فطرت کے میوزیم میں مقدس تالاب

سندھ کے انتہائی مشرق میں پاکستان اور ہندوستان کی سرحد کے ساتھ واقع ضلع تھرپارکر بہت سی خصوصیات کا حامل ضلع ہے۔ وہی تھر، جس کے لیے سندھ کے مشہور شاعر شیخ ایاز نے کہا تھا کہ تھر ’’فطرت کا میوزیم ہے۔‘‘

تھر کے شمال میں میرپور خاص اور عمر کوٹ کے اضلاع واقع ہیں، مشرق میں ہندوستان کے بار میر اور جیسلمیر کے اضلاع، مغرب میں بدین اور جنوب میں رن کچھ کا متنازع علاقہ ہے۔ تھرپارکر کا کل رقبہ 19،638 مربع کلومیٹر ہے۔

تھر دلچسپ تاریخی مقامات اور آثار قدیمہ سے بھرا ہوا ہے۔ پرانی مساجد، قدیم مندر، مقبرے، کنویں اور آشرم تھر کی پہچان ہیں جو اپنے اندر صدیوں کی تاریخ سموئے ہوئے ہیں۔ ایسے ہی مقامات میں سے ایک ہندوؤں کا مشہور مندر ’ساڑدھڑو دھام‘ ہے۔

نگر شہر سے ایک نیم پختہ راستہ مندر تک جاتا ہے.
نگر شہر سے ایک نیم پختہ راستہ مندر تک جاتا ہے.
یہ جگہ چاروں جانب سے گرینائٹ کے پہاڑوں سے گھری ہوئی ہے.
یہ جگہ چاروں جانب سے گرینائٹ کے پہاڑوں سے گھری ہوئی ہے.
یہ جگہ چاروں جانب سے گرینائٹ کے پہاڑوں سے گھری ہوئی ہے.
یہ جگہ چاروں جانب سے گرینائٹ کے پہاڑوں سے گھری ہوئی ہے.

نگر تھر کا آخری شہر ہے۔ یہ چھوٹا سا شہر ہے اور چہار جانب گرینائٹ کی سرخ پہاڑیوں سے گھرا ہوا ہے۔

انہی پہاڑیوں کے درمیان میں سے ایک نیم پختہ راستہ بل کھاتا ہوا اس قدیم مندر کی طرف جاتا ہے۔ یہ مندر عین پہاڑیوں کے درمیان میں واقع ہے۔ یہ پہاڑ ننگر پار شہر کے ارد گرد قطار در قطار 16 میل تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کی ایک پہاڑی چوٹی ہزار فٹ اونچی ہے۔ یہاں قدیم آستانوں کے علاوہ خوب صورت جھرنے ہیں، بارش کے بعد یہ جھرنے تلاطم کے ساتھ پتھروں کے درمیان بہہ نکلتے ہیں۔

مندر نگر شہر سے تقریباً پانچ کلومیٹر جنوب مشرق میں واقع ہے۔ تقریباً 700سال پرانی یہ جگہ ہندوؤں کے نزدیک انتہائی مقدس ہے۔ یہ جگہ مندر سے زیادہ ایک چھوٹے سے تالاب کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس تالاب کے ساتھ پجاریوں کی عبادت مکمل کرنے کے لیے ایک مندر بھی موجود ہے۔ گو کہ یہ تالاب کئی سو سال پرانا ہے لیکن یہ مندر حال میں ہی تعمیر کیا گیا ہے۔

مندر چاروں جانب سے پہاڑوں کے درمیان گھرا ہوا ہے.
مندر چاروں جانب سے پہاڑوں کے درمیان گھرا ہوا ہے.
تالاب صدیوں پرانا ہے، مگر مندر حال ہی میں تعمیر کیا گیا ہے.
تالاب صدیوں پرانا ہے، مگر مندر حال ہی میں تعمیر کیا گیا ہے.
تالاب ہندوؤں کے نزدیک مقدس مانا جاتا ہے.
تالاب ہندوؤں کے نزدیک مقدس مانا جاتا ہے.

