Dawnnews Television Logo

پاناما گیٹ فیصلہ: جسٹس آصف کھوسہ کے ریمارکس

نواز شریف دیانتدار نہیں رہے، جسٹس آصف سعید کھوسہ
اپ ڈیٹ 21 اپريل 2017 02:59pm

سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کی جانب سے سنائے گئے پاناما لیکس کے فیصلے میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کے اختلافی نوٹ کے چند اقتباسات درج ذیل ہیں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ 5 رکنی بینچ کی سربراہی کر رہے تھے اور فیصلے میں ججز کی رائے 3:2 میں تقسیم رہی۔

1۔ جسٹس کھوسہ نے ’دی گاڈ فادر‘ کے قول سے آغاز کیا

پاناما کیس کے تفصیلی فیصلے کے آغاز میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے 1969 کے ماریو پوزو کے مشہور ناول ’دی گاڈ فادر‘ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا، ’ہر عظیم قسمت کے پیچھے ایک جرم ہوتا ہے۔‘

جسٹس کھوسہ نے کہا کہ ’یہ ایک طنز اور سراسر اتفاق ہے کہ موجودہ کیس بھی بالزاک کی اسی بات کے گرد گھومتا ہے۔‘

2۔ دیگر اداروں نے نواز شریف کے خلاف تحقیقات سے انکار کیا یا ناکام ہوئے

جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ ’ان درخواستوں کو عدالت نے اس لیے سننے کا فیصلہ کیا کیونکہ ملک کے دیگر متعلقہ اداروں، جیسا کہ قومی احتساب بیورو، وفاقی تحقیقاتی ادارے، اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور فیڈر بورڈ آف ریونیو اور سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان اور قومی اسمبلی کے اسپیکر بدقسمتی سے یا تو معاملے کی تحقیقات میں ناکام رہے یا انہوں نے اس سے انکار کیا، جبکہ انہوں نے نواز شریف کے خلاف یہ معاملہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھی نہیں بھیجا۔‘

3۔ عدالت عظمیٰ نے معاملہ اس لیے اٹھایا،تاکہ وزیر اعظم کو کھلی چھٹی نہ ملے

بینچ کے سربراہ نے کہا کہ ’اگر عدالت صرف اس لیے معاملے میں دلچسپی نہ لے کیونکہ اس میں حقائق جاننے کے لیے چند متنازع اور پیچیدہ سوالات شامل ہیں، تو یہ پیغام جائے گا کہ اگر ملک کا طاقتور اور تجربہ کار وزیر اعظم اپنے وفاداروں کو تمام متعلقہ اداروں کا سربراہ نامزد کرتا ہے، جو کرپشن کے الزامات کی تحقیقات کے ذمہ دار ہیں تو ایسی تحقیقات یا انکوائری میں وفادار وزیراعظم کو احتساب سے مستثنیٰ کردیں گے۔‘

’یہ کہا جاتا ہے کہ آپ کتنے بھی بڑے آدمی بن جائیں قانون آپ سے بڑا ہی رہتا ہے، جمہوری، احتساب اور قانون کی حکمرانی کی اسی روح کے مطابق ہی یہ عدالت وفاق کے وزیراعظم یا چیف ایگزیکٹو کو کھلی چھٹی نہیں دے سکتی اور وہ بھی صرف اس لیے کہ اس کا کوئی علاج نہیں ہے یا کرپشن کے الزامات کی تحقیقات نہیں کی جاسکتیں جو نواز شریف کے خلاف لگائے گئے ہیں۔‘

4۔ نواز شریف دیانتدار نہیں رہے

جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ ’یہ ثابت نہیں کیا جاسکا کہ کیسے اور کن وسائل کے ذریعے مدعا علیہ (نواز شریف) کے والد نے اتفاق فاؤنڈریز کی نیشنلائزیشن کے 18 ماہ کے اندر 6 نئی فیکٹریاں قائم کیں، بالخصوص تب جب یہ بتایا جاچکا ہے کہ مدعا علیہ کے بڑوں کی تمام جمع پونجی کا نام و نشان تک مٹ چکا تھا۔‘

’یہ بات بھی انتہائی قابل غور ہے کہ اس تقریر میں یہ بالکل واضح نہیں کیا گیا کہ دبئی میں بھی ایک فیکٹری قائم کی گئی جسے 1980 میں فروخت کیا گیا۔ تقریر میں مکہ کے قریب فیکٹری کے قیام کے لیے دستیاب یا حاصل کیے جانے والے فنڈز کی تفصیلات بھی بالکل نہیں بتائی گئیں۔‘

’نواز شریف نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ وہ جو کہہ رہے ہیں وہ حقائق سچ ہیں، تاہم حقیقت میں ایسا نہیں ہے اور بدقسمتی سے نواز شریف نے اس وقت سچائی بیان کرنے میں کفایت شعاری سے کام لیا۔‘

5۔ لندن کی جائیدادیں کیسے حاصل کی گئیں؟

’تقریر میں یہ بالکل واضح نہیں کیا گیا کہ لندن میں متعلقہ 4 جائیدادیں کیسے حاصل کی گئیں اور نواز شریف نے اُس موقع پر یہ بالکل نہیں بتایا کہ ان کا ان جائیدادوں کی ملکیت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے یا ان جائیدادوں کو حاصل کرنے کے لیے ان کا کوئی پیسہ استعمال نہیں ہوا۔‘

