حال ہی میں بہاولپور کے ایک مختصر سفر کے دوران مجھے صادق ریڈنگ لائبریری جسے بہاولپور سینٹرل لائبریری بھی کہا جاتا ہے، جانے کا موقع ملا۔ اکثر اوقات تصاویر میں قید کی جانے والے صادق گڑھ محل، گلزار محل اور نور محل جیسی عالیشان عمارتوں کی ہی طرح لائبریری کی عمارت بھی راج دور کی ایک یادگار ہے۔ تعمیر میں برٹش کولونیل طرز واضح طور پر نظر آتی ہے، لیکن وہاں آنے والے اس بات کو فراموش کر دیتے ہیں۔

عمارت کا سنگِ بنیاد مؤرخہ 8 مارچ 1924 کو دو شخصیات، ارل آف ریڈنگ سر روفس ڈینیل آئزک، جو ہندوستان کے وائسرائے اور گورنر جنرل آف انڈیا بھی تھے، اور امیر بہاولپور نے رکھا تھا۔

ان دنوں بہاولپور ریاست پر نواب سر صادق محمد خان پنجم کی حکمرانی تھی، اور راج میں یہ چند امیر ترین شاہی ریاستوں میں سے ایک تھی، جس کی شہرت کا اندازہ یہاں سے لگائیں کہ ملکہ وکٹوریہ بھی یہاں کا دورہ کر چکی ہیں۔ جب پاکستان قائم ہوا اور 1951 میں بالآخر تسلیم کیا گیا تب اس ریاست نے کثیر فنڈز اور جائیدادیں امدادی طور پر فراہم کیں۔

سنگ بنیاد رکھے جانے کے بعد بہاولپور کے لوگوں نے مل کر اس کی تعمیرات کے لیے 1 لاکھ روپے دیے۔ اس وقت لائبریری حکومت پنجاب کے زیر نگرانی ہے اور صوبے کی دوسری سب سے بڑی لائبریری ہے۔

ہرن کی کھال پر لکھی امام حسین سے منسوب قرآنی آیات۔
ہرن کی کھال پر لکھی امام حسین سے منسوب قرآنی آیات۔

جہاں باہر 35 ڈگری کی جھلسا دینے والی گرمی پڑ رہی تھی، وہاں یہ عمارت اس صحرائی شہر کی گرمیوں میں ایک ٹھنڈی پناہ گاہ سی محسوس ہوئی۔

لائیبریری کی دو نمایاں خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ جب آپ اندر داخل ہوتے ہیں تو آپ کی پہلی نظر لائبریری کی کشادگی، اس کی وسعت، اور بالترتیب رکھی ہوئی کتابوں پر پڑتی ہے۔ اس کے بعد، آپ جیسے ہی اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں تو آپ تاریخ کی لہر میں ڈوب جاتے ہیں، کیوں کہ لائبریری کی دیواریں بہاولپور کے نوابوں اور تحریک پاکستان کی دیگر اہم شخصیات کی تصاویر سے سجی ہوئی ہیں۔ ہر تصویر کے ساتھ اس ممتاز شخصیت کی مختصر سوانح عمری بھی درج ہے۔

1 لاکھ کتابوں اور 1500 فعال ممبران کے ساتھ، یہ کتابوں اور دیگر ساز و سامان سے بھرپور لائبریری اپنے آپ میں ہی ایک دنیا ہے۔ مرکزی ہال کے علاوہ لائبریری کے دیگر دو سیکشن ہیں جن میں بچوں کی کتابوں کا سیکشن اور ایک آڈیو ویژوئل آرکائیو سیکشن ہے۔

گرو گرنتھ صاحب کے مقدس اوراق۔
گرو گرنتھ صاحب کے مقدس اوراق۔

لائبریری کی کچھ سب سے قیمتی چیزوں میں ڈان اور پاکستان ٹائمز کے ابتدائی شمارے شامل ہیں۔ یہ وہ دو اخبار ہیں جن کی بنیاد قائد اعظم محمد علی جناح نے رکھی تھی۔ پھر خوبصورت خطاطی کے انداز میں لکھے گئے قرآن مجید، جن میں سے چند ایک صدی سے بھی پرانے ہیں۔ وہاں ہرن کی کھال پر لکھے ہوئے چند قرآنی نسخے بھی ہیں؛ یہ قدیم نسخے امام حسین سے منسوب ہیں۔

