Dawnnews Television Logo

ہم کہ ٹھہرے اجنبی: مشرقی پاکستان میں انتخابات و قتلِ عام

عوامی خواہشات نہ مان کر بھٹو اور فوج میں ان کے حامیوں نے ایک بحران کو جنم دیا، جس سے فوج نے بزورِ طاقت نمٹنے کی کوشش کی۔
اپ ڈیٹ 26 ستمبر 2017 05:32pm

اوپر موجود یہ بھیانک تصویر 1971 کے سانحے، جس میں پاکستان دولخت ہوا اور بنگلہ دیش وجود میں آیا، میں بچ جانے والوں کے ذہنی صدمے کی مکمل داستان ہے۔ یہ تصویر مشہور ہندوستانی فوٹوگرافر رگھو رائے نے لی جو ڈھاکہ میں ہندوستانی افواج کے ساتھ موجود تھے۔ رگھو رائے نے اس خصوصی رپورٹ کے لیے ڈان کو اپنی تصاویر عطیہ کی ہیں۔


ہم کہ ٹھہرے اجنبی: مشرقی پاکستان میں انتخابات و قتلِ عام

ایس اکبر زیدی

عائشہ جلال اپنی کتاب دی اسٹرگل فار پاکستان: اے مسلم ہوم لینڈ اینڈ گلوبل پولیٹکس، میں جنرل آغا محمد یحییٰ خان، جنہوں نے جب ایوب مخالف احتجاجی مظاہرے کیے جا رہے تھے، تب ملک میں مارشل نافذ کیا اور ایوب خان کو ہٹا کر خود پاکستان کے صدر بن گئے، کے بارے میں لکھتی ہیں کہ یحییٰ خان، "جوشیلے، بلا نوش اور لاپرواہ طبیعت کے حامل شخص تھے۔" شاید کئی لوگوں کو اب بھی یحییٰ خان کی باتیں یاد ہوں جن کو عائشہ جلال ’رات کی سرگرمیاں’ کہتی ہیں، کیونکہ ان دنوں وہ باتیں ’عوام میں موضوعِ گفتگو تھیں’ جبکہ ’جنرل رانی' کا موضوع، بقول عائشہ جلال، ’اشرافیہ کی آپسی گپ شپ کا حصہ ہوتا تھا۔’

لیکن، شاید آج انہیں ان دو بڑے ہی غیر معمولی کاموں کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہوگا جو ان کے زیر نگرانی انجام پائے، پہلا 1970 کے انتخابات، اور دوسرا مشرقی پاکستان میں قتل عام جس کی وجہ سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش بننے کی راہ ہموار ہوئی۔ مذکورہ دونوں مواقع پر انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ ہاں وہ ایک پکے شرابی تھے لیکن 1970 اور 1971 میں جو کچھ ہوا اس میں صرف ان کے اکیلے کا کردار نہیں تھا بلکہ دو دیگر کردار، ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمان بھی تھے، جن کا اس دوران نہایت اہم کردار رہا۔

ایوب خان کی فوجی حکومت میں شروع ہونے والی ترقی کی دہائی کے سرمایہ دارانہ اصولوں کی وجہ سے بے شمار تضادات ابھر کر سامنے آئے، یوں 1960 کی دہائی کے اواخر میں علاقائی، سماجی، معاشی اور سیاسی بے چینی پیدا ہوئی اور پاکستان میں عوامی سطح کی پہلی حکومت مخالف تحریک کے باعث ایوب خان استعفیٰ دینے پر مجبور ہو گئے۔

مغربی پاکستان میں جہاں بلوچ اور پختون قوم پرست ون یونٹ کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے تھے، وہاں بھٹو بھی تھے جنہوں نے ایوب خان کے خلاف طلباء، مزدور طبقے اور نئے ابھرتے متوسط طبقے کے چند حلقوں کی رہنمائی کی۔ جبکہ چند دانشور بھٹو کے شدید احتجاج کو دیکھ کر بڑے بڑے دعوے کرنے لگے تھے، کہ پاکستان میں ایک سوشلسٹ انقلاب آنے والا ہے۔ بطور ایک غیر پنجابی، اور 1966 میں تاشقند سے لوٹنے کے بعد ایوب سے راہیں جدا کرنے کی وجہ سے وہ مغربی پاکستان میں اس فوجی حکومت کے خلاف ایک غالب آواز بن گئے تھے جس حکومت کا وہ کبھی حصہ رہے تھے۔

جب ایوب خان کو اقتدار سے باہر نکال دیا گیا تو اس وقت شیخ مجیب ہی تھے جو 1966 میں جمہوریت اور نمایاں صوبائی خود مختاری کے لیے اپنا چھے نکاتی پروگرام پیش کرنے، اور 1968 میں اگرتلہ سازش کیس میں شامل کیے جانے (لیکن بعد میں انہیں چھوڑ دیا گیا تھا)، کے بعد مشرقی پاکستانی/بنگالی قوم پرستی کی آواز بن کر تیزی سے ابھر رہے تھے، بھلے ہی وہ مشرقی پاکستان میں مولانا بھاشانی صوبے کے کسانوں کی آواز تھے۔

یہ بات بھی یہاں قابل ذکر ہے کہ جب چند بنگالی آوازیں متحدہ پاکستان کو چیلنج کر رہی تھیں تب بھی مجیب، ایسے سیاسی منظر نامے کے باوجود کہ جب مشرقی حصے میں یہ احساس بڑھتا جا رہا تھا کہ مشرقی پاکستان اب مغربی پاکستان کی محض ایک کالونی بن چکا ہے، ایک متحد، جمہوری، اور وفاقی پاکستان کے حامی تھے۔ کرشماتی اور عوامی رہنماؤں، جو فوجی حکومت کے پورے 11 برس ایک طرف بیٹھے تھے، کے باعث پیدا ہونے والے ان حالات میں یحییٰ خان نے ون یونٹ کو ختم کرتے ہوئے اور پاکستان کے اکثریتی صوبے کو آبادی کے لحاظ سے پارلیمنٹ میں 300 میں سے 162 نشستیں فراہم کرتے ہوئے، اکتوبر 1970 میں انتخابات کروانے کا اعلان کر دیا۔

یحییٰ خان نے ایوب خان سے اقتدار چھین کر ملک میں مارشل نافذ کیا تھا، جبکہ فوج اور بیوروکریسی، اپنی شہرت آزمانے کے لیے بے چین سیاسی جماعتوں اور عناصر کو اپنی طرف راغب کرنے میں مصروف تھیں۔ یحییٰ خان کے فیصلے کا جائزہ لینے والے مؤرخین کا کہنا ہے کہ انتخابات کا فیصلہ ملٹری انٹیلیجینس کی رپورٹس کی بنیاد پر کیا گیا تھا، جن کے مطابق پارلیمنٹ میں کوئی ایک پارٹی اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی، اور، کمزور پارلیمنٹ کی وجہ سے حقیقی طاقت فوج اور بیوروکریسی کے گٹھ جوڑ کے پاس ہی رہے گی۔

مشرقی بنگال میں مون سون بارشوں کے باعث، حکومت نے انتخابات دو ماہ کے لیے ملتوی کر دیے۔ انتخابات کی تاریخ 7 دسمبر مقرر کی گئی۔ لیکن نومبر 1970 میں مشرقی پاکستان میں ایک تباہ کن سمندری طوفان نے زبردست تباہی مچاتے ہوئے 2 لاکھ افراد کی جان لے لی، اور یوں انتخابات اور، ماضی کا جائزہ لیں تو لگتا ہے کہ پورے پاکستان کی تقدیر پر مہر لگا دی۔

اس بحران سے نمٹنے کے لیے پنجابی - مہاجر اکثریت والی فوجی بیوروکریٹک انتظامیہ کے رد عمل پر مشرقی پاکستانی ہکا بکا رہ گئے، جس وقت پاکستان کے پہلے عام انتخابات کے انعقاد میں صرف چند ہفتے بچے تھے، تب مشرقی پاکستانی سیاستدان یہ نشاندہی کرنے کے لیے بے چین تھے کہ مغربی پاکستان کے حکمران ٹولے نے پاکستانی بنگالیوں کو کس طرح بالکل نظر انداز کر دیا ہے۔

پاکستان میں جمہوریت سازی کے بارے میں تحقیق کرنے والے کہتے ہیں کہ پاکستان میں کبھی بھی انتخابات کا انعقاد نہ ہونے کی کئی وجوہات تھیں ان میں سے ایک وجہ پنجابی - مہاجر اشرافیہ اور ان کے فوجی بیوروکریٹک اتحاد کا خوف تھا۔ وہ خوف یہ تھا کہ انتخابات ہوئے تو مشرقی پاکستان، ایک بڑا صوبہ ہونے اور عوامی اکثریت کی وجہ سے پارلیمنٹ کی نشستوں پر ہمیشہ اکثریت کے ساتھ کامیاب ہوگا۔

1970 کے انتخابات کے نتائج نے اس خوف کو صحیح ثابت کرنے کا کام انجام دیا۔ شیخ مجیب الرحمان نے مشرقی پاکستان کی 162 نشستوں میں سے 160 پر کامیابی حاصل کی، یوں متحدہ پاکستان کی پارلیمنٹ میں انہیں اکثریت حاصل ہوئی۔ مغربی پاکستان میں بھٹو کی پیپلز پارٹی نے 138 میں سے 81 نشستیں حاصل کیں، یوں یہ مغربی پاکستان میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت بن گئی، پیپلز پارٹی نے سندھ اور پنجاب سے نمایاں کامیابی حاصل کی تھی۔ 1970 کا سب سے اہم نتیجہ یہ نکلا تھا کہ دونوں بڑی جماعتوں میں سے کسی ایک نے بھی ملک کے دوسرے حصے سے ایک نشست پر بھی کامیابی حاصل نہیں کی تھی۔ انتخابی طور پر پاکستان تقسیم ہو چکا تھا۔

مارچ 1971 میں فوج نے مشرقی پاکستان میں آپریشن سرچ لائٹ شروع کر دیا۔ انتخابات سے ظالمانہ فوجی آپریشنز تک کا یہ مختصر عرصہ یہ واضح کرتا ہے کہ کس طرح مغربی پاکستان کے چند سیاستدانوں نے اس معاملے کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا تھا اور پھر انہی کی طرح فوجی قیادت نے بھی سیاسی مسائل کو سمجھنے اور انہیں حل کرنے میں نااہلی اور غیر رضامندی کا مظاہرہ کیا۔

شیخ مجیب الرحمان ایک پاکستانی کی حیثیت سے لاہور میں اپنے حامیوں کے سمندر کے درمیان۔ فوٹو ڈان/وائٹ اسٹار آرکائیوز۔
شیخ مجیب الرحمان ایک پاکستانی کی حیثیت سے لاہور میں اپنے حامیوں کے سمندر کے درمیان۔ فوٹو ڈان/وائٹ اسٹار آرکائیوز۔

اگر پنجابی - مہاجر فوجی بیوروکریٹک قیادت 1970 کے انتخابات کے نتائج کا احترام کرتی تو ان چند ہفتوں میں متحدہ پاکستان کو دو لخت ہونے سے بچایا جا سکتا تھا۔ لیکن یہ احترام ان کی اپنی ذہانت اور مادی مفادات کے منافی قرار پاتا۔ مزید برآں، ایک ایسا مقبول عام جمہوریت پسند بھی تھا جس نے اس جمہوری مینڈیٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور یہ بات ان کی شخصیت کو زیب نہیں دیتی۔

انتخابی نتائج کے تھوڑے عرصے بعد، پاکستان میں دو وزرائے اعظم ہونے کی باتیں ہونے لگیں، جس پر بھٹو بظاہر متفق نظر آئے۔ دوسری جانب یحییٰ خان ڈھاکہ کے دورے پر گئے ہوئے تھے جہاں انہوں نے مجیب الرحمان کو پاکستان کا مستقبل کا وزیر اعظم قرار دیا۔ ڈھاکہ سے مغربی پاکستان لوٹنے کے بعد یحییٰ خان لاڑکانہ گئے اور بھٹو سے ملاقات کی۔ بھٹو نے یحییٰ کو قومی اسمبلی، اور یوں پاکستان کا کنٹرول مجیب کے سپرد نہ کرنے کا مشورہ دیا۔ بھٹو، مجیب الرحمان سے ملنے کے لیے ڈھاکہ پہنچے، لیکن دونوں کے درمیان بات چیت ناکام رہی۔

شجاع نواز اپنی کتاب کراسڈ سوارڈز میں لکھتے ہیں کہ ایسے کئی سینیئر جرنیل تھے جو 'بھٹو کی حمایت' کے لیے راضی تھے۔ یہ واضح طور پر نظر آ رہا تھا کہ مغربی پاکستان کے جرنیل اور یہاں کے انتخابات میں جیتنے والا، دونوں ہی انتخابی نتائج کا احترام کرنے کے لیے راضی نہیں تھے جبکہ ایک بڑا سیاسی اور آئینی بحران آنے کو تھا۔

بھٹو کا ایک بیان بہت مشہور ہے کہ، ’صرف اکثریت ہی نہیں دیکھی جاتی۔’ (ستم ظریفی دیکھیے کہ ان الفاظ نے آگے چل کر 1988 میں ان کی بیٹی کا بھی پیچھا نہیں چھوڑا)، اور ان کا وہ بیان بھی خاصا مشہور ہوا جس میں انہوں نے دھمکاتے ہوئے کہا تھا کہ اگر کوئی مغربی پاکستانی منتخب نمائندہ 3 مارچ 1971 کو یحییٰ کے بلائے گئے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے ڈھاکہ کی طرف بڑھا تو "اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا۔" وہ بھٹو ہی تھے جنہوں نے آگے چل کر وہ الفاظ ادا کیے جو ایک صحافی کے لیے ایک مشہور شہہ سرخی تخلیق کرنے کے کام آئے، کہ، ’اُدھر تم، اِدھر ہم‘۔

قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے میں بار بار ناکامیوں اور مذاکرات مکمل طور پر تعطل کا شکار ہونے کے بعد، فوج نے جنرل ٹکا خان کی زیر قیادت 25 مارچ 1971 کو آپریشن سرچ لائٹ کا آغاز کر دیا، جبکہ یحیٰ اور بھٹو اس وقت ڈھاکہ میں ہی موجود تھے۔

مارچ 25 اور 16 دسمبر 1971 کے درمیان مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہوا اس حوالے سے پاکستانی فوجی شخصیات اور تاریخ دان، اس کے ساتھ ساتھ ہندوستانی اور بنگلہ دیشی محققین اور دانشور بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔ جہاں ان کی تصانیف میں اعداد و شمار میں تضاد نظر آتا ہے— کہ کتنی اموات، کتنا قتلِ عام اور کتنے زنا بالجبر ہوئے— لیکن وہاں ایک بات پر، بالخصوص پاکستانی مصنفین کے درمیان، عمومی اتفاق پایا جاتا ہے وہ یہ کہ فوج کی جانب سے جو ظالمانہ طرز عمل اپنایا گیا تھا، وہ بہت ہی ہولناک تھا۔

یحییٰ خان 25 مارچ 1969 سے 20 دسمبر 1971 تک جاری رہنے والی اپنی ڈکٹیٹرشپ کے دوران ایک فنکشن میں۔ فوٹو ڈان/وائٹ اسٹار آرکائیوز۔
یحییٰ خان 25 مارچ 1969 سے 20 دسمبر 1971 تک جاری رہنے والی اپنی ڈکٹیٹرشپ کے دوران ایک فنکشن میں۔ فوٹو ڈان/وائٹ اسٹار آرکائیوز۔

کراچی میں مارننگ نیوز کے لیے کام کرنے والے اینتھنی مسکرینہاس نامی صحافی نے لندن سنڈے ٹائمز کے لیے لکھے گئے اپنے مضمون کا عنوان ’جینوسائڈ’ (نسل کشی) رکھا، جس میں مشرقی پاکستان میں ڈھائے گئے مظالم کو دنیا کے سامنے آشکار کیا گیا۔

پھر بھی جب مشہور بینڈ بیٹلز کے جارج ہیریسن نے بنگلہ دیش کے لیے ایک کنسرٹ کا انعقاد کیا تب بھی، مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہو رہا تھا اس پر امریکا سمیت دیگر عالمی طاقتیں اپنی آنکھیں موندے بیٹھی رہیں۔ مشرقی پاکستان میں جیسے ہی قتل عام شروع ہوا تو ہنری کیسنجر اور رچرڈ نکسن نے ’قصداً، کچھ بھی نہیں’ کیا، جس کا پتہ گرے باس کی کتاب، دی بلڈ ٹیلی گرام سے چلتا ہے، یہ کتاب جزوی طور پر اس وقت ڈھاکہ میں تعینات امریکی قونصل جنرل آرچر بلڈ کے بھیجے گئے ٹیلی گرام پر مشتمل ہے۔ وہاں جو کچھ ہو رہا تھا اس حوالے سے آرچر بلڈ نے خبردار کیا تھا۔

ان دنوں امریکی ماؤ کے چین سے معاشقہ لڑا رہے تھے اور پاکستان ان کے لیے اہمیت کا حامل تھا، کیونکہ آگے چل کر پاکستان نے ہی 'پنگ پونگ سفارتکاری' کی راہ ہموار کرنے میں مدد کرنی تھی۔ چین نے بھی خود کو پاکستان کے 'داخلی معاملات' سے الگ رکھا تھا۔

مشرقی پاکستان میں مارچ سے دسمبر کے اوائل تک فوجی کارروائی جاری رہی، جبکہ بنگلہ دیش کی جلاوطن حکومت کولکتہ (ان دنوں کلکتہ) میں موجود تھی۔ اس دوران اپنی آزادی کی جنگ لڑنے والی مکتی باہنی میں شامل افراد کے ہاتھوں غیر بنگالیوں، جن میں زیادہ تر بہاری تھے، کی ایک بڑی تعداد کا قتل کیا گیا۔ لاکھوں مشرقی پاکستانی سرحد پار کر کے ہندوستان نقل مکانی کر رہے تھے۔

بالآخر، نومبر میں ہندوستان نے مشرقی پاکستان میں فوجی حملہ کر دیا، جبکہ پاکستان (مغربی) نے 3 دسمبر کو ہندوستانی سرزمین پر حملہ کیا۔ حالانکہ مغربی پاکستانیوں کو 14 اور 15 دسمبر تک بھی یہ بتایا جا رہا تھا کہ وہ یہ جنگ جیت رہے ہیں، لیکن 16 دسمبر 1971 کو مشرقی پاکستان کے جی او سی، جنرل اے اے کے ’ٹائیگر’ نیازی نے ڈھاکہ میں جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کی زیر قیادت ہندوستانی فوج کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ مشرقی پاکستان اب باضابطہ طور پر بنگلہ دیش بن چکا تھا۔ اس وقت نہ صرف ہندوستانی بر صغیر میں ایک اور بٹوارہ ہوا بلکہ قائد اعظم محمد جناح کا ’دو قومی نظریہ’ بھی اختتام پذیر ہوا۔

سقوطِ ڈھاکہ سے قبل ہونے والی سلامتی کونسل کی کئی میٹنگز میں سے ایک میں ذوالفقار علی بھٹو خطاب کر رہے ہیں۔ فوٹو بشکریہ ڈائریکٹوریٹ آف الیکٹرانک اینڈ میڈیا پبلیکیشنز، وزارتِ اطلاعات، نشریات و قومی ورثہ، اسلام آباد و کراچی۔
سقوطِ ڈھاکہ سے قبل ہونے والی سلامتی کونسل کی کئی میٹنگز میں سے ایک میں ذوالفقار علی بھٹو خطاب کر رہے ہیں۔ فوٹو بشکریہ ڈائریکٹوریٹ آف الیکٹرانک اینڈ میڈیا پبلیکیشنز، وزارتِ اطلاعات، نشریات و قومی ورثہ، اسلام آباد و کراچی۔

شجاع نواز لکھتے ہیں کہ پاکستان کی شکست کے پیچھے ایک کرپٹ فوج کی ’غلط فہمیاں‘ تھیں، وہ فوج جو کہ ’فوائد اور مراعات کے کلچر’ کی عادی تھی’، جو خوش فہمیوں اور الکحل کی لبرل خوراک سے گھری تھی‘، لیکن یہ تو صاف واضح ہے کہ کم از کم تین اہم واقعات نے 16 دسمبر 1971 کے واقعے کی راہیں ہموار کی تھیں۔

رائے دہندگان کی خواہشات کو تسلیم نہ کر کے، بھٹو اور فوج میں ان کے حامیوں نے ایک بحران کو جنم دیا، جس سے فوج نے اسی واحد طریقے سے نمٹنے کی کوشش کی جو وہ جانتی تھی۔ مغربی پاکستان کی اشرافیہ اپنے مفاد کی خاطر جمہوریت اور لوگوں کو ان کا مینڈیٹ دینے کے لیے تیار نہیں تھی۔ جہاں مغربی پاکستانی سیاستدان آئینی ناکامی کے ذمہ دار تھے وہاں وہ واحد فوجی قیادت ہی تھی جو مشرقی پاکستان میں ہونے والے قتل عام کی ذمہ دار ٹھہری۔

مشرقی بنگال سے لاکھوں مہاجرین سلامتی و تحفظ کی تلاش میں اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ — فوٹو رگھو رائے۔
مشرقی بنگال سے لاکھوں مہاجرین سلامتی و تحفظ کی تلاش میں اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ — فوٹو رگھو رائے۔

افسوس کے ساتھ زیادہ تر مغربی پاکستانی دانشوروں یا سیاسی رہنماؤں نے مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی کے خلاف احتجاج اور مخالفت نہیں کی تھی۔ ان کی خاموشی انہیں بھی اس قتل عام کے جرم میں برابر کا شریک ٹھہراتی ہے۔ ہندوستان نے 1971 کے آخری چند مہینوں میں مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بننے میں مدد کی تھی، لیکن 1947 اور 1970 کے درمیان جو حالات پیدا ہوئے اور جن کے باعث پاکستان دو لخت ہوا، اس کا ذمہ دار ہندوستان نہیں تھا۔ بیرونی طاقتیں صرف داخلی دراڑوں کو دیکھ کر چڑھائی کرتی ہیں اور مقامی سطح پر پیدا ہونے والے حالات کا فائدہ اٹھاتی ہیں، اور ہندوستان نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔

1971 سے لے کر اب تک کسی نے بھی مشرقی پاکستان جتنا بڑا کوئی سانحہ نہیں سنا ہوگا لیکن شاید ہمیں اس سانحے سے سبق حاصل کرنا اب بھی باقی ہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی بچے کھچے پاکستان میں جمہوریت لے آئی، لیکن ایک بار پھر 1972 اور 1973 کے واقعات کے بعد جمہوری نظام کے باوجود نام نہاد علاقائیت اور صوبائیت پسندی کے خلاف زبرست مرکزیت پسندی کے سرد خانے میں پڑے مسئلے کو زندہ کیا گیا، جبکہ وہ افراد جو پاکستان کے دو لخت ہونے کے ذمہ دار ٹھہرے تھے ان کے لیے احتساب اور سزا کی گنجائش نہ ہونے کے برابر رکھی گئی۔


لکھاری کراچی میں مقیم سیاسی ماہر اقتصادیات ہیں۔ انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی سے تاریخ میں پی ایچ ڈی کی ہے، اور نیو یارک کی کولمبیا یونیورسٹی اور کراچی کے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن میں پڑھاتے ہیں۔


حبیب بینک لمیٹڈ آزادی سے ہی اس قوم کا ایک اہم حصہ رہا ہے، اور لاکھوں پاکستانیوں کے خوابوں کو ممکن بنا رہا ہے۔ حبیب بینک خواب دیکھنے والوں کو سلام پیش کرتا ہے، اور ملک کی 70 ویں سالگرہ آپ کے نام کرتا ہے۔ جہاں خواب، وہاں ایچ بی ایل۔


یہ رپورٹ ابتدائی طور پر انگلش میں شائع ہوئی اور ایاز احمد لغاری نے ترجمہ کیا۔ ڈان اور پاکستان کے 70 سال کے عنوان کے تحت شائع ہونے والی گزشتہ رپورٹس یہاں پڑھیں۔