رہائش کی جگہیں بنانے کے مجاز تھے۔

میں نے بڑی کوشش کی کہ ماضی کے اس عظیم الشان بندر کی کوئی ایسی نشانی دیکھنے کو مل جائے جسے دیکھ کر میرے تجسس کی پیاس سے سوکھا گلا تر ہو سکے۔ پر ایسا ہو نہ سکا۔ البتہ مجھے 'جنڈی' (دھان سے چاول بنانے کے لیے ماضی میں اور اب بھی دور دراز دیہاتوں میں دھان کو خشک کرنے کے بعد اسے جنڈی میں پیسا جاتا ہے۔ جنڈی کا ایک اوپر کا پاٹ ہوتا ہے اور دوسرا نیچے والا پاٹ مٹی کا بنا ہوتا ہے۔ اس جنڈی کو 'کمہار' بڑی کاریگری سے بناتا ہے۔ دھان جب جنڈی کے پاٹ سے نکلتی ہے تو اس کا چھلکا اتر جاتا ہے اور وہ چاول کی شکل میں آجاتی ہے) کے بے تحاشا ٹوٹے ہوئے حصے ملے۔

جنڈی کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑے.
جنڈی کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑے.
جام سلمان کا مقبرہ.
جام سلمان کا مقبرہ.
جام سلمان کا مقبرہ.
جام سلمان کا مقبرہ.

میں نے جب مقامی محقق اور کئی کتابوں کے مصنف حافظ حبیب سے جنڈی کے اتنے ٹوٹے ٹکڑوں کے متعلق پوچھا تو جواب میرے لیے بالکل نیا تھا۔ "بندرگاہوں پر دھان کو صاف کرنے کا انتظام ہوا کرتا تھا، چونکہ یہ علاقہ دھان کے حوالے سے بڑا مشہور رہا ہے اور یہاں کے چاول دور دراز ملکوں تک بھیجے جاتے رہے ہیں، اور یہاں کے خوشبودار چاولوں کی نسلیں تو بہت مشہور رہی ہیں، اس لیے ان کو بہت ساری جنوبی سندھ کی بندرگاہوں پر صاف کیا جاتا تھا۔"

1771 میں تالپور اور کلہوڑو خاندانوں کی سیاسی رسہ کشی زوروں پر تھی۔ 1772 میں میاں غلام شاہ کلہوڑو نے اس فانی جہان کو الوداع کہا۔ تخت پر اس کا بیٹا میاں سرفراز خان بیٹھا مگر حالات بہتر نہ ہوسکے۔ 1775 میں ٹھٹھہ اور شاہ بندر کی کاروباری کوٹھیاں بند کردی گئیں۔ 1784 میں کلہوڑوں کی حکومت نے اپنے نصیب کے لکھے دن پورے کیے تو تالپوروں کے بھاگ جاگے اور یوں میر فتح علی خان کو تالپوروں کا پہلا حکمران بننے کا اعزاز ملا۔

میں دور دور تک دیکھتا ہوں تو سرخ اینٹوں اور شوریدہ سیاہ مٹی کے ڈھیر تھے جو بے جان تھے۔ ان ڈھیروں جنڈیوں اور سرخ اینٹوں کے ٹکڑوں میں اس شاہ بندر کے شاندار دن قید ہیں جب یہاں دو سو ٹن اور تین سو ٹن وزن اٹھانے والے جہاز لنگرانداز ہوتے تھے۔ جن کے بادبان گرمیوں اور سردیوں کے موسم میں دور دور سے نظر آتے ہوں گے کہ وقت کے بادشاہ میاں غلام شاہ کلہوڑو کا 'شاہ بندر' ہے، جہاں سے ہزاروں ٹن اشیا آتی اور جاتی ہیں، پر وقت کا کیا ہے، نہ جانے کب آنکھ پھیر دے؟

