• KHI: Partly Cloudy 20.9°C
  • LHR: Cloudy 12.8°C
  • ISB: Heavy Rain 14.5°C
  • KHI: Partly Cloudy 20.9°C
  • LHR: Cloudy 12.8°C
  • ISB: Heavy Rain 14.5°C
شائع September 30, 2016 اپ ڈیٹ November 13, 2017

جب دنیا کے عظیم شہر موجود نہ تھے

فیصل ظفر



ہر جاندار کی طرح شہروں کی بھی عمریں ہوتی ہیں۔

جیسے پیرس 2 ہزار سال پرانا شہر ہے جبکہ اس کے موازنے میں کچھ شہر تو لڑکپن کے عہد کے لگتے ہیں۔

یہاں دنیا کے چند بڑے شہروں کی ابتداء سے سفر کی کہانی تصویری انداز سے بیان کی گئی ہے۔

کراچی، پاکستان

قدیم کراچی کی ایک تصوراتی تصویر — فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا
قدیم کراچی کی ایک تصوراتی تصویر — فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا

کراچی ایک قدرتی بندرگاہ ہے جس کی تاریخ بھی بہت قدیم ہے اور کہا جاتا ہے کہ سکندر اعظم وادی سندھ میں اپنی مہم کے بعد فوج کی واپس روانگی کے لیے کروکولا (کراچی) میں مقیم ہوا۔

عرب اس علاقہ کو دیبل کے نام سے جانتے تھے جس میں موجودہ کراچی کے چند علاقے اور جزیرہ منوڑہ وغیرہ شامل تھے۔

تاہم 1772 میں کولاچی نامی گاﺅں تجارتی مرکز میں تبدیل ہونا شروع ہوا تو شہر کی فصیل بنائی گئی جس کے ایک دروازے کا رخ سمندر کی طرف تھا جسے کھارادر کا نام دیا گیا جبکہ لیاری ندی والے دروازے کو میٹھا در کہا گیا۔

1889 کے کراچی کا ایک منظر — فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا
1889 کے کراچی کا ایک منظر — فوٹو بشکریہ وکی پیڈیا

انگریزوں نے 1839 میں اس شہر پر حملہ کرکے قبضہ کرلیا اور پھر اسے ضلع کی حیثیت دے دی جس کے بعد یہ پھیلنا شروع ہوگیا۔

یہی وجہ ہے کہ یہاں اکثر پرانی عمارات کا فن تعمیر کلاسیکی برطانوی نوآبادتی طرز کا ہے۔

1911 کے کراچی کا نقشہ
1911 کے کراچی کا نقشہ

1936 میں سندھ کو صوبہ بنایا گیا تو کراچی اس کا دارالحکومت بنا جبکہ 1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد یہ پاکستان کا دارالحکومت بن گیا، اُس وقت شہر کی آبادی چند لاکھ تھی مگر پاکستانی صدرمقام بننے کی وجہ سے اس کی آبادی بڑھنے لگی۔

اب کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور صنعتی و تجارتی مرکز ہے۔

اے پی فوٹو
اے پی فوٹو

ریو ڈی جنیرو، برازیل

فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز

ریو ڈی جنیرو کا سنگ بنیاد پرتگالی آبادکاروں نے 1565 میں رکھا تھا۔

فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز

1711 میں یہ شہر پھیلنا شروع ہوا۔

فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز

اور اب یہ دنیا کے چند مشہور اور خوبصورت ترین شہروں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔

کریٹیو کامنز فوٹو
کریٹیو کامنز فوٹو

نیویارک، امریکا

فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز

امریکا کے شہر نیویارک کا پہلا نام نیو ایمسٹرڈیم تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ اسے 17 ویں صدی کی ابتداء میں ڈچ تارکین وطن نے بسانا شروع کیا تھا، 1664 میں اسے ڈیوک آف یارک کے اعزاز میں نیویارک کا نام دیا گیا۔

فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز

1870 سے 1915 کے درمیان نیویارک کی آبادی میں تین گنا اضافہ ہوا اور یہ 15 سے 50 لاکھ تک جاپہنچی۔

فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز

پھیلاﺅ کے باعث شہر کے انفراسٹرکچر کی تعمیر شروع ہوئی جیسے مین ہٹن برج کی یہ تصویر 1909 میں اُس وقت لی گئی، جب یہ زیرتعمیر تھا۔

فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز

اب اس شہر میں 84 لاکھ افراد بستے ہیں۔

کریٹیو کامنز فوٹو
کریٹیو کامنز فوٹو

پیرس، فرانس

فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز

فرانسیسی دارالحکومت پیرس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ڈھائی سو قبل مسیح میں یہاں ایک قبیلے پیرسی کے لوگ بسنا شروع ہوئے تھے۔

فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز

یہ لوگ Île de la Cité میں رہنا شروع ہوئے جہاں اب ناٹرے ڈیم واقع ہے۔

فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز

1400 میں پیرس یورپ کے چند بڑے شہروں میں سے ایک بن چکا تھا۔

فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز

اب یہ دنیا کے چند پسندیدہ ترین شہروں میں سے ایک ہے۔

رائٹرز فوٹو
رائٹرز فوٹو

شنگھائی، چین

فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز

دریائے ہوانگپو کے کنارے واقع وسطی شنگھائی 1800 کے اواخر میں ایک عالمی مالیاتی مرکز بن چکا تھا جہاں امریکا، روس، برطانیہ اور یورپ بھر سے سیاح آتھے تھے۔

فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز

مالیاتی کامیابی نے اس ماہی گیروں کے قصبے کو بدل کر رکھ دیا اور اسے پرل آف دی اورینٹ کا نام بھی دیا گیا۔

فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز

1987 میں شنگھائی کا ضلع پیڈونگ دیگر کے مقابلے میں زیادہ ترقی یافتہ تھا جسے نوے کی دہائی میں غیرملکی سرمایہ کاری کے لیے کھول دیا گیا۔

رائٹرز فوٹو
رائٹرز فوٹو

آج یہ چین کے چند خوبصورت ترین مقامات میں سے ایک ہے۔

رائٹرز فوٹو
رائٹرز فوٹو

استنبول، ترکی

فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز

ترکی کے شہر استنبول کی تاریخ پیرس سے بھی زیادہ قدیم ہے جس کی بنیاد 660 قبل مسیح میں رکھی گئی تھی اور اس کا نام قسطنطنیہ رکھا گیا تھا، 1453 میں عثمانی خلافت نے عیسائیوں کو شکست دے کر اسے فتح کیا، جس کے بعد عثمانی سلطانوں نے یہاں شاندار مساجد قائم کیں اور اسے اسلامی ثقافت کا مرکز بنادیا۔

فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز

19 ویں صدی میں یہ شہر شمال کی جانب پھیلنے لگا اور اس کا کمرشل سینٹر غلطہ برج کے قریب تعمیر کیا گیا۔

فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز

آج استنبول بدستور ترکی کا قلب ہے۔

کریٹیو کامنز فوٹو
کریٹیو کامنز فوٹو

لندن، برطانیہ

لندن کی بنیاد رومی سلطنت نے 43 عیسوی میں رکھی تھی اور اس کا نام لندنیم رکھا گیا تھا۔ 11 ویں صدی میں لندن انگلینڈ کی سب سے بڑی بندرگاہ تھی۔ ویسٹ منسٹر ایبے کی تعمیر دوسری صدی میں ہوئی جو اب عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہے اور لندن کی قدیم ترین اور اہم ترین عمارات میں سے ایک ہے۔

فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز

17 ویں صدی میں یہاں طاعون کی وباء کے نتیجے میں ایک لاکھ افراد ہلاک ہوئے، جبکہ 1666 میں شہر میں بہت بڑے پیمانے پر آگ لگی جس کی دوبارہ تعمیر میں ایک دہائی کا عرصہ لگا۔

فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز

جارجیائی عہد (1714 سے 1830 تک)میں نئے اضلاع جیسے مے فیئر کی بنیاد رکھی گئی جبکہ دریائے ٹیمز پر نئے پلوں کی تعمیر سے جنوبی لندن پھلنا پھولنا شروع ہوا۔

فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز

یہ شہر آج بھی مسلسل پھیل رہا ہے اور سیاحتی لحاظ سے بھی مقبول ترین مقام ہے۔

کریٹیو کامنز فوٹو
کریٹیو کامنز فوٹو

میکسیکو سٹی، میکسیکو

فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز

میکسیکو کے دارالحکومت میکسیکو سٹی کی بنیاد ازٹیک سلطنت نے 1325 میں رکھی تھی جس کا نام ٹینوچھٹیٹلان رکھا گیا تھا۔

فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز

دنیا کھوجنے والے ہسپانوی شہری ہیرنین کورٹیس یہاں 1519 میں پہنچے اور اسے فتح کرلیا، جس کے بعد اس کا نام 15 ویں صدی میں تبدیل کرکے میکسیکو رکھ دیا گیا کیونکہ ہسپانوی افراد کے لیے پرانا نام بولنا آسان نہیں تھا۔

فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز

میکسیکو سٹی میں 16 ویں صدی میں گرڈ سسٹم کی بنیاد رکھی گئی اور زوکالو مرکزی چوراہا قرار دیا گیا۔19 ویں صدی کے اواخر میں یہاں جدید انفراسٹرکچر جیسے شاہراہیں، اسکولوں اور پبلک ٹرانسپورٹ کا قیام عمل میں آنا شروع ہوا۔

فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز

آج میکسیکو سٹی 89 لاکھ سے زائد افراد کا مسکن ہے۔

کریٹیو کامنز فوٹو
کریٹیو کامنز فوٹو

ماسکو، روس

فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز

روسی دارالحکومت ماسکو کی بنیاد 12 ویں صدی میں رکھی گئی۔

فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز

یہ شہر دریائے موسکاوا کے کنارے پھیلنا شروع ہوا۔

فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز

دنیا بھر میں مقبول سینٹ باسل کیتھیڈرل کی تعمیر 1561 میں مکمل ہوئی اور یہ اب بھی دیکھنے والوں کو مسحور کردینے والی عمارت ہے۔

کریٹیو کامنز فوٹو
کریٹیو کامنز فوٹو

دوسری جانب ہر گزرتے سال کے ساتھ ماسکو ترقی کررہا ہے۔

کریٹیو کامنز فوٹو
کریٹیو کامنز فوٹو

کابل، افغانستان

1880 کی دہائی کا کابل — کریٹیو کامنز فوٹو
1880 کی دہائی کا کابل — کریٹیو کامنز فوٹو

کابل بھی بہت پرانا شہر ہے اور لگ بھگ ساڑھے تین ہزار سال سے بھی پہلے اس کی بنیاد رکھی گئی تھی، اسے جنوبی اور وسطی ایشیاء کے تجارتی راستے میں ہونے کے باعث اسٹرٹیجک اہمیت بھی حاصل تھی۔

مسلم حکمرانوں کا ایک تصور — فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
مسلم حکمرانوں کا ایک تصور — فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز

یہاں موریا سلطنت، کوشان اور ہندو حکمران رہے، 642 عیسوی میں عربوں نے اسے فتح کیا جس کے بعد یہاں غزنوی، غوری اور تیموری خاندان کے حکمران رہے، 1504 میں ظہیر الدین بابر نے اس پر قبضہ کیا اور مغل خاندان سے 1738 میں ایرانی بادشاہ نادر شاہ نے اسے چھین لیا۔

1920 کی دہائی کا کابل — فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
1920 کی دہائی کا کابل — فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز

1839 میں برطانوی افواج نے اس پر قبضہ کرکے کٹھ پتلی حکومت تشکیل دی تھی تاہم 1841 میں اسے بھاگنا پڑا جبکہ 1919 میں افغانستان کی آزادی کا اعلان کیا گیا۔

40 کی دہائی میں یہ شہر صنعتی مرکز کی حیثیت سے ابھرنے لگا اور 60 کی دہائی میں مزید پھیلتا چلا گیا، 1975 میں یہاں برقی ٹرالی بس نظام رائج ہوا۔سوویت حملے سے یہ شہر بہت زیادہ ماثر ہوا جس کے بعد طالبان عہد اور پھر امریکا کا حملہ، کابل اب تک اس اثر سے باہر نہیں نکل سکا ہے۔

فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز

دہلی

فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز

مانا جاتا ہے کہ اس شہر میں آبادی کے بسنے کا عمل 2 سو قبل مسیح سے قبل شروع ہوا تھا اور کہا جاتا ہے کہ یہ ہندوﺅں کی تاریخ کی مہابھارت کا مرکزی مقام تھا ۔

1857 کا ایک تصوراتی منظر — کریٹیو کامنز فوٹو
1857 کا ایک تصوراتی منظر — کریٹیو کامنز فوٹو

1192 شہاب الدین غوری نے اسے فتح کیا جس کے بعد یہاں اگلی پانچ صدیوں تک مسلمانوں کی حکمرانی رہی۔

چاندنی چوک کا ایک تصوراتی منظر — کریٹیو کامنز فوٹو
چاندنی چوک کا ایک تصوراتی منظر — کریٹیو کامنز فوٹو

1857 کی جنگ آزادی کے بعد یہاں انگریزوں کی حکمرانی قائم ہوگئی اور 1911 میں اسے ہندوستان میں برطانوی صدر مقام کا درجہ دیا گیا جبکہ اسے نئی دہلی کا نام 1927 میں دیا گیا تھا۔

فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز

تقسیم ہند کے بعد یہ بھارت کا دارالحکومت بنا اور اب یہ شہر ترقی تو کررہا ہے مگر ریپ کے حوالے سے یہ دنیا کا 'ریپ دارالحکومت' بھی قرار دیا جاتا ہے۔

فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز
فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز