Dawnnews Television Logo

چیمپیئنز کا سال 2017ء کیسا رہا؟

اتار چڑھاؤ سے بھرپور پاکستان کرکٹ ٹیم کے سال 2017ء کا تفصیلی جائزہ۔
اپ ڈیٹ 31 دسمبر 2017 05:30pm

پاکستان سپر لیگ 2017ء کے پہلے ہی میچ میں اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل نے جب ٹورنامنٹ کے آغاز کو دھندلا دیا تھا، تو یوں محسوس ہونے لگا جیسے 7 سال بعد ایک مرتبہ پھر پاکستان کرکٹ اُسی مقام پر واپس آگئی ہے جہاں وہ 2010ء میں لارڈز ٹیسٹ کے بعد پہنچ گئی تھی.

لیکن ماضی کی نسبت بہتر منصوبہ بندی اور بہتر قیادت کی بدولت پاکستان کرکٹ اِس صدمے کو جھیلنے میں کامیاب رہی اور بعد ازاں ویسٹ انڈیز کے خلاف تاریخی ٹیسٹ سیریز جیتنے کے بعد قومی ٹیم نے ون ڈے کرکٹ کی رینکنگ میں آٹھویں نمبر پر ہونے کے باوجود ناقابلِ یقین کارکردگی دکھاتے ہوئے چیمپیئنز ٹرافی کی چیمپیئن بن کر دنیا پر ایک مرتبہ پھر ثابت کر دکھایا کہ پاکستانی ٹیم دنیا کی سب سے 'ناقابل یقین' ٹیم ہے۔

اسپاٹ فکسنگ و کرپشن، پاکستان سپر لیگ کا کامیاب انعقاد، دو سپر اسٹارز کی ریٹائرمنٹ، چیمپیئنز ٹرافی کی شاندار فتح اور ون ڈے و ٹی ٹوئنٹی میں بہترین کارکردگی سے بڑھ کر اِس سال پاکستان کرکٹ کے لیے سب سے بڑی خبر ملک میں طویل عرصے بعد انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی و بحالی تھی۔

تو آئیے اتار چڑھاؤ سے بھرپور پاکستان کرکٹ کے ایک اور سال کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔

ٹیسٹ کرکٹ

سال 2017ء ٹیسٹ میچوں کے اعتبار سے قومی ٹیم کے لیے ناکامیوں سے عبارت رہا جہاں ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز میں تاریخی فتح کے باوجود قومی ٹیم سال کا اختتام مثبت انداز میں نہ کرسکی اور کمزور سری لنکن ٹیم کے ہاتھوں اُسے کلین سوئپ کا سامنا کرنا پڑا۔

12 ماہ میں صرف 6 ٹیسٹ میچ کھیلنے والی قومی ٹیم کو سال کے آغاز میں ہی آسٹریلوی سرزمین پر لگاتار چوتھے کلین سوئپ کا سامنا کرنا پڑا۔

دورہ ویسٹ انڈیز

ساڑھے تین ماہ بعد قومی ٹیم 3 ٹیسٹ میچوں کی سیریز کھیلنے ویسٹ انڈیز پہنچی تو یہ ناصرف پاکستان کے لیے ویسٹ انڈین سرزمین پر ٹیسٹ سیریز جیتنے کا بہترین موقع تھا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ قومی ٹیم کے دو سب سے تجربہ کار اور عظیم کھلاڑیوں یونس خان اور مصباح الحق کی بھی آخری سیریز تھی۔

پاکستان نے کنگسٹن میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میچ میں باآسانی 7 وکٹ سے فتح اپنے نام کی لیکن سیریز کی فیورٹ قومی ٹیم کے لیے دوسرا ٹیسٹ ڈراؤنا خواب ثابت ہوا اور محض 188 رنز کے ہدف کے تعاقب میں پاکستانی ٹیم میچ کے آخری دن صرف 81 رنز پر ڈھیر ہوگئی اور اسے 106 رنز کی بڑی شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ اِس شکست کے بعد یوں محسوس ہونے لگا جیسے ویسٹ انڈیز میں سیریز جیتنے کا خواب شاید اس مرتبہ بھی شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے۔

مصباح الحق اور یونس خان کے کیریئر کے آخری ٹیسٹ میچ میں پاکستان نے ویسٹ انڈیز کی دعوت پر پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے اظہر علی کی سنچری کی بدولت 376 رنز بنائے جس کے جواب میں محمد عباس اور یاسر شاہ کی عمدہ باولنگ کے سامنے میزبان ٹیم 247 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔

پاکستان نے دوسری اننگز 174 رنز 8 کھلاڑی آؤٹ پر ڈکلیئر کی اور پہلی اننگز کی برتری کی بدولت میزبان کو میچ اور سیریز میں فتح کے لیے 304 رنز کا ہدف دیا۔