وہ بدھ 16 جون 1819 کا گرم ترین دن تھا۔ شام کے 6.45 پر سندھ گجرات سرحد پر 7.5 اسکیل کا زلزلہ آیا۔ مرکز گجرات تھا مگر اس کے اثرات گجرات سے لے کر کراچی تک پھیلی ہوئی ساحلی پٹی پر پڑے۔ دریائے سندھ کی قدیم بہتی ہوئی نہروں نے اپنا راستہ تبدیل کر لیا یا پھر زلزلہ کی وجہ سے جو طبعی تبدیلیاں آئیں ان کی وجہ سے ان میں مٹی بھر گئی اور وہ اپنا وجود گنوا بیٹھیں۔ اس زلزلے نے شاہ بندر کے نصیبوں میں ایسی ویرانیاں بھر دیں جن کی فقط ابتدا ہوتی ہے مگر اختتام نہیں۔ نہ جانے یہ ویرانیاں اب کتنی صدیاں یہاں بسیرا کریں گی۔

ایک نامعلوم عورت کی قبر پر قائم چھتری.
ایک نامعلوم عورت کی قبر پر قائم چھتری.
چھتری پر سنگتراشی کا اعلیٰ و منفرد کام کیا گیا ہے.
چھتری پر سنگتراشی کا اعلیٰ و منفرد کام کیا گیا ہے.
چھتری پر سنگتراشی کا اعلیٰ و منفرد کام کیا گیا ہے.
چھتری پر سنگتراشی کا اعلیٰ و منفرد کام کیا گیا ہے.
چھتری پر سنگتراشی کا اعلیٰ و منفرد کام کیا گیا ہے.
چھتری پر سنگتراشی کا اعلیٰ و منفرد کام کیا گیا ہے.

وقت کی سرشت میں بدلنا ہے جسے ہم بدل نہیں سکتے۔ وقت بدل گیا ہے۔ شاہ بندر کا منظرنامہ بدل گیا ہے۔ بس نہیں ٹوٹی تو تسلسل کی ڈوری نہیں ٹوٹی۔ اب بڑے جہاز نہ سہی چھوٹی چھوٹی کشتیاں ہی سہی، بڑے بادبان نہ سہی چھوٹے رنگین کپڑوں کی جھنڈیاں ہی سہی، پر نام نے تو وفا کی چادر کو اب تک اوڑھ رکھا ہے۔ ابھی تک اس لمحے کی لاج کو میلا نہیں ہونے دیا جس پل یہ نام رکھا گیا تھا۔ دو سو برسوں سے سمندر نے بھی منہ نہیں موڑا اور آج تک اس بندرگاہ سے رشتہ جوڑے ہوئے ہے، یہ بڑی بات ہے۔ کبھی کبھی بے جان چیزیں اور اتفاقات ہمیں بہت کچھ سکھا جاتے ہیں۔

"اس علاقے کا قدیم نام جانتے ہیں آپ؟" حافظ حبیب کھٹی نے مجھ سے پوچھا۔ یہ حافظ صاحب کا اچانک سوال تھا۔ میں نے کچھ لمحوں کے لیے شاید بڑی معصوم نگاہوں سے حافظ صاحب کی طرف دیکھا۔ پھر کان کو کھجایا اور گلا بھی صاف کیا۔ ان سب حرکتوں کا مقصد یہ ہی تھا کہ 'جی نہیں۔ مجھے نہیں پتہ'، مگر حافظ صاحب نے یہ الفاظ مجھ سے کہلوائے۔ پھر حافظ صاحب نے اپنی بات مکمل کی، تب میرے علم میں آیا کہ ہم جہاں کھڑے ہیں وہ سمہ سرداروں (کیہروں) کی آزاد ریاست 'ککرالہ' تھی۔

تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ "سندھ پر سمہ سرداروں نے (1519-1351) تک حکومت کی۔ کیونکہ ان کے رشتے دار گجرات اور کچھ کی طرف راجواڑوں کی صورت میں موجود تھے، اس لیے ان کو ہر حوالے سے مدد ملتی رہتی تھی اور اگر یہاں زمین تنگ پڑ جاتی تو یہ وہاں چلے جاتے۔ حکومت کے خاتمے کے بعد دھیرے دھیرے سیاسی حوالے سے جنوبی سندھ میں فقط سمندر کنارے جسے 'ککرالہ' کہا جاتا ہے، اپنی آزاد ریاست قائم کی۔

مرزا باقی بیگ کے زمانہ میں یہاں جام ویسی نے بغاوت کی، جس کو مرزا باقی نے قتل کروا دیا۔ اس کے بعد مرزا غازی بیگ کے زمانے میں ککرالہ کے جام ہالا بن جام ڈیسر نے مرزا غازی کی حکومتی حدود میں لوٹ مار کی جس کی وجہ سے مرزا نے حملہ کیا۔ 1744 میں میاں نور محمد کے زمانے میں بھی ککرالہ کے جام بغاوتیں کرنے سے باز نہیں آئے۔ غلام شاہ کلہوڑو نے اپنی ذہانت سے اس آزاد حکومت کو سندھ حکومت سے ملا دیا۔ شاہ بندر بھی اس ککرالہ کی ساحلی اراضی پر تھا۔"

میں جہاں کھڑا تھا وہ 'ککرالہ' کی ریاست ہوا کرتی تھی۔ میں نے جب ان کے رہنے کے محلوں کا پوچھا تو جواب آیا: "بڑے کوٹ قلعے تھے مگر اب وقت کی دیمک نے کچھ نہیں چھوڑا۔ ان کے دو قبرستان مشہور تھے ایک 'چھٹڑیوں' کے نام سے جانا جاتا ہے جس کو سمندر نے نگل لیا ہے، اس لیے اب وہاں شوریدہ پانی اور ویرانی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ دوسرا 'ابن شاہ ٹکر' کے پاس کچھ مقبرے رہ گئے ہیں۔ وہ دیکھے جا سکتے ہیں۔"

اور ہم نے وہ مقبرہ دیکھا۔ کہتے ہیں کہ کچھ برس تک یہاں چار پانچ مقبرے اور تین چھتریاں تھیں۔ وہاں کے آثار بتاتے تھے کہ مقامی لوگ صحیح کہہ رہے تھے۔ کچھ تو 2002 والے زلزلے میں گر گئے۔ جو کچھ آثار بچے تھے ان کو خزانے کی تلاش والوں نے کھود کر برباد کر ڈالا۔ آثارِ قدیمہ نام کا کوئی ادارہ یہاں نہیں پہنچا۔ اس وقت فقط ایک مقبرہ اور ایک چھتری بچی ہے۔

حافظ حبیب کے کہنے کے مطابق یہ مقبرہ جام سلیمان کا ہے۔ اور چھتری جس پر سنگتراشی کا بڑا اعلیٰ اور منفرد قسم کا کام کیا گیا ہے، کسی عورت کی ہے جس کے متعلق ایک دلچسپ لوک روایت ہے جو اب ان قرب و جوار کے چھوٹے چھوٹے گاؤں میں سردی کی سرد راتوں اور گرمی کی تپتی دوپہروں میں مائیں اپنے بچوں کو سناتی ہیں۔

جس رفتار سے ہم اپنے ماضی کو دونوں ہاتھوں سے برباد کر رہے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ ایک ایسا وقت بھی آئے گا جب گاؤں تو ہوں گے مگر ان سرد راتوں اور تپتی دوپہروں میں ماؤں کے پاس اپنے بچوں کو سنانے کے لیے کوئی ماضی کی کہانی یا قصہ نہیں ہوگا۔ اور یہ کوئی اچھی صورتحال نہیں ہوگی۔

— تصاویر بشکریہ لکھاری۔


حوالہ جات:

  • "لاڑ جی ادبی ائیں ثقافتی تاریخ" از ڈاکٹر غلام علی الانا۔ انسٹیٹیوٹ آف سندھولاجی

