شائع June 3, 2016 اپ ڈیٹ June 4, 2016

بھوٹان: قدرتی حسن اور خوشیوں کا دیس

وقار مصطفیٰ

ایئر پورٹ پر تلاشی کے دوران کچھ مسافروں کے سامان سے وہ کچھ بھی نکلا جسے ہم ساری عمر ممنوعہ گردانتے رہے مگر کسٹم اہل کار معترض نہیں ہوا۔ اب ایک یورپی مسافر کی باری تھی، اہل کار نے پوچھا کہ کیا اس کے پاس سگریٹ ہیں تو جواب ملا ہاں تین چار ہیں۔

چند ہی لمحوں بعد دیکھا تو وہ مسافر سگریٹ کی تعداد کے مطابق کسٹم ڈیوٹی ادا کررہا تھا۔ اہل کار نے ایک دستخط شدہ کاغذ اس مسافر کو تھماتے ہوئے کہا یہ ان سگریٹوں کو پینے کا اجازت نامہ ہے اور مسکراتے ہوئے 'تاشی دیلیک' کہہ کر بھوٹان میں خوش گوار قیام کی دعا دی۔

شہر پارو، بھوٹان — تصویر وقار مصطفیٰ
شہر پارو، بھوٹان — تصویر وقار مصطفیٰ

پارو شہر کا ایک خوبصورت نظارہ — تصویر وقار مصطفیٰ
پارو شہر کا ایک خوبصورت نظارہ — تصویر وقار مصطفیٰ

ہندوستان، نیپال اور چین میں گِھرا بھوٹان ایسی ہے حیرتوں کا جہاں ہے۔ 38 ہزار 3 سو 64 مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلے اس ملک میں ساڑھے 7 لاکھ لوگ رہتے ہیں۔

بھوٹان کا دارالحکومت تھمپو ہے، زونکھا سب سے بڑی زبان ہے، بدھ مت بڑا مذہب ہے۔ یہاں ہندو بھی خاصی تعداد میں ہیں۔ یہاں کرنسی نگلترم ہے مگر ہندوستانی کرنسی بھی اسی آسانی سے چل جاتی ہے۔

ٹیلی وژن اور انٹرنیٹ شاید تمام ملکوں کے بعد 1999 میں جا کر حاصل ہوا، مگر اب تو لڑکے بالے سمارٹ فون اور سوشل میڈیا کا استعمال خوب خوب کرتے نظر آتے ہیں۔ یہاں ٹریفک سگنل موجود نہیں ہیں، بلکہ سپاہی ہی ٹریفک کنٹرول کرتے ہیں۔

تھمپو میں واقع تاشیچو دانگ بدھ خانقاہ — تصویر وقار مصطفیٰ
تھمپو میں واقع تاشیچو دانگ بدھ خانقاہ — تصویر وقار مصطفیٰ

تھمپو کی مرکزی سڑک اور مارکیٹ — تصویر وقار مصطفیٰ
تھمپو کی مرکزی سڑک اور مارکیٹ — تصویر وقار مصطفیٰ

70 کی دہائی کے وسط تک اس خطے نے خود کو دنیا سے چھپائے رکھا تاکہ بیرونی دنیا اس کی تہذیب کو متاثر نہ کرے۔ پردہ ہٹایا بھی تو ایسے کہ سیاحوں کو سفر کی منصوبہ بندی اور سفری اخراجات کی ادائیگی پہلے سے ہی کرنا پڑتی ہے۔ 200 سے 250 ڈالر داخلہ فیس الگ سے ہوتی ہے۔

جنوبی ایشیا کے مسافر اس سے مستثنیٰ ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ ماحول خراب کرنے کے لیے ہر ایرا غیرا نہ آتا پھرے۔ یوں جیب کے حساب سے تو شمار ہمارا بھی اسی قبیل سے ہے، مگر بھلا ہو ایک جنوبی ایشیائی کانفرنس کا، جس میں شرکت اور خطاب کی دعوت سے بھوٹان دیکھنے کا موقع مل رہا تھا۔