باؤلرز کی شاندار کارکردگی کے سبب ویسٹ انڈیز کے ابتدائی 6 کھلاڑی محض 93 رنز پر پویلین پہنچ گئے تھے اور فتح انتہائی آسان دکھائی دے رہی تھی مگر اس اہم ترین موقع پر روسٹن چیز پاکستان اور فتح کے درمیان حائل ہوگئے۔

سابق کپتان مصباح الحق اور یونس خان نے تاریخی فتح کے ساتھ اپنے شاندار کیریئر کا اختتام کیا— فوٹو: اے ایف پی
سابق کپتان مصباح الحق اور یونس خان نے تاریخی فتح کے ساتھ اپنے شاندار کیریئر کا اختتام کیا— فوٹو: اے ایف پی

ویسٹ انڈین بلے باز نے شاندار بیٹنگ کرتے ہوئے سنچری بنائی اور میچ کو پاکستان کی گرفت سے دور لے گئے لیکن میچ کے اختتام سے محض 6 گیندیں قبل یاسر شاہ نے شینن گیبریئل کی وکٹیں بکھیر کر پاکستان کو پہلی مرتبہ ویسٹ انڈین سرزمین پر ٹیسٹ سیریز میں فتح دلادی۔

اس سیریز کے اختتام کے ساتھ ٹیسٹ کرکٹ میں 10 ہزار رنز بنانے والے واحد پاکستانی بلے باز یونس خان اور پاکستان کی ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کے کامیاب ترین کپتان مصباح الحق کا سنہرا دور اپنے اختتام کو پہنچا۔

پاکستان نے ویسٹ انڈین سرزمین پر پہلی مرتبہ سیریز جیتنے کا کارنامہ انجام دیا— فوٹو: اے ایف پی
پاکستان نے ویسٹ انڈین سرزمین پر پہلی مرتبہ سیریز جیتنے کا کارنامہ انجام دیا— فوٹو: اے ایف پی

اب پاکستان کو اگلی ٹیسٹ سیریز بنگلہ دیش کے خلاف کھیلنی تھی مگر کچھ مسائل کی وجہ سے یہ سیریز نہیں کھیلی جاسکی۔

سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ سیریز

مصباح الحق اور یونس کے جانے کے بعد خیال یہی تھا کہ قومی ٹیم کے بلے باز اتنی آسانی سے شاید سنبھل نہ سکے اور یہ خیال سری لنکا کے خلاف سیریز میں ٹھیک ثابت ہوا جہاں قومی ٹیم کو پہلی مرتبہ متحدہ عرب امارات کی سرزمین پر کسی بھی ٹیم کے خلاف کلین سوئپ کا سامنا کرنا پڑا۔

سرفراز احمد کی زیرِ قیادت ابوظہبی میں کھیلے گئے سیریز کے پہلے ٹیسٹ میچ میں قومی ٹیم کو فتح کیلئے 136 رنز کا ہدف ملا تو جیت صاف نظر آرہی تھی لیکن اسٹار سری لنکن اسپنر رنگنا ہیراتھ نے پاکستان سے جیتی بازی چھینتے ہوئے پوری ٹیم کو 114 رنز پر ٹھکانے لگا کر اپنی ٹیم کو ناقابلِ یقین فتح سے ہمکنار کرایا اور یہ پہلا موقع تھا کہ پاکستان ٹیسٹ میچ میں اتنے کم رنز کے ہدف کا تعاقب نہ کرسکا۔

دوسرے ٹیسٹ میں صورتحال اس سے بھی زیادہ ابتر رہی اور بھارت کے خلاف ہوم گراؤنڈ پر 0-3 سے کلین سوئپ کی خفت سے دوچار ہونے والی سری لنکن ٹیم نے دوسرا میچ 68 رنز سے جیت کر ناتجربہ کار بیٹنگ لائن کی حامل پاکستانی ٹیم کے خلاف سیریز کو 0-2 سے کلین سوئپ کرکے سرفراز احمد کے بحیثیت کپتان پہلی ٹیسٹ سیریز کو ڈراؤنا خواب بنادیا۔

متحدہ عرب امارات میں پہلی مرتبہ سیریز ہارنے کے ساتھ ساتھ گزشتہ سال ٹیسٹ کی عالمی ’نمبر ایک‘ بننے والی ٹیم ناکامیوں کے سبب سال کے اختتام تک عالمی درجہ بندی میں ساتویں نمبر پر جا پہنچی۔

کھلاڑیوں کی مختلف فارمیٹس میں بیٹنگ کارکردگی

ون ڈے کرکٹ

ٹیسٹ کرکٹ کے برعکس ون ڈے کرکٹ میں قیادت کی تبدیلی پاکستان ٹیم اور سرفراز احمد دونوں ہی کیلئے نیک شگون ثابت ہوئی اور پاکستان نے نئے کپتان کی زیرِ قیادت ایک نئے دور کا آغاز کیا۔

اگرچہ سال کا آغاز ون ڈے کرکٹ میں آسٹریلیا کے خلاف شکست سے ہوا، مگر آسٹریلوی سرزمین پر ون ڈے سیریز میں 1-4 سے بُری شکست کے بعد قومی ٹیم کے کھلاڑیوں نے لڑنے کا فیصلہ کرلیا تو کرکٹ بورڈ نے اظہر علی کو قیادت ہٹانے کا فیصلہ کیا جن کی زیرِ قیادت ٹیم کو اکثر ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑا۔

ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز

ٹی20 کرکٹ میں عمدہ انداز میں قیادت کی ذمے داریاں انجام دینے والے سرفراز احمد نے ون ڈے میں بھی اپنا انتخاب درست ثابت کر دکھایا اور قیادت کی تبدیلی نے ناکامیوں سے دوچار قومی ٹیم میں ایک نئی روح پھونک دی۔

ویسٹ انڈیز میں گوکہ پہلے ون ڈے میچ میں پاکستان کو حیران کن شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن اگلے دو میچوں میں ٹیم نے شاندار کھیل پیش کرتے ہوئے ویسٹ انڈیز کو آؤٹ کلاس کرکے سیریز 1-2 سے اپنے نام کی۔

چیمپیئنز ٹرافی

عالمی درجہ بندی میں آٹھویں نمبر پر موجود پاکستانی ٹیم کم تر توقعات کے ساتھ چیمپئنز ٹرافی کھیلنے پہنچی تو بھارت کے خلاف پہلے ہی میچ میں بدترین ناکامی کے ساتھ قومی ٹیم توقعات پر بالکل پورا اتری اور پوری قوم اِس بات پر متفق تھی کہ جنوبی افریقہ کے خلاف میچ کے اختتام کے ساتھ ہی پاکستان کی ایونٹ میں مہم اختتام پذیر ہوجائے گی۔

لیکن پہلے میچ میں بدترین شکست کے بعد پاکستانی ٹیم کسی عجوبے کی طرح اُبھر کر سامنے آئی اور ایونٹ کے لیے فیورٹ تصور کی جانے والی جنوبی افریقہ کو شکست دینے کے بعد سری لنکا کو بھی مات دے کر سیمی فائنل میں جگہ بنالی۔

سیمی فائنل میں پاکستان کا مقابلہ دو سال سے ون ڈے کرکٹ میں عمدہ کھیل پیش کرنے والی ٹیم اور میزبان انگلینڈ سے تھا۔ باؤلرز نے عمدہ کارکردگی کی بدولت میزبان ٹیم کی بیٹنگ لائن پر قابو پایا، اور پھر اوپنرز کی شاندار بلے بازی کے سبب یکطرفہ مقابلے کے بعد قومی ٹیم نے فتح حاصل کرکے فائنل کے لیے کوالیفائی کرلیا جہاں اُس کا مقابلہ دفاعی چیمپیئن اور روایتی حریب بھارت سے تھا جو ایونٹ میں اب تک ناقابل شکست تھی۔

پہلے میچ میں بدترین شکست کے بعد تمام حلقوں کی جانب سے فائنل سے قبل ہی بھارت کو چیمپیئنز ٹرافی کا چیمپیئن قرار دیا جانے لگا لیکن کرکٹ کے متوالے پاکستانی شائقین کو اب تک ٹورنامنٹ میں معجزاتی کارکردگی دکھانے والی پاکستانی ٹیم سے ایک اور معجزے کی امید تھی اور پھر سرفراز احمد کی زیرِ قیادت پاکستانی ٹیم نے بالآخر کرشمہ دکھا دیا۔

لندن میں 18 جون کا دن بھارتی ٹیم اور ویرات کوہلی کے لیے ہر لحاظ سے ناکامیوں سے عبارت رہا جہاں ٹاس جیتنے کے بعد ہندوستانی کپتان نے پاکستان کو بیٹنگ دینے کا تباہ کن فیصلہ کیا۔

کہتے ہیں کہ قسمت ساتھ نہ ہو تو صحیح ہوتے کام بھی بگڑ جاتے اور ایسا ہی کچھ اُس دن بھارتی ٹیم کے ساتھ ہوا جب جسپریت بمراہ کی گیند پر فخر زمان آوٹ ہوئے لیکن وہ گیند ’نوبال‘ قرار پائی۔

