بلڈ شوگر کنٹرول میں رکھنے کے لیے 7 بہترین غذائیں

ذیابیطس سے نمٹنے کے لیے اس کی جلد تشخیص بہت ضروری ہے۔ عام اور قدرے سستا بلڈ ٹیسٹ مرض کی موجودگی کی تصدیق کر سکتا ہے۔ — کری ایٹو کامنز
ذیابیطس سے نمٹنے کے لیے اس کی جلد تشخیص بہت ضروری ہے۔ عام اور قدرے سستا بلڈ ٹیسٹ مرض کی موجودگی کی تصدیق کر سکتا ہے۔ — کری ایٹو کامنز

عالمی ادارہ صحت کی حالیہ تحقیق کے مطابق،''چار دہائیوں سے بھی کم عرصے میں دنیا بھر میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد میں چار گنا اضافہ ہوا ہے''۔ اس وقت دنیا بھر میں 44 کروڑ 22 لاکھ افراد اس مرض میں مبتلا ہیں اور یہ تعداد اگلے بیس سالوں میں دگنی ہونے کی توقع ہے۔ تحقیق کار اس چیز کی نشاندہی کرتے ہیں کہ دنیا میں معمر آبادی اور موٹاپے کی بڑھتی سطح، ''عالمی صحت عامہ کا بڑھتا ہوا مسئلہ ہے۔''

حالانکہ اس بات کے شواہد بھی موجود ہیں کہ صحت بخش غذا، باقاعدگی سے جسمانی سرگرمی، وزن کو نارمل رکھنے اور تمباکو نوشی سے اجتناب جیسی عادات سے ذیابیطس کے بہت سارے کیسز اور ان کی پیچیدگیوں سے محفوظ رہا جاسکتا ہے، مگر زیادہ تر ان عادات پر عمل ہی نہیں کیا جاتا۔

تحقیقات بتاتی ہیں کہ جن بچوں میں ذیابیطس کا خطرہ لاحق رہتا ہے ان میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ پچھلی کچھ دہائیوں میں ذیابیطس سے ہونے والی 80 فیصد سے زائد اموات کم اور متوسط آمدن والے ملکوں میں ہوئیں۔

پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں موٹاپے، ذیابیطس، کینسر اور امراض قلب جیسی بیماریوں میں بڑی سطح پر اضافہ ہوا ہے جبکہ ان امراض کو پہلے مغربی طرز زندگی کی بیماریوں کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔

اس کثیر اضافے کے پیچھے بڑی وجہ دباؤ اور زیادہ غیر متحرک طرز زندگی اور اس کے ساتھ ساتھ جسمانی سرگرمی جیسے واکنگ اور سائیکلنگ میں کمی ہونا ہے۔ ذیابیطس مرض میں اضافے کا ایک اور اہم عنصر روایتی اور غذائیت سے بھرپور خوراک کے بجائے زیادہ کیلوریز والی خوراک کا استعمال اور فاسٹ فوڈ کا بڑھتا ہوا رجحان ہے۔

پاکستان میں لوگوں اور خاندانوں میں ذیابیطس اور اس کی پیچیدگیوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ جن کی وجہ سے ہماری معیشت اور ہمارے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

ذیابیطس سے مقابلہ کرنے کے لیے عوامی اور نجی سیکٹر کی سطح پر پالیسیاں اور پارٹنر شپس بنانے کی ضرورت ہے جن کے ذریعے عوام کے درمیان آگاہی فراہم کرنے کے لیے صحت عامہ کی مہم جیسے اقدامات اٹھائے جائیں، خاص طور پر ان لوگوں کے درمیان جنہیں ذیابیطس اور اس کی پیچیدگیوں کا خطرہ لاحق ہے۔

