ضلع بونیر میں 'رانی گٹ' کے 2ہزار سال قدیم آثار

ضلع بونیر میں 'رانی گٹ' کے 2000 سال قدیم آثار

امجد علی سحاب

پشاور سے تقریباً 140 کلومیٹر اور ضلع صوابی کے شمال مغرب میں 20 کلومیٹر دور نوگرام گاؤں کے قریب پہاڑی چوٹی پر واقع 2 ہزار سال پرانے ’رانی گٹ‘ کے آثار آج بھی اس خطے کی عظمت رفتہ کی دلیل ہیں۔ سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے تقریباً 4 گھنٹے کی مسافت طے کرنے کے بعد اِن آثار تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔

رانی گٹ کی وجۂ تسمیہ وہ بڑا پتھر ہے جس کے اوپر رانی سرِشام بیٹھ کر ہواخوری کیا کرتی تھی۔ تاریخی کتب میں رقم ہے کہ دریائے سندھ کا تازہ پانی ملکہ کا پسندیدہ مشروب تھا۔ اگرچہ دریا، رانی گٹ آثار سے کافی فاصلے پر ہے مگر پھر بھی تازہ پانی رانی گٹ تک منٹوں کے حساب سے پہنچتا تھا۔ اس عمل کو سرانجام دینے کی خاطر ملکہ نے ایک انسانی ہاتھوں کی زنجیر تشکیل دی تھی۔ پہلا خادم پانی دریائے سندھ سے ایک خاص برتن میں اٹھاتا اور دوڑ کر اسے مخصوص فاصلے پر کھڑے دوسرے خادم کے حوالے کرتا، پھر دوسرا تیسرے کے حوالے کردیتا وعلیٰ ہذا القیاس اور اس طرح تازہ پانی ملکہ کی خدمت میں حاضر کیا جاتا اور وہ اسے نوش جاں فرماتی۔

مذکورہ پتھر محل کے آثار سے کوئی ایک ہزار سے 12 سو میٹر کی دوری پر آج بھی اسی شان سے ایستادہ ہے۔ اس پتھر اور رانی کا محبت بھرا رشتہ تھا، جس پر بیٹھ کر رانی نہ صرف اپنی عبادت کیا کرتی تھی بلکہ ایک طرح سے واچ ٹاور کا کام بھی لیا کرتی تھی۔

سیاح رانی گٹ آثار دیکھنے پہاڑی پر چڑھ رہے ہیں—امجد علی سحاب
سیاح رانی گٹ آثار دیکھنے پہاڑی پر چڑھ رہے ہیں—امجد علی سحاب

رانی کا محل، عقب میں رانی گٹ صاف دکھائی دے رہا ہے—تصویر امجد علی سحاب
رانی کا محل، عقب میں رانی گٹ صاف دکھائی دے رہا ہے—تصویر امجد علی سحاب

رانی گٹ جسے رانی واچ ٹاؤر کے طور پر استعمال کرتی تھی—تصویرامجد علی سحاب
رانی گٹ جسے رانی واچ ٹاؤر کے طور پر استعمال کرتی تھی—تصویرامجد علی سحاب

رانی گٹ کا شمار گندھارا تہذیب کے معلوم مشہور اور بڑے آثار کے طور پر ہوتا ہے۔ اس علاقے پر مختلف ادوار میں مختلف حملہ آور ہو گزرے ہیں، جن میں سکندر اعظم بھی شامل ہے۔ مذکورہ آثار 4 مربع کلومیٹر کے احاطے پر بکھرے پڑے ہیں، جس کی ایک طویل تاریخ ہے۔ یہ جگہ اورنوس کے قلعے کے نام سے مشہور تھی اور یہ پورا علاقہ رانی گٹ کی نمائندگی کرتا ہے۔

دراصل تاریخ میں ’اورا‘ نامی ایک راجا گزرا ہے جو تخت بھائی کا حکمران تھا، اُس کی ملکہ ’رانی‘ کے نام سے مشہور تھی، رانی گٹ اسی رانی کا دارالحکومت تھا۔

ضلع بونیر کے آثار کا بغور مطالعہ کرنے والے حیدر علی اخوند خیل کے مطابق، ’رانی گٹ کے آثار کا بغور جائزہ لینے کے بعد یہ وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ ان میں مختلف ادوار اور تہاذیب کی نشانیاں ملتی ہیں۔ 327 قبل مسیح میں جب سکندرِ اعظم اودھیانہ میں داخل ہوا اور اس نے مختلف علاقوں کو زیر و زبر کیا، پھر ایلم کے راستے وہ بونیر میں داخل ہوا۔ سکندرِ اعظم کے لیے اس قلعہ کو فتح کرنے کا عمل ایک بڑی مہم جوئی کے مصداق تھا، اس نے رانی گٹ میں قائم اس محل کو فتح کیا، یہ ایک طرح سے اودھیانہ کا آخری قلعہ تھا۔ اس کے بعد سکندرِ اعظم ہُن کے مقام سے ہوتے ہوئے ٹیکسلا جا پہنچا۔ ٹیکسلا کے بادشاہ نے اسے خوش آمدید کہا، جس کے بعد سکندر اعظم نے راجا پورس کو شکستِ فاش دے کر آگے مہم جوئی جاری رکھی۔‘

