خوف پھیلاتے ’چھلاوے‘ گروہوں کا تعلق کراچی سے نیا نہیں

خوف پھیلاتے ’چھلاوے‘ گروہوں کا تعلق کراچی سے نیا نہیں

عبدالرافع

مسلسل دس دن شہرِ کراچی کو خوف و ہراس کی فضا میں دھکیلنے والے 'خنجر بردار' شخص نے آخرکار ایک پُراسرار خاموشی اختیار کرلی، ابھی یہ معلوم نہیں کہ یہ خاموشی مستقل ہے یا وقتی، لیکن یہ ضرور معلوم ہے کہ صوبائی حکومت اِس ایک فرد سے بہت پریشان ہوچکی ہے جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ حکومت نے گرفتاری میں مدد کرنے والوں کے لیے انعامی رقم 5 لاکھ سے بڑھا کر 10 لاکھ روپے کردی ہے۔

انعامی رقم کے اعلان کے ساتھ مطلوبہ فرد کی کچھ مزید تصاویر بھی جاری کی گئی ہیں۔ شہر کے مختلف علاقوں بشمول گلستانِ جوہر، ڈالمیا، راشد منہاس روڈ اور شارعِ فیصل میں ہونے والے واقعات میں مختلف عمروں کی کم از کم 13 خواتین زخمی ہوئیں، جبکہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران اِس سلسلے میں 16 کے قریب گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئیں ہیں، مگر کچھ خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا۔

اگرچہ کچھ دنوں سے چھلاوے کی کارروائیاں کم تو ہوئی ہیں، مگر تیزی سے امن کی طرف لوٹتے کراچی میں خوف کے سائے اب بھی موجود ہیں، اور یقیناً یہی اِن وارداتوں کا اصل مقصد بھی معلوم ہوتا ہے۔

اگر ماضی کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اِس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں بلکہ اِس سے قبل بھی مختلف ’چھلاوے‘ اِس شہر میں جرم کے ارتکاب کے بعد منظرِ عام سے غائب ہونے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ اِس نوعیت کے جرائم کی ممکنہ وجوہات اور تادیبی اقدامات کا جائزہ لینے سے قبل آئیے ماضی میں کراچی میں ہونے والے ایسے واقعات پر ایک نظر ڈالیں۔

ہتھوڑا مار گروہ

یہ 1985 اور 1986 کے وسط کی بات ہے جب کراچی میں ’ہتھوڑا مار‘ گروہ کا ظہور ہوا۔ یہ گروہ کراچی کے معروف علاقے برنس روڈ سمیت شہر کے مختلف علاقوں میں رات کے کسی پہر نمودار ہوتا، اور فٹ پاتھ اور دیگر جگہوں پر سوئے ہوئے گداگروں کو نشانہ بنانے کے بعد غائب ہوجاتا۔

—خاکہ بشکریہ خدا بخش ابڑو
—خاکہ بشکریہ خدا بخش ابڑو

سفید لباس اور سیاہ ماسک میں ملبوس لوگ کسی بے گھر فرد کے سرہانے یکایک نظر آتے اور ہتھوڑے کے ایک ہی وار سے اُسے موت کی ابدی نیند سلادیتے۔

اِن خون آشام اموات نے شہر کے باسیوں میں بے تحاشہ خوف پیدا کیا، جو اِن کارروائیوں کا اصل مقصد بھی تھا۔ سرعت کے ساتھ اِس جرم کو پایہِ تکمیل تک پہنچانے اور غائب ہوجانے کے سبب اِس گروہ کے افراد کو چھلاوے کا نام دیا گیا۔ ہتھوڑا گروہ کے ہاتھوں مارے جانے والے افراد کی تعداد 10 کے قریب بتائی جاتی ہے۔

گریس لگا کر کارروائی کرنے والا گروہ

نوے کی دہائی میں ایک بار پھر ایسے ہی گروہ نے کراچی میں اپنا ڈیرا جمایا اور یہ بھی چھلاوے کے نام سے ہی پہچانے گئے۔

مختصر نیکر یا زیر جامہ میں ملبوس افراد رات کے کسی پہر آہستگی سے شہر کے کسی بھی گھر میں داخل ہوجاتے اور قیمتی چیزوں پر ہاتھ صاف کرجاتے۔

اِن چھلاووں کے جسموں پر لگا ہوا گریس یا تیل جیسا کوئی مواد انہیں گھر کے لوگوں یا محلے کے افراد کی پکڑ میں آنے سے محفوظ رکھتا۔

انجیکشن یا سرنج لگا کر کارروائی کرنے والا گروہ

آج سے چند سال قبل بھی کچھ ’چھلاووں‘ نے شہر کے باسیوں کو خوف اور بے اطمینانی میں مبتلا کردیا۔ متاثرہ افراد میں میری والدہ کی ایک دوست بھی شامل تھیں، جنہیں بس میں سفر کے دوران انجکشن یا سرنج جیسی کوئی نوکیلی چیز چبھائی گئی، جس کے نتیجے میں وہ بیمار پڑگئیں۔ گردش کرنے والی افواہوں کے مطابق اُن انجکشنز میں انتھریکس بیماری کے جراثیم موجود ہوتے تھے۔ اِن واقعات میں متاثرہ افراد کی تعداد کم از کم چھ رہی۔

تفتیش میں جھول

خنجر زنی کرنے والے مجرم اور ہتھوڑا گروہ کی تفتیش میں ایک بنیادی جھول دیکھا گیا جو ایسے افراد کی گرفت میں رکاوٹ بنا۔ ہتھوڑا گروپ کے بارے میں پولیس نے قیاس کیا کہ وہ صرف ایک فرد کی کارروائی کا نتیجہ ہے، لیکن حملے کے بعد زندہ بچ جانے والے ایک فرد کے بیان کے مطابق اُس پر حملہ چار آدمیوں نے کیا تھا۔

اِسی طرح موجودہ وارداتوں کی تفتیش میں سب سے بڑا سقم یہ رہا کہ پولیس نے جلد ہی یہ فیصلہ کرلیا کہ ملوث شخص ایک ذہنی مریض ہے، جبکہ ایک عام آدمی بھی اِس بات کو بخوبی سمجھ رہا تھا کہ اِس جرم کا مقصد روشنیوں کے شہر، جہاں امن لوٹ رہا ہے، وہاں کے باسیوں میں خوف منظم کارروائیوں کے تحت کی تقسیم ہے۔

حسبِ معمول طفل تسلیاں، لیکن قانون نافذ کرنے والے ادارے کلوز سرکٹ ٹیلی ویژن کیمروں سے بنائی گئی عکس بندی کے باجود بھی مجرم کا سراغ لگانے میں اب تک ناکام ثابت ہورہے ہیں۔ گو گزشتہ ہفتے اِس موضوع پر پولیس اور حکومتی حلقوں کی جانب سے کئی بیانات جاری کئے گئے، حتیٰ کہ اِس سلسلے میں ایک اہم مجرم کو پکڑنے کا دعویُ بھی کیا جاچکا ہے، لیکن ذاتی رائے یہی ہے کہ منزل ابھی دور ہے۔

چاقو حملہ آور کو پکڑنے کے لیے تجاویز

لیکن سوال تو اب بھی یہی ہے کہ آخر اِن گروہوں پر کس طرح قابو پایا جائے۔ تو اِس حوالے سے کوشش ہوگی کہ کچھ تجاویز پیش کرسکوں۔

  • یہ بات بالکل واضح ہے کہ اِس طرح کی تمام وارداتوں کا اولین مقصد شہر کے رہنے والوں میں خوف پھیلانا ہے اور دم توڑتی دہشتگردی کو ایک بار پھرسے لوٹانا ہے۔ اِس لیے سب سے پہلے تو خوف و ہراس میں کمی لانے کی پوری کوشش کی جائے اور ایسا ابلاغ عامہ کے ذرائع کے مؤثر استعمال کے ذریعے ممکن ہے۔

  • پولیس حکام کو خوف پھیلانے کے بجائے پریس کانفرنس کے ذریعے عوام کو اِس سلسلے میں کیے جانے والے اقدامات سے آگاہ کیا جائے تو یہ احساس دلایا جائے کہ آپ پریشان نہیں ہوں، بہت جلد یہ مجرم پولیس کی تحویل میں ہوگا۔ یوں شاید لوگوں کے ذہنوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مکمل ناکامی کا احساس کچھ کم اور تحفظ کا احساس پیدا ہوسکے۔

  • دوسرا سب سے اہم معاملہ مجرم تک پہنچنے کی کوشش ہے، جس کا ایک ممکن طریقہ زیادہ تر نشانہ بننے والے علاقوں میں انٹیلی جنس کا موثر اور مربوط جال بچھانا اور سادہ لباس اہلکاروں کو تعینات کرنا ہے۔ ایسے میں کسی مسلح خاتون پولیس افسر کو مکمل سیکورٹی فراہم کرتے ہوئے مخصوص متاثرہ علاقوں میں موجودگی ظاہر کرنے کا کہا جاسکتا ہے اور مجرم کے نمودار ہوتے ہی گرفتاری یا کارروائی عمل میں لائی جاسکتی ہے۔

  • جرائم کی دنیا کے عمومی جائزے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ اِن سرگرمیوں میں ملوث افراد کا عموماً ایک دوسرے سے کسی نہ کسی سطح پر رابطہ ہوتا ہے، اگر سراغ لگانے کی کوشش کی جائے، تو مجرم کے حلیے، لباس اور موٹر سائیکل کی ساخت کو دیکھتے اور طریقہ واردات کو جانچتے ہوئے گرفتاری عمل میں لائی جاسکتی ہے۔

  • متاثرہ علاقوں میں پولیس کے سادہ لباس اہلکاروں کی نفری اور ممکنہ متاثرہ علاقوں میں فوری طور پر نگرانی کے عمل کا آغاز بھی اہم اقدامات ثابت ہوسکتے ہیں۔

ضرورت اِس امر کی ہے کہ صنفِ نازک کو درپیش اِس مشکل کا فوری مقابلہ کیا جائے اور اُنہیں ایک بار پھر خود اعتمادی اور تحفظ فراہم کیا جاسکے۔ کیونکہ عوام قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف دیکھ رہے ہیں اور کسی اچھے نتیجے کے منتظر ہیں۔


عبدالرافع پرجوش لکھاری، پُراُمید انسان اور پیشے کے لحاظ سے صحافی ہیں۔ آپ اِن سے اس ای میل ایڈریس پر رابطہ کرسکتے ہیں۔ [email protected]