جسٹس کھوسہ کے مطابق ’22 اپریل 2016 کو نواز شریف نے اس معاملے پر ایک بار پھر قوم سے خطاب کیا، لیکن اس میں بھی یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ لندن میں یہ جائیدادیں کیسے حاصل کی گئیں'۔

6۔ وزیراعظم کے پہلے یا دوسرے خطاب میں دبئی فیکٹری کا ذکر نہیں

’16 مئی 2016 کو وزیر اعظم نے قومی اسمبلی میں لکھی ہوئی تقریر کی جسے ٹیلی وژن اور ریڈیو پر براہ راست نشر کیا گیا۔ اگر اس تقریر کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مدعا علیہ نے یہاں دبئی میں فیکٹری کی تعمیر اور اس کی فروخت کا ذکر کیا، لیکن معاملے پر قوم سے اپنے پہلے یا دوسرے خطاب میں وزیراعظم نے اس کا کوئی ذکر نہیں کیا'۔

’حالیہ تقریر میں مدعا علیہ نے کہا کہ 1999 میں ان کے خاندان کے کاروبار کا پورا ریکارڈ انتظامیہ نے اپنے قبضے میں کر لیا اور کئی بار کی درخواستوں کے باوجود انہیں وہ ریکارڈ واپس نہیں دیا گیا، لیکن بعد ازاں اسی تقریر میں وزیراعظم کا دوٹوک الفاظ میں کہنا تھا کہ دبئی اور جدہ فیکٹریوں سے متعلق تمام ریکارڈ اور دستاویزات موجود ہیں جسے کسی بھی کمیٹی یا فورم کے سامنے پیش کیا جاسکتا ہے۔

7. فیکٹری مکہ میں یا جدہ میں؟

اپنے ریمارکس میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ’عوام سے پہلے خطاب میں مدعا علیہ نے مکہ کے قریب اسٹیل فیکٹری تعمیر کرنے کا کہا، لیکن قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر میں اسٹیل فیکٹری جدہ میں تعمیر کرنے کا بتایا گیا۔‘

8۔ وزیراعظم نے کہا ریکارڈ دستیاب ہے، وکیل نے نفی کی

’لندن میں متعلقہ جائیدادوں کی خریداری کی اسٹوری نے اگلے مرحلے میں ایک اور ٹرن لیا۔ اگرچہ مدعا علیہ نے خاص طور پر اور کئی بار قومی اسمبلی کے فلور پر مندجہ بالا تقریر میں کہا کہ دبئی اور جدہ میں فیکٹریوں کی خریداری اور ان کی فروخت کا تمام ریکارڈ موجود ہے اور جب بھی ضرورت ہوئی پیش کردیا جائے گا، تاہم جب عدالت نے مدعا علیہ کے وکیل سلمان اسلم بٹ سے 7 دسمبر 2016 کو ریکارڈ طلب کیا تو انہوں نے ایسے کسی بھی ریکارڈ کی دستیابی سے انکار کیا، ان کا کہنا تھا کہ ان کے موکل نے قومی اسمبلی میں اس حوالے سے جو بیان دیا وہ محض سیاسی تھا۔‘

’بعد ازاں نجی چینل کو انٹرویو کے دوران مدعا علیہ اور ان کے خاندان کے چیف فنانشل ایڈوائزر ہارون پاشا نے کہا کہ دبئی اور جدہ فیکٹریوں کا تمام ریکارڈ موجود ہے جو نواز شریف کے وکلا کو دے دیا جائے گا۔‘

9۔ حقائق کو ’دبانے کی کوشش‘ پر حیرانگی

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ’نجی چینل کے میزبان کو 7 مارچ 2016 کو دیئے گئے انٹرویو کے دوران حسین نواز شریف نے بھی دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ لندن میں حاصل کی جانے والی چاروں جائیدادوں کا مکمل ریکارڈ شریف خاندان کے پاس موجود ہے اور طلب کرنے پر کسی بھی عدالت میں پیش کردیا جائے گا، اس وقت مجھے بہت حیرانی ہوئی کیونکہ بظاہر یہ متعلقہ حقائق اور سچائی کو دبانے کو اور عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش تھی، جبکہ ہارون پاشا اور حسین نواز نے کبھی ان انٹرویوز کی تردید یا ان سے اختلاف نہیں کیا۔‘

10۔ الثانی خاندان کی اسٹوری اعتماد کھو چکی

’قطر کی الثانی خاندان کے ریئل اسٹیٹ کے کاروبار میں سرمایہ کاری نے اس کیس میں کئی موڑ لیے جس کے باعث یہ اعتماد ختم کھو چکی۔‘

11۔ نواز شریف اور ان کا خاندان ’حیلہ باز‘ کے علاوہ کچھ نہیں

بینچ کے سربراہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ’اس فیصلے کے پہلے حصے میں ہونے والی گفتگو کی بنیاد پر مدعا علیہ کی جانب سے لندن کی چار جائیدادوں اور یہاں تک کہ ان کے اور ان کے خاندان کے کاروبار اور وسائل کے حوالے سے بھی آگے کی جانے والی وضاحتیں مجھے حیلے بازی کے علاوہ کچھ نہیں لگیں اور وزیر اعظم نے اس حوالے سے جو بیانات دیئے وہ مجھے ایک دوسرے سے متضاد لگے۔‘