اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (UNDP) کی ڈویلپمنٹ ایڈوکیٹ پاکستان رپورٹ ایسے وقت میں جاری ہوئی ہے جب اس کے ساتھ کام کرنے والی وزارت برائے منصوبہ بندی، ترقی اور اصلاحات کے تحت سینٹرل سپیریئر سروسز کے حوالے سے ایک جامع اصلاحاتی ایجنڈا مرتب کر رہی ہے۔

یہ ایک خوش آئند قدم ہے کیونکہ اس رپورٹ میں مستقبل کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کے تناظر میں نہ صرف 19 ویں صدی میں سروس کی ابتدائی جڑوں کا جائزہ لیا گیا ہے بلکہ پوری ملکی تاریخ میں مختلف حکومتوں کے دوران ہونے والے کئی اصلاحات پر بھی نظر ثانی کی گئی ہے۔

موجودہ حکومت کی خواہشات حوصلہ مند ہیں جو کہ ہمیں وژن 2025 میں نظر آتی ہیں، جس کا مقصد اگلی ایک دہائی میں دنیا کی 25 اعلٰی معیشتوں میں شامل ہونا ہے۔ تاہم سول سروس اصلاحات کے سلسلے میں زیرِ غور ادارتی اصلاحات میں احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔

جدید طرز حکومت کے فریم ورک کے تحت بننے والے سول سرونٹس کے فرائض میں ریاست اور اس کے لوگوں کی جانب ان کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ آج کےدور میں محصولات جمع کرنے والوں سے لے کر منصفین تک کا کردار ریاستی معاملات چلانے سے بڑھ کر شہریوں کو وقت کے ساتھ پالیسی سازی کے مرحلے میں شریک رکھنے کے لیے پلیٹ فرامز فراہم کرنا ہو گیا ہے۔

مذکورہ بالا معلومات 2007 میں کروائے گئے ایک مشاہداتی سروے کے نتائج کے برعکس ہیں، جس میں سول سرونٹس نے جہاں عالمی معیار کے مطابق اپنی کارکردگی پیش کرنے میں ناکامی کو تسلیم کیا وہاں سروس کو لاحق مسائل کو حل کرنے میں دلچسپی لیتے نظر نہیں آئے۔ اصلاحات کو مرتب کرنے سے پہلے سول سرونٹس کی غیر آمادگی پر بڑی احتیاط سے ان کے گرد پیچیدگیوں اور پہلوؤں کی روشنی میں تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔

ماضی میں ملک کے دیگر اداروں کی ہی طرح، بیوروکریسی میں اصلاحات کی جانب ناتجربہ کاری اور متلون مزاجی رہی ہے۔ وہ ڈھانچہ جس نے برصغیر کے اثاثوں پر اختیار قائم رکھنے میں ایک اہم کردار ادا کیا وہ صلاحیت اور قابلیت کے گھمبیر مسائل سے گزر رہا ہے۔ 1949 کے پے کمیشن میں نظریاتی تبدیلی کو دیکھیں تو زوال پذیری آنی ہی تھی، جو اس طرح ہے کہ، ’’ہمارے ذہین افراد کی صحیح جگہ نجی انٹرپرائز میں ہے نہ کہ سرکاری سروس کی معمولی جگہ پر کیونکہ وہاں غیر معمولی عقل و ذہانت سے زیادہ کردار اور لوگوں کی ایمانداری سے خدمت کا جذبہ مطلوب ہوتا ہے۔‘‘

مگر اس کے بعد ہونے والی اصلاحات نے سروس کو اور بھی زیادہ کمزور کیا، ابھی ایک اور سنگین لہر آنا باقی تھی۔ بھٹو نے اپنی حکومت کے دوران گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ، 1935 میں شامل سول سرونٹس کو اپنی سروس کے دوران ناجائز برطرفی اور خودمختارانہ اقدام کے خلاف حاصل آئینی گارنٹی کو ختم کر دیا تھا۔

اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصان نے ایگزیکیٹو کی ایک خود مختار شاخ کے طور پر سروس کی اثرانگیزی کو کم کیا۔ علاوہ ازیں دیگر اصلاحات، جیسے سروس کیڈرز، سفارش کی اجازت اور غیر لچکدار تنخواہوں کے اسکیلز نے سروسز کی کارکردگی کو مزید متاثر کیا، اس کی وجہ میرٹ کے معیار کو نظر انداز کرنا تھا۔

اسی طرح آخری بار مشرف دور میں جو اصلاحات متعارف ہوئیں، جو کہ اختیارات کی منتقلی کے منصوبے کے تحت مقامی حکومت کو مستحکم بنانے کے لیے کیے گئے تھے، ان کے نتیجے میں ڈپٹی کمشنر کے عہدے کو ختم کیا گیا تھا۔ ان اصلاحات سے زیادہ کچھ حاصل نہیں ہوا بلکہ قانونی فیصلے اور تنازع کے حل کے مراحل کو غیر ضروری طور پر مشکل بنا کر مؤثر انتظامیہ کو مزید متاثر کیا۔

سروس کے اس تاریخی ارتقا اور نیشنل کمیشن فار گروتھ کے تحت مجوزہ اصلاحات کو دیکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس کے بعد آنی والی کوئی بھی نئی اصلاحاتی اسکیم ایک ہی نظریے پر گامزن نظر آتی ہے جس میں سول سروس کے لیے خود مختاری، میرٹ اور احتساب اہم ترین بنیادیں بن کر سامنے آئیں۔

حالیہ برسوں میں جو ایک مثبت ہوئی جو کہ حوصلہ بخش ہونے کے ساتھ اصلاحاتی اقدامات میں مدد کر سکتی ہے، وہ سول سرونٹس کی بدلتی ہوئی پروفائل ہے۔ فیڈرل پبلک سروس کے اعداد شمار کے مطابق سی ایس ایس امتحانات میں پروفیشنل ڈگریوں کے ساتھ بیٹھنے والے امیدواروں کی تعداد 2006 میں 22 فیصد سے بڑھ کر 2013 میں 46 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔

اسی طرح تعینات ہونے والے امیدواروں میں اول درجہ (فرسٹ دویژن) حاصل کرنے والوں کا تناسب 2006 میں 61 فیصد سے بڑھ کر 2013 میں 77 فیصد ہو گیا۔ ایسے بھی سول سرونٹس ہیں جنہوں نے چند اعلٰی یونیورسٹیوں میں گریجوئٹ اور پوسٹ گریجوئٹ کی ڈگری حاصل کی ہوئی ہے، جو انہیں ضروری صلاحیت اور تعلیم سے لیس کرتی ہیں اس طرح وہ اپنے فرائض مؤثر انداز میں انجام دیتے ہیں۔

اگرچہ یہ تبدیلی سول سروس کے لیے ایک مثبت شگون ہے، مگر اس کی ایک بڑی وجہ ہماری معیشت میں موجود کچھ منفی عناصر ہیں۔ سابقہ وقار کی بحالی کے لیے یہ ضروری ہے کہ حکومت اس کے ساتھ ساتھ کچھ معیشت میں کچھ مثبت عناصر شامل کرے بلخصوص طویل عرصے سے تعطل کا شکار تنخواہوں کی اصلاحات ہیں۔

اس مقبول تصور کے برعکس، بہتر مالی مراعات کے بغیر کرپشن پرسیپشن انڈیکس (جس میں پاکستان 175 میں سے 117 ویں نمبر پر ہے) میں پاکستان کی عالمی رینکنگ میں بہتری کی امید کم ہی کی جاسکتی ہے کیونکہ اس طویل دوڑ میں صرف زبانی حوصلہ افزائی سول سرونٹس کی معاشی ضروریات کو پورا نہیں کر سکتی۔

اصلاحات میں ایک اور ضروری نکتہ یہ بھی ہے کہ تمام گروپس اور سروسز کو مساوی طور پر مستحکم کیا جائے۔ اس وقت بیوروکریسی کے صرف چند گروپس یا سروسز میں تعیناتی کو عزت سمجھے جانے وجہ سے کئی متعین امیدوار اپنا کیڈر بہتر کرنے کی غرض سے بار بار سی ایس ایس امتحان میں بیٹھتے ہیں۔

اس بڑھتے رجحان کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ضروری عہدے خالی رہتے ہیں، اس طرح حکومت کو گروپس یا سروسز میں ذہین لوگوں کی کمی سے مالی و معاشی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔

علاوہ ازیں، اصلاحات میں سروس میں شامل ہونے والے سول سرونٹس کے کریئر کے حوالے سے استعداد بڑھانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ایک طویل عرصے سے یہ دیکھا گیا ہے، اپنے مختلف پروگرامز کے تحت، حکومت نے زیادہ معاوضے کے عوض کم تعلیم یافتہ افراد کو انٹرنیز/ فیلوز مقرر کیا مگر انہوں نے معاوضوں کے مقابلے میں بہت کم نتائج فراہم کیے اور اس طرح قلیل وسائل پر اور دباؤ پیدا ہوا۔

مؤثر تربیت کے لیے حکومت اعلیٰ تعلیمی اداروں کے ساتھ ملکر پالیسی سازی کر سکتی ہے، جس میں وسائل کو ضایع کیے بغیر پالیسی سازی کو یقینی بنایا جائے۔ آج کی طرح، ماضی میں بھی سول سروس اصلاحات میں قابل ذکر عملی کامیابی کے بغیر طرز حکومت، احتساب، اثرانگیزی اور کشادگی پر سب سے زیادہ زور دیا گیا۔

اس میں ناکامی کی ایک اہم وجہ سول سرونٹس جو کہ حقیقی عمل درآمد کروانے والے ہیں، کے حالات کو بہتر اور ان کا بوجھ کم کرنے پر عدم دلچسپی ہے۔

اگر پاکستان کو اگلی دہائی تک اول معیشتوں میں شامل کرنا ہے تو اسٹیرئنگ ویل سب سے زیادہ قابل اور سرگرم افراد کے ہاتھوں میں دینا انتہائی ضروری ہے کیونکہ ہر شعبے کو اس کے ماہر اور قابل ڈرائیور کے حوالے کیا جانا چاہیے۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 26 نومبر 2016 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں