بھٹ شاہ: راگ و رنگ کی منفرد دنیا

بھٹ شاہ: راگ و رنگ کی منفرد دنیا

اختر حفیظ

زندگی کے بعض سفر ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں نہ تو پاؤں تھکتے ہیں، نہ دل بیزار ہوتا ہے اور نہ ہی آنکھوں کو منزل دیکھنے کی جلدی ہوتی ہے۔ بلکہ دھیرے دھیرے سے منزل کی جانب بڑھتے ہوئے قدم اس راستے پر ہی چلتے رہنا چاہتے ہیں۔

میرا سفر جس مقام کی جانب جاری تھا، وہاں ہر سال ہزاروں لوگ، عقیدت مند اور دنیا کے جھمیلوں سے بیزار انسان آتے ہیں۔ وہ وہاں ایک ایسے سکون کے متلاشی ہوتے ہیں، جو انہیں زندگی کی گہماگہمی میں میسر نہیں ہے۔

میرے اس دن کے سفر کی منزل تھی بھٹ شاہ۔ ایک ایسی جگہ جہاں ایک عظیم مفکر شاعر اور صوفی ابدی نیند سو رہا ہے، جس نے سارے عالم کو آباد رہنے کی دعا کی ہے۔

شاہ عبداللطیف بھٹائی کلہوڑا دور کے شاعر تھے۔ کلہوڑا دور کو سندھ میں علمی و ادبی حوالے سے ایک بہتر دور مانا جاتا ہے۔

وہ محض ایک شاعر نہیں تھے، بلکہ انہوں نے اپنے کلام میں جو باریکیاں اور جمالیاتی پہلو بیان کیے ہیں، وہ آج بھی انہیں ایک مفکر اور جدید شاعر کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

شاہ عبداللطیف بھٹائی کا مزار حیدرآباد سے ایک گھنٹے کے فاصلے پر ہے۔— تصویر اختر حفیظ
شاہ عبداللطیف بھٹائی کا مزار حیدرآباد سے ایک گھنٹے کے فاصلے پر ہے۔— تصویر اختر حفیظ

ان کے مزار پر دنیا بھر سے لوگ حاضری دینے کے لیے آتے ہیں۔— تصویر اختر حفیظ
ان کے مزار پر دنیا بھر سے لوگ حاضری دینے کے لیے آتے ہیں۔— تصویر اختر حفیظ

ان کی ولادت 1689 میں ہالا حویلی میں ہوئی، جبکہ ان کی رحلت 1752 میں ہوئی۔ سندھ میں اس زمانے میں رائج فارسی زبان سے بغاوت کرتے ہوئے انہوں سندھی زبان کو ہی اہم سمجھا، اور اسی زبان میں شاعری کر کے سندھی زبان کو نہ صرف ایک نئی زندگی بخشی، بلکہ یہ بھی ثابت کر دکھایا کہ سندھی زبان کمتر نہیں بلکہ اظہار کے لیے ایک بہت ہی اعلیٰ زبان ہے۔

ان کے ایک بیت کی سطر ہے کہ ”اگر تم نے فارسی سیکھی تو تم غلام ہی رہ جاؤ گئے“.

شاہ سائیں کے شاعری کی سورمیاں (ہیروئن) عورتیں ہی ہیں۔ سسی، مارئی، مومل، سوہنی، نوری، یہ سب وہ کردار ہیں جن کو انہوں نے اپنی شاعری میں بیان کرکے امر کر دیا ہے۔ انہوں نے مرد کے بجائے اپنے کلام کے اظہار کے لیے عورتوں کا انتخاب کیا ہے، تاکہ معاشرے کو اس بات کا احساس دلایا جا سکے کہ عورت جسے ہم کمتر سمجھتے ہیں وہ کسی بھی طرح کمتر نہیں، بلکہ ہمت، حوصلے، رومان اور مشکلات کا سامنا کرنے کی علامت ہے۔

مزار کے احاطے میں نذر و نیاز اور چادروں کی کئی دکانیں ہیں۔— تصویر اختر حفیظ
مزار کے احاطے میں نذر و نیاز اور چادروں کی کئی دکانیں ہیں۔— تصویر اختر حفیظ

یہاں وہ لوگ بھی سکون پاتے ہیں جنہیں معاشرہ ٹھکرا چکا ہے۔— تصویر اختر حفیظ
یہاں وہ لوگ بھی سکون پاتے ہیں جنہیں معاشرہ ٹھکرا چکا ہے۔— تصویر اختر حفیظ

انہوں نے جس طرح اپنے سُروں میں ان عورتوں کے قصے بیان کیے ہیں، وہ جب شعر کی صورت میں آتے ہیں تو ان کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ عشق کے قصے، وطن سے محبت، محنت کش لوگوں کی باتیں، کسی نیک مقصد کے لیے مر مٹنا، یہ سب باتیں ان کے کلام کی روح ہیں۔

سندھ میں درگاہیں ہی ایسے مقامات ہیں جہاں عورت اپنے آپ کو آزاد محسوس کرتی ہے، جہاں اس کے رقص کو بد پیشہ نہیں سمجھا جاتا، جہاں اس کی دھمال ایک خراج سمجھی جاتی ہے۔ سندھ کی اکثر درگاہوں اور مزاروں پر کئی ایسے درد کے مارے مل جاتے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے درد کی دوا ان بزرگوں یا صوفیوں کی چوکھٹ کے باہر نہیں ہے، جہاں نہ کسی کا مسلک پوچھا جاتا ہے نہ ہی مذہب۔ بھٹ شاہ میں بھی ایسا ہی سماں دکھائی دیتا ہے۔

مجھے اس روز طنبورے کی تاروں سے آلاپ پیدا کرنے والے شاہ لطیف کے ان فقیروں سے ملنا تھا جو برسوں سے بھٹ شاہ کو اپنے آواز کے جادو سے آباد کیے ہوئے ہیں۔

جب وہ شاہ سائیں کے کلام کو گاتے ہیں اور طنبورے کے تاروں کو چھیڑ کر آلاپ پیدا کرتے ہیں، تو وہ کانوں میں رس گھولنے لگتا ہے۔ ایسے کئی وجود ان کے کلام کو سن کر چند لمحوں کے لیے ہی سہی، سکون ضرور پاتے ہیں۔

شاہ عبداللطیف بھٹائی کے مزار پر لوک فنکار 24 گھنٹے ان کا کلام گاتے ہیں۔— تصویر اختر حفیظ
شاہ عبداللطیف بھٹائی کے مزار پر لوک فنکار 24 گھنٹے ان کا کلام گاتے ہیں۔— تصویر اختر حفیظ

شاہ عبداللطیف بھٹائی کے مزار پر لوک فنکار 24 گھنٹے ان کا کلام گاتے ہیں۔— تصویر اختر حفیظ
شاہ عبداللطیف بھٹائی کے مزار پر لوک فنکار 24 گھنٹے ان کا کلام گاتے ہیں۔— تصویر اختر حفیظ

مزار پر موجود گلوکار کئی نسلوں سے یہ فن سنبھالے ہوئے ہیں۔— تصویر اختر حفیظ
مزار پر موجود گلوکار کئی نسلوں سے یہ فن سنبھالے ہوئے ہیں۔— تصویر اختر حفیظ

بھٹ شاہ راگ رنگ کی ایسی دنیا ہے جس میں محبوب سے بچھڑنے کا غم بھی ہے تو محبوب پر قربان ہونے کے حوصلے کا ذکر بھی ملتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ شاہ سائیں کا کلام کسی بھی رنگ میں ہو، وہ دل میں ہی اتر جاتا ہے۔

طنبورہ بظاہر تو ایک ساز ہے جو کہ پانچ تاروں کا مرکب ہے، مگر ان تاروں پر جب فقیروں کی انگلیاں حرکت کرتی ہیں تو چاہے آپ ذہنی طور دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں، مگر طنبورے کی تار کو چھیڑنے والے فقیر جیسے آپ کے من کی تار کو چھیڑ لیتے ہیں، اور اگر کوئی من کی تار کو چھیڑ لے تو اندر کے سُر اور آلاپ خوبخود بجنے لگتے ہیں۔

طنبورے کا حصہ اڈی اور جھل، جو اونٹ اور ہرن کی ہڈیوں سے بنتا ہے۔— تصویر اختر حفیظ
طنبورے کا حصہ اڈی اور جھل، جو اونٹ اور ہرن کی ہڈیوں سے بنتا ہے۔— تصویر اختر حفیظ