بھوٹان کی روایتی طرز تعمیر کا ایک نمونہ — تصویر وقار مصطفیٰ
بھوٹان کی روایتی طرز تعمیر کا ایک نمونہ — تصویر وقار مصطفیٰ

پارو انٹرنیشنل ایئرپورٹ  — تصویر وقار مصطفیٰ
پارو انٹرنیشنل ایئرپورٹ — تصویر وقار مصطفیٰ

پاکستانی یا تو نیپال کے شہر کھٹمنڈو سے وہاں جا سکتے ہیں یا ہندوستان کے شہر نئی دلی سے۔ نئی دلی سے ہفتے میں چار فلائٹس بھوٹان کے واحد عالمی ہوائی اڈے پارو لینڈ کرتی ہیں، اور ظاہر ہے کہ واپس بھی آتی ہیں۔

پارو تک کے دو گھنٹے بیس منٹ کے سفر میں کچھ دیر تک ہمالیہ بھی دنیا کا تیسرے بلند ترین پہاڑ کنچن جنگا کی شکل میں ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ 28 ہزار 169 فٹ بلند اس پہاڑ کا کچھ حصہ نیپال اور کچھ ہندوستانی علاقے سکم میں ہے۔

جہاز ہی کے کچھ مسافروں سے معلوم ہوا کہ پانچ چوٹیوں کے حامل اس پہاڑ کی ہندوستانی علاقوں سکم اور دارجیلنگ میں پوجا بھی کی جاتی ہے۔ جہاز کے بائیں جانب بیٹھے مسافروں کے لیے کیا خوب منظر ہے، سو ہم بھی دور دور سے یہ سوچ کر دیکھتے رہے کہ واپسی میں شاید ہماری باری آئے گی۔

جہاز کی کھڑکی سے کنچن جنگا کا ایک منظر — فوٹو وقار مصطفیٰ
جہاز کی کھڑکی سے کنچن جنگا کا ایک منظر — فوٹو وقار مصطفیٰ

بھوٹان میں ہر جگہ فرحت بخش نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے — تصویر وقار مصطفیٰ
بھوٹان میں ہر جگہ فرحت بخش نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے — تصویر وقار مصطفیٰ

پارو کے ہوائی اڈے پر دو کلومیٹر لمبے رن وے پر اترنے سے تھوڑا پہلے جہاز سے منظر ویسا ہی لگتا ہے جیسا اپنے سکردو کی جانب جاتے ہوئے، پہاڑوں کی نوکیلی، برفیلی چوٹیاں کمزور دلوں کو دہلاتی ہیں اور پائلٹ کی مہارت کا امتحان لیتی ہیں۔

پارو کے ہوائی اڈے پر چھپتی نکلتی دھوپ میں بھیگی سی، سوندھی سی ہوا جسم و جاں کو معطر کیے دیتی تھی۔ جی چاہتا تھا آنکھیں بند ہوں اورسانس ہی چل رہی ہو مگر آنکھوں کا تقاضا تھا کہ ہر طرف پھیلے قدرت کے نظارے سمیٹوں۔ سو گاڑیوں میں بیٹھ کر ہوٹل جانے تک کبھی جی کا کہا مانا کبھی آنکھوں کا۔

یوں تو کانفرنس بھی ماحول ہی کے موضوع پر تھی مگر ہم تو اس کے بچاؤ کا عملی نمونہ دیکھ رہے تھے۔ تمباکو نوشی پر سخت پابندیاں ہیں، جو ایئرپورٹ کے واقعے سے ظاہر ہے۔ پلاسٹک بیگز تقریباً دو دہائی پہلے سے غیر قانونی ہیں اور آئین کے تحت 60 فی صد رقبے کو درختوں سے آباد رہنا ہی ہے۔ وہ 250 ڈالر کی قدغن بھی ماحول پر لوگوں کے اثرات کم سے کم رکھنے کے لیے ہے۔

