• KHI: Sunny 27.7°C
  • LHR: Partly Cloudy 20.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 21.1°C
  • KHI: Sunny 27.7°C
  • LHR: Partly Cloudy 20.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 21.1°C

پاکستانی بیمار بچوں کیلئے زندگی وقف کر دینے والی آئرش خاتون

11 سال پہلے ایک ڈائننگ روم سےسے شروع ہونے والا یہ انسٹیٹوٹ تیزی سے توسیع پارہا ہے۔
شائع June 10, 2016

یوونے فریزل اس وقت نوجوان تھیں جب وہ 1984 میں اپنے شوہر کے ساتھ پہلی بار پاکستان آئیں۔ ان کے شوہر نے یوونے سے پہلی ملاقات سے قبل انگلینڈ سے بنگلہ دیش تک سڑک کے راستے سفر کیا اور وہ اس خطے کی محبت کا شکار ہوگئے۔

شادی کے بعد وہ یوونے فریزل کو پشاور یعنی " کچھ زبردست دیکھانے" کے لیے لے کر آئے۔

یوونے فریزل ایک پیڈیا ٹرک سائیکو تھراپسٹ ہیں جنھوں نے رائل لندن ہسپتال سے تربیت حاصل کی اور انہوں نے اس سفر میں کسی ایڈونچر کی بجائے ایک مقصد کو دریافت کرلیا۔

یہ جوڑا پشاور میں لگ بھگ 6 برس تک مقیم رہا، ان کی بیٹی کی پیدائش یہاں ہوئی جبکہ ان کا بیٹا دو ماہ کی عمر میں پاکستان آیا تھا۔ اس عرصے کے دوران ایک دو سال کی عمر کا بچہ اکبر سیف اللہ خان بھی یوونے کی زندگی کا حصہ بن گیا جو کہ cerebral palsy (پیدائش سے قبل بچوں کو ہونے والا دماغی فالج) کے مرض کا شکار تھا۔

پاکستان میں بہت کم افراد ہی اس معلومات سے لیس تھے جو کہ اکبر سیف اللہ خان کے پلنے بڑھنے کے دوران سامنے آنے والی معذوری سے نمٹنے کے لیے درکار تھی۔ مگر اکبر خوش قسمت تھا کہ اس کی والدہ کی ملاقات ایک تقریب کے دوران یوونے فریزل سے ہوگئی۔

مسز سیف اللہ خان نے یوونے کو اپنے بیٹے کے بارے میں بتایا اور بہت جلد ہی میڈیکل پریکٹیشنر نے اکبر سیف اللہ خان کی صحتیابی کے لیے کام شروع کردیا۔

یوونے اکبر کی پرورش کے دوران بہت زیادہ اثر انداز ہوئیں۔ 1990 میں جب وہ واپس آئرلینڈ گئیں تو آٹھ سالہ اکبر خان بھی ان کے ہمراہ گیا۔ اس نے اگلے 13 سال ایک آئرش اسکول میں گزارے۔

مسز سیف اللہ خان جانتی تھیں کہ ہر کوئی اپنے بچے کو علاج کے لیے بیرون ملک بھیجنے کی طاقت نہیں رکھتا، انہیں خود اس بات کا تجربہ تھا کہ ایسے بچوں کے ساتھ ماں کو کن مشکلات کا سامنا ہوتا ہے اور وہ اس کو حل کرنا چاہتی تھیں۔ جب ان کا بیٹا واپس آیا تو انہوں نے ایک آئیڈیا یوونے کے سامنے پیش کیا کہ ایک ایسے ادارے کا قیام عمل میں لایا جائے جو پاکستان میں دماغی فالج کے مریضوں کی مدد کرے اور وہ بھی مفت؟

نیا آغاز

یوونے فریزل اب تک ملنے والی کامیابیوں پر اپنی ٹیم پر فخر محسوس کرتی ہیں: "ہم نے دماغی فالج کے نو عمر مریضوں کو نئی زندگی دی اور انہیں اپنے پیروں پر کھڑا کردیا"۔

یوونے پشاور کے علاقے یونیورسٹی ٹاﺅن کے رہائشی علاقے میں واقع اکبر کیئر انسٹیٹوٹ (اے کے آئی)کو سنبھال رہی ہیں۔

2006 میں اے کے آئی کے دروازے کھلنے کے بعد سے یوونے فریزل بہت مصروف خاتون بن چکی ہیں، ہفتے میں چھ دن ، آٹھ گھنٹے روزانہ کلینک کو سنبھالتی ہیں اور وہاں اب تک 7 ہزار مریضوں کو رجسٹرڈ کیا جاچکا ہے۔ 11 سال پہلے ایک ڈائننگ روم سے شروع ہونے والا یہ انسٹیٹوٹ تیزی سے توسیع پا رہا ہے۔

اے کے آئی ان کے لیے مقصد بن چکا ہے، وہ تسلیم کرتی ہیں کہ معذوری ایک بہت سنگین مسئلہ ہے " کوئی بھی اس بات کو سمجھتا نہیں کہ کسی بچے کے لیے چھوٹی سی چھوٹی چیز کرنا بھی اس کے خاندان کے لیے بہت بڑے فرق کا باعث بن سکتی ہے"۔

یوونے فریزل کامیابی سے مقامی افراد میں گھل مل چکی ہیں " میں کافی حد تک اردو اور پشتو سمجھ لیتی ہوں، مگر میرے لب مجھے وہ الفاظ بولنے نہیں دیتے"۔

متعدد برسوں سے دماغی فالج کے شکار بچوں کی نگہداشت میں مصروف یوونے فریزل کو پاکستانی شہریت مل چکی ہے اور وہ کہتی ہیں " میں پشاور میں ہی رہوں گی اور لوگوں کی خدمت کروں گی"۔


ادارے کا بہترین نظام

اے کے آئی کا عملہ جانتا ہے کہ وہ کیا کام کررہا ہے۔ انسٹیٹوٹ کے داخلی دروازے پر ایک سبز آنکھوں والا گارڈ ہوتا ہے جو سیکیورٹی کو یقینی بنانے سے ہٹ کر بھی بہت کچھ کرتا ہے۔ بدحواس اور پریشان والدین اپنے بچوں کے ہمراہ جب اندر آتے ہیں تو یہ ان کا گرمجوش مسکراہٹ کے ساتھ استقبال کرتا ہے۔

یہ گارڈ بچوں کو وہیل چیئر کی پیشکش کرتا ہے اور اس کے اعتماد کو دیکھ کر لگتا ہے کہ جیسے سب چیزوں کو آسانی سے کنٹرول کرلیتا ہے۔

منیجر آپریشنز ہما علی کہتی ہیں کہ اے کے آئی میں رجسٹریشن بہت سادہ ہے یعنی جب کوئی مریض یہاں آتا ہے تو ڈیٹا ایڈمنسٹریشن اسٹاف مریضوں کی تفصیلات جمع کرکے ہر مریض کو ایک کوڈ جاری کرتا ہے " اس کام میں دس سے پندرہ منٹ لگتے ہیں"۔

ایڈمنسٹریشن آفس کے سامنے سنیئر سائیکوتھراپسٹ رضاخان ہوتے ہیں جو اپنے گھٹنوں پر جھکے دو سالہ عدنان کے کندھوں پر دباﺅ ڈال رہے تھے۔

اس ننھے مریض کی رجسٹریشن ایک سال قبل ہوئی تھی اور جب وہ پہلی بار اے کے آئی آیا تھا تو اپنے سر کی حرکت روکنے سے قاصر تھا، اب لگتا ہے کہ بہتری آئی ہے۔ رضا خان نے ڈان کو بتایا " تھراپی سے اس میں بہتری آرہی ہے اور اب یہ آسانی سے اپنے سر کو سنبھال لیتا ہے"۔

اگرچہ دماغی فالج کا مکمل علاج تو موجود نہیں مگر رضا خان بتاتے ہیں کہ ٹریٹمنٹ کی مدد سے " ہم ان کی زندگیوں میں کافی بہتری لاسکتے ہیں"۔

رضا خان کے برابر میں تھراپسٹ واجد علی ایک اور بچے پر کام کررہے تھے۔

مریض کی والدہ علی کی جانب سے گھر پر مریض کی نگہداشت کے لیے بتائی جانے والی ٹپس کو مکمل توجہ سے سن رہی تھیں۔ بیشتر والدین جذباتی ہوتے ہیں اور نہیں جانتے کہ جن بچوں کو خصوصی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے ان کے مسائل کو کیسے حل کیا جائے۔

ماغی فالج کا علاج طویل اور مریض سمیت اس کے والدین کے لیے تکلیف دہ ہوتا ہے، تاہم واجد علی کے خیال میں سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ والدین کے اندر شعور اجاگر کیا جائے اور ان کو سپورٹ کیا جائے۔

مائیں چاہتی ہیں کہ ان کے بچے چلنا شروع کردیں اور دیگر بچوں کی طرح کھیلیں۔ مگر ایسا بدقسمتی سے ممکن نہیں ہوتا۔ واجد علی کے مطابق اے کے آئی میں ہمارا مقصد مریض کی روزمرہ کی زندگی کو بہتر بنانا ہوتا ہے جو کہ بذات خود کسی معجزے سے کام نہیں۔


مریضوں کے لیے درکار سہولیات کی کمی

اے کے آئی کی عمارت کی راہداری پر ماضی میں زیرعلاج رہنے والے مریضوں کی تصاویر آویزاں کی گئی ہیں۔ کامیابی کی یہ کہانیاں مریضوں اور تھراپسٹ دونوں کے اندر جوش و جذبہ بڑھانے کا کام کرتی ہیں۔

اے کے آئی لگتا ہے کہ لوگوں کی اس وقت مدد کرتا ہے جب وہ خود کو بے بس سمجھتے ہیں، پشاور کے ایک رہائشی عدنان دانش اس سے متفق ہیں۔

ایک جان لیوا ٹریفک حادثے میں، جس میں ان کی اہلیہ کا اتنقال ہوگیا جبکہ ان کی نوعمر بیٹی ہما کا جسم ایک جانب سے مفلوج ہوگیا۔

انہوں نے ملک بھر میں مختلف ڈاکٹروں سے رجوع کیا مگر کوئی بھی کسی قسم کا حل نہیں بتا سکا، ان ناکامیوں سے ہمت تو کم ہوئی مگر انہوں نے شکست تسلیم نہیں کی اور وہ اے کے آئی آئے۔

یہاں ہونے والی تھراپی سے ان کی بیٹی کی حالت میں بہتری آئی اور عدنان کے خیال میں یہ کسی معجزے سے کم نہیں۔

وہ شکایت کرتے ہیں کہ خیبر پختونخواہ میں دماغی فالج کے شکار بچوں کے علاج کے لیے سہولیات کی کمی ہے، حکومتی اور نجی ہسپتالوں نے اس پر توجہ نہیں دی۔

ایک اور دماغی فالج کے شکار بچے کی والدہ مسز اسماعیل اس سے اتفاق کرتی ہیں " میرے بیٹے کی حالت میں بہتری آئی ہے"۔

تاہم ان کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخواہ میں خصوصی بچوں کے لیے کوئی معیاری اسکول نہیں۔

یوونے فریزل بتاتی ہیں کہ صوبائی حکومت ان کے مرکز کی معاونت کے لیے کچھ نہیں کررہی۔ وزیر صحت اور دیگر سنیئر حکام نے انسٹیٹوٹ کا دورہ کیا اور اس کی کوششوں کو سراہا، تاہم یہ بس خالی الفاظ ہی ثابت ہوئے اور انہیں عملی شکل نہیں دی گئی۔

اے کے آئی نے اپنی عمارت کو مختلف مسائل کے باعث تین بار بدلا ہے۔ ما علی بتاتی ہیں کہ 2013 میں یہ انسٹیٹوٹ ضلعی حکومت کی جانب سے یونیورسٹی ٹاﺅن کے رہائشی علاقے میں کمرشل آپریشنز کے خلاف کریک ڈاﺅن کے باعث تین ماہ تک بند رہا تھا۔

اے کے آئی انتظامیہ نے صوبائی حکومت سے درخواست کی ہے انسٹیٹوٹ کے لےی زمین فراہم کی جائے گی اور ہما علی بتاتی ہیں " ہم انسانی خدمت کے لیے کام کررہے ہیں مگر حکومت نے ہماری درخواست کو سنجیدگی سے نہیں لیا"۔


رول ماڈل

گیارہ سال بعد یوونے فریزل کا ماننا ہے کہ اے کے آئی ایسے کم قیمت موثر طریقہ علاج کا مرکز بن چکا ہے جو کارآمد ہے " اگر ہمیں کسی آلے کی ضرورت ہو، تو ہم اسے خود بنالیتے ہیں، ہم ترقی یافتہ دنیا سے آئیڈیاز لے سکتے ہیں، ہمیں چیزوں کو دوبارہ ایجاد کرنے کی ضرورت نہیں"۔

یہ انسٹیٹوٹ بجلی کے آلات پر انحصار نہیں کرسکتا بلکہ اس نے اپنے سسٹمز کو تیار کیا ہے۔

یوونے فریزل کا ماننا ہے کہ اے کے آئی پاکستان میں دماغی فالج کے علاج کے بارے میں لوگوں کے سوچنے کے نظریے کو بدلنے اور اس کی حمایت میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ وہ کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں اس مرض کے علاج کے بارے میں لیکچرز دیتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ زیادہ سے زیادہ افراد کو دماغی فالج کے خلاف جنگ کا حصہ بننا چاہیے " اس شعبے میں ہمیشہ بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، مگر ہمیشہ ہی ہم بہت زیادہ بہتری لانے سے قاصر رہتے ہیں، اور یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے"۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