طنبورے میں ہاتھی دانت کا استعمال بھی ہوتا ہے۔— تصویر اختر حفیظ
طنبورے میں ہاتھی دانت کا استعمال بھی ہوتا ہے۔— تصویر اختر حفیظ

طنبورے میں لگی ان پانچ تاروں کی کہانی بہت دلچسپ ہے۔ ہر ایک تار کا اپنا اپنا فلسفہ ہے۔

طنبورے میں استعمال ہونے والی پانچ تاروں میں سے دو کو 'جاڑیوں' یعنی جڑواں کہا جاتا ہے، یعنی انسان کو جوڑے کی صورت میں تخلیق کیا گیا ہے اس لیے یہ دو تاریں مرد اور عورت یا نر اور مادہ کو بیان کرتی ہیں۔

اس کے بعد ایک تار ہے جس کا نام 'زبان' ہے، زبان کی معنی ہیں کسی سے بات کرنا یا وعدہ کرنا۔ جبکہ چوتھی تار کو 'گھور' کہا جاتا ہے، جس کا مفہوم قربان ہونا ہے۔ یعنی اگر آپ کسی کو زبان دیتے ہیں تو آپ اس پر قربان ہو جائیں۔ جبکہ طنبورے کی آخری تار کو 'ٹیپ' کہا جاتا ہے۔ ٹیپ کا سندھی زبان میں مطلب سزا آنا ہے۔ اگر آپ وعدہ خلافی کرتے ہیں، قربانی نہیں دے سکتے ہیں، تو پھر آپ سزا کے حقدار ہیں اور یہ سزا آپ پر لازم ہے۔

منٹھار فقیر کئی برسوں سے طنبورے بنا رہے ہیں اور انہوں نے طنبورے میں جدت بھی پیدا کی ہے۔ جہاں کسی زمانے میں یہ بنا کیلوں کے نہیں بنتا تھا، آج منٹھار فقیر اسے بنا کیل لگائے تیار کرتے ہیں۔ وہ شیشم، ساگوان اور دیال کی لکڑی سے اسے بناتے ہیں۔

طنبورے کے مختلف حصے ہیں۔ تھاری، گٹیوں، اڈی، جھل، سنگ، گُلو، جھوڑ، بھانڈی، چھلو، گھوڑی، پس تند، یہ سب چیزیں مل کر ایک طنبورے کو جنم دیتی ہیں۔ منٹھار فقیر نہ صرف طنبورے بناتے ہیں، بلکہ وہ بھٹ شاہ پر راگ بھی گاتے ہیں۔ انہوں نے اپنے بیٹے اور اپنی بیٹی کو بھی اسی موسیقی کی تربیت دی ہے مگر اب تک ان کی بیٹی منظر عام پر نہیں آئی ہے۔

اگلے حصے کو گٹیوں کہا جاتا ہے، جس سے تاروں کو کسا جاتا ہے۔— تصویر اختر حفیظ
اگلے حصے کو گٹیوں کہا جاتا ہے، جس سے تاروں کو کسا جاتا ہے۔— تصویر اختر حفیظ

گھوڑی کہلانے والا حصہ۔— تصویر اختر حفیظ
گھوڑی کہلانے والا حصہ۔— تصویر اختر حفیظ

تھاری اور بھانڈی کہلانے والا حصہ۔— تصویر اختر حفیظ
تھاری اور بھانڈی کہلانے والا حصہ۔— تصویر اختر حفیظ

یہ عجب سی بات ہے کہ جس شاعر کے کلام کی مرکزی کردار عورتیں ہیں، اس مخصوص راگ کو گانے والی کوئی عورت نہیں ہے بلکہ سب مرد ‎حضرات ہیں۔

جس جگہ پر شاہ سائیں کی موسیقی گانے والے فقیر بیٹھتے ہیں، ان میں سے استاد بیچ میں ہوتا ہے۔ ایک گروپ پانچ سے سات لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ استاد جس جگہ بیٹھا ہوتا ہے اسے ”اڈی“ کہا جاتا ہے، یعنی یہ جگہ اس کے قربان ہونے کی ہوتی ہے کیونکہ وہ اس وقت سپہ سالار ہوتا ہے۔

