پاکستانی ڈیانا، کرکٹ اور فٹ بال کی اسٹار
ویمنزکرکٹ، فٹ بال ٹیم کی پاکستانی ڈیانا
لاہور :ڈیانا بیگ کرکٹ ٹیم کی کامیابی کے بعد بےسکونی کے عالم میں اپنے سیٹ پر بیٹھی باربار گھڑی پر نظر دوڑا رہی تھی، انھیں فوری بعد دوسری جگہ ایک فٹ بال میچ کھیلنا تھا۔
20 سالہ ڈیانا کا تعلق دنیا کی چند بلند ترین چوٹیوں کی سرزمین گلگت بلتستان کی وادی ہنزہ سے ہے اور وہ ہنزہ کی گلیوں میں بچوں کے ساتھ کرکٹ اور فٹ بال کھیلتے ہوئے بڑی ہوئیں۔
ڈیانا کے لیے لڑکی ہونا کوئی بات نہیں اور ان کا کہنا ہے کہ بیگ کا تعلق اسماعیلی فرقے سے ہوتا ہے جو آغاخان کے پیروکار ہیں۔
انھوں نے گلیوں میں کمیونٹی کے مختلف ٹورنامنٹ میں مقامی ٹیموں کے لیے کھیلنا شروع کیا تھا اور 2010 میں گلگت بلتستان کی نو آموز ویمنز ٹیم کی قیادت کی۔

دو سال بعد وہ پاکستان اے ٹیم کے لیے منتخب ہوئیں اور 2013 ورلڈ کپ کے لیے متبادل کھلاڑی کے طورپر رکھا گیا۔
بالآخر 2015 میں پہلی دفعہ پاکستان کی نمائندگی کا موقع دیا گیا اور بنگلہ دیش کے خلاف بین الاقوامی کیریئر کا آغاز کیا۔

20 سالہ ڈیانا بیگ بیک وقت پاکستان کی خواتین کی قومی کرکٹ اور فٹ بال ٹیم کی رکن ہیں، ان کے لیے دباؤ کوئی نئی بات نہیں، وہ حالیہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں شرکت کرنے والے ٹیم کی بھی رکن تھیں۔
خبررساں ادارے سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ 'ٹی ٹوئنٹی اسکواڈ میں منتخب ہونا میرے لیے اعزاز تھا'۔

ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے وہ ٹیم میں پہلی دفعہ شامل نہیں ہوئی تھی لیکن ٹیم سے باہر ہونے کے بعد ٹورنامنٹ کے لیے پہلی دفعہ جارہی تھیں، اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 'یہ میرے لیے حوصلہ افزا تھا اسی سے مجھے نئی زندگی اور نئی توانائی ملی'۔

ڈیانا کے کیریئر میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب وہ مایوس ہوئی تھیں جب کا اعتراف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'ایک وقت ایسا آیا جب مجھے اپنا مستقبل آج کی طرح روشن نظر نہیں آرہا تھا'۔
پاکستان (اے-ٹیم) میں منتخب ہونے کے بعد ان کے لیے سب بدل گیا 'اس کے بعد میں نے سخت محنت شروع کی'۔
اتفاقی طورپر فٹ بال اسٹار
پاکستان ویمنز فٹ بال ٹیم کی طرف ان کا سفر مزید ڈرامائی تھا


ویمنز کرکٹ اور فٹ بال کو پاکستان میں اس قدر پذیرائی حاصل نہیں بالخصوص فٹ بال کو جبکہ ایسے میں مقبولیت حاصل کرنا آسان کام نہیں۔

ڈیانا بیگ نے 2010 میں اسلام آباد میں کرکٹ کھیلنے کے دوران دوستوں کے کہنے پر گلگت بلتستان کی فٹ بال ٹیم کی جانب سے کھیلنے کی کوشش کی کیونکہ ٹیم کو کھلاڑیوں کی ضرورت تھی۔
انھیں ٹیم میں شامل کیا گیا اور خوشگوارحیرت اس وقت ہوئی جب انھیں 2015 میں بحرین سیف چمپین شپ کے لیے پاکستان ٹیم میں منتخب کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ حتمی ٹیم میں شامل کئے جانے پر انھیں اپنے جذبات کو چھپانا ممکن نہیں تھا۔

پاکستان کرکٹ ٹیم سے متعدد مرتبہ باہر ہونے کے بعد ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں منتخب ہونے پر ان کا کہنا تھا کہ 'یہ سب کچھ اس کالج، اس کے گراؤنڈ اور مسلسل پریکٹس کی وجہ سے ممکن ہوا'۔


تعلیم
ڈیانا بیگ اب کھیل کے کیریئر کےساتھ ساتھ تعلیم کے خواب کی تکمیل کے لیے نبرد آزما ہیں۔
انھوں نے کہا کہ 'یہ بہت مشکل ہوگیا ہے، میں فٹ بال سے دن کی ابتدا کرنے کی کوشش کرتی ہوں، صبح میں نے فٹ بال کھیلا جس کے بعد 11 یا 12 بجے دوپہر کو کرکٹ کی ٹریننگ شروع ہوتی ہے جو 3 یا 4 بجے تک جاری رہتی ہے'۔

اس کے بعد وہ یونیورسٹی ہوسٹل میں کھانے پینے کے لیے جاتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 'میں نے رات میں پڑھنا شروع کیا ہے جو رات گئے تک جاری رہتا ہے'۔

آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