پاکستان کی ٹی ٹوئنٹی تاریخ کے دو ادوار

پاکستان کی ٹی ٹوئنٹی تاریخ کے دو ادوار

عمیر قاضی

پاکستانی ٹیم کی ٹی ٹوئنٹی میں کارکردگی کو آسانی سے دو مرحلوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، جس میں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2010 کے سیمی فائنل میں مائیکل ہسی کی سعید اجمل پر چڑھائی فیصلہ کن لمحہ ثابت ہوئی۔

اگر آپ 2010 کے سیمی فائنل تک تمام ٹیموں کی بین الاقوامی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کارکردگی کا جائزہ لیں، تو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ پاکستان ٹی ٹوئنٹی میں سب پر غالب تھی۔

ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں پاکستان کے پاس سب سے زیادہ فتوحات تھیں، اِن کا جیت اور ہار کا تناسب بہترین تھا، اِنہوں نے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے تین میں سے دو فائنلز کھیلے جن میں سے ایک میں فتح بھی نصیب ہوئی۔ ٹیم تیسرا فائنل بھی کھیل لیتی اگر 2010 میں مائیکل ہسی سپر ہیرو کی طرح جارحانہ کارکردگی نہ دکھاتے۔

سینٹ لوشیا میں اُس بدقسمت دن کے بعد سے پاکستان ٹی ٹوئنٹی کرکٹ اب ویسی نہیں رہی۔ اُن کی کارکردگی نمایاں طور پر متاثر ہوئی ہے اور اُن کی جیت اور ہار کا تناسب بھی بہت کم ہو گیا ہے۔ اسی دوران دوسری ٹیموں جیسے ہندوستان اور نیوزی لینڈ کی ٹی ٹوئنٹی کارکردگی میں پچھلے پانچ سال کے دوران نمایاں طور پر بہتری نظر آئی ہے۔

اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2016 سے چند دن قبل تک پاکستان نے جس کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، وہ ہماری مشکلات کا خلاصہ ہے۔

کبھی پاکستانی ٹیم کے لیے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے یہ ٹی ٹوئنٹی کے لیے سب سے موزوں اور قدرتی ٹیم ہے، اور اب شکست پر شکست کے بعد یہ تاثر دم توڑتا نظر آتا ہے۔ پاکستان نے حال ہی میں انگلینڈ اور نیوزی لینڈ سے شکست کھائی ہے جبکہ ایشیا کپ ٹی ٹوئنٹی میں بھی بدترین ناکامی کا منہ دیکھا ہے۔

اس زوال کی وجوہات بہت ساری ہیں، لیکن سب سے اہم وجہ ابتدائی 3 بیٹسمین کی کارکردگی ہے۔

گذشتہ ڈیڑھ سال میں پاکستان کے ابتدائی بیٹسمین دنیا کے بدترین بیٹسمین میں شامل ہیں۔ اُن کی اوسط اور اسٹرائیک ریٹ پر اگر 2015 کی شروعات سے نگاہ دوڑائی جائے، تو اداسی چھا جاتی ہے۔

یہاں سب سے بڑا مسئلہ محمد حفیظ کی موجودگی ہے۔ اگرچہ 'پروفیسر' گذشتہ دو سالوں سے ٹیسٹ اور ون ڈے میچز میں شاندار کارکردگی دکھا رہے ہیں، لیکن ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں ان کی کارکردگی کچھ خاص نہیں ہے۔

اس فارمیٹ میں پچھلے دو سالوں اور 21 اننگز میں صرف 14 کی اوسط اور صرف 1 بار پچاس سے زائد کا اسکور ان کی ٹاپ آرڈر میں موجودگی کا جواز نہیں بن سکتا۔ یہ اس بات کی ایک واضح مثال ہے کہ کس طرح پاکستان کے سلیکٹرز اور ٹیم انتظامیہ مختلف فارمیٹس میں کارکردگی کے درمیان فرق کرنے میں ناکام ہیں۔

محمد حفیظ کی ٹیسٹ اور ون ڈے میں موجودگی پر کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا، مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ ٹی ٹوئنٹی بھی کھیلیں۔

پاکستان کی تنزلی کی ایک اور اہم وجہ کپتان شاہد آفریدی کی کارکردگی بھی ہے۔

اس پر دو رائے ہو سکتی ہیں کہ وہ ٹی ٹوئنٹی میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے بہترین کھلاڑی ہیں، مگر پچھلے دو سال سے آفریدی کی کارکردگی پہلے جیسی نہیں ہے۔

ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2007 کے پلیئر آف دی ٹورنامنٹ اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2009 کے سیمی فائنل اور فائنل کے مین آف دی میچ کچھ عرصے سے اپنی کارکردگی بحال نہیں کر پا رہے اور اب وہ اپنے ماضی کی ایک پرچھائی بن کر رہ گئے ہیں۔

