لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس jawednaqvi@gmail.com ہے۔
لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ممکن ہے کہ 2018ء میں کلبھوشن یادیو آزاد ہوکر گھر روانہ ہوجائے۔

ممکن ہے کہ پاکستان کی حکومت کے پاس اِس مجرم، جاسوس یا غیر جاسوس شخص کے لیے دیگر منصوبے ہوں۔

دنیا کے تمام ممالک ایک دوسرے کی جاسوسی کرتے ہیں۔ اسرائیل امریکا کی جاسوسی کرتا ہے اور امریکا جرمن چانسلر کی۔

سی آئی اے کی وہ خاتون جو ہندوستانی انٹیلی جنس کے ناقابلِ رسائی حصے سے انتہائی خفیہ رازوں سے بھری ایک فلیش ڈرائیو نکال کر لے گئیں، ضرور اپنی قبل از وقت ریٹائرمنٹ کا مزہ لے رہی ہوں گی، ہوائی یا ایسی ہی کسی اور جگہ پر۔

امریکا نے بھی ایک ’را‘ ایجنٹ کی میزبانی کی تھی جو اپنا عہدہ چھوڑ چکے تھے۔ کیا اس نے ہندوستانی قوم پرستوں کو ڈونلڈ ٹرمپ کی گود میں بیٹھنے سے روک دیا ہے؟

پڑھیے: کلبھوشن یادیو کون ہے؟

ہندوستان اور پاکستان شاید وہ واحد ممالک ہیں جو ایک دوسرے کے جاسوسوں کی دھلائی کرتے ہیں اور کچھ معاملات میں تو اپنے اپنے دار الحکومتوں میں موجود سفارتکاروں کو بھی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔

یادیو کو رنگے ہاتھوں پکڑا گیا، اگر یہی ہوا ہے تو، اِس بات کا امکان انتہائی کم ہے کہ ہندوستان نے پاکستانی انٹیلی جنس اہلکاروں میں سے کسی کو نہ پکڑا ہو۔ لوگ کہتے ہیں کہ ایسا نیپال میں ہوچکا ہے۔

اگر حادثہ نہیں ہوتا، تو یہ گیری پاورز کے بدلے روڈولف ایبل کی رہائی کی طرح ادلا بدلی کا ایک مثالی کیس ہوسکتا ہے، چاہے ہمیں اِس کا بھلے ہی پتہ لگے نہ لگے۔ بولی وڈ میں اسٹیون اسپیل برگ کا کوئی مداح شاید پھر ہولی وڈ کی فلم برج آف اسپائیز ہندی میں بنانا چاہے، جو سرد جنگ کے عروج کے دنوں میں امریکا اور روس کے جاسوسوں کے تبادلے کی عکاسی کرتی ہے۔

یادیو کے سامنے موجود دونوں امکانات ان تلخ یادوں کو نہیں مٹا سکتے جو میرے دوست اور ساتھی صحافی افتخار گیلانی 2002ء کے اُس بدقسمت دن سے اب تک اپنے دل میں رکھتے ہیں جب انہیں جاسوسی کے جھوٹے الزامات پر کئی ماہ کے لیے گرفتار کرلیا گیا تھا۔ انہیں اتنے ہی ناقابلِ بیان انداز میں چھوڑ بھی دیا گیا۔

نہ ہی یہ اُس وقت ایک کمزور بچّے غالب کو پہنچنے والے اُس صدمے کا مداوا کرسکتا ہے جب اُن کے والد افضل گرو کو اُن کی اہلیہ کو اطلاع دیے بغیر ہی پھانسی دے دی گئی تھی۔

میں ہندوستانی نقادوں، سویلینز، میڈیا تجزیہ نگاروں اور ارکانِ پارلیمنٹ کے ساتھ کھڑا ہوں جو یادیو کو اُس کی ماں سے گلے نہ ملنے دینے اور مراٹھی میں بات نہ کرنے دینے پر تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ لیکن میں افضل گورو کی اہلیہ کے ساتھ بھی کھڑا ہوں، جنہیں اپنے شوہر کے ساتھ آخری دفعہ نہیں ملنے دیا گیا اور جن کا بیٹا اس فرق کو محسوس کرنے کے لیے بہت ہی چھوٹا تھا۔

جب ہندوستانی پارلیمنٹ پاکستان کو یادیو کی ملاقات میں اجازتوں اور پابندیوں کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنا رہی تھی، اور جب ہندوستانی ٹی وی چینلز نے آسمان سر پر اُٹھا رکھا تھا، اُسی دوران وہ یہ دیکھنے سے قاصر تھے کہ وہ اپنے قیدیوں کی ساتھ کس طرح کا سلوک کرتے ہیں۔

مزید پڑھیے: را نے دہشت گردی کا ٹاسک دیا تھا، کلبھوشن یادیو کی نئی ویڈیو

دہلی یونیورسٹی کے 90 فیصد معذور شخص کو ناگپور کے ایک قید خانے میں غیر انسانی حالت میں بند رکھا ہوا ہے کیوں کہ اُس پر ماؤ نواز ہونے کا شک ہے۔ سائی بابا کو یقین ہے کہ وہ زندہ باہر نہیں آئیں گے۔