اس تالاب کے متعلق ہندو کتب میں ایک انتہائی دلچسپ کہانی بیان ہوئی ہے۔

ہندوؤں کے مطابق ’دواپریُگ‘ (دنیا کی عمر کے چار زمانوں میں سے دوسرا زمانہ) کے زمانے میں ایک بزرگ برہمن رِشی جو اس علاقے میں تپسیا کرتے تھے، ان سے ایک گناہ کا کام سرزد ہوگیا۔ بزرگ بہت پچھتائے اور دوسرے رشیوں سے مشورہ کیا کہ کسی طرح اس گناہ کا کفارہ ہوجائے۔ رشی اکٹھے ہوئے اور آخرکار تمام اس بات پر متفق ہوئے کہ صرف ایک کام ہے جس سے اس گناہ کا کفارہ ممکن ہے۔

بزرگ کو مشورہ دیا گیا کہ وہ 68 مقدس تالابوں کا پانی ایک جگہ جمع کر کے اس میں نہائیں تو ان کے گناہ جھڑ سکتے ہیں۔ ان بزرگ نے بڑی محنت اور لمبا عرصہ لگا کر مختلف مقامات سے یہ پانی اس تالاب میں جمع کیا اور اس میں نہائے، اور اس طرح ان کے گناہ معاف ہوئے۔ ہندوؤں کے نزدیک اب جو شخص بھی اس تالاب میں نہائے گا اور یہاں عبادت کرے گا اس کے گناہ معاف ہوجائیں گے۔

مندر کے باہر لگا ہوا بورڈ جس پر سندھی میں یہاں کی تاریخ بیان کی گئی ہے.
مندر کے باہر لگا ہوا بورڈ جس پر سندھی میں یہاں کی تاریخ بیان کی گئی ہے.
مندر کی گھنٹی.
مندر کی گھنٹی.
یہاں لوگ درخت پر اپنی مرادوں کے لیے دھاگے بھی باندھتے ہیں.
یہاں لوگ درخت پر اپنی مرادوں کے لیے دھاگے بھی باندھتے ہیں.
مندر کا اندرونی منظر.
مندر کا اندرونی منظر.
سالہاسال سے یہاں میتوں کی راکھ بہانے کی وجہ سے پانی اب سیاہ ہو چکا ہے.
سالہاسال سے یہاں میتوں کی راکھ بہانے کی وجہ سے پانی اب سیاہ ہو چکا ہے.

ہندو عقیدے کے مطابق اس تالاب کا پانی گنگا ندی کا نعم البدل ہے، اس لیے اس میں فوت شدہ افراد کی استھیاں بھی بہائی جاسکتی ہیں۔ یہاں سال میں دو دفعہ میلہ منعقد کیا جاتا ہے جس دوران پورے ملک سے یاتری یہاں آتے ہیں۔ ایک میلہ بقرعید کے چند دن بعد منعقد ہوتا ہے جبکہ دوسرا میلہ جون کے مہینے میں منعقد ہوتا ہے۔ ان میلوں کی معینہ تاریخیں ہر سال تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔

یہ تالاب چونکہ ہندوؤں کے نزدیک مقدس ہے، اس لیے یاتری اس میں نہاتے اور استھیوں کی راکھ بہاتے ہیں۔ منتظمین کی طرف سے لوگوں کو ہدایات دی جاتی ہیں کہ مندر میں صرف ہڈیاں ڈالیں اور راکھ ڈالنے سے گریز کریں لیکن پجاری راکھ سمیت ہڈیاں اس تالاب میں بہاتے ہیں جس کی وجہ سے تالاب کا پانی سیاہ ہو چکا ہے۔

تھر پارکر میں ایسے دیگر کئی مذہبی مقامات ہیں جن کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے. لیکن ہمارے مطالعے کی کمی اور میڈیا کی تھر کی یک جہت رپورٹنگ کی وجہ سے ہمیں ایسا لگتا ہے جیسے تھر صرف بھوک و پیاس سے بلبلاتے لوگوں کا مسکن ہے جہاں ہر طرف صرف جانوروں کے ڈھانچے بکھرے پڑے ہوں گے.

شیخ ایاز نے درست ہی کہا تھا کہ تھر فطرت کا میوزیم ہے. یہ میوزیم طلبگار ہے تو صرف ایک چیز کا، کہ لوگ یہاں آئیں اور اس کی خوبصورتی، اس کی تاریخ اور اس کی خاموشی میں گم ہو کر واپس جائیں.

— تصاویر بشکریہ لکھاری۔


راشد احمد تھر سے تعلق رکھتے ہیں اور اردو ادب کے طالب علم ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: faroghayurdu@


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے تبصروں سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