شیر شاہ سوری کی جرنیلی سڑک

اپ ڈیٹ 17 فروری 2016
نئے دور کے ساتھ جہاں جی ٹی روڈ پہلے سے زیادہ صاف اور کشادہ ہے، وہیں اس کے قرب و جوار کے آثارِ قدیمہ اپنا وجود بچانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ — فوٹو طہٰ طاہر/کری ایٹو کامنز۔
نئے دور کے ساتھ جہاں جی ٹی روڈ پہلے سے زیادہ صاف اور کشادہ ہے، وہیں اس کے قرب و جوار کے آثارِ قدیمہ اپنا وجود بچانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ — فوٹو طہٰ طاہر/کری ایٹو کامنز۔

برِ صغیر پاک و ہند کی تاریخ میں گذشتہ ایک ہزار سال کی تاریخ انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ 1001 عیسوی کا آغاز ہندوستان میں محمود غزنوی کے حملوں سے ہوا۔ ہندوستان کی اس ہزار سالہ تاریخ میں غزنوی، لودھی، تغلق، مغل خاندانوں کی حکومتیں آئیں، اور پھر آخر میں برطانوی راج جس کا انجام ہندوستان کی تقسیم پر ہوا۔

سولہوویں صدی میں جب شیر شاہ سوری نے جب ہندوستان میں اپنی حکومت قائم کی تو اس کی ترجیحات میں 2500 کلومیٹر طویل قدیم سڑک جی ٹی روڈ کی تعمیرِ نو تھی، جو کابل سے لے کر کلکتہ تک پھیلی ہے، تاکہ سرکاری پیغام رسانی اور تجارت کو مؤثر اور تیز تر بنایا جائے۔

اس سڑک کے بارے میں روایت ہے کہ اس کا پہلے نام جرنیلی سڑک تھا جو بعد میں انگریزوں کے دور حکمرانی میں بدل کر جی ٹی روڈ یعنی گرینڈ ٹرنک روڈ رکھا گیا۔ سینکڑوں سال قدیم اس سڑک کا گزر کابل سے ہوتا ہوا پہلے لاہور پھر دہلی سے ہو کر بالآخر کلکتہ جا کر ختم ہوتا ہے۔ کابل افغانستان میں حکومتوں کا مرکز رہا دہلی مغل بادشاہوں اور پھر کلکتہ انگریز سرکار کی حکومت کا ہیڈ کوارٹر بنا۔

یہ جرنیلی سڑک اٹھارویں صدی تک نقل و حمل اور تجارتی اعتبار سے انتہائی اہمیت اختیار کر گئی۔ جرنیلی سڑک کا گزر دو ہزار سال سے بھی زائد قدیم تہذیبی مرکز ٹیکسلا سے بھی ہوتا ہے۔ اس سڑک کے کناروں پر مسافروں کی سہولیات کی خاطر جگہ جگہ سرائے بنائے گئے اور سائے کے لیے درختوں سے سجایا گیا۔

شیر شاہ سوری نے مسافروں کی آسانی کی خاطر جرنیلی سڑک پر کم و بیش ہر دو کلومیٹر کے بعد کوس مینار بنائے جو سفر کے دوران مسافروں کی رہنمائی کرتے۔ یہ کوس مینار آج بھی دہلی، کابل اور لاہور کی اس جرنیلی سڑک کے قرب و جوار میں موجود ہیں۔

لاہور کا کوس مینار جو مغلپورہ روڈ پر ریلوے لائن کے ساتھ قائم ہے. تصویر بشکریہ راؤ جاوید اقبال.
لاہور کا کوس مینار جو مغلپورہ روڈ پر ریلوے لائن کے ساتھ قائم ہے. تصویر بشکریہ راؤ جاوید اقبال.
لاہور کا کوس مینار جو مغلپورہ روڈ پر ریلوے لائن کے ساتھ قائم ہے. تصویر بشکریہ راؤ جاوید اقبال.
لاہور کا کوس مینار جو مغلپورہ روڈ پر ریلوے لائن کے ساتھ قائم ہے. تصویر بشکریہ راؤ جاوید اقبال.

لاہور کے گنجان آباد علاقے مغل پورہ میں کراچی پھاٹک کے عقب میں کھڑا یہ قدیم کوس مینار آج بھی ماضی کی یاد تازہ کرتا ہے۔ شیر شاہ سوری کی موت کے بعد جب مغل خاندان نے ہندوستان میں حکومت قائم کی تو بھی اس جرنیلی سڑک کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا گیا۔ اس جرنیلی سڑک کے ساتھ قدیم شہروں کے ساتھ ساتھ نئے شہر، نئی آبادیاں بنتی چلی گئیں۔

اکبر بادشاہ اسی جرنیلی سڑک کے ذریعے حکومتی مرکز لاہور آتا اور پھر اس سڑک کے قریب اکبر بادشاہ کے دور میں ہی لاہور میں دھرم پورہ کا علاقہ آباد کیا گیا جہاں پر حضرت میاں میر بالا پیر کی دربار پر اورنگزیب عالمگیر بھی حاضری کے لیے آتے رہے ہیں۔

کلکتہ پر برطانوی جھنڈا لہرانے کے بعد جب لاہور میں بھی 1849ء میں انگریزوں کی حکومت قائم ہوئی تو یہ جرنیلی سڑک فوجی آمد و رفت اور نقل و حمل کا مرکز بن گئی۔ ہندوستان پر 1857ء میں انگریزوں کے مکمل قبضے کے بعد اسی جرنیلی سڑک کے ساتھ ساتھ ریل کا وسیع تر جال بچھایا گیا۔

جی ٹی روڈ پر جب بھی سفر کا اتفاق ہو تو اکثر و بیشتر مقامات پر ریلوے ٹریک بھی دیکھنے کو ملتا ہے جو سفر کے منظر کو مزید دلکش بنا دیتا ہے۔ وقت بدلتا گیا جرنیلی سڑک جو جی ٹی روڈ بن گئی اس کا روٹ تو نہیں بدلا لیکن جغرافیائی اہمیت بدل گئی۔

وہ وقت گزر گیا جب کابل سے کلکتہ تک بغیر کسی سرحد کے اس روٹ کے تحت حکمران اور عوام سفر کیا کرتے تھے۔ شیر شاہ سوری کو کیا معلوم تھا کہ وہ جو سڑک تعمیر کر رہا ہے، 400 سال بعد اسی سڑک کو اس خطے کی تقسیم کے دوران تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

اب جرنیلی سڑک تین ملکوں میں تقسیم ہے۔ افغانستان، پاکستان اور ہندوستان، تینوں ملکوں کے حصے میں آنے والی یہ جرنیلی سٹرک تو موجود ہے لیکن اس کی شکل بدل گئی ہے اور اس سڑک کے ساتھ ساتھ شاہراہوں کا جدید نظام متعارف ہونے کے بعد یہاں پر آمد و رفت بھی کُچھ کم ہوگئی ہے۔

لاہور سے گزرنے والی جرنیلی سڑک کا نقشہ تو اب بالکل بدل رہا ہے۔ جرنیلی سڑک پر مغل دور کی نشانی شالامار باغ، چوبرجی، مقبرہ دائی انگہ، بدھو کے مقبرے کا وجود خطرے میں ہے۔ دائی انگہ کا مقبرہ جس گلابی باغ میں موجود ہے یہ باغ اب خطرے سے دوچار ہے۔

دائی انگہ سے متعلق تاریخ میں درج ہے کہ یہ شاہ جہاں دور کی مشہور دایہ تھی۔ چوبرجی چوک کا باغ زیب النساء پہلے ہی گمنامی کی تاریخ میں چلا گیا ہے۔ جرنیلی سڑک پر پنجاب کی حکومت اب لاہور میں آبادی کا دباؤ بڑھنے اور سفری سہولیات میں اضافہ کی خاطر چین کی معاونت سے 165ارب روپے کی لاگت سے میٹرو ٹرین بنا رہی ہے۔

لاہور میں صرف ایک کوس مینار باقی بچا ہے، جو بمشکل اپنا وجود قائم رکھے ہوئے ہے. تصویر بشکریہ ہارون خالد.
لاہور میں صرف ایک کوس مینار باقی بچا ہے، جو بمشکل اپنا وجود قائم رکھے ہوئے ہے. تصویر بشکریہ ہارون خالد.

لاہور کے جی ٹی روڈ کے مستقبل سے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن ان تاریخی عمارات پر اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے اپنے تحفظات سے متعلق پنجاب حکومت کو ضرور آگاہ کیا اور پھر حکومت نے دو مہینے بعد جرنیلی سڑک پر موجود ان عمارات کو محفوظ رکھنے کا وعدہ بھی کر دیا لیکن میٹرو ٹرین کا نقشہ نہیں بدلا۔

یہ جرنیلی سڑک جو تین ملکوں کو ملانے والا اہم تجارتی روٹ رہا ہے اس کی اہمیت ماضی میں شاہراہ ریشم سے کم نہیں رہی۔ آج بھی کراچی سے پشاور جانے والے ٹرک و ٹرالر جی ٹی روڈ سے ہی گزرتے ہیں، صنعتی مال اور مصنوعات کی نقل و حرکت اسی جی ٹی روڈ سے ہی ہوتی ہے۔

جی ٹی روڈ کی طرز پر آج چین اقتصادی راہداری کے تناظر میں سڑکوں اور شاہراہوں کا ایسا جال بچھا رہا ہے جس سے ذرائع مواصلات کا نیا نظام متعارف ہوگا، اور ہوسکتا ہے کہ تکمیل کے بعد جی ٹی روڈ کی موجودہ اقتصادی حیثیت اسے حاصل ہوجائے، لیکن جو تاریخی اہمیت جی ٹی روڈ کو حاصل تھی اور ہے، وہ کسی اور شاہراہ کو حاصل نہیں ہو سکتی۔

تبصرے (6) بند ہیں

عدنان Feb 16, 2016 05:11pm
بہت اعلی ، اکمل صاحب
ATTA ELAHI advocate Feb 16, 2016 05:35pm
حقائق میں تضاد ھے مزید معلومات کیلئے محترم رضا علی عابدی کی تصنیف "جرنیل سڑک " کا مطالعہ ضرور کریں
tariq kazmi Feb 16, 2016 06:17pm
آپ نے جی ٹی روڈ پر ٹیکسلا کے پاس اس محفوظ روڈ کا زکربھی کرنا تھاجو آج تک اصل حالت میں محفوظ ھے۔۔۔
Rao Jamil Ahmed Feb 16, 2016 09:33pm
Very useful info about our historical road
zafar Feb 16, 2016 09:33pm
kos menar lahore main kis moqam par hay
محمد ارشد قریشی ( ارشی) Feb 16, 2016 10:47pm
بہت عمدہ اور معلوماتی تحریر ، بی بی سی اردو سروس سے معروف براڈکاسٹر رضا علی عابدی صاحب نے اس بارے میں متعد پروگرام کئے تھے