انسانوں کے خلاف بحیرہءِ ارال کا مقدمہ

انسانوں کے خلاف بحیرہءِ ارال کا مقدمہ

ڈاکٹر مونس احمر

بحیرہءِ ارال، جو حقیقتاً 67,300 مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلی ہوئی ایک تازہ پانی کی جھیل تھی، 1960 سے ایک ایسی تباہی قرار دی جاتی ہے جس کی وجہ انسان ہے۔

جغرافیائی طور پر بحیرہءِ ارال بحیرہءِ کیسپیئن سے 600 کلومیٹر مشرق میں واقع ہے۔ یہاں 1100 سے زیادہ جزیرے تھے جو ایک دوسرے سے چھوٹی بڑی جھیلوں اور آبناؤں کے ذریعے ایک دوسرے سے علیحدہ تھے، جس کی وجہ سے اسے اس کے قزاخ نام 'ارال' سے جانا جاتا ہے جس کے معنیٰ جزیرے کے ہیں۔

دریائے آمو اور دریائے سیر اس جھیل کو صدیوں تک تازہ پانی فراہم کرتے رہے، یہاں تک کہ سوویت حکام نے وسطی ایشیا میں آبپاشی اور صنعتی مقاصد کے لیے ان دریاؤں کا رخ موڑ دیا، چنانچہ بحیرہءِ ارال سکڑنے لگا۔ 1991 تک یہ اپنا آدھے سے زیادہ حصہ گنوا چکا تھا۔

بحیرہءِ ارال کے کٹاؤ سے نہ صرف وسیع پیمانے پر ایک ماحولیاتی تباہی نے جنم لیا، بلکہ قازقستان اور ازبکستان کو تازہ پانی کی فراہمی بھی متاثر ہوئی جو کہ بحیرہءِ ارال پر منحصر تھے۔ ماہی گیری، نباتات اور حیوانات میں کمی واقع ہونے لگی۔ 1999 میں ورلڈ بینک نے بحیرہءِ ارال کو دریائے آمو اور دریائے سیر کے ذریعے دوبارہ تازہ پانی فراہم کرنے کا منصوبہ پیش کیا، مگر یہ منصوبہ اپنے نفاذ سے اب بھی بہت دور ہے۔

وسطی ایشیاء میں بحیرہءِ ارال کی لوکیشن.— بشکریہ گوگل.
وسطی ایشیاء میں بحیرہءِ ارال کی لوکیشن.— بشکریہ گوگل.

بحیرہءِ ارال کی 1997 میں خلاء سے لی گئی تصویر۔ — بشکریہ ناسا۔
بحیرہءِ ارال کی 1997 میں خلاء سے لی گئی تصویر۔ — بشکریہ ناسا۔

1960 سے قبل بحیرہءِ ارال نہ صرف وسطی ایشیاء کے لیے تازہ پانی کا ذریعہ تھا، بلکہ ہزاروں ماہیگیروں کے لیے روزگار کا ذریعہ بھی تھا۔ اکنامک اینڈ پولیٹیکل ویکلی کے ستمبر 2002 کے شمارے میں رام سمپتھ کمار اپنے تحریر کردہ ایک دلچسپ مضمون (بحیرہءِ ارال: وسطی ایشیا میں ماحولیاتی سانحہ) میں لکھتے ہیں کہ:

"دریائے آمو اور دریائے سیر کے پانی سے وجود پانے والی بحیرہءِ ارال ایک منتہائی جھیل (وہ جھیلیں جو بہہ کر سمندر میں نہیں گرتیں) ہے جو قازقستان اور ازبکستان کے درمیان ایک قدرتی سرحد کا کام دیتی ہے۔ 1960 میں یہ دنیا کی چوتھی بڑی جھیل تھی، آج یہ تباہ ہوتے ہوتے ایک چھوٹے جوہڑ کا روپ اختیار کرنے کے قریب ہے۔ بحیرہءِ ارال کی تباہی اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک ماحولیاتی اور انسانی سانحہ کس طرح ایک پورے خطے کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ بحیرہءِ ارال کی تباہی ناپائیدار ترقی کی واضح مثال ہے۔"

سوویت غلطیاں

جب دریائے آمو اور دریائے سیر کا رخ تبدیل کرنے کی ناکارہ منصوبہ بندی پر عملردرآمد جاری تھا، تو ازبکستان اور ترکمانستان میں کپاس کی کاشت کے لیے کئی نہریں نکالیں گئی تھیں۔ بحیرہءِ ارال نے سکڑنا شروع کر دیا۔ خروشیف کے دور میں سوویت سائنسدانوں نے ایک عجیب سا خیال پیش کیا کہ سائیبیریائی دریاؤں کا پانی بحیرہءِ ارال کی جانب موڑ کر اس کو دوبارہ تازہ پانی فراہم کیا جائے۔ مگر اس خیال کو ناقابلِ عمل ہونے کی وجہ سے رد کر دیا گیا۔

فی الوقت کوک ارال (بحیرہءِ ارال کا سب سے بڑا جزیرہ) شمال مشرقی 'چھوٹے ارال' کو جنوب مغربی 'بڑے ارال' سے الگ کرتا ہے۔ اس سے قازقستان اور ازبکستان کے درمیان ایک قدرتی سرحد بنتی ہے۔

بحیرہءِ ارال کا تیزی سے کٹاؤ "بالشویک انقلاب کے وسطی ایشیاء کو سیراب کرنے میں بڑھتی دلچسپی کے بعد شروع ہوا۔ 1930 کی دہائی کے اواخر میں اسٹالن کی زیرِ کمان سوویت وزارتِ پانی نے ازبکستان، قازقستان اور ترکمانستان میں کپاس کی کاشت کے لیے ان کی جانب پانی کا رخ موڑنے کا ایک زبردست منصوبہ تیار کیا۔ 1939 میں ازبکستان کی وادیءِ فرغانہ کے گرد ایک نہر کی تعمیر کے ساتھ پہلے بڑے آبپاشی منصوبے نے اپنا کام شروع کیا۔"

بحیرہءِ ارال میں ماہی گیروں کی ایک کشتی کی باقیات۔ جھیل کے خشک ہوجانے کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کے روزگار کا ذریعہ ختم ہو چکا ہے۔— فوٹو پبلک ڈومین
بحیرہءِ ارال میں ماہی گیروں کی ایک کشتی کی باقیات۔ جھیل کے خشک ہوجانے کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کے روزگار کا ذریعہ ختم ہو چکا ہے۔— فوٹو پبلک ڈومین

— فوٹو پبلک ڈومین
— فوٹو پبلک ڈومین

قازقستان، ازبکستان اور ترکمانستان کی بنجر اور صحرائی زمینوں کو دریائے آمو اور دریائے سیر سے پانی فراہم کرنے کی پالیسی 1953 میں جوزف اسٹالن کی موت کے بعد بھی جاری رہی۔ درحقیقت ان دو دریاؤں کے پانی کا بہاؤ میں تبدیلی اس لیے بھی زیادہ ہوئی کیوں کہ کپاس کی زبردست فصل کی تیاری کے لیے ان دریاؤں میں سے کئی نہریں نکالی گئی تھیں۔

جیا کہ ایلیسا شار ہارورڈ انٹرنیشنل ریویو (خزاں 2001) میں شائع ہونے والے اپنے مضمون "وسطی ایشیاء کا بحرِ مردار: ارال کی سست رو موت" میں درست طور پر کہتی ہیں"

"مٹی کے یہ ٹیلے کبھی دنیا کی چوتھی بڑی جھیل کا تلا تھے، مگر جب سے بحیرہءِ ارال میں ماحولیاتی تباہی کے باعث پانی کی سطح کم ہونی شروع ہوئی ہے، کشتیوں کے بکھرتے ڈھانچے اور نمک سے اٹی ہوئی سیپیاں ہی خطے میں جہازرانی کے اس عجوبے کی آخری نشانیاں رہ گئی ہیں۔ مگر بحیرہءِ ارال کا سکڑنا صرف ماہی گیری کی مقامی صنعت کو نقصان، یا کچھ پرانے ملاحوں کی ریٹائرمنٹ کا باعث نہیں ہے، بلکہ یہ وسطی ایشیا کے سابق سوویت ممالک میں عدم استحکام بھی پیدا کر سکتا ہے۔"

پچھلے 5 سے 10 سالوں میں بحیرہءِ ارال کے خشک ہونے سے واضح موسمیاتی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ گرمیوں اور سردیوں میں اس سمندر کی وجہ سے آس پاس کے علاقوں میں درجہءِ حرارت معتدل رہتا تھا مگر اب ایسا نہیں ہے۔ انہی لکھاری کے مطابق:

"سوویت یونین کی جانب سے اپنی صنعتوں کا پہیہ چلائے رکھنے کے لیے قدرتی وسائل کے بے دریغ استعمال سے بحیرہءِ ارال کے خطے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ 1959 میں سیکریٹری جنرل نیکیتا خروشیف کے 'خود انحصاری' کے منصوبے کے مطابق سوویت یونین نے بحیرہءِ ارال کے دو مرکزی فیڈرز دریائے آمو اور دریائے سیر کا رخ ازبکستان میں حال ہی میں بوئی گئی کپاس کی فصلوں کی آبیاری کے لیے موڑ دیا۔

"دو فیڈرز کا رخ بدلے جانے اور بچ جانے والے پانی کی تبخیر کے باعث بحیرہءِ ارال سکڑتا رہا۔ ازبکستان اور قازقستان میں بحیرہءِ ارال کے سکڑنے سے ایک سماجی اقتصادی بحران پیدا ہوا ہے۔ بندرگاہیں ویران ہوچکی ہیں جبکہ مچھلیوں کے کارخانے بند ہو چکے ہیں، جس سے 60,000 لوگ بیروزگار ہوئے ہیں۔"

شاید دنیا میں کسی دوسرے خطے کو آبی وسائل میں بدانتظامی سے اتنا نقصان نہیں پہنچا جتنا کہ وسطی ایشیا کو پہنچا ہے۔ مرکزیت پسند اور مطلق العنان طرزِ حکمرانی نے ان منصوبوں کے خلاف آواز اٹھانے کو ناممکن بنا دیا تھا۔ بحیرہءِ ارال سے لاکھوں لوگوں کا روزگار منسلک تھا، مگر ان کے مستقبل پر لات مار دی گئی۔

بحیرہءِ ارال میں ماہی گیروں کی ایک کشتی کی باقیات۔ جھیل کے خشک ہوجانے کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کے روزگار کا ذریعہ ختم ہو چکا ہے۔— فوٹو پبلک ڈومین
بحیرہءِ ارال میں ماہی گیروں کی ایک کشتی کی باقیات۔ جھیل کے خشک ہوجانے کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کے روزگار کا ذریعہ ختم ہو چکا ہے۔— فوٹو پبلک ڈومین

ارال کی ایک پرانی بندرگاہ.— فوٹو پبلک ڈومین
ارال کی ایک پرانی بندرگاہ.— فوٹو پبلک ڈومین

تقریباً ربع صدی قبل سوویت یونین کے زوال اور پانچ وسطی ایشیائی ریاستوں کے آزاد ہونے کے بعد منظرنامہ تبدیل ہوا۔ سوویت دور میں جن مسائل کو قالین کے نیچے دبا دیا گیا تھا، اب ان نئی ریاستوں کے لیے چیلنج بن چکے تھے۔ بحیرہءِ ارال کی 1960 سے پہلے کی شکل کو بحال کرنا ایک نہایت مشکل کام تھا، خاص طور پر کپاس اگانے والی پٹی اور ڈیموں سے بجلی پیدا کرنے والی ریاستوں کے مفادات کی وجہ سے وسطی ایشیا میں آبی وسائل کے اہم مسئلے پر اتفاق نہیں ہو سکا ہے۔

کیا بحیرہءِ ارال اپنی 1960 کی شکل میں واپس آ سکتا ہے جب اسے دنیا کی چوتھی بڑی جھیل تصور کیا جاتا تھا؟ اسے پانچ دہائی قبل کی صورت میں بحال کرنے میں کیا مشکلات درپیش ہیں؟ یہ بہت مشکل سوالات ہیں۔ ارال کے کٹاؤ کو روکنے کے لیے کوئی فوری منصوبے موجود نہیں ہیں۔ مگر وسطی ایشیا میں آزاد ریاستوں کے ابھرنے کے ساتھ دو اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔

پہلا، ورلڈ بینک اور اقوامِ متحدہ کی جانب سے تفصیلی تحقیقات کی گئی ہیں کہ ارال میں پانی کیسے واپس لایا جائے۔ دوسرا، بہاؤ کے اوپر اور نیچے واقع وسطی ایشیائی ریاستوں نے کوششیں کی ہیں کہ انسان کی پیدا کردہ اس تباہی کے اثرات ختم کیے جا سکیں۔ مگر دریائے آمو اور دریائے سیر سے بحیرہءِ ارال کو پانی کی بلاتعطل فراہمی میں جو چیز مانع ہے، وہ کپاس کی بڑھتی ہوئی کاشت اور ان دو دریاؤں پر ڈیموں کی تعمیر ہے۔

ورلڈ بینک کے ماہرین نے کم از کم تین دہائیوں تک بحیرہءِ ارال کو دریائے آمو اور دریائے سیر کے ذریعے پانی کی بلاتعطل فراہمی یقینی بنانے کا مشورہ دیا ہے، مگر یہ منصوبہ قابلِ عمل نہیں کیوں کہ تمام پانچ وسطی ایشیائی ریاستیں آبپاشی، صنعتکار، اور بجلی کی پیداوار کے لیے ان دریاؤں پر منحصر ہیں۔

بحیرہءِ ارال میں ایک بحری جہاز کی باقیات.— فوٹو پبلک ڈومین
بحیرہءِ ارال میں ایک بحری جہاز کی باقیات.— فوٹو پبلک ڈومین

بائیں: بحیرہءِ ارال 1989 میں۔ دائیں: 2014 میں۔ — سیٹلائٹ فوٹو بشکریہ ناسا۔
بائیں: بحیرہءِ ارال 1989 میں۔ دائیں: 2014 میں۔ — سیٹلائٹ فوٹو بشکریہ ناسا۔

اس کے علاوہ ایک مختصر المدتی منصوبہ یہ ہے کہ دریائے آمو اور دریائے سیر کا کم از کم 50 فیصد پانی بحیرہءِ ارال تک پہنچایا جائے تاکہ یہ جزوی طور پر ہی سہی مگر بحال ہو سکے۔

اس کے علاوہ بہتر مینیجمنٹ کے ذریعے پانی کے ضیاع اور تبخیر کو کم کیا جاسکتا ہے، جبکہ کیڑے مار ادویات کے استعمال کو کنٹرول کر کے بحیرہءِ ارال کے مزید کٹاؤ اور اس سے ہونے والے ماحولیاتی نقصانات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری یونیورسٹی آف کراچی کے ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔


یہ مضمون ڈان اخبار کے سنڈے میگزین میں 22 جنوری 2017 کو شائع ہوا۔