لیکن سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ آخر ذیابیطس ہے کیا؟ یہ ایک دائمی مرض ہے جو یا تو تب ہوتا جب ہمارا لبلبہ کافی مقدار میں انسولن بنانا بند کردے یا جب ہمارا جسم لبلبے سے بننے والی انسولن کو مؤثر انداز میں استعمال نہ کر پاتا ہو۔

ایک مدت تک ذیابیطس بے روک ہونے کے نتیجے میں عام طور پر ہائپر گلے میشیا یا بلڈ شوگر بڑھ جاتا اور ایک وقت کے بعد یہ آپ کے دل، بلڈ ویسلز یا خونی عروق، آنکھوں، گردوں اور اعصاب جیسے جسمانی نظاموں کو کافی حد تک نقصان پہنچاتا ہے جو دائمی مسائل اور موت کا سبب بنتا ہے۔

اس کے علاوہ خون کا کم بہاؤ، پیروں میں نیوروپیتھی (نسوں کا کمزور ہونا) پیر میں السر اور انفیکشن کے خطرے کو بڑھا دیتا ہے جس وجہ سے پیر کاٹنے کی بھی نوبت آ جاتی ہے۔

ذیابیطس کے باعث ہونے والی ریٹینو پیتھی (آنکھوں کی بیماری) اندھے پن کی ایک اہم وجہ بنتی ہے۔ یہ بیماری لمبے عرصے سے ریٹینا کے چھوٹے بلڈ ویسلز کو پہنچنے والے نقصان کی وجہ ہوتی ہے۔ دنیا میں نابینائی کی ایک فیصد وجہ ذیابیطس سے منسوب کی جاسکتی ہے۔

ذیابیطس دو اقسام کی ہوتی ہیں: ٹائپ 1 اور ٹائپ 2 ذیابیطس۔

ٹائپ 1 ذیابیطس (جسے پہلے انسولن ڈیپینڈنٹ، جونیوائل یا چائلڈ ہوڈ آن سیٹ کہا جاتا تھا) جس میں انسولن کی پیداوار میں کمی ہوجاتی ہے اور اس لیے روزانہ انسولن لینے کی ضرورت پڑتی ہے۔ ٹائپ 1 کی وجہ معلوم نہیں ہوتی اس لیے اس سے محفوظ نہیں رہا جاسکتا، پھر بھی ایسا سوچا جاتا ہے کہ یہ مرض جنیاتی اور ماحولیاتی عناصر کے امتزاج کے نتیجے میں جنم لیتا ہے۔

اس کی علامات میں زیادہ پیشاب آنا، پیاس لگنا، مسلسل بھوک کا لگنا، وزن کم ہونا، نظر میں تبدیلی اور تھکاوٹ شامل ہیں۔ یہ علامات اچانک بھی محسوس ہونے لگتی ہیں۔

ٹائپ 2 ذیابیطس (جسے پہلے نان انسولن ڈیپنڈنٹ یا ایڈلٹ آن سیٹ پکارا جاتا تھا) جسم میں انسولن کے غیر مؤثر استعمال کے باعث ہوتی ہے۔ ٹائپ 2 ذیابیطس کے وہ لوگ شکار ہوتے ہیں جن کا وزن زیادہ ہوتا ہے اور جسمانی طور پر سرگرم نہیں ہوتے۔ اس کو روکا جاسکتا ہے۔ یہ جنیاتی عمل سے بھی پیدا ہوسکتی ہے۔

اس کی علامات بھی ذیابیطس ٹایپ 1 جیسی ہی ہوسکتی ہیں مگر اکثر اوقات اتنی نمایاں نہیں ہوتیں۔ نتیجتاً، ہوسکتا ہے کہ آپ کئی سالوں بعد اس کی پیچیدگیوں کے ظاہر ہونے پر ہی اس کی تشخیص ہو پائے۔ پہلے تو اس کا شکار صرف بالغان ہی ہوا کرتے تھے لیکن اب بچوں میں بھی یہ مرض پیدا ہو رہا ہے۔