مجموعی قومی پیداوار میں تو غریب ترین ملکوں میں شمار ہوتا ہے مگر مجموعی قومی خوشی میں امیر ہے یہ بھوٹان۔ یہ پیمانہ بھوٹان ہی سے مخصوص ہے جو حکومت کے مطابق مادی اور روحانی صحت کے توازن کا مظہر ہے۔ لوگ عام طور پر تھوڑے کو بہت جان کر مطمئن زندگی گزارتے ہیں۔

ایک صاحب کا کہنا تھا کہ بھوٹان میں لوگ دن میں پانچ بار موت کو یاد کرتے ہیں مگر اس عمل میں مایوسی یا دکھ نہیں ہوتا، بلکہ موجودہ لمحے کو بھرپور طور پر جینے کا عزم شامل ہوتا ہے۔

دعائیہ پہیے جسے لوگ دعا مانگ کر گھماتے ہیں — تصویر وقار مصطفیٰ
دعائیہ پہیے جسے لوگ دعا مانگ کر گھماتے ہیں — تصویر وقار مصطفیٰ

ذرا وقت نکلا تو 1968 میں بنا قومی عجائب گھر دیکھ لیا۔ عجائب گھر تو جیسے ہوتے ہیں، ویسا ہی تھا، اردگرد کا منظر ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا میں خوش کن لگا۔ شہر تھا، عمارتیں تھیں، مگر کنکریٹ کا جنگل نہ تھا، درخت اپنی پوری چھب کے ساتھ موجود تھے۔

108 اسٹوپاز پر مشتمل دوچولاپاس بھی خاصے کی جگہ ہے۔ ان اسٹوپاز پر بدھ تعلیمات لکھی ہوئی ہیں۔ یہاں سے ہر سمت کا منظر دکھائی دیتا ہے۔ یہ بھوٹانی افواج کی 2003 میں کسی فتح کی خوشی میں تعمیر کیا گیا تھا، مگر یہ ایک امن کی علامت ہے۔ ایسی خاموشی ہے یہاں کہ ہونٹ خاموش ہوں تب بھی آنکھیں بولتی رہیں۔ صاف دن تھا اور ایسے میں ہمالیہ بھی خوب خوب دکھائی دیا۔

قومی عجائب گھر — تصویر وقار مصطفیٰ
قومی عجائب گھر — تصویر وقار مصطفیٰ

دوچولا پاس کا مقام  — تصویر وقار مصطفیٰ
دوچولا پاس کا مقام — تصویر وقار مصطفیٰ

بھوٹان پن بجلی ہندوستان کو بیچتا ہے، لکڑی، سیمنٹ، سیاحت، زرعی اشیا اور دستکاری بھوٹان کی بڑی برآمدات میں شامل ہیں۔ فوج ہے، مگر بحریہ اور ٖفضائیہ نہیں۔ یہاں موروثی بادشاہت رہی ہے۔ 2006 میں موجودہ بادشاہ جگمے کھیسر نامگائل وانگ چک نے اقتدار سنبھالنے کے بعد 2008 میں پہلے اور 2013 میں دوسرے انتخابات کروائے۔ بادشاہ نے 2011 میں جیتسن پیما سے شادی کی۔

یہ جوڑا کافی مقبولیت کا حامل ہے۔ اس سال کے اوائل میں پہلے بچے کی پیدائش کی خوشی بھوٹان کے لوگوں نے 1 لاکھ 8 ہزار نئے پودے لگا کر منائی۔ وہ درختوں کو لمبی عمر، خوب صورتی اور شفقت کی علامت سمجھتے ہیں۔ پچھلے سال یہاں ایک گھنٹے میں 50 ہزار درخت لگا کر عالمی ریکارڈ قائم کیا گیا تھا۔

دست کاری بھوٹان کی بڑی برآمدات میں سے ایک ہے — تصویر وقار مصطفیٰ
دست کاری بھوٹان کی بڑی برآمدات میں سے ایک ہے — تصویر وقار مصطفیٰ

درختوں ہی کے جلو میں ہم نے تاکسنگ جانے کی ٹھانی۔ پارو سطح سمندر سے کوئی 7 ہزار فٹ اوپر ہے۔ پہاڑوں کے فاصلے بھی عجب ہوتے ہیں۔ چلے تو ایک چٹان پر واقع ایستادہ بدھ خانقاہ جس کے بارے میں بتایا گیا کہ 3 ہزار فٹ اور اوپر ہے، کچھ ہی دور لگی، مگرعمودی چڑھائی کافی مشکل ثابت ہوئی۔

یہی سمجھ میں آیا کہ اگر صبح جلد روانہ ہوا جائے تو آپ کو تیز چلنے کی ضرورت نہیں پڑتی، شام سے پہلے پہنچنے پر آپ رکتے، مناظر سے لطف اندوز ہوتے اور تصاویر بناتے واپس جا سکتے ہیں۔

راستے میں کوڑے کے ڈبے نظرآئے جنہیں اسکول کالج کے رضا کار صاف کرتے ہیں۔ یوں راستہ بھی صاف تھا، منزل بھی۔ یہاں تو بادل بھی آپ کی دسترس میں ہوتے ہیں۔

سامنے دکھائی دینے والی تاکسنگ خانقاہ تک پہنچنے میں 20 منٹ اور لگ گئے تھے  — تصویر وقار مصطفیٰ
سامنے دکھائی دینے والی تاکسنگ خانقاہ تک پہنچنے میں 20 منٹ اور لگ گئے تھے — تصویر وقار مصطفیٰ

تاکسنگ خانقاہ  — تصویر وقار مصطفیٰ
تاکسنگ خانقاہ — تصویر وقار مصطفیٰ

تاکسنگ وہ خانقاہ ہے جو شیر کی آماجگاہ کے طور پر بھی جانی جاتی ہے۔ روایت ہے کہ گُرو رِن پوشے اڑتی شیرنی پر براجمان یہاں تیرہ سو سال پہلے ظہور پذیر ہوئے، اور بھوٹان کے لوگوں کو بدھ مت کی تعلیم دی۔ یہ خانقاہ کئی بار تعمیر ہوچکی ہے۔ 1998 میں آگ سے تباہ ہونے کے بعد 2005 میں اسے پھر سے تعمیر کیا گیا۔

اس خانقاہ سے تھوڑا پہلے دو سو فٹ کی بلندی سے گرتی آبشار خوب بھلی لگتی ہے۔ خانقاہ کے اندر مکھن کے دیے جلتے ہیں۔ یہاں کیمرہ ممنوع ہے۔

تاکسنگ خانقاہ سے تھوڑا پہلے دو سو فٹ کی بلندی سے گرتی آبشار — تصویر وقار مصطفیٰ
تاکسنگ خانقاہ سے تھوڑا پہلے دو سو فٹ کی بلندی سے گرتی آبشار — تصویر وقار مصطفیٰ

بھوٹان میں پرندے اور جنگلی جانور بہت ہیں۔ ان کے لیے ماحول کو سازگار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے تا کہ وہ کہیں اور ہجرت نہ کر جائیں۔ بے ڈھنگی و خستہ حال عمارتیں گرا دی جاتی ہیں، بجلی کے تار چھپا دیے جاتے ہیں۔

گُرو رِن پوشے کی تعلیمات میں فطرت کی طاقت اور قدر و قیمت پر یقین نمایاں ہے۔ شاید اسی پر عمل کرتے ہوئے بھوٹان فطرت کی حفاظت کا راستہ اپنائے ہوئے ہے۔


وقار مصطفیٰ صحافت کا 26 سالہ تجربہ رکھتے ہیں، اور یونیسیف اور رائٹرز کے علاوہ کئی ملکی و بین الاقوامی صحافتی اداروں میں کام کر چکے ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

وقار مصطفیٰ

وقار مصطفیٰ صحافت کا 26 سالہ تجربہ رکھتے ہیں، اور یونیسیف اور رائٹرز کے علاوہ کئی ملکی و بین الاقوامی صحافتی اداروں میں کام کر چکے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (30) بند ہیں

