فوجی کے ہاتھوں رنگوں کا خوبصورت امتزاج

فوجی کا نام آتے ہی نظم و ضبط کے سخت پابند اور سخت مزاج کی حامل شخصیت کا خاکہ ذہن میں بنتا ہے، لیکن اگر کوئی فوجی مصوری کے لطیف فن سے آشنا ہو، اور اس کو اپنی فوج کے کارناموں کو اجاگر کرنے کے لیے استعمال بھی کر رہا ہو، تو ایک مختلف شخصیت سے سامنا ہوتا ہے۔

سید مسعود اختر حسینی پاک فضائیہ (پی اے ایف) کے ریٹائرڈ گروپ کیپٹن ہیں، وہ 3دہائیوں سے پاکستان ایئر فورس کے مختلف واقعات کو رنگوں سے کینوس پر منتقل کرتے رہے ہیں۔

وہ امریکن سوسائٹی آف ایوی ایشن آرٹسٹس کے رکن بھی ہیں، گروپ کیپٹن حسینی کی خدمات پر انھیں تمغہ بسالت اور صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا جا چکا ہے۔

اپنے تعارف کے حوالے سے وہ بتاتے ہیں کہ پاکستان ایئر فورس میں مجھے گروپ کیپٹن حسینی کے نام سے جانا جاتا ہے، پی اے ایف کے لیے 3دہائیوں سے بطور ایوی ایشن آرٹسٹ کے خدمات انجام دے رہا ہوں۔

اپنی مصوری کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ 35 سال سے فضائی کے لیے ایوی ایشن پینٹنگز بنا رہا ہوں، جن میں تاریخی نوعیت کے واقعات پر بنائے گئے فن پارے شامل ہیں، پی اے ایف کی تاریخ کے بیشتر اہم واقعات کو کینوس پر منتقل کرچکا ہوں۔

پاکستان ایئر فورس کے کراچی میں قائم میوزیم میں گروپ کیپٹن حسینی کے فن پاروں کی نمائش ہوئی جہاں ان کی 300 پینٹنگز اور 100 پینسل اسکیچ شامل تھے۔

سید مسعود اختر حسینی کی پینٹنگز بنیادی طور پر 5 مختلف ادوار کا احاطہ کرتی ہیں، جن میں آزادی کے فوری بعد کا دور، 65ء اور 71ء کی جنگیں، پاک فضائی ایئروبیٹکس، پی اے ایف کا دیگر ممالک میں کردار جبکہ جدید ہوا بازی شامل ہے۔

جب کوئی فضائی جھڑپ یا جنگ کا واقعہ محفوظ کرنا ہو، تو اس کو پینٹ ہی کیا جا سکتا ہے، گروپ کیپٹن حسینی

گروپ کیپٹن حسینی کہتے ہیں کہ پینٹنگز اور فضائیہ کا ایک فوجی اہلکار 2 الگ چیزیں معلوم ہوتی ہیں، لیکن یہ ضروری اس لیے ہے کہ جب کوئی فضائی جھڑپ یا جنگ کا واقعہ محفوظ کرنا ہو، تو اس کو پینٹ ہی کیا جا سکتا ہے، کیونکہ اُس وقت وہاں پر کوئی کیمرہ موجود نہیں ہوتا اور نہ ہی ذرائع ابلاغ وہاں پہنچ سکتے ہیں جو اس کو کور کریں۔

ایوی ایشن کی مصوری کے حوالے سے وہ مزید کہتے ہیں اب تو کیمرے کی رسائی ہر جگہ ہو گئی ہے، لیکن کسی بھی فضائی جھڑپ کے دوران ایسا ہونا اب بھی ممکن نہیں ہے کہ کسی جہاز کا پائلٹ اس وقت کیا منظر دیکھ رہا اس کو ریکارڈ کرے۔

فضائی واقعات کو محفوظ کرنے کے لیے فضائی مصور اور ایوی ایشن آرٹ کا ہونا ضروری ہے۔


اسرائیلی جہاز کی تباہی


جنگ کپور میں ایک پاکستانی پائلٹ کی اسرائیلی جنگی جہاز کو تباہ کرنے کی کہانی سناتے ہوئے گروپ کیپٹن حسینی نے بتایا کہ گولان کے پہاڑی سلسلے میں پی اے ایف کے ایک پائلٹ کی جھڑپ اسرائیل کے پائلٹ سے ہوئی تھی، اس وقت ایک دوست ملک کو پاکستان کی مدد درکار تھی، کیونکہ وہ جنگ کی حالت میں تھا۔