یورپی سیاحوں کے دو صدی پرانے سفرناموں کے پہلے شمارے کو بھی محفوظ کیا گیا ہے۔ اسی طرح دیوانِ حافظ اور شاہ نامہ فردوسی کے فارسی شماروں کے ساتھ ساتھ مولانا رومی کی تصنیفات بھی یہاں موجود ہیں۔ دیگر قیمتی خزانوں میں ہفتہ وار طنزیہ برٹش میگزین پنچ، یا دی لنڈن چاریواری کے پرانے شمارے شامل ہیں۔ یہ وہی میگزین ہے جس نے کارٹون کی اصطلاح کے جدید استعمال کو متعارف کروایا۔

بہاولپور کے نواب کے زیر استعمال گھوڑا گاڑی۔
بہاولپور کے نواب کے زیر استعمال گھوڑا گاڑی۔

بدقسمتی سے لائبریری پر آپ کو ایک ٹھہراؤ سا محسوس ہوتا ہے جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر کتابیں قریب 30 سال پرانی ہیں اور شاید ہی کبھی کوئی نئی کتاب لائبریری کی زینت بنی ہو۔ بالائی سطح پر چند نئی کتابیں ہیں مگر عام طور پر یہاں آنے والوں کو اس حصے تک رسائی حاصل نہیں ہوتی۔

لائبریری کے ایک نگران بتاتے ہیں کہ زیادہ تر افراد لائبریری میں امتحانوں کی تیاری کے سلسلے میں آتے ہیں اور مشکل سے ہی کوئی فرد کتب بینی کے لیے یہاں آتا ہے۔

جبر کی علامت: سائیکل رکشہ۔
جبر کی علامت: سائیکل رکشہ۔

باہر نکلتے وقت دروازے کی دائیں جانب ایک چھوٹا ہال آتا ہے جس کے اندر چھوٹے چھوٹے بوتھ بنے ہوئے ہیں۔ لائبریری کے نگران نے بتایا کہ یہ بوتھ محققین کے لیے بنائے گئے تھے: خود کو اس میں قید کر لیجیے اور خود کو ہجوم کے شور و غل سے محفوظ بنا لیجیے۔

صادق ریڈنگ لائبریری کے برابر میں بہاولپور میوزیم واقع ہے۔ جس کے داخلی دروازے کے قریب سیاہ سلور اور سبز رنگ میں رنگی ایک پرانا ولکن فاؤنڈری انجن رکھا ہوا نظر آتا ہے۔ چند برسوں قبل بہاولپور میوزیم نے اس زنگ آلود انجن کو 'بحال' کیا۔ اس کی تاریخ کے حوالے سے زیادہ کچھ پتہ نہیں لیکن میوزیم کے اسٹاف کے مطابق یہ انجن نواب صاحب کے زیرِ استعمال تھا۔ نواب کے زیر استعمال ایک بوگی دیگر کئی ونٹیج گاڑیوں کے ساتھ ڈیرہ نواب میں واقع خوبصورت لیکن خستہ حالی کے شکار صادق گڑھ محل سڑ رہی ہے۔

1905 کے پیسہ اخبار نامی ایک مقامی اخبار کا پرچہ۔
1905 کے پیسہ اخبار نامی ایک مقامی اخبار کا پرچہ۔

بہاولپور میوزیم میں کچھ عرصے سے مرمتی اور بحالی کا کام جاری ہے۔ مرمتی کام کی وجہ سے مرکزی داخلی راستہ بند ہے اور متبادل کے طور پر ایک گرد آلود گزرگاہ ہے — یہ دیکھ کر کچھ پتہ نہیں چلتا کہ آیا میوزیم کھلے گا بھی یا نہیں۔

ساز و سامان سے بھرپور لاہور میوزیم کے برعکس یہ بہت ہی چھوٹی سی جگہ ہے۔ میوزیم کے اندر گھومتے وقت لگتا ہے کہ جیسے آپ مطالعہ پاکستان کی نصابی کتاب کے اندر داخل ہو چکے ہوں۔ یہاں کل آٹھ گیلیریاں ہیں، جن میں سے ایک صرف تحریک پاکستان کے موضوع پر مشتمل ہے۔ گندھارا گیلیری میں کثیر تعداد میں نوادرات کی نقول رکھی گئی ہیں جو کہ تاریخ اور آثار قدیمہ کا شوق رکھنے والوں کے لیے دلچسپ ثابت ہو سکتی ہیں۔

ایک دوسری گیلیری بہاولپور کے نوابوں کے ذاتی ساز و سامان پر مشتمل ہے جس میں تلواریں، ڈھالیں، تیر، خنجر، مغلوں کے زمانے کا زرہ بکتر، پرانی پستولیں (فلنٹ لوک مسکٹس) اور تین توپیں شامل ہیں۔

ڈان اخبار، 1945 کا ایک شمارہ۔
ڈان اخبار، 1945 کا ایک شمارہ۔

بہاولپور میوزیم کے اندر پاکستان کے سب سے سیاہ رازوں میں سے ایک کی نشانی رکھی گئی ہے— ایک سائیکل رکشہ۔ ہماری نوجوان نسل میں سے بہت ہی کم لوگ آمد و رفت کے اس ذریعے سے واقف ہیں، جسے ’کولونیل’، ’قدیم’، ’غلامانہ’ اور انسانی عظمت کی پامالی کی علامت’ جیسے ناموں سے بھی پکارا جاتا رہا ہے۔ دہائیوں تک سائیکل رکشے، تانگوں اور بعد میں آنے والے رکشوں کے مقابلے میں آمد و رفت کا بہت ہی سستا ذریعہ رہے۔

(سائیکل رکشہ میں بیٹھے دو اشخاص کے) کم از کم 120 کلو گرام وزن کو صحرا میں بے رحم سورج کے نیچے کھینچا جاتا، اور ایک طرف کا کرایہ صرف 10 روپے ہوا کرتا۔ 1990 کی دہائی تک بھی بہاولپور اسٹیشن سے لاری اڈے تک یہی کرایہ وصول کیا جاتا تھا۔

بالآخر 1992 میں حکومت نے اپنا فیصلہ سنایا اور اس سواری کے استعمال پر پابندی عائد کر دی۔ یہ وقت تھا کہ جب یلو کیب اسکیم متعارف کروائی گئی تھی۔ بہاولپور اسٹیشن کے باہر جہاں بڑی تعداد میں سائیکل رکشے کھڑے ہوتے تھے، اب کئی ساری میٹرو ٹیکسیاں اور نجی گاڑیاں کھڑی نظر آتی ہیں۔ شکر ہے کہ انسان پر جبر کی یہ علامت اب صرف میوزیم تک ہی محدود ہے۔

یہ مضمون 11 جون 2017 کو ڈان سنڈے میگزین میں شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (4) بند ہیں

فریدمانوس Jul 02, 2017 11:27am
معلوماتی مضمون پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے
حبیب گوہر Jul 02, 2017 12:43pm
''میوزیم کے اندر گھومتے وقت لگتا ہے کہ جیسے آپ مطالعہ پاکستان کی نصابی کتاب کے اندر داخل ہو چکے ہوں۔'' واہ ہ!کیا اچھا لکھا گیا ہے۔اس تاریخی لائبریری کا احوال پڑھتے ہوئے خوشی کے ساتھ غم بھی دامن گیر ہو جاتا ہے۔سائیکل رکشہ پر اس کے اختتام نے انسانی مجبوریوں اور تذلیل کی طویل تاریخ کو دھرا دیا۔
وجاہت Jul 02, 2017 05:00pm
میوزیم میں رکھا اسٹیم انجن دراصل محکمہ انہارکی ملکیت تھا جو ایک وقت میں ہیڈ پنجند کی تعمیر میں خام مال لانے کے لئیے استعمال ہوتا تھا۔ میرے والد صاحب کا تعلق محکمہ انہار سے تھا اور اس انجن کو میوزیم تک لانے کی ڈاکومنٹیشن میں انکا بھی کردار تھا۔
عبدالحفیظ Jul 03, 2017 09:33am
بہت اچھا مضمون۔ بہاولپور کبھی کبھار جانا ہوتا ہے لیکن یہ شہر میری پسندیدہ جگہ ہے۔ پورے شہر میں ایک سکون اور ٹھہراؤ سی کیفیت محسوس ہوتی ہے۔ صادق ریڈنگ لائبریری ، جسے اب شاید بہاولپور سنٹرل لائبریری کہا جاتا ہے، خود ایک محل محسوس ہوتی ہے۔ اس کا باہر کا نظارہ، اندر کے ہالز سب انتہائی خوبصورت اور نواب دور کی طرز تعمیر کا شاہکار ہیں۔