وہ جنوری کی یخ بستہ ہواؤں کی ایک ایسی ہی صبح تھی۔ نہ میں کمبل کو چھوڑ پا رہا تھا اور نہ کمبل مجھے۔ اچانک فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف سے کہنے والے نے کہا کہ معروف صحافی و ایڈیٹر اخلاق احمد جوکھیو کو انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے سات سال قید کی سزا سنا کر سینٹرل جیل سکھر بھیج دیا ہے۔

یہ سننا تھا کہ ذہن ماؤف ہونے لگا کہ ایک نڈر اور بہادر صحافی کو جو سندھ کے جاگیردارانی اور وڈیرا شاہی میں جکڑے معاشرے میں حق و سچ کی آواز تھا، عدالت ایک جھوٹے کیس میں کیسے سزا سنا سکتی ہے؟

لیکن یہ انہونی اب ہو چکی تھی۔ سندھ کے ضلع نوشہرو فیروز سے ہفتہ وار اخبار 'ساھتی آواز' کے ایڈیٹر اور کئی صحافیوں کے استاد اخلاق احمد جوکھیو اب سینٹرل جیل سکھر میں قیدی نمبر 77 بن چکے تھے۔

بلند اخلاق کا مالک صحافی اخلاق احمد کوئی معمولی صحافی نہیں، بلکہ تعمیرِ سندھ جیسے معتبر سندھی روزنامے کا ایڈیٹر رہا ہے۔ وہ سندھ کی کرپٹ اور اپوزیشن سے عاری سیاست میں مزاحمتی صحافت کا ایسا علمبردار ہے جو ہمیشہ صف اول میں نظر آتا ہے۔

سیاسی چالبازیاں نہ پہلے کبھی اس کے قلم کو چھین سکیں، اور نہ ہی جیل کی اونچی دیواریں اس سے پہلے کبھی اسے سچ لکھنے سے روک سکی ہیں۔ وہ اس سے پہلے بھی سچ لکھنے کی پاداش میں دو سال جیل کاٹ چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنے پرچے کا نام 'ساھتی آواز' یعنی مدد گار آواز رکھا۔

وہ ایک سر پھرا لکھاری ہے جو اپنے اصولوں پر کبھی سودے بازی نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب پیسوں کے پجاریوں نے اسے قبرستان پر بنائے گئے پلازہ میں دو دکانیں اور 10 لاکھ روپے دینے کی کوشش کی تو قلم کے مسافر نے اسے اپنے پاؤں کی ٹھوکر پر رکھا۔ جب دولت کے پجاریوں کا ہر حربہ ناکام رہا تو اس کے لیے انسدادِ دہشت گردی کے قانون کا نیا پھندا تیار کیا گیا۔

مجھے یاد ہے کہ وہ مقامی قبضہ گروپوں اور سیاسی چوہدریوں کے خلاف انصاف اور سچ کی ایک توانا آواز تھا۔ اس نے محراب پور میں میروں اور کلہوڑو کی لڑائی میں مارے جانے والوں کے تاریخی قبرستان پر بلڈر مافیا کے قبضے کے خلاف نہ صرف بھرپور آواز اٹھائی بلکہ اپنے قلم سے قبضہ گیروں کے خلاف مزاحمت کی علامت بن گیا۔ اخلاق احمد کے قلم کی سیاہی نے قبضہ اور بلڈرز مافیا کے کروڑوں روپے کمانے کے منصوبوں پر کالک مل دی۔

ویسے گذشتہ آٹھ سال سے سندھ کی حکومت نے ٹھٹہ کے مکلی اور کراچی کے چوکنڈی قبرستان کا جو حشر کیا ہے، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ تاریخی قبروں اور سندھ کے ثقافتی ورثے کی اینٹیں بھی لوگ نکال نکال کر لے گئے۔ اب یہ تاریخی قبرستان صرف کھنڈرات نظر آتے ہیں۔

ایسے جمہوری دور میں جب لاکھوں سے کروڑوں بنانے کا عمل ہی سکہ رائج الوقت ہو، وہاں اخلاق جوکھیو جیسے قلم کار محراب پور میں واقع تاریخی قبرستان کو بھلا کیسے بچا سکتے تھے؟ اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ قبضہ مافیا حرکت میں آئی، بلڈر مافیا کے چمکتے نوٹوں نے اپنی کرامت دکھائی، پولیس کے مقامی تھانے دار کو ساتھ ملایا گیا اور انسدادِ دہشت گردی کے قانون کی آڑ لیتے ہوئے بے باک آواز کا گلا گھونٹنے کا انتظام کر لیا گیا۔

صحافی اخلاق احمد اور ان کے ساتھیوں کے خلاف پولیس اسٹیشن ہالانی میں 5 مئی 2015 کو انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت ایف آئی آر نمبر 68/2015 کاٹ دی گئی اور کیس انسداد دہشت گردی کی نوشہرو فیروز کی عدالت بھیج دیا گیا۔

پیشیوں پر پیشیاں چلتی رہیں، یہاں تک کہ 9 جنوری 2017 کو 'انصاف' حرکت میں آیا اور سچ لکھنے کی پاداش میں مزاحمت کی علامت کو پسِ دیوار زنداں میں پھینک دیا گیا۔

مافیا سمجھتی ہے کہ شاید یہ آواز اب ہمیشہ کے لیے خاموش کروا دی گئی ہے، لیکن انہیں خبر نہیں کہ اخلاق احمد جیسے صحافی تو اس مٹی کا وہ نمک ہیں جس سے سچائی کے ذائقے کو دوام حاصل ہے۔ یہ اپنے قلم سے وہ سورج تراشتے ہیں، جس کی کرنیں گھٹن زدہ معاشرے میں تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوتی ہیں۔ روشنی اور اجالے کو کبھی قید نہیں کیا جا سکتا، علم اور آگاہی تو پھیلتی ہی ہے

رات جب کسی خورشید کو شہید کرے

تو صبح اک نیا سورج تراش لاتی ہے

نوٹوں کے ترازو میں ہر چیز کو تولنے والوں کو شاید خبر نہیں کہ قید و بند کی صعوبتیں قلم قبیلے کے مسافروں کی راہ میں نہ تو روڑے اٹکاتی ہیں اور نہ ہی منزل کو ان کی نظروں سے اوجھل کرتی ہیں۔

انہیں نہیں معلوم کہ قلم قبیلے کے مسافر کی سوچ کو نہ تو زنداں کی دیواروں میں قید کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی معاشرے کی سماجی ناہمواریوں کے خلاف پنپنے والی سوچوں پر پہرے بٹھائے جا سکتے ہیں۔

شاہ لطیف کی دھرتی میں ابھی ایسے سپوت موجود ہیں جو معاشرتی اور سماجی ناسوروں کے خلاف اپنی توانا آوازوں کو مہمیز دیتے رہیں گے۔ اخلاق احمد کی یہ توانا آواز سینٹرل جیل سکھر کی چاردیواری سے باہر نکل چکی ہے اور کہ کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس اور صحافتی مزاحمتی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے اخلاق احمد کی سزا کو حق و انصاف کا عدالتی قتل قرار دیتے ہوئے اسے آزادی صحافت کے خلاف عمل ٹھہرایا ہے۔

سینٹرل جیل سکھر کے در و دیوار گواہ ہیں کہ اخلاق احمد نے حوصلہ ہارا نہیں، بلکہ زنداں نے اس کے حوصلوں کو جلا بخشی ہے اور اسے مہمیز دی ہے۔ ملاقاتی بتاتے ہیں کہ اخلاق جوکھیو پس دیوارِ زنداں بھی یہ شعر گنگناتے رہتے ہیں۔

میرا قلم نہیں کردار اس محافظ کا

جو اپنے شہر کو محصور کرکے ناز کرے

میرا قلم نہیں کاسہ کسی گداگر کا

جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے

میرا قلم نہیں اوزار اس نقب زن کا

جو اپنے گھر کی چھت میں شگاف ڈالتا ہے

میرا قلم نہیں اس دزدنیم شب کا رفیق

جو بے چراغ گھروں پہ کمند اچھالتا ہے

میرا قلم نہیں تسبیح اس مبلغ کی

جو بندگی کا بھی ہر دم حساب رکھتا ہے

میرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کی

جو اپنے چہرے پہ دہرا نقاب رکھتا ہے

میرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی

میرا قلم تو عدالت میرے ضمیر کی ہے

اسی لئے تو جو لکھا تپاک جاں سے لکھا

جبھی تو لوچ کماں کی، زباں تیر کی ہے

میں کٹ گروں یا سلامت رہوں، یقین ہے مجھے

کہ یہ حصار ستم کوئی تو گرائے گا

تمام عمر کی ایذا نصیبوں کی قسم

میرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا

تبصرے (0) بند ہیں