کیا کسی کو یاد ہے کہ سیاستدان بننے سے قبل صحافی ارون شوری نے کتنے بھرپور انداز میں کیہر سنگھ کے لیے لڑائی لڑی تھی، جسے اندرا گاندھی کے قتل کی سازش تیار کرنے کے شبہے میں پھانسی دے دی گئی تھی؟

کیا ہمیں فکر ہے کہ اندرا گاندھی نے مقبول بھٹ کو تہاڑ جیل میں سالہا سال کے تشدد کے بعد پھانسی دے دی تھی؟

مگر یادیو کی سزائے موت کے خلاف اصولی مؤقف رکھنے والوں کے ساتھ میں بھی کھڑا ہوں، لیکن ایسا مطالبہ کرنے والوں کو گیلانی کی کتاب 'مائے ڈیز اِن پریزن' بھی پڑھنی چاہیے جو تہاڑ جیل میں اُن کی قید کی خوفناک اور دل دہلا دینے والی کہانیوں پر مشتمل ہے۔

20 جون 2002ء بروز جمعرات کو گیلانی کا تہاڑ جیل میں چوتھا دن تھا۔ اُن سے ملاقات کے لیے اب تک کوئی نہیں آیا تھا۔ وہ پریشان تھے۔ اُن کے پاس مناسب کپڑے بھی نہیں تھے اور وہ انسانی فضلے سے لتھڑی ہوئی قمیض پہنے ہوئے تھے جس سے ٹوائلٹ صاف کیا گیا تھا۔ وہ جیل کے سوشل ویلفیئر افسر کے پاس گئے اور انہیں معاملہ سمجھایا۔

سوشل ویلفیئر افسر کو قیدیوں کی فلاح و بہبود کا دھیان رکھنے کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔ اُس کے فرائض میں پہلی دفعہ قید ہونے والوں کی کونسلنگ اور اُن کے خاندانوں کو آگاہ کرنا بھی شامل تھا۔ سوشل ویلفیئر افسر سنجے کمار نے اُنہیں بتایا کہ اُن کی اہلیہ کو بھی گرفتار کرلیا گیا ہے اور ملاقات کو اب بھول جانا چاہیے۔ کاش کوئی یہ باب بھی بی جے پی اور کانگریس کے ارکانِ پارلیمنٹ کو سنائے۔

شام کے وقت ایک منشی آیا اور افتخار سے ڈیوڑھی تک چلنے کے لیے کہا۔ منشی نے میرے دوست سے کہا کہ اُن کی اہلیہ آنیسہ آئی تھیں، اور اُنہیں ملاقات کے لیے لے جایا گیا۔

گیلانی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ

’اگر انسانی عزت و تکریم کی بات آئے تو ملاقات کا نظام ہمارے جیل کے نظام کی ایک اور خوفناک سزا ہے۔ ایک چھوٹا ہال نما کمرہ ہے جسے ملاقات کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ اس کمرے میں انکلوژر ہیں جن کی اینٹوں کی دیواریں 3 فٹ تک اونچی ہیں اور باقی کی اونچائی سلاخوں اور جالیوں سے پوری کی گئی ہے۔ قیدیوں اور اُن کے ملاقاتیوں کو ایک دوسرے سے کھڑے ہوکر بات کرنی پڑتی ہے۔‘

جانیے: ’کلبھوشن کیلئے کسی ریلیف کا کوئی امکان نہیں‘

’ہر وقت کمرے میں موجود تقریباً 200 ملاقاتیوں کے لیے ہوا کا مناسب گزر نہیں ہے۔ ایک وقت میں حکام 60 قیدیوں کو اپنے پیاروں سے آدھے گھنٹے کے لیے ملنے دیتے ہیں۔ جالیوں والی سلاخوں کی دوسری جانب اوسطاً دو سے تین لوگ ایک قیدی سے ملتے ہیں۔ وہ ڈبل سلاخوں اور جالیوں اور تاروں کی ایک دبیز سطح کی وجہ سے اپنے قیدی سے تقریباً دو فٹ دور ہوتے ہیں۔‘

گیلانی کی اپنی اہلیہ سے ملاقات کا قصہ پڑھ کر شاید کلبھوشن یادیو بھی رو پڑیں۔

’میں نے آنیسہ کو دیکھا۔ وہ تھکی ہوئی تھی اور اُس کے چہرے کا رنگ اُڑا ہوا تھا۔ اُسے رکاوٹوں کے بغیر نہ دیکھ سکنا شدید کوفت کا باعث تھا۔ اسے مجھے قید کرنے والوں کی عقابی نظروں میں دیکھنا بہت مشکل تھا۔ میں دیکھ رہا تھا کہ آنیسہ بھی شدید ذہنی پریشانی کا شکار تھی۔ جیل پہنچنا ہی مشکل کام تھا، اور اِس سے بھی زیادہ مشکل کام جیل حکام کے ہاتھوں ناقابلِ بیان ذلت اُٹھانا تھا جس سے آنیسہ کو گزرنا پڑا تھا۔‘

کیا اِس سے آگے کچھ اور کہنے کی ضرورت ہے؟

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 02 جنوری 2018 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں