لوک ورثہ میوزیم: صدیوں پرانی تہذیب و ثقافت کا امین

شائع July 17, 2016
صحرائے چولستان کی گیلری میں وہاں کی روایتی شادی کا ایک منظر
صحرائے چولستان کی گیلری میں وہاں کی روایتی شادی کا ایک منظر

شکر پڑیاں کے جنگلات میں گھرا لوک ورثہ میوزیم ہمالیہ سے لے کر بحیرہ عرب تک موجود پاکستان کے لوگوں کی ثقافتی روایتوں اور طرز زندگی کی تصویر پیش کرتا ہے۔

اس میوزیم کو لوک ورثہ کی جانب سے گارڈن اوینیو پر قائم کیا گیا تھا۔ حقیقت میں اس میوزیم کو 1981 میں لوک آرٹ میوزیم کے طور پر بنایا گیا تھا اور پھر 2004 میں اس میوزیم کی مزید مرمت کے بعد اسے مزید پھیلا کر علمِ بشریات کے میوزیم کا درجہ دیا گیا تھا۔ اب یہ میوزیم 60 ہزار مربع فٹ زمین پر محیط ہے۔

اس میوزیم میں موئن جو دڑو اور ہڑپہ کی تہذیب سے لے کر موجودہ پاکستان، جسے ایک زمانے میں ایشیا کا چوراہا بھی کہا جاتا تھا، کی ثقافتی تاریخ کو ظاہر کیا گیا ہے۔

وارث شاہ کی تحریر شدہ جھنگ پنجاب کی ایک لوک داستان کے کردار، ہیر اور رانجھا
وارث شاہ کی تحریر شدہ جھنگ پنجاب کی ایک لوک داستان کے کردار، ہیر اور رانجھا

اس میوزیم میں سکندرِ اعظم، اشوک اعظم، آریا، بدھ، محمد بن قاسم، بابر، نادر شاہ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے مختلف ادوار کو منعکس کیا گیا ہے جن میں اس خطے کی بدلتی طرز زندگی کو صاف طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔

میوزیم میں موجود گیلیریز میں پنجاب، سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخوا، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور وادئ کلاش کے اوسط شہریوں کی زندگی کو نمایاں کیا گیا ہے۔ ان میں جنگی اسلحوں سے موسیقی سازوں، زیورات سے برتنوں تک، کپڑے بنانے سے دستکاری، جوتے بنانے اور سنگ تراشی تک میوزیم کی گیلریاں پاکستان کے ثقافتی ورثے مختلف پہلوؤں کو منعکس کرتی ہیں۔

(بائیں) پنجاب کے روایتی رنگین گلدان، (دائیں) ہال آف میوزیکل ہریٹیج میں موجود ایک تارہ اور دیگر موسیقی کے آلات
(بائیں) پنجاب کے روایتی رنگین گلدان، (دائیں) ہال آف میوزیکل ہریٹیج میں موجود ایک تارہ اور دیگر موسیقی کے آلات

کے پی کی آدم خان - درخانے، سندھ کی ڈھولا مارو، بلوچستان سے حانی شاہ مراد اور پنجاب سے ہیر رانجھا جیسی لوک کہانیوں کو کرداروں کے مجسموں کی مدد سے نمایاں کیا گیا ہے۔

مرکزی نمائشی حصوں میں ہال آف اینٹی کیوٹی اور کنٹیونٹی، ہال آف ٹیکسٹائلز، ہال آف صوفیز اور مزارات، ہال آف بلاڈز اور رومنز، ہال آف آرکیٹیکچر، ہال آف میوزیکل ہیریٹج اور فیوچر وژن۔ ہر صوبے اور خطے کی ثقافت کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔

قائد اعظم محمد علی جناح، فاطمہ جناح اور بیگم رانا لیاقت علی کے مجسمے
قائد اعظم محمد علی جناح، فاطمہ جناح اور بیگم رانا لیاقت علی کے مجسمے

دیگر گیلیریز میں ٹرک آرٹ، برتن سازی، بنائی، بلاک پرنٹنگ، نقاشی، پتھروں کا مغل سنگ تراشی اور بدھ کا مجسمہ بنانے کے لیے گندھارا مجسمہ کاری کی تیکنیک کا بھی مظاہر کیا گیا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے کے لیے میوزیم میں دیگر ممالک کی مختلف ثقافتوں کی بھی نمائش کی گئی ہے جو پاکستانی ثقافت سے وابستگی رکھتے ہیں یا ان سے متاثر ہیں۔

بدھ کا مجسمہ۔ اس گیلری میں سکندر اعظم کی آمد اور (بائیں) مغل دربار کا ایک منظر بھی ترتیب دیا گیا ہے۔ (دائیں) سکے بنانے کا فن بھی نمایاں کیا گیا ہے
بدھ کا مجسمہ۔ اس گیلری میں سکندر اعظم کی آمد اور (بائیں) مغل دربار کا ایک منظر بھی ترتیب دیا گیا ہے۔ (دائیں) سکے بنانے کا فن بھی نمایاں کیا گیا ہے

لوک ورثہ کی ایگزیکیٹو ڈائریکٹر فوزیہ سعید کہتی ہیں کہ، ''یہ میوزیم کافی پر رونق ہے اور میوزیم میں موجود نمائشی اشیا لوگوں کی نظروں کا مرکز بنی رہتی ہیں۔ ملک کے ثقافتی ورثے کے فروغ اور اس کا عکس پیش کرنے کے لیے یہ حکومت کا قائم کردہ اپنی نوعیت کا پہلا علم الانسان سے وابستہ میوزیم ہے۔''

انہوں نے کہا کہ میوزیم کا موجودہ فوکس نوجوانوں میں ثفاقت کے بارے میں بیداری پیدا کرنا ہے۔ ''اس مقصد کے لیے جمعے کو ''اسٹوڈنٹس ڈے'' رکھا گیا ہے اور طلبہ کو میوزیم دیکھنے کے لیے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور پاکستان کی روایتی ثقافت کے مختلف پہلؤں کے بارے میں سوال پوچھے جاتے ہیں۔

یہ مضمون ڈان میں 26 جون 2016 کو شایع ہوا۔

عامر یسین
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2025
کارٹون : 21 دسمبر 2025