شاہ لطیف کے راگ میں دو اہم آلاپ ہوتے ہیں، ایک 'کڑی' جبکہ دوسرا 'جھونگار' کہلاتا ہے۔ کڑی اوپر والی سطح کی آواز ہوتی ہے، جبکہ جھونگار ہلکی سطح کی آواز ہے اور اس طرح یہ آلاپ تبدیل بھی ہو رہے ہوتے ہیں۔

استاد جڑیل فقیر پچھلے 45 برسوں سے بھٹ شاہ میں اپنے آواز کے جادو سے سحر طاری کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ”اس راگ میں مجھے سکون ملتا ہے۔ میں نے بچپن سے جیسے ہی طنبورے کو ہاتھ میں پکڑا ہے، تب سے میں اس کی تاروں کو چھیڑ کر سُروں کی دنیا سے جڑ گیا ہوں اور اب یہی میرا مقصد ہے کہ میں اس راگ کو گاتا رہوں۔“

انہوں نے اپنے شاگرد بھی پیدا کیے ہیں۔ اس وقت بھٹ شاہ پر 101 گلوکار ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شاہ لطیف کے ہر سُر کو گانے کے لیے مخصوص پہر مقرر کیے گئے ہیں۔

رات کو پورب، یمن کلیان، کھمبھات اور دیگر سر گائے جاتے ہیں، جبکہ صبح کو مارئی، بلاول، آسا، رپ اور رامکلی گائے جاتے ہیں۔ محرم الحرام میں صرف کیڈارو سُر گایا جاتا ہے، جو کہ اہلِ بیت پر ہونے والے مظالم کی داستان پر مشتمل ہے۔

مزار ایک جھیل کنارے واقع ہے، جس کے کنارے بیٹھ کر شاہ سائیں مراقبہ کیا کرتے تھے۔— تصویر اختر حفیظ
مزار ایک جھیل کنارے واقع ہے، جس کے کنارے بیٹھ کر شاہ سائیں مراقبہ کیا کرتے تھے۔— تصویر اختر حفیظ

مشہور سندھی شاعر شیخ ایاز کی قبر۔ شیخ ایاز نے شاہ عبداللطیف بھٹائی کا منظوم اردو ترجمہ بھی کیا ہے۔— تصویر اختر حفیظ
مشہور سندھی شاعر شیخ ایاز کی قبر۔ شیخ ایاز نے شاہ عبداللطیف بھٹائی کا منظوم اردو ترجمہ بھی کیا ہے۔— تصویر اختر حفیظ

— تصویر اختر حفیظ
— تصویر اختر حفیظ

اب میرے واپس لوٹنے کا وقت تھا، مگر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ بھٹ شاہ جانے کے بعد شاہ سائیں کے پہلو میں لیٹے ہوئے سندھی زبان کے ایک اور عظیم شاعر شیخ ایاز کی حاضری نہ بھری جائے۔ مجھے انہیں بھی سلام کرنا تھا۔ جنہوں نے شاہ عبداللطیف کے بعد سندھی شاعری کو اتنا مالا مال کیا ہے کہ سندھی ادب میں دوسرے شیخ ایاز کو پیدا ہونے میں صدیاں لگ جائیں گی۔

کراڑ جھیل کنارے ان کا مزار خاموشی کی چادر میں لپٹا ہوا تھا۔ اور انہی کے اشعار میرے ذہن کے دروازے پہ دستک دینے لگے۔ شام کے سائے بھٹ شاہ پر لہرائے، لوگوں کی آمد پھر بھی جاری تھی۔

اب سورج غروب ہونے کو تھا۔ میں نے حیدرآباد کو رخ کیا، ایک ایسی نگری کو خیرباد کیا جو سُر و ساز اور آلاپ میں ڈوبی ہوئی تھی۔ جہاں سکون تھا، راحت تھی اور شاہ کے فقیروں کی ایک ایسی دنیا آباد تھی جہاں آپ خود کو کھو کر بھی بہت کچھ پا سکتے ہیں۔


یہ بلاگ ابتدائی طور پر 27 مئی 2016 کو شائع ہوا۔


اختر حفیظ سندھی زبان کے افسانہ نگار اور صحافی ہیں، اور ایک سندھی روزنامے میں کام کر ریے ہیں۔ ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے تبصروں سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے.