ٹوٹے رشتے

'تمہاری شادی مشکوک ہے'

مالک اچکزئی

گھر کیا ہے؟ کیا یہ کوئی جگہ ہے یا ذہنی حالت؟ کچھ لوگوں کے لیے گھر وہ ملک ہوتا ہے جہاں وہ پیدا ہوتے ہیں، کئی لوگوں کے لیے وہ جگہ جہاں ان کا خاندان رہتا ہے۔

45 سالہ فریدہ صدیقی کے لیے گھر پاکستان ہے — وہ ملک جہاں وہ اپنے شوہر اور دو بچوں کے ساتھ رہائش پذیر ہیں۔

مگر ریاست انہیں اپنا شہری تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔

جب انہوں نے پاکستانی شناختی کارڈ کے حصول کے لیے اپنا نکاح نامہ پیش کیا تو نادرا حکام نے انہیں مشکوک نگاہوں سے دیکھا۔

انہیں بتایا گیا کہ "درجنوں افغان مہاجر خواتین قومی شناختی کارڈ کے حصول کے لیے جھوٹی شادیاں کرتی ہیں۔ تمہاری درخواست آگے نہیں بڑھے گی کیوں کہ تمہاری شادی مشکوک ہے۔"

نادرا ان افراد کو شناختی کارڈ جاری کرتا ہے جو اس بات کا ثبوت پیش کر سکیں کہ ان کے والدین میں سے کم از کم ایک پاکستانی ہے۔

فوٹو وائٹ سٹار
فوٹو وائٹ سٹار

کوئی بھی قانون ان کے حق میں نہیں ہے

افغان پناہ گزینوں اور مہاجرین، یا ان کی اولادوں کو پاکستان کی شہریت فراہم کرنا ہمیشہ سے ایک متنازع معاملہ رہا ہے۔ پاکستان سٹیزن شپ ایکٹ 1951 کے تحت "کوئی بھی شخص جو پاکستان میں پیدا ہو، وہ پیدائشی طور پر پاکستان کا شہری ہے، علاوہ اس کے، جس کے والدین پاکستان کے شہری نہ ہوں۔"

اس کے علاوہ پاکستان 1951 کے عالمی میثاق برائے مہاجرین، اور 1967 میں جاری ہونے والے اس کی اضافی شرائط کا دستخط کنندہ نہیں ہے۔ لہٰذا حکومتِ پاکستان کے مطابق وہ "پناہ گزینوں کو اپنے معاشرے میں ضم کرنے اور شہریت دینے" کے لیے مجبور نہیں ہے۔


پاکستان 1951 کے عالمی میثاق برائے مہاجرین، اور 1967 میں جاری ہونے والے اس کی اضافی شرائط کا دستخط کنندہ نہیں


رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو ایک رجسٹریشن کا ثبوت فراہم کیا جاتا ہے، جو انہیں "پاکستان میں عارضی طور پر رہائش پذیر افغان شہری" قرار دیتا ہے۔

آرمی پبلک اسکول اور باچا خان یونیورسٹی پر طالبان حملوں کے بعد افغان پناہ گزین، جو کہ اکثریتی طور پر پشتون ہیں، جانچ پڑتال اور غم و غصے کی زد میں آئے۔

پاکستان کی قومی انسدادِ دہشتگردی حکمتِ عملی کی دستاویز 'نیشنل ایکشن پلان' "افغان مہاجرین کی رجسٹریشن کے لیے ایک جامع پالیسی" پر زور دیتا ہے، جس سے عدم اعتماد اور شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں۔

فوٹو وائٹ سٹار
فوٹو وائٹ سٹار

بڑھتی ہوئی غیر یقینی

رجسٹریشن سے زیادہ حکومت کی توجہ پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنے پر ہے، اور یہ مرحلہ آرمی پبلک اسکول پر حملے سے پہلے سے جاری ہے۔

2010 میں حکومت نے افغان پناہ گزینوں کی مینیجمنٹ اور ملک بدری کے لیے ایک حکمتِ عملی تیار کی، اور 2012 میں اس مسئلے کے حل کے لیے ایک اور حکمتِ عملی بنائی۔

اقوامِ متحدہ کے کمیشن برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) اور افغان حکومت کے ساتھ مل کر بنائی گئی ان دونوں حکمتِ عملیوں کا مقصد پناہ گزینوں کو آہستہ آہستہ افغانستان واپس بھیجنا تھا۔

آرمی پبلک اسکول حملے کے بعد حکومت نے اس مرحلے میں برق رفتاری چاہی اور اعلان کیا کہ تمام پروف آف رجسٹریشن 2015 میں زائد المیعاد ہوجائیں گے، اور تب تمام افغان پناہ گزینوں کو واپس جانا ہوگا۔

مگر اس کے بعد حکومت نے ان کی میعاد 2016 کے اختتام تک بڑھا دی، اور بعد میں اسے مارچ 2017 تک بڑھا دیا گیا۔

فوٹو وائٹ سٹار
فوٹو وائٹ سٹار

'میں اپنے بچوں اور شوہر کو چھوڑ کر افغانستان کیسے چلی جاؤں؟'
سراج الدین | عبدالرؤف یوسفزئی

پاکستان میں رہنے والے افغان مردوں سے شادی کرنے والی پاکستانی خواتین کے شب و روز غیر یقینی سے بھرپور ہوتے ہیں۔ ایسے ہی ایک دن ایسی کئی خواتین پشاور میں اپنے شوہروں کی ملک بدری کے خلاف احتجاج کر رہی تھیں۔

پلے کارڈز میں سے ایک پر تحریر ہے، "ہمارا ساتھ دو، صدر میاں نواز شریف، خدا کے لیے"۔

احتجاجی خواتین میں سے ایک رضیہ ہیں، چھے بچوں کی والدہ، جنہوں نے 1992 میں ایک افغان پناہ گزین سے شادی کی تھی۔ 20 سال سے طویل خوشگوار شادی کے بعد اب ان کی شادی کا مستقبل غیر یقینی کے پلِ صراط پر چلنے پہ مجبور ہے۔

اور اب رضیہ افغانستان جانے سے انکاری ہیں، مگر ان کے شوہر کے پاس اس سلسلے میں کوئی اور انتخاب نہیں ہے۔ پاکستان میں افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن کا مطلب ہے کہ ان کا گھرانہ ٹوٹ جائے گا۔

"میں پاکستانی ہوں، میرے بچے پاکستانی ہیں، وہ یہاں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے ہیں،" انہوں نے ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے بتایا، "مگر اعلیٰ حکام ہماری بات سننے کو تیار نہیں۔"

نوشین بی بی کو وہ افسوسناک دن بخوبی یاد ہے جس دن انہوں نے اپنے روسی افواج کے خلاف برسرِپیکار اپنے بھائی کو کھویا تھا۔ اس وقت وہ محض تین سال کی تھیں۔

37 سال بعد بھی وہ یادیں ان کی زندگی تلخ بنائے ہوئے ہیں۔ ان کے بچپن کی اچھی یادوں میں صرف ان دنوں کی یاد ہے جب ان کا خاندان قندوز سے بھاگ کر پاکستان جانے میں کامیاب ہوا۔

اور تب پشاور میں ان کی زندگی شروع ہوئی، جہاں وہ اور ان کا گھرانہ 'اندرونِ شہر' میں رہائش پذیر تھے۔

سالہا سال بعد ایک نوجوان پاکستانی مرد اس علاقے میں اپنی خالہ سے ملنے آیا تھا، جب اس نے نوشین کو، اور یقیناً نوشین نے بھی اس کو دیکھا۔ وہ شرماتے ہوئے کہتی ہیں، "ان کی شخصیت کافی وجیہہ تھی۔" یہ پہلی نظر میں محبت تھی۔

وہ جھینپتی نگاہوں کے ساتھ بتاتی ہیں، "ہم دونوں شادی کے لیے راضی ہوگئے،" اور یوں اس جوڑے نے اپنے خاندانوں کی رضامندی سے شادی کر لی۔

ان کی تین بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ نوشین کے بچے پشاور میں پیدا ہوئے؛ ان کے سسرالی اور ان کے شوہر پاکستانی ہیں، مگر وہ خود نہیں ہیں۔

"میں پاکستان چھوڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتی، میں کیسے اپنے بچوں اور شوہر کو یہاں چھوڑ کر واپس چلی جاؤں؟"


"کیا آپ کو لگتا ہے کہ انہیں افغانستان میں صحت و تعلیم کی وہ سہولیات ملیں گی جو انہیں پاکستان میں دستیاب ہیں؟"


"حکومت ہمارے خاندان کو نہیں توڑ سکتی،" بھرّائی ہوئی آواز میں نوشین یہ کہتی ہیں اور اپنی سب سے کم عمر بیٹی کو اپنی بانہوں میں بھر لیتی ہیں۔

انہیں فکر ہے کہ اگر ان کے بچوں کو بھی افغانستان جانا پڑا، تو ان کے مستقبل کا کیا بنے گا۔ "کیا آپ کو لگتا ہے کہ انہیں افغانستان میں صحت و تعلیم کی وہ سہولیات ملیں گی جو انہیں پاکستان میں دستیاب ہیں؟" پھر وہ پیشگوئی کے سے انداز میں کہتی ہیں، "میں تو افغانستان میں اگلے 50 سال بھی امن قائم ہوتا ہوا نہیں دیکھ رہی۔"

ستم ظریفی یہ ہے کہ ان کے پاکستانی شوہر پاکستان میں نہیں رہتے۔ وہ سعودی عرب میں کام کرتے ہیں اور اپنے خاندان کے لیے وہاں سے رقم بھیجتے ہیں۔

نوشین کے لیے پاکستان اور افغانستان، دونوں ہی ان کی شناخت کا حصہ ہیں، "میں افغانستان اور پاکستان میں فرق نہیں کر سکتی، میں وہاں پیدا ہوئی تھی، مگر میں نے زندگی یہاں گزاری ہے۔"

عارضی ریلیف

سردیوں کے دوران اقوامِ متحدہ کے کمیشن برائے پناہ گزین افراد نے افغان مہاجرین کی ملک بدری عارضی طور پر معطل کر دی ہے۔

آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق 2016 میں سات لاکھ افغان اپنے آبائی ملک واپس لوٹے۔ زیادہ تر کا تعلق پاکستان سے تھا۔

2002 سے اقوامِ متحدہ کے کمیشن برائے پناہ گزین افراد کے رضاکارانہ طور پر وطن واپسی کے پروگرام کے تحت 42 لاکھ افغان مہاجرین اپنے وطن واپس لوٹ چکے ہیں۔

اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے ادارے کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اب بھی 13 لاکھ 40 ہزار کے قریب رجسٹرڈ مہاجرین رہائش پذیر ہیں۔ ان کے مطابق غیر رجسٹرڈ پناہ گزینوں کی تعداد پانچ لاکھ کے قریب ہے۔

اس سے پاکستان میں موجود افغانوں کے درمیان غیر یقینی میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ملک بدری 1 مارچ 2017 سے دوبارہ شروع ہوگی۔

فوٹو وائٹرسٹار
فوٹو وائٹرسٹار

'ہمیں اپنے گمشدہ بچے کا پتہ لگانے کے لیے رشوت دینی پڑی'
سحر بلوچ

کراچی میں بی بی گل ایک اور پریشان حال والدہ ہیں۔ کئی ماہ سے وہ اپنے بیٹے ثناءاللہ کا انتظار کر رہی ہیں، کہ وہ کب جھنجھر گوٹھ واپس لوٹے۔ آٹھ جنوری 2016 کو آدھی رات کے کچھ دیر بعد چھے باوردی افراد ان کے گھر کے اندر گھسے، اور ثناءاللہ کو اٹھا کر لے گئے۔

اگلی صبح ثناءاللہ کے بھائی محمد عبداللہ پولیس اسٹیشن گئے، تاکہ اپنے بھائی کی 'گرفتاری' کے بارے میں معلوم کیا جا سکے۔ تھانہ سہراب گوٹھ کے پاس کوئی معلومات نہیں تھیں۔ انہیں کہا گیا کہ وہ تھانہ سچل سے معلوم کریں، مگر وہاں سے بھی کوئی حوصلہ افزاء جواب نہیں ملا۔

گمشدگی کے آٹھ ماہ بعد سچل تھانے نے ثناءاللہ کے خاندان کو بتایا کہ 14 اگست 2016 کو درج کی گئی ایک ایف آئی آر (430/2016) کے مطابق وہ "مجرمانہ سرگرمیوں" میں ملوث ہیں۔

ثناءاللہ اب سینٹرل جیل میں ہیں اور ان کے خاندان کا دعویٰ ہے کہ وہ بے قصور ہیں۔

ان کا خاندان 2008 میں افغانستان کے بدخشاں صوبے سے پاکستان آیا تھا۔ نسبتاً نئے پناہ گزین ہونے کی وجہ سے والد اور بیٹے دونوں کو ایک قریبی مدرسے میں نوکریاں مل گئیں۔ وہاں ثناءاللہ کے والد خانساماں تھے جبکہ وہ خود بچوں کو پڑھاتے تھے۔

اپنے چہرے کو چادر سے ڈھکے ہوئے بی بی گل کے پاس کاغذات کا ایک پلندہ رکھا ہے، جسے وہ کسی بھی افسر یا سفارتی اہلکار کو پیش کرنے کے لیے تیار ہیں جو ان کی بات سننے کا روادار ہو۔


اگر میرے ہاتھ میں ہوتا تو میں یہ گھر بیچ کر پیسے اکٹھے کر لیتی، مگر ہمارے پاس سر چھپانے کی بھی کوئی جگہ نہیں


"ہم پولیس اسٹیشن گئے، جہاں ہم سے پچیس ہزار روپے اس کا اتا پتہ بتانے کے لیے لیے گئے۔ ہمیں کہا گیا ہے کہ ہم وکیل کر لیں، مگر وکیل مقدمہ لڑنے کے لیے ڈیڑھ لاکھ روپے مانگ رہا ہے۔"

چھوٹی سے بیٹھک کے ایک کونے میں بیٹھے ہوئے اپنے شوہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں، "یہ پانچ ہزار روپے کماتے ہیں۔ اگر میرے ہاتھ میں ہوتا تو میں یہ گھر بیچ کر پیسے اکٹھے کر لیتی، مگر ہمارے پاس سر چھپانے کی بھی کوئی جگہ نہیں ہے۔"

ملاقات کے دوران بی بی گل پروف آف رجسٹریشن اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے تھیں۔ "انہوں نے میرے بیٹے کو بغیر کسی جرم کے اٹھایا ہے۔ اسے غیر ضروری طور پر حراست میں رکھا گیا ہے اور اس کے خلاف قائم مقدمہ جھوٹا ہے۔"

انہیں افسوس ہے کہ وہ اپنے بیٹے کے لیے زیادہ کچھ نہیں کر سکتیں۔