آفریدی اور حفیظ دونوں کا فارم میں آنا، پاکستان کی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں کامیابی کے لیے بہت ضروری ہے۔ یہ اہم کھلاڑی ہیں اور اگر ان کی کارکردگی عروج پر ہو تو پاکستان میچ جیتتا ہے۔ پاکستانی ٹیم میں ان کی اہمیت جاننے کے لیے زیادہ دور جانے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ یہ جنوری کی بات ہے کہ جب نیوزی لینڈ میں محمد حفیظ نے 61 رنز بنائے اور آفریدی نے مین آف دی میچ والی کارکردگی دکھا کر 8 گیندوں پر 23 رنز بنائے، 2 وکٹیں، 4 کیچز اور ایک رن آؤٹ کر کے پاکستان کو اُس دورے کی واحد فتح سے ہمکنار کیا۔

ان دو سینئر کرکٹرز کے علاوہ پاکستان کی بیٹنگ کا دار و مدار شعیب ملک، عمر اکمل اور سرفراز احمد پر بھی ہوگا جو پچھلے سال سے اب تک ٹی ٹوئنٹی کے لیے مضبوط فارم میں نظر آ رہے ہیں۔ پاکستان کے ٹاپ تین بیٹسمینوں کی ناکامی کے باوجود مڈل آرڈر اتنا بھی برا نہیں ہے۔

تاہم اس بات کو یقینی بنانا کہ اِن میں سے ہر بلے باز اپنی پوری صلاحیت کو بروئے کار لائے، پاکستان کو اپنا بیٹنگ آرڈر درست کرنا پڑے گا، جو بالترتیب سرفراز، عمر اور ملک 3,4 اور5 ہونا چاہیے۔

پاکستان کی باؤلنگ اس وقت محمد عامر، محمد عرفان، وہاب ریاض اور شاہد آفریدی کے محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ محمد سمیع (انجری کا شکار اور بنگلہ دیش کے خلاف میچ سے باہر) اور انور علی ٹیم سے جتنا زیادہ دور ہوں گے، اتنا ہی اچھا ہوگا۔

شعیب ملک کو مزید باؤلنگ کروانی چاہیے اور اگر اگر عماد وسیم اور محمد نواز کو شامل کیا جائے تو اسپن کا شعبہ مزید مضبوط کیا جاسکتا ہے۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان کو ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں ایک بہت بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ اُن کے گروپ میں میزبان ہندوستان، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور بنگلہ دیش شامل ہیں، اور یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے ہندوستان کو چھوڑ کر باقی حریفوں سے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں اتنے میچز ہارے نہیں جتنے جیتے ہیں۔

پاکستان کے حق میں ایک اور عنصر یہ ہے کہ ان کی کارکردگی نہایت غیر متوقع ہے، اور یہ کسی بھی وقت جیت سکتے ہیں۔ اگرچہ ایسا آئی سی سی کے پچھلے دو عالمی مقابلوں میں نہیں ہوا، مگر بڑے ٹورنامنٹس میں ٹیم اچانک پلٹ کر حملہ بھی کر سکتی ہے۔

اِن کے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی ریکارڈ سے بہتر صرف ہندوستان اور سری لنکا کا ہے، اور سوائے پچھلے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے جو 2014 میں ہوا تھا، پاکستان نے باقی تمام ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کپس کے سیمی فائنل میں رسائی حاصل کی ہے۔

ہندوستان کی شاندار ٹی ٹوئنٹی فارم اور ہوم گراؤنڈ کا فائدہ ہوتے ہوئے یہ پاکستان، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور بنگلہ دیش کے درمیان سیمی فائنل تک کی رسائی کے لیے ایک مشکل دوڑ ہوگی۔

نیوزی لینڈ اور بنگلہ دیش فی الوقت اپنی بہترین کرکٹ کھیل رہے ہیں، جبکہ آسٹریلیا حال ہی میں جنوبی افریقا کے خلاف سیریز جیت کر اس فارمیٹ میں اپنے قدم پختہ کر رہا ہے جہاں اُنہوں نے ابھی تک اپنا غلبہ حاصل نہیں کیا۔

حالیہ کارکردگی دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی جیت کے امکانات تاریک ہیں؛ ان کی حالیہ کاکردگی بھی اوسط معیار کی ہے، اور اِن کے اہم کھلاڑی بھی صحیح طرح نہیں کھیل پا رہے۔ لیکن اگر یہ اپنی ٹیم کے ساتھ بیٹنگ لائن اپ بالکل شروع سے بہتر کرلیں تو یہ میدان میں تباہی مچا سکتے ہیں، جس طرح انہوں نے ماضی میں کیا تھا۔



عمیر قاضی wellpitched.com کے بانی، اور بوائز ان گرین نامی مشہور فیس بک گروپ کے شریک بانی ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: wellpitched@