بچاؤ

طرز زندگی کی چند عادات ٹائپ 2 ذیابیطس کو روکنے میں مؤثر ثابت ہوسکتی ہیں۔ اس کے لیے آپ کو اپنا جسمانی وزن تندرست اور جسمانی طور پر سرگرم رہنا ہوگا — تقریباً ہر دن کم از کم 30 منٹ تک باقاعدہ، درمیانی سطح کی سخت جسمانی سرگرمی کریں۔ اگر وزن کا مسئلہ ہے تو زیادہ سرگرمیاں کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ دن میں 3 اور 5 مرتبہ پھل اور سبزیوں کی صحت بخش خوراک استعمال کریں، شکر اور سیچوریٹڈ فیٹس کا کم استعمال کریں۔ تمباکو نوشی سے پرہیز کریں کیونکہ سگریٹ پینے سے امراض قلب کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

تشخیص اور علاج

ذیابیطس سے بہتر انداز میں نمٹنے کے لیے جلد سے جلد تشخیص بہت ضروری ہے۔ ایک عام اور قدرے سستا بلڈ ٹیسٹ مرض کی موجودگی کی تصدیق کر سکتا ہے۔

ذیابیطس کے علاج میں خون میں گلوکوز کی سطح کم رکھنا اور بلڈ ویسلز کو نقصان رساں دیگر خطرناک عناصر پر کنٹرول رکھنا شامل ہے۔ تمباکو نوشی چھوڑ دینے سے پیچیدگیوں سے بھی محفوظ رہا جاسکتا ہے۔

خون میں گلوکوز کی مقدار کو معتدل انداز میں کنٹرول رکھنا ترقی پذیر ممالک میں سستا اور قابل عمل طریقہ علاج ہے۔ ٹائپ 1 ذیابیطس میں مبتلا لوگوں کو انسولن کی ضرورت پڑتی ہے جبکہ ٹائپ 2 ذیابیطس کا علاج ادویات سے کیا جاسکتا ہے، مگر ان کو بھی انسولن کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اس دوران بلڈ پریشر پر کنٹرول اور پیروں کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے۔

دیگر سستے علاجوں میں ریٹینو تھیریپی کا معائنہ اور علاج شامل ہے (جو نابینائی کا باعث بنتی ہے)؛ (کولیسٹرول کی سطح کو درست رکھنے) بلڈ لپڈ پر کنٹرول؛ گردے کی بیماریوں سے جڑی ذیابیطس کی ابتدائی علامات کی تشخیص شامل ہے۔

ان اقدامات کو صحت بخش غذا، باقاعدہ جسمانی سرگرمی، وزن کو نارمل رکھنا اور تمباکو کے استعمال سے اجتناب کے ساتھ اٹھایا جانا چاہیے۔

کاربو ہائڈریٹس سے بھرپور خوراک جیسے روٹی، سیریلز، چاول، پاستہ، پھل، دودھ اور میٹھی چیزیں بلڈ شگر بڑھا سکتی ہیں۔ آپ اپنی خوراک کی ایسی عادت ڈالیں جس میں اس بات پر لازمی غور کیا گیا ہو کہ آپ نے پورا دن اپنی پلیٹ پر کتنے اور کن اقسام کے کاربوہائیڈریٹ رکھنے ہیں۔

لیکن یہ بات بھی اتنی ہی ضروری ہے کہ آپ جو کھائیں اس سے لطف اندوز بھی ہوں۔ آپ صرف اتنا کھائیں جس میں آپ خود کو مطمئن محسوس کریں، زیادہ کھانے سے پرہیز کریں اور ناقص خوراک کے انتخاب سے دور رہیں۔

ہم یہاں آپ کو ایسی 7 غذائیں بتائیں گے جو تحقیق کاروں کے مطابق آپ کی شوگر کی سطح کنٹرول میں رکھنے میں مدد کرسکتی ہیں، تو اپنے کھانوں کو دلچسپ بنائیں اور ہاں خود کو صحتمند بھی رکھیں۔