  • "کراچی سندھ جی مارئی" از گل حسن کلمتی۔ کاچھو پبلیکیشنز


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے تبصروں سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (24) بند ہیں

Akhtar Hafeez Dec 30, 2015 05:31pm
ek boht hi achi tehrer. zabrdst sir.
Muhammad Abid Bhatti Dec 30, 2015 06:10pm
Sir, all of yours articles are so knowledgeable Thanks alot Sir
Hanif Samoon Dec 30, 2015 06:44pm
Yet another beautiful blog on the "forgotten" history of Sindh. Keep it up dear Shaikh sb.
zafar iqbal Dec 30, 2015 06:45pm
Bohat Acha sain
محمد ارشد قریشی ( ارشی) Dec 30, 2015 07:37pm
بہت معلوماتی اور خوبصورت تحریر۔ لیکن تصاویر دیکھ کر دل بہت افسردہ ہوگیا کیونکہ جب میں نے اس جگہ کو دیکھا تھا اس سے کہیں زیادہ اب خستہ حالی کا شکار ہے ۔خاص طور پر جام سلیمان کے مقبرے کی تصویر دیکھ کر بہت دکھ ہوا ۔ پتہ نہیں متعلقہ محکمے اس قدر لاپرواہی کا شکار کیوں ہیں ۔ اگر یہی بے توجہی رہی تو یہ قیمتی اثاثے ختم ہوتے چلے جائینگے ۔
Ghulam Shabir Laghari Dec 30, 2015 08:19pm
historycal place shah bander par buht khobsorat artical hay...buht pasand Aaya....Ghulam Shabir Laghari
Usman Rahookro Dec 30, 2015 08:27pm
Dawn news par shah bander jis ki veerani par zawal nahen parha ..Abubaker shaikh ne achha likha hay...photoghraphi pehly jesy zabardast thi..nehayat hi achha artical hay.
عبیرہ حسین Dec 30, 2015 08:31pm
بہت محنت سے لکھی گئی ایک تحریر، فاضل مضمون نگار سے درخواست ہے کہ وہ اپنی تمام تحریریں کتابی صورت میں شائع کریں یا اس کی اردو، سندھی اور انگریزی میں الگ سے ویب سائٹ بنائیں۔ ابوبکر صاحب کی تحریریں سندھ کا نوحہ ہے خدا کرے کہ کوئی راہ کھلے اور یہ اہم جگہیں بحال ہوسکیں خواہ ڈیلٹا ہوں، جھیلیں ہوں یا قدیم آثار۔
محمد ارشد قریشی ( ارشی) Dec 30, 2015 08:45pm
@عبیرہ حسین : شیخ صاحب میں عبیرہ حسین کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہوں گا واقعی آپ اس جانب سوچیں اور اپنی تحریروں کو کتابی شکل دے دیں تاکہ وہ لوگ بھی آپ کی تحریروں سے مستفید ہوسکیں جن کی دسترس میں انٹرنیٹ نہیں ہے ۔
ابوبکر شیخ Dec 30, 2015 09:04pm
@عبیرہ حسین ۔۔۔آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے میری تحریروں کو دل کی آنکھوں سے مطالع کیا۔۔۔میں محمد ارشد قریشی صاحب کی ہمت افزائی کا بھی دلی طور پر مشکور ہوں۔۔۔آؤ سب مل کر دعا کریں کہ، کوئی ایسا پبلشنگ کا ادارہ مل جائے جو یہ نیک کام کر سکے۔۔۔میں بھی آپ قدردانوں کی طرح گذارش ہی کر سکتا ہوں کہ، کوئی ادارہ آگے بڑہے اور ان مضامین کا انگلش میں بھی ترجمہ ہو۔ان دونوں زبانوں میں اگر کتابیں تصویروں سمیت شایع ہوجائیں تو مناسب اور بہتر رہے گا۔۔۔۔
