لوک ورثہ میوزیم: صدیوں پرانی تہذیب و ثقافت کا امین

شکر پڑیاں کے جنگلات میں گھرا لوک ورثہ میوزیم ہمالیہ سے لے کر بحیرہ عرب تک موجود پاکستان کے لوگوں کی ثقافتی روایتوں اور طرز زندگی کی تصویر پیش کرتا ہے۔
اس میوزیم کو لوک ورثہ کی جانب سے گارڈن اوینیو پر قائم کیا گیا تھا۔ حقیقت میں اس میوزیم کو 1981 میں لوک آرٹ میوزیم کے طور پر بنایا گیا تھا اور پھر 2004 میں اس میوزیم کی مزید مرمت کے بعد اسے مزید پھیلا کر علمِ بشریات کے میوزیم کا درجہ دیا گیا تھا۔ اب یہ میوزیم 60 ہزار مربع فٹ زمین پر محیط ہے۔
اس میوزیم میں موئن جو دڑو اور ہڑپہ کی تہذیب سے لے کر موجودہ پاکستان، جسے ایک زمانے میں ایشیا کا چوراہا بھی کہا جاتا تھا، کی ثقافتی تاریخ کو ظاہر کیا گیا ہے۔

اس میوزیم میں سکندرِ اعظم، اشوک اعظم، آریا، بدھ، محمد بن قاسم، بابر، نادر شاہ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے مختلف ادوار کو منعکس کیا گیا ہے جن میں اس خطے کی بدلتی طرز زندگی کو صاف طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔
میوزیم میں موجود گیلیریز میں پنجاب، سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخوا، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور وادئ کلاش کے اوسط شہریوں کی زندگی کو نمایاں کیا گیا ہے۔ ان میں جنگی اسلحوں سے موسیقی سازوں، زیورات سے برتنوں تک، کپڑے بنانے سے دستکاری، جوتے بنانے اور سنگ تراشی تک میوزیم کی گیلریاں پاکستان کے ثقافتی ورثے مختلف پہلوؤں کو منعکس کرتی ہیں۔

کے پی کی آدم خان - درخانے، سندھ کی ڈھولا مارو، بلوچستان سے حانی شاہ مراد اور پنجاب سے ہیر رانجھا جیسی لوک کہانیوں کو کرداروں کے مجسموں کی مدد سے نمایاں کیا گیا ہے۔
مرکزی نمائشی حصوں میں ہال آف اینٹی کیوٹی اور کنٹیونٹی، ہال آف ٹیکسٹائلز، ہال آف صوفیز اور مزارات، ہال آف بلاڈز اور رومنز، ہال آف آرکیٹیکچر، ہال آف میوزیکل ہیریٹج اور فیوچر وژن۔ ہر صوبے اور خطے کی ثقافت کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔

دیگر گیلیریز میں ٹرک آرٹ، برتن سازی، بنائی، بلاک پرنٹنگ، نقاشی، پتھروں کا مغل سنگ تراشی اور بدھ کا مجسمہ بنانے کے لیے گندھارا مجسمہ کاری کی تیکنیک کا بھی مظاہر کیا گیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے کے لیے میوزیم میں دیگر ممالک کی مختلف ثقافتوں کی بھی نمائش کی گئی ہے جو پاکستانی ثقافت سے وابستگی رکھتے ہیں یا ان سے متاثر ہیں۔

لوک ورثہ کی ایگزیکیٹو ڈائریکٹر فوزیہ سعید کہتی ہیں کہ، ''یہ میوزیم کافی پر رونق ہے اور میوزیم میں موجود نمائشی اشیا لوگوں کی نظروں کا مرکز بنی رہتی ہیں۔ ملک کے ثقافتی ورثے کے فروغ اور اس کا عکس پیش کرنے کے لیے یہ حکومت کا قائم کردہ اپنی نوعیت کا پہلا علم الانسان سے وابستہ میوزیم ہے۔''
انہوں نے کہا کہ میوزیم کا موجودہ فوکس نوجوانوں میں ثفاقت کے بارے میں بیداری پیدا کرنا ہے۔ ''اس مقصد کے لیے جمعے کو ''اسٹوڈنٹس ڈے'' رکھا گیا ہے اور طلبہ کو میوزیم دیکھنے کے لیے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور پاکستان کی روایتی ثقافت کے مختلف پہلؤں کے بارے میں سوال پوچھے جاتے ہیں۔
یہ مضمون ڈان میں 26 جون 2016 کو شایع ہوا۔











لائیو ٹی وی