پاکستان نے فائنل میں بھارت کو شکست دے کر پہلی مرتبہ چیمپیئنز ٹرافی جیت کر دوبالا کردیا — فوٹو: اے ایف پی
پاکستان نے فائنل میں بھارت کو شکست دے کر پہلی مرتبہ چیمپیئنز ٹرافی جیت کر دوبالا کردیا — فوٹو: اے ایف پی

اس کے بعد میچ کا نقشہ یکسر بدل گیا اور اوپنرز کی جانب سے 128 رنز کے عمدہ آغاز اور فخر زمان کی کیریئر کی پہلی سنچری کے ساتھ حفیظ کی جارحانہ نصف سنچری کی بدولت پاکستان نے 338 رنز کا مجموعہ اسکور بورڈ کی زینت بنا کر بھارت کو بڑا چیلنج دیا۔

مگر باؤلنگ کی طرح بیٹنگ میں بھی ایک ڈراؤنا خواب بھارتی ٹیم کا منتظر تھا جہاں اننگز کی تیسری ہی گیند پر ان فارم روہت شرما بغیر کوئی رن بنائے پویلین لوٹے لیکن مہمان ٹیم کو سب سے بڑا دھچکا اس وقت لگا جب عامر ہی کے اگلے اوور میں ایک گیند پر کیچ چھوٹنے کے بعد اگلی ہی گیند پر کپتان ویرات کوہلی بھی پویلین لوٹے۔

اس کے بعد بھارتی ٹیم سنبھل نہ سکی اور پوری ٹیم 158 رنز پر ڈھیر ہو کر میچ میں 180 رنز کی بدترین شکست سے دوچار ہوئی اور پاکستان نے پہلی مرتبہ چیمپیئنز ٹرافی جیتنے کا اعزاز حاصل کرلیا۔

اس ٹورنامنٹ میں پاکستان کو حسن علی کی شکل میں بالآخر ایک میچ ونر باؤلر مل گیا جنہوں نے ہر میچ میں فتح گر کارکردگی پیش کی اور مجموعی طور پر ٹورنامنٹ میں 14 وکٹیں لے کر ’پلیئر آف دی ٹورنامنٹ‘ کا ایوارڈ بھی لے اڑے۔

کھلاڑیوں کی مختلف فارمیٹس میں باولنگ کارکردگی

سری لنکا کے خلاف سیریز

پاکستان نے سری لنکا کے خلاف بھی شاندار کارکردگی کا سلسلہ جاری رکھا اور ٹیسٹ سیریز میں کلین سوئپ کا بدلہ سری لنکا 0-5 سے ون ڈے سیریز میں کلین سوئپ کرکے لیا۔

پاکستان کیلئے ون ڈے کرکٹ میں اس سال کو مثالی تو نہیں کہا جاسکتا لیکن گزشتہ سال کی نسبت بہتر کارکردگی اور چیمپیئنز ترافی میں تاریخی فتح کی بدولت اسے یادگار سال کے طور پر ضرور یاد رکھا جائے گا۔

ٹی ٹوئنٹی کرکٹ

سرفراز کی ٹی ٹوئنٹی کپتان کے عہدے پر تقرری کے بعد سے پاکستانی ٹیم کی کارکردگی میں ایسی مستقل مزاجی دیکھنے کو ملی جو آج سے پہلے کبھی نہ تھی اور گرین شرٹس نے 2017ء میں بھی کھیل کے سب سے چھوٹے فارمیٹ میں اپنی برتری قائم رکھی۔

سال 2017ء میں پاکستان نے کُل 10 ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلے جس میں اسے صرف دو میچوں میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا اور گریین شرٹس نے 8 فتوحات کی بدولت سال کا اختتام عالمی درجہ بندی میں پہلے نمبر پر کیا۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کی بڑی کامیابی

پاکستان کرکٹ بورڈ خصوصاً نجم سیٹھی نے پاکستان سپر لیگ کے ایک اور کامیاب اور پہلے سے بہتر سیزن کے انعقاد کے ساتھ ناقدین کے منہ پھر بند کردیے۔

پہلے ایونٹ کی شاندار کامیابی کے بعد دوسرے ایونٹ میں مزید انٹرنیشنل اسٹارز کی شرکت اور کھیل کے بہتر معیار نے اس ایونٹ کو ہر لحاظ سے بڑی لیگ میں تبدیل کردیا۔

پی ایس ایل کے دوسرے ایڈیشن کی سب سے خاص بات ایونٹ کا فائنل لاہور میں منعقد ہونا تھا جس نے تقریباً 8 سال سے سونے پڑے پاکستان کرکٹ کے میدانوں کو ازسرنو آباد کرنے کی موہوم سی امید پیدا کی۔

گوکہ ایونٹ کے فائنل میں سیکیورٹی کو بنیاد بنا کر کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے اسٹارز نے شرکت سے معذرت کرلی لیکن ہار اور جیت سے قطع نظر پشاور زلمی کی پوری ٹیم کی فائنل میں شرکت اور فائنل کے لیے شاندار انتظامات نے کرکٹرز کے ساتھ ساتھ عالمی برادری کو بھی مثبت پیغام دیا۔

پاکستان سپر لیگ کے دوسرے ایڈیشن کی چیمپیئن پشاور زلمی کے کپتان ڈیرن سیمی ٹرافی وصول کر رہے ہیں — فوٹو: اے ایف پی
پاکستان سپر لیگ کے دوسرے ایڈیشن کی چیمپیئن پشاور زلمی کے کپتان ڈیرن سیمی ٹرافی وصول کر رہے ہیں — فوٹو: اے ایف پی

تاہم فائنل کے انعقاد کے باوجود ایک خدشہ بہرحال موجود تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ 2015ء کے دورہِ زمبابوے کی طرح ایک بار پھر شائقین کو اپنے ملک میں کرکٹ دیکھنے کے لیے سالوں انتظار کرنا پڑے لیکن یہ خدشہ بھی اُس وقت دم توڑ گیا جب جائلز کلارک نے اسٹارز سے سجی ورلڈ الیون کو پاکستان بھیجنے کا اعلان کیا۔

یہ پی سی بی چئیرمین نجم سیٹھی کی سفارتی سطح پر بڑی کامیابی تھی جس کی بدولت ورلڈ الیون پاکستان آنے پر رضامند ہوئی اور ماضی کے برعکس اس ورلڈ الیون میں جنوبی افریقہ کے کپتان فاف ڈیو پلیسی سمیت دنیا کے بڑے اسٹارز نے شرکت کی جس نے شائقین کے دل بھی موہ لیے۔

سیریز کا کامیابی سے انعقاد ہوا اور پاکستان نے سیریز 1-2 سے جیتی، لیکن اِس جیت سے زیادہ اہم یہ تھا کہ پاکستان نے ایک مرتبہ پھر دنیا کو یہ باور کرایا کہ پاکستان کرکٹ سے محبت کرنے والی قوم کوئی نہیں اور یہ ملک پاکستان کھیلوں کے لیے ہر لحاظ سے محفوظ ہے۔

ورلڈ الیون کے کامیاب دورے کے فوراً بعد ہی پاکستان کو اگلی کامیابی کے لیے زیادہ انتظار نہ کرنا پڑا اور پاکستان نے ٹی ٹوئنٹی میچ کے لیے سری لنکا کو پاکستان آنے کے لیے رضامند کرکے ملک میں کرکٹ کی بحالی کے لیے تاریخی قدم اٹھایا۔

جی ہاں، یہ وہی سری لنکن ٹیم تھی جس پر مارچ 2009ء میں لاہور کے قذافی اسٹیڈیم جاتے وقت دہشت گردوں نے حملہ کردیا تھا اور اس حملے کے بعد پاکستان پر انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے بند ہوگئے تھے۔

تاہم سری لنکا نے بھی پاکستان کی مہربانیوں کو نہ بھلایا جس نے 90ء کی دہائی میں تامل باغیوں کے خلاف برسرِ پیکار سری لنکا میں بم دھماکوں کے باوجود اپنی قومی ٹیم بھیج کر وہاں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی سلسلہ جاری رکھا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کی مخالفت مول لیتے ہوئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے اُنہیں 1996ء عالمی کپ کے میچز کی میزبانی بھی دلوائی تھی۔

کمال کی بات یہ رہی ہے کہ جس سری لنکن ٹیم پر 8 سال پہلے حملہ ہوا تھا، وہی ٹیم حملے کے بعد پاکستان کا دورہ کرنے والی پہلی بڑی ٹیم بنی اور یہ دورہ سیکیورٹی کے لحاظ سے انتہائی کامیاب رہا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سری لنکن کپتان تھسارا پریرا نے پاکستان کی میزبانی کی تعریفوں کے پل باندھتے ہوئے یہ تک کہہ دیا کہ 'میں نے اتنی شاندار اور سخت سیکیورٹی اپنی زندگی میں آج تک نہیں دیکھی۔'

ورلڈ الیون کے کامیاب دورہِ پاکستان نے دنیائے کرکٹ کو مثبت پیغام دیا — فوٹو: اے ایف پی
ورلڈ الیون کے کامیاب دورہِ پاکستان نے دنیائے کرکٹ کو مثبت پیغام دیا — فوٹو: اے ایف پی

اس کے بعد قوم کو ویسٹ انڈیز کے دورہ پاکستان کی بھی خوشخبری ملی لیکن دونوں ٹیموں کی مصروفیت اور لاہور میں فوگ کی رکاوٹ کے سبب یہ دورہ ممکن نہ ہوسکا لیکن اگلے سال مارچ یا اپریل میں ویسٹ انڈین ٹیم دورہ کرکے پاکستان میں انٹرنیشنل مقابلوں کے انعقاد کے سلسلے کو دوبارہ جوڑ سکتی ہے۔

پی سی بی کی بڑی ناکامی

ایسا نہیں کہ 2017ء میں پاکستان کرکٹ میں سب اچھا ہی ہوا اور راوی چین ہی چین لکھتا رہا بلکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو رواں سال پاکستان کرکٹ بورڈ سے چند ایسی غلطیاں سرزد ہوئیں جو مستقبل میں ملکی کرکٹ کے لیے زہر قاتل ثابت ہوسکتی ہیں۔

کرکٹ میں کرپشن سے قبل بورڈ کے منتظمین کی انتظامی نااہلی پر ایک نظر ڈالتے ہیں جس کی وجہ سے پہلے سے مشکلات میں گھری پاکستان کرکٹ کے مستقبل میں اکیلے ہونے کا اندیشہ پیدا ہوگیا ہے۔

رواں سال چیمپیئنز ٹرافی کے بعد پاکستان کو دو ٹیسٹ، تین ون ڈے اور ایک ٹی ٹوئنٹی میچ کی سیریز کیلئے بنگلہ دیش جانا تھا لیکن بورڈ حکام نے بنگلہ دیش سے پہلے پاکستان آکر سیریز کھیلنے کی شرط عائد کرکے پہلے سے شیڈول سیریز منسوخ کردی۔

یہ درست ہے کہ بنگلہ دیش ماضی میں کئی مواقعوں پر پاکستان آنے کا وعدہ کرکے مکر چکا ہے اور اسی وجہ سے اس وقت کے چیئرمین پی سی بی نے یہ کہہ کر دورہ بنگلہ دیش منسوخ کردیا کہ پاکستانی ٹیم دو مرتبہ بنگلہ دیش سیریز کھیلنے جاچکی ہے اور انہوں نے ایک مرتبہ بھی پاکستان کا دورہ نہیں کیا لہٰذا ہم اُس وقت تک بنگلہ دیش جا کر سیریز نہیں کھیلیں گے جب تک بنگلہ دیشی ٹیم پاکستان آکر سیریز نہیں کھیلتی۔

اگر محض بیان کے طور پر دیکھا جائے تو یہ بات سننے میں بہت اچھی لگتی ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بورڈ حکام نے محض جذباتیت کا شکار ہوکر حقیقت پسندی سے صورتحال کا ادراک کیے بغیر یہ فیصلہ کیا کیونکہ بھارت کے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل میں بڑھتے اثر و رسوخ کی وجہ سے ویسے ہی پاکستان کو کافی نقصان پہنچ رہا ہے اور بورڈ اور ٹیم کے اسکینڈلز کی وجہ سے ہماری عالمی سطح پر ساکھ ویسے ہی داؤ پر لگی رہتی ہے لیکن ایسے میں اس طرح کا فیصلہ کرکے پاکستان نے خود کو ایک اور ملک کی حمایت سے محروم کرلیا۔

مانا کہ ملک میں حالات پہلے سے بہتر اور دہشت گردی میں کمی آئی ہے لیکن اس کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ اس وقت بھی کوئی کرکٹ بورڈ مکمل سیریز کیلئے اپنی ٹیم پاکستان بھیجنے کا خطرہ مول نہیں لے گا اور پاکستان کو چند مزید بڑے قدم اُٹھا کر کرکٹ برادری کو اس بات پر قائل کرنا ہوگا کہ پاکستان ایک محفوظ ملک ہے۔

رہی بات بنگلہ دیش کی تو چند سیریز کے انعقاد کے بعد بنگلہ دیشی بورڈ کو ہر حال میں اپنی ٹیم پاکستان بھیجنا پڑتی لیکن دورے سے انکار کے بعد اب مستقبل میں ہمیں ایسے کسی بھی دورے کی امید کم ہی رکھنی چاہیے خصوصاً یہ جانتے ہوئے کہ بھارت مکمل طور پر بنگلہ دیش کو پشت پر کھڑا ہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ بنگلہ دیش کے بعد اب نووارد افغانستان بھی بھارتی ایما پر پاکستان کو آنکھیں دکھانے لگا ہے اور انہوں نے اپنے ملک میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کا ذمے دار پاکستان کو قرار دے کر پاکستان سے کرکٹ کے روابط مکمل طور پر ختم کرنے کا اعلان کردیا۔

بورڈ کی نااہلیوں کا سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ بدانتظامی کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے پاکستانی ٹیم نے اکتوبر کے بعد سے اب تک کوئی سیریز نہیں کھیلی اور کرکٹ کے لیے آئیڈیل تصور کیے جانے والے اس سیزن میں پاکستان کرکٹ بورڈ کوئی بھی سیریز منعقد کرانے میں ناکام رہا ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس عرصے میں جنوبی افریقہ کی ٹیم بھی اپنی لیگ منسوخ ہونے کے بعد مکمل طور پر فارغ تھی اور ان سے سیریز کا انعقاد کیا جاسکتا تھا لیکن ذاتی فوائد پر مبنی اور ایک انتہائی غیر ضروری ڈومیسٹک ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ کی وجہ سے کسی بھی ملک سے سیریز کے انعقاد کی کوشش تک نہیں کی گئی اور ساتھ ساتھ فنڈ کی کمی کا رونا بھی جاری و ساری ہے۔

کرپشن اور اسپاٹ فکسنگ کی گونج

جب گزشتہ سال محمد عامر کی انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی ہوئی تو اکثر تجزیہ نگاروں نے اس اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے موقف اپنایا تھا کہ اس سے نوجوان کرکٹرز کو کرپشن کی مزید ترغیب ملے گی اور انہیں پیغام جائے گا کہ پانچ سال بعد ہم دوبارہ کرکٹ میں واپس آسکتے ہیں لیکن بورڈ نے تمام تر خدشات کے باوجود 'ننھے اور معصوم عامر' کو کرکٹ کا موقع فراہم کیا۔

لیکن محض ایک سال کے اندر ہی خدشات اس وقت درست ثابت ہوئے جب پاکستان سپر لیگ کے دوسرے ایڈیشن کے پہلے ہی میچ میں 'اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل' منظر عام پر آگیا۔

اسلام آباد یونائیٹڈ کے شرجیل خان اور خالد لطیف کو اسپاٹ فکسنگ میں ملوث قرار دیتے ہوئے فوری طور پر معطل کرکے وطن واپس بھیج دیا گیا لیکن یہ معاملہ صرف یہیں تک محدود نہیں رہا بلکہ بعد میں شاہ زیب حسن، محمد عرفان، محمد نواز اور ناصر جمشید سمیت مزید کھلاڑیوں کے نام بھی سامنے آئے۔

شرجیل خان کی آمد کے بعد ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ پاکستان کرکٹ کو ایک اچھا اور موجودہ دور کی کرکٹ سے مطابقت رکھنے والا اوپنر مل گیا لیکن اپنے کیریئر میں عروج پر پہنچنے سے قبل ہی مستقبل کا یہ ستارہ کرپشن کی نذر ہوگیا۔

محمد عرفان کو 6 ماہ کی پابندی سمیت مجموعی طور پر ایک سال کی سزا دی گئی لیکن اپنی معصومیت پر مصر مقدمے کے مرکزی ملزمان شرجیل خان اور خالد لطیف کو بورڈ نے بڑی بڑی سزائیں دے کر ان کے انٹرنیشنل کیریئر پر عملاً فل اسٹاپ لگا دیا جبکہ مقدمے کے ایک اور اہم کردار ناصر جمشید بھی ایک سال کی سزا کے مستحق قرار پائے۔

نوجوانوں کو سبق سکھانے کے دعوے کے ساتھ پی سی بی نے شرجیل اور خالد کو بڑی بڑی سزائیں تو دیں لیکن ان مقدموں پر ابھی بھی سوالیہ نشان برقرار ہے خصوصاً خالد لطیف کا معاملہ انتہائی پُراسرار دکھائی دیتا ہے جنہیں ایک ایسے میچ میں میچ فکسنگ کا مرتکب قرار دیا گیا جو انہوں نے کھیلا تک نہیں تھا جبکہ شرجیل خان کی سزا پر بھی ماہرین کرکٹر کی رائے منقسم ہے۔

بات اگر یہیں تک محدود رہتی تو شاید بات کچھ نہ تھی لیکن کرپشن کے خاتمے کے بلند و بانگ دعوے کرنے والے پاکستان کرکٹ بورڈ اور اس کے اینٹی کرپشن یونٹ کی اہلیت اس وقت کُھل کر سامنے آئی جب سری لنکا کے خلاف سیریز میں بکیز قومی ٹیم کے کپتان سرفراز احمد تک جا پہنچے اور انہیں فکسنگ کی پیشکش کی۔

یہ کلب اور ڈومیسٹک کرکٹ کی بھٹی میں خود کو جھونک کر کندن بننے والے سرفراز ہی تھے جنہوں نے فوری طور پر اس حوالے سے کرکٹ بورڈ اور اینٹی کرپشن یونٹ کو آگاہ کیا لیکن سوال یہ ہے کہ اگر وہ بکی کسی نوجوان کرکٹر تک پہنچ کر اسے بھٹکانے میں کامیاب ہوجاتا تو پھر ہم کیا کرتے؟ کیا یہ تمام صورتحال اس بات کو ظاہر نہیں کرتی کہ ہمارا اینٹی کرپشن یونٹ اپنا کام انجام دینے سے قاصر ہے اور اس خطرے کی جانب اشارہ کر رہا ہے کہ مستقبل میں ہمارے مزید کرکٹرز بکیز کی دسترس میں ہوں گے۔

