Dawnnews Television Logo

ایرانی ماہر ریاضیات مریم مرزاخانی پاکستانی لڑکیوں کے لیے مثال کیوں؟

ماہر ریاضیات سے بڑھ کر مرزا خانی ایک خداداد فنکار بھی تھیں، جو وہ کچھ تصور کر پاتیں جہاں ہماری سوچ بھی نہیں پہنچ سکتی۔
اپ ڈیٹ 14 ستمبر 2017 10:16pm

بچپن میں مریم مرزاخانی نے بڑے ہو کر ناول نگار بننے کا خواب دیکھا تھا، لیکن ریاضی کی دنیا سے آشنائی کے بعد انہوں نے اسی کو ہی اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔

1977 میں پیدا ہونے والی مریم نے تہران کے فرزانگان اسکول سے تعلیم حاصل کی۔ ایرانی ریاست کی جانب سے اس اسکول کا قیام بالخصوص غیر معمولی صلاحیت کی حامل لڑکیوں کے لیے کیا گیا تھا۔ مرزاخانی علمی میدان میں آگے بڑھتی گئیں۔ وہ پہلی ایرانی خاتون ہیں جو 17 اور 18 برس کی کم عمری میں ریاضی کے بین الاقوامی مقابلے انٹرنیشنل میتھمیٹکس اولمپیاڈ میں مسلسل دو بار طلائی تمغے جیت کر اپنے وطن واپس لوٹیں۔

شریف یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے ہارورڈ یونیورسٹی گئیں۔ وہاں انہوں نے کرٹس مک ملن (فیلڈز میڈلسٹ) کی زیرِ نگرانی میں اپنے تھیسز پر کام کیا، بعد ازاں انہوں نے پرنسٹن یونیورسٹی میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر اپنی خدمات سر انجام دیں اور 'کلے میتھمیٹکس انسٹی ٹیوٹ' میں بطور ریسرچ فیلو کام کیا۔

31 برس کی عمر میں مرزا خانی اسٹینفورڈ یونیورسٹی میں بطور کل وقتی پروفیسر پڑھانے لگیں، وہاں 40 برس کی عمر میں کینسر کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہارنے تک وہ ریسرچ میں مصروف عمل رہیں۔

مرزا خانی نے اپنی مختصر سی زندگی میں اتنے تمغے حاصل کیے جتنے کئی مرد اپنے پورے تدریسی کریئر میں حاصل نہیں کر پاتے۔ 2009 میں انہوں نے امریکی میتھمیٹکس سوسائٹی کی جانب سے بلومینتھل ایوارڈ حاصل کیا اور 2013 میں ریاضی میں روتھ لائٹل سیٹر پرائز حاصل کیا۔

2014 میں وہ فیلڈز میڈل جتنے والی دنیا کی واحد خاتون بنیں— یہ ریاضی کے شعبے کا اعلیٰ ترین اعزاز ہے، جو کہ نوبیل پرائز جتنی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی سال، ان کا نام برطانیہ کے سائنسی میگزین 'نیچر’ میں 10 اہم ترین محققین کی فہرست میں شامل کیا گیا۔

مرزا خانی ٹیک مولر کے ادغامی نظریے (ارگوڈک تھیوری )جیومیٹری کی مختلف شاخوں جیسے ہائپر بولک جیومیٹری، سمپلیکٹک جیومیٹری اور کثیر الجہتی سپیس (موڈیولی سپیسز) سے متعلق ریاضیاتی نظریات کی ماہر تھیں۔ عام لفظوں میں کہیں تو ان کا کام جیومیٹری کی مختلف صورتوں کو سمجھنا،اور تین سے زیادہ ڈائیمینشنز (جہتوں) کے ساتھ تجریدی سطحوں میں اجسام اور اشکال کی صورت و ہیئت کو سمجھنا تھا۔ یہ مسائل آج بھی انتہائی مشکل سمجھے جاتے ہیں اور انہوں نے ریاضی دانوں کو ایک عرصے سے مشکل میں ڈالا ہوا ہے۔

ان کے سپروائیزر کرٹس مک ملن نے اسنوکر کی ٹیبل پر گیندوں کی ممکنہ سمت کا پتہ لگانے کے مسئلے کا ریاضیاتی حل فراہم کیا، وہ ٹیبل دراصل ہموار سطح نہیں بلکہ کسی ڈونٹ نما سطح کے طور پر تصور کی گئی تھی۔ مگر مرزا خانی نے اپنے سپروائیزر سے ایک قدم آگے بڑھ کر کام کیا۔

مریم نے اپنی اعلی ٰ صلاحیت پر انحصار کرتے ہوئے اس ریاضیاتی مسئلے کی پیچیدگیوں سے بے خوف ہو کر اپنے سپروائیزر سے ایک قدم آگے بڑھ کر کام کیا اور ان پیچیدہ سطحوں کو اپنے تھیسز کا موضوع بنایا جن کو حل کرنا بہت مشکل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے تھیسز سے تین ایسے ریسرچ پیپر سامنے آئے جو بے شمار انوکھے اور منفرد تصورات کے حامل تھے۔

وڈیو بشکریہ سائمنز فاؤنڈیشن اینڈ انٹرنیشنل میتھمیٹیکل یونین۔

تو آخر اسنوکر کے کھیل میں ایسی کیا خاص بات ہے؟ دہائیوں سے ریاضی کے ماہرین کو اس کھیل سے کافی لگاؤ رہا ہے۔

آخر سنوکر کے کھیل میں ایسی کیا کشش ہے جو کئی دہائیوں سے ماہرینِ ریاضیات اس میں اس قدر دلچسپی رکھتے ہیں، اور یہ جاننے کے لیے بے چین رہتے ہیں کہ اگلے لمحے سنوکر ٹیبل پر موجود بال کے ساتھ کیا ہوگا؟ کیا گیند ایک ہی نکتے پر واپس لوٹ کر آسکتی ہے؟ اس کو کس انداز میں شوٹ کیا جائے کہ وہ مختلف جگہوں سے ٹکرا کر اپنی اصل جگہ لوٹ آئے؟

کیا واپس لوٹنے کے بعد وہ اسی پہلے والی سمت میں گامزن ہو سکے گی؟ اس طرح کے ریاضیاتی مسائل اس کائنات کی حقیقت کو بہترطور پر سمجھنے میں بہت معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ مثلا سیاروں کی اپنی مدار میں گردش وغیرہ کو اس طرح بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔

ایک ماہرِ ریاضیات سے بڑھ کر مرزا خانی خداداد صلاحیتوں کی حامل ایک ایسی فنکارہ بھی تھیں جن کے تصور کی پرواز بہت اونچی تھی، وہ اپنے تخیل سے وہ کچھ دیکھ اور سمجھ سکتی تھیں جو عام آدمی کی ذہنی اپچ سے ماورا ہے، ان کی زندگی ریاضی کے پیچیدہ مسائل، مڑی ہوئی سطحوں، دائروں، ڈونٹس اور امیبا کے اشکال کے گرد گھومتی رہی۔

ان کے کام میں جیومیٹری، علم مقامات (ٹوپولوجی) اور رائمین سرفیسز کی از سرِنو تشکیل (ڈی فارمیشن تھیوری) کے اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے جو ریاضی کی کئی دیگر شاخوں جیسے اوپٹکس، اکوسٹکس، کلاسیکل میکنیکس، اسٹیٹسٹیکل میکنیکس، پرائیم نمبرز اور کرپٹو گرافی کے لیے کافی فائدہ مند ثابت ہوئے۔

فیلڈز ایوارڈ حاصل کرنے والی وہ اکیلی خاتون ہیں، یوں ہمیں سائنس، ٹیکنولوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کے میدان میں خواتین کی کمی کا بخوبی اندازہ بھی ہو جاتا ہے۔ اگر کامیاب ماہر ریاضیات اور سائنسدانوں کا جائزہ لیں تو ان میں زیادہ تر سفید فام اور مرد ہیں۔

2015 میں امریکا میں مذکورہ شعبوں میں خواتین کی تعداد ایک تہائی یا اس سے بھی کم تھی۔ برطانیہ میں سال 2014 میں انجینیئرنگ اور ٹیکنولوجی کے پروفیسرز میں صرف 17 فیصد خواتین تھیں۔ لیکن ان میں بہت ہی کم ایسی خواتین شامل تھیں جو غیر سفید فام یا ترکِ وطن پس منظر کی حامل ہوں۔

بسا اوقات صنفی امتیاز یا کسی مخصوص علاقے کی ثقافتی چھاپ کی وجہ سے بھی خواتین اعتماد کی کمی کا شکار ہوجاتی ہیں۔ میراخیال ہے کہ جس شعبے سے میں تعلق رکھتی ہوں وہاں خود اعتمادی کی کمی بھی آگے بڑھنے میں ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہوتی ہے، جو ان خواتین کو سائنس، ٹیکنولوجی اور ریاضی کے میدان میں کریئر بنانے سے باز رکھتی ہے، خاص طور پر ان خواتین کو، جو اقلیتی پس منظر سے تعلق رکھتی ہیں۔

ایسی صورتحال میں مرزاخانی بطور ایک ثقافتی آئکون، ہم سب کے لیے ایک رول ماڈل سے کم نہیں۔

بطور ایک غیر سفید فام تارکِ وطن خاتون، انہوں نے ایک بے مثال سائنسدان اور ماہر ریاضیات بن کر ہر قسم کی فرسودہ سوچ کا مقابلہ کیا اور اپنے مرد ساتھیوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔

وہ پاکستان کی خواتین کے لیے بھی ایک مثال ہیں، جہاں کئی طرح کی ثقافتی پابندیوں کی وجہ سے خواتین بمشکل ہی سائنس و ٹیکنولوجی یا ریاضی کے شعبوں میں دکھائی دیتی ہیں۔

یہ ان کا حد سے بڑھا ہوا تجسس اور چیلنجز سے مردانہ وار مقابلہ کرنے کا جذبہ ہی تھا جس کے بل بوتے پر انہوں نے ایک نو آموز فیلڈ میں ناصرف قدم رکھا بلکہ دریافتیں بھی کیں اور ریاضی کے پیچیدہ مسائل حل بھی کیے۔ اپنی مختصر سی زندگی میں انہوں نے اس سوچ کو بھی غلط ثابت کیا کہ خواتین اچھی ریاضی دان نہیں بن سکتیں۔ لیکن مرزاخانی بہتر سے بھی بڑھ کر تھیں بلکہ یہ کہنا ٹھیک ہوگا کہ وہ ایک جینئس تھیں۔

ایاز احمد لغاری اور صادقہ خان نے انگلش سے اردو میں ترجمہ کیا۔


زاہرا لکڑا والا DHI-WASY Gmbh، برلن میں ریسرچ سائنٹسٹ/سوفٹ ویئر اسپیشلسٹ ہیں اور جرمنی کے شہر کائزرسلائوٹرن میں واقع فران ہوفر انسٹی ٹیوٹ فار انڈسٹریل میتھمیٹکس کے لیے بطور سائنٹفک کنسلٹنٹ کام کر رہی ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