Malik Zeeshan Dec 30, 2015 09:44pm
achi tehrer ap ki in tehreron se boht kuch janny ka moka milta hai
samo Shamshad Dec 30, 2015 10:22pm
Great information
avarah Dec 30, 2015 11:19pm
@Malik Zeeshan
avarah Dec 30, 2015 11:20pm
@عبیرہ حسین
Khan Dec 30, 2015 11:59pm
سندھ کے ارباب اختیار سے ایک سوال ہے کہ کیا شاہ بندر کو ترقی دینا ممکن نہیں، اور کیا یہاں ایک بندرگاہ نہیں بن سکتی، کراچی کی بندرگاہوں کی حالت انتہائی خراب ہے، اس لیے سندھ میں ایک اور بندرگاہ کی اشد ضرورت ہے، اگر چہ کچھ انتہائی طاقتور لابیاں اس بات کی مخالفت کرے گی مگر بعد میں رونے کے بجائے ابھی سے اس کی منصوبہ بندی کی جائے، خیرخواہ
abdul latif Dec 31, 2015 12:34am
informative article and pictures are amazing well done
azizullah Dec 31, 2015 02:35am
knowledgeable
Hamid Ali Dec 31, 2015 09:08am
Sir. Beautiful and knowledgeable blog on the forgotten history of sindh.
ارشد حسین Dec 31, 2015 10:59am
شکر ہے کہ کچھ معلوماتی تحریر بھی ہوتی ہیں۔
Amin Khaskheli Dec 31, 2015 11:25am
ابوبکر شیخ صاحب ایک بار پھر لاجواب۔۔۔۔ شکریہ شیخ صاحب
عبیرہ حسین Dec 31, 2015 12:52pm
@ابوبکر شیخ , آپ کا شکریہ کہ جواب دیا۔ کراچی میں سندھیکا اکادمی سے بات کرکے دیکھا جاسکتا ہے۔ اسی طرح فضلی سنز ایسی کتابیں شائع کرسکتا ہے۔ میں یہ کہوں گی کہ انگریزی میں ترجمہ کرکے کتاب کو ای بک کی صورت میں بنائیں اور ایمیزون وغیرہ پر رکھ کر دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ اس عمل کو سیلف پبلشنگ کہتے ہیں۔ لیکن اپنے کام کو ضائع نہ ہونے دیں اسے اگلی نسل کے لیے کسی طرح بچا کر رکھیں اور ویب کے سمندر میں ضائع نہ ہونے دیں۔ والسلام ، عبیرہ ٓٓ
Rana Dec 31, 2015 04:16pm
good work done ... keep it up
ابوبکر شیخ Jan 01, 2016 06:58pm
@عبیرہ حسین ۔۔اگر آپ کراچی میں ہیں تو اس حوالہ سے ضرور مدد کرنا فرمائیے گا۔سندھی ترجمہ تو میں کرلوں گا البتہ ایک اچھا انگریزی ترجمہ کرنے کیلئے مجھے مدد درکار ہوگی۔۔ایک بار مثبت رویہ کیلئے آپ کا شکریہ محترمہ۔۔۔
Saeeda Sager Jan 01, 2016 08:37pm
پر نام نے تو وفا کی چادر کو اب تک اوڑھ رکھا ہے۔ ابھی تک اس لمحے کی لاج کو میلا نہیں ہونے دیا جس پل یہ نام رکھا گیا تھا۔ دو سو برسوں سے سمندر نے بھی منہ نہیں موڑا اور آج تک اس بندرگاہ سے رشتہ جوڑے ہوئے ہے، یہ بڑی بات ہے۔ کبھی کبھی بے جان چیزیں اور اتفاقات ہمیں بہت کچھ سکھا جاتے ہیں۔@ ماشا اللہ،،،،ہمیشہ کی طرح خوبصورت اور بولتے الفاظ،،،،،،دوسرے آرٹیککلز کی طرح یہ بھی عرق ریزی کا مظہر ہے،،،،،،لکھتے رہئے،،،،،،