پاکستانی پائلٹ کی کامیابی کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ اس واقعے میں فلائیٹ لیفٹننٹ ستار علوی نے اسرائیل کا جنگی جہاز تباہ کیا، جبکہ اسرائیلی ائر فورس کا پائلٹ کیپٹن لوتھس جہاز سے نکلنے میں کامیاب ہو گیا تھا، تاہم شام کی فوج نے اس کو گرفتار کرکے جنگی قیدی بنا لیا تھا۔

خیال رہے کہ اس اسرائیلی پائلٹ کا ہیلمٹ شام کی ائر فورس نے رکھ لیا تھا جبکہ اس کی وردی فلائیٹ لیفٹننٹ ستار علوی کو بطور تحفہ دی گئی تھی، اس کے علاوہ شام کا فوجی اعزاز بھی پاکستانی پائلٹ کو دیا گیا تھا، اسرائیلی پائلٹ کی یہ وردی اب پاک فضائی کے میوزیم میں رکھی گئی ہے تاکہ عام شہری بھی اس کو دیکھ سکیں.

ستار علوی تاریخ میں ایسا نادر کارنامہ انجام دینے والے واحد پائلٹ ہے، ایئر چیف مارشل سہیل امان

واضح رہے کہ 74-1973 میں شام اور دیگر عرب اتحادی ممالک کی اسرائیل سے جنگ ہوئی تھی، اس لڑائی کو جنگ کپور کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، جنگ میں پی اے ایف کے کئی سابق پائلٹ شام، مصر، عراق اور اردن کی فضائی افواج کی جانب سے شریک ہوئے تھے، جن میں ستار علوی بھی شامل تھے۔

ستار علوی کی تعریف کرتے ہوئے پاک فضائی کے سربرراہ ایئر چیف مارشل سہیل امان نے کہا تھا کہ 1974 میں ستار علوی نے شامی ایئرفورس کی جانب سے ایم ای جی-21 سے اسرائیلی فضائیہ کے میراج طیارے کو مار گرایا تھا، تاریخ میں ایسا نادر کارنامہ انجام دینے والے واحد پائلٹ ہے۔


مصوری اور فوجی


ویڈیو ریکارڈنگ: حسین افضل—ایڈیٹنگ: کامران نفیس

اپنی پیننٹنگز کے حوالے سے گروپ کیپٹن حسینی کا کہنا تھا کہ اس میں آپ ہر طرح کا واقعہ دیکھ سکتے ہیں جو پاک فضائی کی تاریخ میں ہوا ہے۔

وہ مزید بتاتے ہیں کہ ان میں ایسے فن پارے بھی موجود ہیں جن میں پی اے ایف کے بیرون ملک مشنز کو اجاگر کیا گیا ہے۔

عالمی سطح پر ایوسی ایشن آرٹ پر فضائی مصور نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک میں ایوی ایشن آرٹ کی سوسائٹیز بنی ہوئی ہیں، اس فن کے کلب بھی موجود ہیں، جبکہ اس آرٹ کے سکھانے کے لیے معلم اور ادارے موجود ہیں، وہ مصور اپنے ممالک کے کارناموں کو رنگوں سے محفوظ کیا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ برطانیہ میں پہلی جنگ عظیم سے لے کر دوسری جنگ تک اور اس کے بعد بھی برطانیہ نے یہ واقعات محفوظ کیے ہوئے ہیں، وہاں گیلٹ آف ایوی ایشن آرٹسٹس موجود ہے، ان کے بابائے ایوی ایشن فرینک ووٹن تھے، جن کا 10 سال قبل انتقال ہو چکا ہے.

فضائی واقعات کو محفوظ کرنے کے لیے فضائی مصور اور ایوی ایشن آرٹ کا ہونا ضروری ہے، گروپ کیپٹن حسینی

وہ کہتے ہیں کہ امریکن سوسائٹی آف ایوی ایشن آرٹسٹس کے بانی کیتھ فیریس نے امریکا میں اس قسم کا فن شروع کیا، وہاں بھی اس حوالے سے ایک سوسائٹی موجود ہے، اسی طرح جرمنی اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں موجود ہے جبکہ پاکستان میں بھی اب اس کو تیزی سے فروغ مل رہا ہے۔


تصاویر : وقار محمد خان ، توصیف رضی ملک