حرفِ آخر

پاکستانی ٹیم گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی اپنی پہلی سیریز بیرون ملک یعنی نیوزی لینڈ میں کھیلے گی جس کے بعد سال بھر ایک مصروف سیزن قومی ٹیم کا منتظر ہوگا۔

تاہم ایک مرتبہ اس سال بھی سب کی توجہ کا محور پاکستان سپر لیگ کا تیسرا ایڈیشن ہوگا جس میں گزشتہ ایڈیشن کے مقابلے میں سب سے بڑی پیشرفت یہ ہوئی ہے کہ لیگ کے 3 اہم میچز پاکستان میں کھیلے جائیں گے اور سب کے پُرزور اصرار پر فائنل کی میزبانی اس مرتبہ روشنیوں کا شہر کراچی کرے گا۔

اس ایونٹ کا کامیابی سے انعقاد جہاں پاکستان کرکٹ پر مزید اثرات مرتب کرے گا وہیں گزشتہ دو ایڈیشنز میں نوجوان چہرے سامنے آنے کے بعد شائقین کے لیے سب سے بڑا تجسس یہی ہے کہ اس ایڈیشن میں وہ کون نوجوان ہوگا جو پی ایس ایل کی دریافت کہلائے گا۔

نجم سیٹھی نے پی ایس ایل چئیرمین کی حیثیت سے تو اپنی اہلیت منوا لی لیکن اب انہیں چیئرمین پی سی بی کے طور پر بھی اپنا لوہا منوانا ہوگا جو ان کے لیے یقیناً آسان نہیں ہوگا۔ نجم سیٹھی کے لیے سب سے بڑا چیلنج ملک میں انٹرنیشنل ٹیموں کی آمد کا سلسلہ شروع کرنا ہے جو یقیناً جوئے شیر لانے کے مترادف ہے لیکن ایسا ہرگز ناممکن نہیں۔

ویسٹ انڈیز سے پاکستان میں سیریز کے انعقاد کے امکانات روشن نظر آتے ہیں جبکہ تھوڑی بہت کوشش سے آئرلینڈ یا بنگلہ دیش جیسی ٹیموں کو بھی چند میچوں کے لیے مدعو کیا جاسکتا ہے اور اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب رہے تو ان کا شمار پاکستان کرکٹ بورڈ کے چند بہترین منتظمین میں کیا جائے گا۔

سرفراز احمد کے پاس قیادت آنے کے بعد سے محدود اوورز کی کرکٹ میں قومی ٹیم کی ایک نئی شکل نکل کر سامنے آئی اور ناکامیوں کے سلسلے کا خاتمہ کرتے ہوئے ٹیم نے جارحانہ کرکٹ کو اپنا کر فتوحات کی ڈگر پر چلنے کا فن سیکھنا شروع کردیا ہے لیکن مکی آرتھر اور کپتان کے لیے سب سے اہم چیز اس تسلسل کو برقرار رکھنا ہوگا اور نیوزی لینڈ میں ہونے والی محدود اوورز کی سیریز 2019ء ورلڈ کپ کے لیے ٹیم تیار کرنے کی پاکستان کی کوششوں میں نقطہ آغاز ثابت ہوگی۔

اِس بات سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ ٹیسٹ کرکٹ تاحال کھیل کا حُسن ہے اور اس کی اہمیت سے انکار کسی بھی طور پر ممکن نہیں کیونکہ کھیل کو عظیم ترین کھلاڑی اسی فارمیٹ نے فراہم کیے ہیں۔

گوکہ ابتدائی 5 ماہ میں پاکستان کا کوئی بھی ٹیسٹ میچ شیڈول نہیں لیکن مصباح الحق اور یونس خان کے بعد ایک مضبوط بیٹنگ لائن کی تشکیل کوچ اور کپتان کا بڑا امتحان ہوگا اور پاکستان کو ٹیسٹ کرکٹ میں اپنی عالمی رینکنگ بحال کرنے کیلئے چند بے باک فیصلے کرنا ہوں گے۔

گزشتہ سالوں کی طرح یہ سال بھی چند یادگار لمحات اور چند ناخوشگوار واقعات کے ساتھ اختتام پذیر ہوا اور دعا ہے کہ نیا سال پاکستان کرکٹ کے لیے تنازعات سے پاک ہو اور ٹیم کے لیے فتوحات کی نئی داستانیں رقم کرے۔