سنگاپور کے کتب خانوں سے میں نے کیا سیکھا؟

سنگاپور کے کتب خانوں سے میں نے کیا سیکھا؟

آصف نورانی

سنگاپور اور اس کی بے انتہا صفائی، مؤثر طرزِ حکومت، شاندار کلیکشن سے آراستہ عجائب گھروں، بڑی بڑی عبادت گاہوں اور اس کی رنگارنگی ثقافت ظاہر کرتے چائنہ ٹاؤن اور لٹل انڈیا جیسے علاقوں کے نظاروں پر بے تحاشہ لکھا جا چکا ہے۔

1992 میں جب میں ایک سفرنامہ نگار کی حیثیت سے سنگاپور گیا تھا، تب بھی میں نے ڈان کے لیے اس حوالے سے لکھا تھا۔ مگر ہر جگہ کے بارے میں جاننے کے لیے کچھ نہ کچھ نیا ضرور ہوتا ہے، اسی طرح مجھے بھی حال ہی میں سنگاپور کے بارے میں کچھ نیا دیکھنے اور جاننے کو ملا۔

چند ماہ قبل میں اپنے تین سالہ زندہ دل پوتے پوتیوں سے ملنے سنگاپور آیا ہوا تھا۔

وہ کلیمنٹی میں رہتے ہیں جو کہ اس جزیرے کے مغربی کنارے پر واقع ہے اور اس شہر جتنی ریاست کے باقی علاقوں کی طرح ہی صاف ستھرا ہے۔

جس کمرے میں میرے قیام کا بندوبست ہے وہاں سے خوب نظارہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ کمرے سے میں زیر تعمیر فلک بوس عمارتوں کے اوپر تین کرینز کام کرتے ہوئے دیکھ سکتا ہوں۔

کلیمنٹی میں تقریباً تمام اونچی عمارتیں رہائشی ہیں۔ میرے میزبان کا اپارٹمنٹ 600 اپارٹمنٹ والی بلو ہورائزنز کونڈومینیمز نامی پانچ 20 منزلہ عمارتوں کی ایک چین کے چھٹے فلور پر موجود ہے۔

بہترین ڈیزائن اور مہارت کے ساتھ بنائی گئی ان عمارتوں کو مؤثر طریقے سے بحال رکھا جاتا ہے۔ وہاں سوئمنگ پولز بھی ہیں، جن میں سے ایک بڑوں کے لیے ہے اور دو مختلف عمروں کے بچوں کے لیے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک باسکٹ بال کورٹ بھی موجود ہے۔

دیگر سہولیات کے ساتھ وہاں ریڈنگ روم بھی ہے، جو کہ رات کو 11 بجے تک کھلا رہتا ہے، جہاں رہائش پذیر افراد اخبارات پڑھتے ہیں اور اپنے لیپ ٹاپس پر کام کرتے ہیں۔

ان سہولیات میں سے مجھے جو سب سے کارآمد سہولت لگی وہ تھی وہاں کی شٹل سروس۔ آرامدہ کوچز آپ کو قریب واقع شاپنگ سینٹرز تک لے جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک میں ماس ریپڈ ٹرانسپورٹ اسٹیشن واقع ہے۔

یہاں کے شورومز، دکانیں اور ریسٹورینٹس باقی دنیا میں نظر آنی والی ایسی جگہوں سے کچھ مختلف نہیں ہیں۔ مگر جو چیز سب سے زیادہ متاثر کن ہے وہ ہے یہاں کے عوامی کتب خانے۔

میں دنیا کے مختلف حصوں میں موجود کئی عوامی کتب خانے دیکھ چکا ہوں مگر جو ایک چیز کلیمنٹی میں نظر آئی وہ یہ تھی کہ میں نے اس سے پہلے کبھی اس قدررنگین اور کشادہ کتب خانے نہیں دیکھے۔ حتیٰ کہ یہاں روشنی کے انتظامات بھی ایسے ہیں جو زیادہ روشن اور پڑھائی کا ماحول برقرار رکھنے میں کافی کارآمد ہیں۔

کتب خانے کے ایک کونے میں ایک خاتون کتاب پڑھ رہی ہیں — آصف نورانی
کتب خانے کے ایک کونے میں ایک خاتون کتاب پڑھ رہی ہیں — آصف نورانی

مجھے میری میزبان سے پتہ چلا کہ کتب خانے کو استعمال کرنے کے لیے آپ کا ممبر ہونا لازمی نہیں ہے۔ ہر کوئی یہاں بیٹھ کر کتابیں، جو کہ اکثر انگلش میں ہیں، اور رسالے، جو کہ سنگارپور کی چار قومی زبانوں، انگلش، ملائی میں دستیاب ہیں، پڑھ سکتا ہے۔

لیکن کتابوں کو عارضی طور پر لے جانے کے لیے آپ کا ممبر ہونا لازمی ہے اور سالانہ ممبرشپ فیس کا انحصار ممبران کی رہائشی حیثیت پر ہوتا ہے۔ فیس سنگاپوری باشندوں کے لیے انتہائی کم ہے لیکن ورک ویزا پر رہائش پذیر افراد کے لیے بھی کافی حد تک قابل استطاعت ہے۔ بر صغیر سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کہتی ہیں کہ وہ سالانہ صرف 12 سنگاپوری ڈالرز فیس ادا کرتی ہیں۔

کتب خانے میں موبائل فون پر بات کرنے سے ممانعت کا پیغام پہنچانے کے لیے انتظامیہ نے نمایاں طور پر تین دلچسپ خاکے آویزاں کیے ہیں۔

ایک میں ایک آدمی کو موبائیل فون پر باتیں کرتا دیکھایا گیا ہے۔ جس کے برابر میں بیٹھا ایک آدمی پڑھنے کی کوشش کر رہا ہے اور بچے کو اپنی گود میں لیے ایک خاتون میگزین پر دھیان دینے کی کوشش کر رہی ہیں۔

دوسرا خاکہ فون پر باتیں کرنے والے شخص کے ساتھ بیٹھے دونوں لوگوں کے چہروں پر برہمی کے آثار کو ظاہر کرتا ہے۔ تیسرے خاکے میں بچے کی چوسنی اس آدمی کے منہ میں ٹھنسی ہوئی ہے، اور بچہ اسے دیکھ کر محظوظ ہو رہا ہے۔

کتب خانے میں آویزاں موبائیل فون کی استعمال سے ممانعت پر دلچسپ خاکے— آصف نورانی
کتب خانے میں آویزاں موبائیل فون کی استعمال سے ممانعت پر دلچسپ خاکے— آصف نورانی

کتب خانے کے جس حصے نے مجھ سے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ چھوٹے بچوں کا سیکشن تھا جو رنگین کتابوں سے بھرا ہوا تھا، وہاں ایک ماں اور دادی اپنے بچوں کے لیے تصویری کتابیں پڑھ رہی تھیں۔ بچے اس قدر اس سرگرمی میں مشغول تھے کہ انہوں نے اس چیز پر دھیان ہی نہیں دیا کہ کوئی شخص ان کے آس پاس اپنے کیمرا سے تصاویر کھینچ رہا ہے۔

اس کے قریب ہی دوسرا سیکشن ہے جہاں بچے اپنی ماؤں یا دادیوں کی نگرانی میں کمپیوٹرز استعمال کرنا سیکھتے ہیں۔ جن میں ننھے بچوں کے لیے دلچسپی کے حامل پروگرامز موجود ہیں۔

افسانوں، سیاسیات، بین الاقوامی تعلقات جیسے موضوعات پر مشتمل کتابوں کے معمولاً حصوں کے علاوہ کھانا پکانے (جہاں کوئی خاتون تو نہیں البتہ تین آدمیوں کو ضرور دیکھا)، فیملی اور بچوں کی پرورش جیسے موضوعات پر مشتمل کتابوں کے حصے یا سیکشن ہیں۔

میرے لیے توجہ کا اگلا مرکز رنگین بورڈز پر درج آئندہ ماہ میں منعقد ہونے والے پروگرامز تھے۔ جن میں کہانی سنانے کی نشستیں اور چینی خطاطی کے حوالے سے پروگرامز شامل تھے۔ جبکہ بورڈ پر ڈسلیکسیا (لکھنے یا پڑھنے میں کمزوری) کو سمجھنے کے لیے بھی ایک نشست کا پروگرام بھی درج تھا جو ان والدین کے لیے ترتیب دیا گیا تھا جن کے بچے ڈسلیکسیا میں مبتلا ہیں۔

ایک دادی اپنے ننھے پوتے کے اندر پڑھنے میں دلچسپی پیدا کرنے کی کوشش رہی ہیں— تصویر آصف نورانی
ایک دادی اپنے ننھے پوتے کے اندر پڑھنے میں دلچسپی پیدا کرنے کی کوشش رہی ہیں— تصویر آصف نورانی

نوجوان مرد و خواتین پر مشتمل کتب خانے کی ایک ٹیم اور برٹش کونسل کی مقامی شاخ کے نمائندے شیکسپیئر پر پروگرامز کی نمائش میں مشغول نظر آئے۔ مطالعاتی کمرے میں خاموشی برقرار رکھنے کی خاطر وہ ایک دوسرے سے سرگوشیوں میں باتیں کر رہے تھے۔

شیکسپیئر ان سنگاپور کے عنوان کے ساتھ ایک بڑا پوسٹر تھا۔ میں سوچنے لگا کہ کیا کبھی شیکسپیئر صاحب اس شہری ریاست میں آئے ہوں گے یا نہیں۔ وہ نہیں آ پائے ہوں گے کیونکہ ان دنوں سنگاپور میں محض ایک مچھیروں کے گاؤں کے علاوہ اور کچھ خاص نہ تھا۔

پوسٹر میں گزشتہ سال منعقد ہونے والے شیکسپیئر کے ڈراموں کی فہرست اور ان پر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے والے مقامی اور بیرونی تھیٹر گروپس کے نام درج تھے۔

برطانیہ سے تعلق رکھنے والے سنگاپور میں مقیم شیکسپیئر کے ایک جوشیلے مداح نے مجھے بتایا کہ یہاں پر ہونے والی ڈراموں کی نمائش کا معیار برطانیہ کے معیار کا حامل کہا جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا اس کا اندازہ دیکھ کر ہی لگایا جاسکتا ہے مگر سنگاپور میں مزید قیام کے لیے میرے پاس وقت نہیں تھا۔

ایک والدہ اپنی بیٹی کو کمپیوٹر استعمال کرنا سکھا رہی ہیں— تصویر آصف نورانی
ایک والدہ اپنی بیٹی کو کمپیوٹر استعمال کرنا سکھا رہی ہیں— تصویر آصف نورانی

کتب خانے سے باہر نکلتے وقت میں نے ایک خاتون کو اپنی ٹین ایج بیٹی کے ہمراہ دیکھا جو کتب خانے سے عارضی طور پر لی جانے والی اپنی کتابوں کو ایک ایک کر کے اسکینر پر رکھ رہی تھیں۔

میں نے ان سے پوچھا کہ، ’جب آپ ان کتابوں کو واپس لوٹانے آئیں گی تو کیا پھر سے آپ کو اسی اسکینر تک آنا ہوگا؟‘

انہوں نے مجھے بتایا کہ، ’آپ نے شاید مرکزی دروازے کے قریب موجود دو سوراخ نہیں دیکھے ہوں۔ ہم اپنی کتابیں وہاں ڈال دیتے ہیں بھلے ہی کتب خانہ بند ہی کیوں نہ ہو۔ جبکہ سوراخ کے دوسری جانب موجود مشینیں باقی ضروری کام انجام دے دیتی ہیں۔‘‘

کتب خانہ ایک شاپنگ مال میں قائم ہے اور اسی کے اوقات کار کے مطابق صبح 9 بجے کھلتا ہے اور رات 11 بجے بند ہو جاتا ہے۔

کتب خانے کا مطالعاتی کمرہ کافی کشادہ اور آرامدہ ہے — تصویر آصف نورانی
کتب خانے کا مطالعاتی کمرہ کافی کشادہ اور آرامدہ ہے — تصویر آصف نورانی

کاؤنٹر پر موجود ایک داڑھی والے نوجوان شخص نے مجھے بتایا کہ سنگاپور میں زیادہ سے زیادہ 26 علاقائی کتب خانے ہیں مگر کلیمنٹی کا کتب خانہ چند بڑے کتب خانوں میں شمار ہوتا ہے جبکہ سنگاپور کا سب سے بڑا کتب خانہ ظاہر ہے کہ سنگاپور نیشنل لائبریری ہی ہے، جہاں آپ کو ایک بار تو ضرور جانا چاہیے۔

میں نے یہاں جتنے بھی مالز دیکھے ان میں سے کسی ایک میں بھی کتابوں کی دوکانیں نظر نہیں آئیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ جہاں آپ کسی عوامی کتب خانے سے پورے ایک ماہ کے لیے ایک بار میں 6 کتابیں عارضی طور پر لے سکتے ہیں تو وہاں کتابوں کی دکانوں کا ہونا لازمی نہیں ہے۔

کتب خانے کا ای-بک سیکشن — تصویر آصف نورانی
کتب خانے کا ای-بک سیکشن — تصویر آصف نورانی

کتب خانے میں بچوں کی تفریحی کا بھی بندوبست کیا گیا ہے— آصف نورانی
کتب خانے میں بچوں کی تفریحی کا بھی بندوبست کیا گیا ہے— آصف نورانی


آصف نورانی امن کے داعی ہیں، وہ کئی سالوں سے برصغیر کے دو ممالک کے لوگوں کے درمیان قریبی تعلقات کی ضرورت پر مضامین لکھ رہے ہیں اور اس موضوع پر ہندوستان، پاکستان اور امریکا میں لیکچرز بھی دیتے آئے ہیں۔

وہ چار کتابوں کے مصنف ہیں ان میں ایک ٹیل آف ٹو سٹیز (دو شہروں کی کہانی) بھی شامل ہے جو انہوں نے ہندوستان کے نمایاں کالم نگار کُلدیپ نائر کے ساتھ تحریر کی تھی۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