خوشبو کی طرح جلد بکھر جانے والی شاعرہ: پروین شاکر

’محبت کا فلسفہ میری شاعری کی بنیاد ہے اور اسی کے حوالے سے اس ازلی مثلث یعنی انسان خدا اور کائنات کو دیکھتی اور سمجھتی ہوں۔‘

یہ بات ایک انٹرویو کے دوران اپنی شاعری سے جوانوں سے لے کر بزرگوں تک کا دل جیت لینے والی شاعرہ پروین شاکر نے کہی تھی۔

اردو کے منفرد لہجے کی شاعرہ کی پیدائش 24 نومبر 1952 کو کراچی میں ہوئی اور کم عمری میں ہی وہ شہرت حاصل کرنے میں کامیاب رہیں جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔

انہوں نے بہت چھوٹی عمر میں شعر و شاعری کا آغاز کیا، پروین شاکر سے پہلے کسی شاعرہ نے نسوانی جذبات کو اتنی نزاکت سے بیان نہیں کیا تھا۔

انہوں نے الفاظ اور جذبات کو ایک انوکھے تعلق میں باندھ کر سادہ الفاظ میں انسانی انا، خواہش اور انکار کو شعر کا روپ دیا۔

آپ نے انگلش لٹریچر اور زبان دانی میں گریجویشن کیا اور بعد میں انہی مضامین میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

پروین شاکر استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں سرکاری ملازمت اختیار کرلی۔

ابتداء میں بینا کے نام سے پہچانی جانے والی شاعرہ کی پہلی کتاب خوشبو 1977 میں شائع ہوئی، یعنی اُس وقت اُن کی عمر صرف 25 سال تھی اور اِس شعری مجموعے کی خوشبو چہار سو پھیل گئی۔

اُن کے پہلے مجموعے خوشبو میں ایک نوجوان دوشیزہ کے شوخ و شنگ جذبات کا اظہار ہے، جس کے دیباچے میں انہوں نے تحریر بھی کیا ’جب ہولے سے چلتی ہوئی ہوا نے پھول کو چوما تھا تو خوشبو پیدا ہوئی تھی۔‘

مگر وقت کے ساتھ شاعری کا اندازہ بدلا اور غور کیا جائے تو اُس میں ایک عورت کی زندگی کے مختلف مراحل کو دیکھا جاسکتا ہے۔

اُن کی شاعری میں روایت سے انکار اور بغاوت بھی نظر آتی ہے، انہوں نے اپنی شاعری میں صنف نازک کے جذبات کی تصاویر بنائیں اور اُس کے دُکھ اور کرب کو نظموں میں ڈھالا۔

پروین کی شادی ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی اور اِس جوڑے کا ایک بیٹا بھی تھا تاہم 1987 میں اُن کی شوہر سے علیحدگی ہوگئی۔

ماں کے جذبات، شوہر کی ناچاقی اور علیحدگی، ورکنگ ویمن کے مسائل اِن سبھی کو انہوں نے بہت خوبصورتی سے قلمبند کیا ہے۔

انہوں نے شاعری کے ساتھ ساتھ کالم نویسی بھی کی، اِس کے علاوہ انہیں ادب میں بہترین خدمات پر پرائڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا۔

خوشبو کے علاوہ اُن کے تین مجموعہ ہائے کلام صدبرگ، خودکلامی اور انکار شائع ہوئے جبکہ چاروں مجموعوں کو کلیات کی شکل میں ماہِ تمام کے نام سے شائع کیا گیا۔

26 دسمبر 1994 کو اسلام آباد میں ایک ٹریفک حادثے میں وہ 42 سال کی عمر میں مالک حقیقی سے جا ملیں۔

پروین شاکر کو ہم سے بچھڑے دو دہائیوں سے زائد عرصہ ہوچکا ہے، مگر اِن کی شاعری آج بھی خوشبو کی طرح کو بہ کو پھیلتی محسوس ہوتی ہے۔