Taseer Siddiqui Jun 03, 2016 02:39pm
Zabrdast Place haye. Halal Food kaaaay barye nahe zikar kia.
Asif Sohail Jun 03, 2016 03:26pm
Excellent description of his visit to Bhutan. Great Waqar Mustafa.
Saeed@Canberra Jun 03, 2016 04:01pm
Excellent photos and very appropriate description. well done
karamat bhatti Jun 03, 2016 04:07pm
سر زبردست۔! دل سے بے اختیار واہ نکلی اور آہ بھی۔ آپ کے حسنِ تحریر سے ہم نے بھوٹان کو rediscover کیا۔ دعا تو مانگی ہے ایک بار وہاں جانے کی، اب آگے مالک کی مرضی۔
Muhammad Sarfraz Jun 03, 2016 05:00pm
وقار بھائی.. آپ کا شکریہ کہ انتہائی خوبصورت منظر کشی کی آپ نے اور تمام تحریر ماحول دوست پیغام کا عملی نمونہ ہے..
naveed naqvi Jun 03, 2016 05:30pm
great. ksi bhi surat bhutan janat e nazeer se kam nhi hai, hamary northern areas bhi boht beautiful hain lekin gov ki ghaflat aor corruption ki wja se tbah hali ka shikar hain...
نور Jun 03, 2016 05:56pm
زبردست تحریر ہے وقار بھائی۔ آفرین بھوٹان کے حکمرانوں اور عوام پر کہ اپنے ورثے کی قدر و اہمیت سے نہ صرف واقف ہیں بلکہ اس کی حفاطت کے لئے مستعد بھی ہیں۔ ایک ہم لوگ ہیں کہ مکران سے لے کر بلتستان تک ہر جگہ ورثے اور وسائل کو تباہ و برباد کرنے میں مصروف ہیں۔
عارف شمیم Jun 03, 2016 06:06pm
بہت خوب وقار صاحب نہایت عمدہ تحریر۔
Saadia Salahuddin Jun 03, 2016 06:12pm
The writing is picturesque. It brings out the beauty of Bhutan. One wants to visit the place. Also, this piece is very informative. Keep writing.
Saadia Salahuddin Jun 03, 2016 06:18pm
The writing is picturesque. Keep writing.
Rana Suhail Jun 03, 2016 07:21pm
Excellent description and beautiful selection of words . Make me feel as I was there. You are a genius.
Naveed Nasim Jun 03, 2016 08:48pm
بھوٹان جائے بغیر بھوٹان کی سیر، اس سے بہتر نہیں ہوسکتی۔
Irshad Jun 03, 2016 08:53pm
Thsnks for info.
Akmal shahzad ghumman Jun 03, 2016 09:05pm
خوبصورت تحریر ،افسانوی رنگ ،مگر حقیقت نگاری ،بھوٹان کے لوگوں کی قناعت پسندی اور فطرت سے محبت کا بیان بھی خوب ہے .بے اختیار دل چاہتا ہے بھوٹان جایا جاۓ .تصاویر بھی بھولتی محسوس ہوتی ہیں .وقار صاحب خوش رہیے اور اگلی بار جب بھوٹان کے لئے رخت سفر باند ھیں تو ہمارا کچھ بندوبست ہونا چائیے .
Akmal shahzad ghumman Jun 03, 2016 09:10pm
خوبصورت تحریر ،افسانوی رنگ ،مگر حقیقت نگاری ،بھوٹان کے لوگوں کی قناعت پسندی اور فطرت سے محبت کا بیان بھی خوب ہے .بے اختیار دل چاہتا ہے بھوٹان جایا جاۓ .تصاویر بھی بولتی محسوس ہوتی ہیں .وقار صاحب خوش رہیے اور اگلی بار جب بھوٹان کے لئے رخت سفر باند ھیں تو ہمارا کچھ بندوبست ہونا چائیے .
mohammad raja Jun 04, 2016 03:14am
salam waqar sahib well it was great story and very nice pic love to see some more like this thank you love from sydney
Yasir Sial Jun 04, 2016 03:08pm
THANK YOU SO MUCH SO THIS GREAT SHARING
Khalid Mahmood Jun 04, 2016 04:56pm
Very Nice I Like Bhutan For Its Natural Beauty Very Well Exposed By Waqar Keep It Up
saba bajeer Jun 04, 2016 06:30pm
bhutan is my favourate city boht achha laga ais barey me study kar ke or pics dekh k . i wish k pakistan bhi bhutan ki green ho
Mehdi Zaheer Jun 04, 2016 06:42pm
Buhet khoob likha hi sath may dillkush tasaweer bhee mahsowos karati hain kay perhaney wall a bhee kho jata hi.
Shakir Ahmed khan Jun 04, 2016 10:09pm
بہت آپ نے توہمیں بھی بھوٹان کی سیر کرادی ۔۔۔۔شکریہ
Great Waqar Mustafa. Jun 05, 2016 03:27pm
Great Waqar Mustafa.
Muhammad Amjad Jun 05, 2016 11:59pm
کسی ملک کی ’’مجموعی قومی خوشی‘‘ بہ نسبت ’’مجموعی قومی پیداوار‘‘ کے زیادہ اہم ہوتی ہے۔ یہ وہ خیال ہے جسے ایک چھوٹے سے ملک بھوٹان کے چوتھے ڈریگن بادشاہ جگمے وانگربک نے پیش کیا ہے۔ یہ آئیدیا پوری دُنیا میں امن وچین کا باعث بن سکتا ہے۔ بھوٹان واقعی خوشیوں کا دیس ہے۔ بھوٹان بارے وقار مصطفیٰ کا مضمون نہ صرف یہ کہ معلومات افزا ہے بلکہ حیرت انگیز انکشافات کا حامل بھی ہے جس سے آج کی جدید دُنیا واقف نہیں ہے۔ خوبصورت مناظر نے قاری کی سیر کا بندوبست کر دیا ہے۔ وقار مصطفیٰ صاحب نے نہایت مہربانی فرما کر یہ مضمون اس وقت شائع کروانا مناسب سمجھا جب لاہور کا درجہ حرارت 45 ڈگری سے اوپر ہے اور گرمی نے برا حال کیا ہوا ہے۔ ایسے وقت میں بھوٹان کی سیر اگرچہ ورچوئل ہی سہی، پاکستان میں بھی مجموعی قومی خوشی بڑھانے کا سبب بنے گی۔
Raza Ali Abidi Jun 06, 2016 02:06pm
Bohat umda. ji khush hua..tasweeren lajawab, tehreer nihayt khush gawar..safarnama ke baare main mera purana usool hai ki esi jagah jao jahan jana roz ka mamool na hao ya phir jaane wala Aaadmi na ho Abidi ho. Shukr guzaar hoon ke is tohfe ke liye aap ne mujhe yaad rakha.
Kahkashan Jun 06, 2016 04:35pm
Waqar sb aap jub bhee likhtay hain, kamaal likhtay hai. Bharpoor alfaz aur ba-tasveer manzar kashi se yeh safarama vlog mehsoos ho raha hai. Shukriya. Bhutan pehlay kabhi itna qareeb mehsoos nahi hua. Acha ek sawal hai mera. Aap ne bataya k 200 se 250 dollars daakhla fee hoti hai. Janoobi Asia k musafir is se mustasna hain. Kia waqayi aisa hai? Mujhay maloom hua tha k Bhutan janay walay tamam musafiron ko ada karna hoti hai. Barah-e-karam, rehnumayi famiye.
Waqar Jun 06, 2016 05:17pm
آپ سب کی پسندیدگی میرے لیے اطمینان اور اعزاز کی بات ہے۔
Dr. Qasim Rajpar Jun 07, 2016 08:08pm
زبردست، ہم خرچہ کئے بغیر آدہا گہوم کے آگئے۔
Adnan Rauf Jun 09, 2016 01:41pm
Dear Waqar Mustafa , Thank you very for share your travel of bhotan i think its to short kindly write in detail about culture ,people and traveling local resoursing . Adnan .
Your Name Jun 09, 2016 04:52pm
beautiful minzar
irfan Aug 11, 2016 08:30pm
bohat zabardast photography..... even this is "pictorial"