1- کچی، پکی ہوئی یا سینکی ہوئی سبزیاں آپ کے کھانوں میں رنگ، ذائقہ بھر دیتی ہیں۔ آپ ان کو مختلف ڈپس، ڈریسنگ یا مختلف ذائقوں کی چٹنیوں کے ساتھ کھا سکتے ہیں۔ ہممس، سالسا یا اپنے سلاد میں بلسمی سرکے اور زیتون کے تیل ملا کر کھائیں۔ سبزیوں کے باریک کٹے ٹکڑے آپ کے منہ کو مصروف رکھیں گے جبکہ آپ کا پیٹ بھی بھرا رکھیں گے۔

2-پالک، سرسوں اور کیل (بند گوبھی کی ایک قسم)، (ان میں سے جو بھی مقامی طور پر دستیاب ہوں) آپ کے کھانوں میں غذائیت بھر دیتے ہیں۔ ان کو آم لیٹ، سوپ یا سلاد کے ساتھ کھائیں۔ لہسن اور زیتون کے تیل سے تلنے کے بعد یہ چیزیں کافی ذائقہ دار اور خستہ ہوجاتی ہیں۔ سرسوں کا ذائقہ ہمسس کے ساتھ بہت اچھا ہوتا ہے۔

3-عام پانی بہت زبردست ہے مگر اس میں لیموں، نارنگی یا کھیرے اور تھوڑے بہت پودینے کے پتے ڈال کر پینے سے پورا دن آپ کا جسمانی نظام زہریلے اجزا سے پاک رہنے کے ساتھ ساتھ یہ پانی آپ کو ٹھنڈا بھی رکھے گا۔ دارچینی اور پودینے کے پتوں کے ساتھ کولڈ ٹی بھی حیرت انگیز کمالات دکھا سکتی ہے۔

4-کیا آپ کو معلوم ہے کہ ایک کپ خربوزے میں 15 گرام کاربوہائیڈریٹس شامل ہوتے ہیں؟ اس لیے خربوزے سے اپنا پیالہ بھریں اور مزے لے کر کھائیں۔

5-لوبیا اور لال لوبیا، مٹر اور مسور کی دال کو سلاد، چاٹ یا کچی سبزیوں کے ساتھ سالسہ میں ملا کر کھائیں۔ اس میں مکئی کے دانیں، دھنیا، پیاز اور ٹماٹر ڈال کر اور بھی ذائقہ دار بنا دیں۔

6-فیٹ کے لحاظ سے زیتون کا تیل، مگر ناشپاتی اور فربہ مچھلی کا انتخاب اچھا ہے۔ سامن مچھلی کو سینک کر سلاد پتے، رومین یا پالک کے اوپر رکھ کر پیش کریں۔ اگر آپ زیتون کا تیل ڈالنا نہیں چاہتے تو مچھلی کا تیل بھی آپ کی ڈریسنگ ہوسکتی ہے۔

7-پنیر، انڈے، بغیر چربی کا گوشت جیسے چکن یا ایک کپ دہی آپ کو اچھی مقدار میں پروٹین فراہم کر سکتے ہیں جس سے آپ کا شکم سیر رہتا رہے۔ پی نٹ بٹر یا مونگ پھلی مکھن لگے ہوئے سیلری یا سیب ایک ذائقہ دار اور غذائیت سے بھرپور اسنیک ہیں۔ جب آپ پیک شدہ گوشت کھا رہے ہوں تو پیکٹ پر درج سوڈیم کی مقدار ضرور چیک کر لیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

adil Jun 08, 2016 04:38pm
very good tips sir, what about dry fruits for diabetics like cashew,
رمضان Jun 08, 2016 04:53pm
بیماریوں سے متعلق معلومات اور ان کا علاج بہت بہترین کالم ہے