ایک سیاح رانی کے محل کے اندر آثار کا جائزہ لے رہا ہے—تصویر امجد علی سحاب
ایک سیاح رانی کے محل کے اندر آثار کا جائزہ لے رہا ہے—تصویر امجد علی سحاب

رانی کے محل میں موجود لنگر کے آثار—تصویر امجد علی سحاب
رانی کے محل میں موجود لنگر کے آثار—تصویر امجد علی سحاب

حیدر علی مزید کہتے ہیں کہ رانی گٹ کا اگر تاریخی حوالے سے جائزہ لیں تو اس پورے علاقے کو نوگرام کے نام سے پکارا جاتا ہے۔’دراصل اس زمانہ میں تین شہزادے تھے، ایک نوگرام، دوسرا سیتا رام اور تیسرا باگرام۔ تاریخ میں رقم ہے کہ پشاور کا پُرانا نام باگرام تھا۔ علاقہ ٹوپئی سیتا رام کے نام سے آباد تھا اور بونیر میں خدوخیل کا علاقہ جہاں آج کل رانی گٹ کے آثار پائے جاتے ہیں، کسی زمانے میں نوگرام کے نام سے ایک ریاست کی شکل میں آباد علاقہ تھا اور رانی گٹ اس کا سب سے بڑا قلعہ تھا۔‘

فاہیان نے اپنے سفر نامے میں بھی نوگرام کے علاقے کا ذکر کیا ہے، سفرنامے کا ترجمہ کسی دور میں انگریزی میں ہوا تھا جسے اردو میں حواشی کے ساتھ یاسر جواد نے ترجمہ کیا ہے۔ کتاب کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس میں فاہیان نے اوچنگ کی بادشاہت اور یہاں کے گرد و پیش کی جو منظر کشی کی ہے۔ اس طرح جن مقامات کی نشان دہی کی گئی ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان کی انتہائی شُمال کی جانب واقع اوچنگ کی بادشاہت اور یہاں پتھر کا گھر، اسٹوپا، سنگی چوکور بادشاہ کی گدی وغیرہ خدوخیل میں وسیع پیمانے پر پھیلے نوگرام ہی کے موجودہ کھنڈر اور یہاں ایستادہ مقامات ہیں۔ کیونکہ اتنے وسیع پیمانے پر آثارِ قدیمہ اور مذکورہ مقامات اور کہیں نہیں ملتے۔

اس حوالے سے حیدر علی اخوند خیل کے ایک تحقیقی مقالے کا پیراگراف ملاحظہ ہو، ’اس پہاڑ کے جنوب مشرق میں پتھر کا ایک گھر ہے، جس میں دو کمرے ہیں۔ اس (بادشاہ کے گھر) کے سامنے دس قدم کے فاصلے پر ایک چوکور پتھر ہے، جس پر ’بادشاہ’ بیٹھا کرتا تھا۔ بادشاہ اشوک نے اس جگہ کے احترام میں یہاں ایک اسٹوپا بنوایا۔ اسٹوپا کے جنوب میں ایک لی (لی، میل کے پانچویں حصے کے برابر ہوتا ہے) کے فاصلے پر بادشاہ کا مکان ہے۔ پہاڑ سے اُترتے ہوئے شمال کی طرف 50 قدم کے فاصلے پر وہ جگہ آتی ہے جہاں شہزادہ اور شہزادی نے ایک دوسرے سے الگ ہوئے بغیر درخت کے گرد چکر لگائے اور جہاں برہمنوں نے انہیں اتنا مارا کہ ان کا خون زمین پر ٹپکنے لگا۔ درخت اب بھی موجود ہے اور اسے دیے گئے خون کے قطرے بھی محفوظ ہیں۔ وہاں پانی کا ایک چشمہ ہے۔’

رانی گٹ کے مین اسٹوپے—تصویر امجد علی سحاب
رانی گٹ کے مین اسٹوپے—تصویر امجد علی سحاب

تین سال پہلے یہ سٹوپے اپنی شکل میں موجود تھے، مگر سمگلروں کے ہاتھوں اس کی موجودہ حالت دیکھی جاسکتی ہے—تصویر امجد علی سحاب
تین سال پہلے یہ سٹوپے اپنی شکل میں موجود تھے، مگر سمگلروں کے ہاتھوں اس کی موجودہ حالت دیکھی جاسکتی ہے—تصویر امجد علی سحاب

مندرجہ بالا متن کی روشنی میں جن مقامات کی نشان دہی کی گئی ہے وہ مقام یقیناً نوگرام ہی ہے۔ اوچنگ (ادھیانہ) ہے، جسے ہیون سانگ نے اپنے سفر نامے میں اوچنگ نا لکھا ہے۔ اور یہی مقام سن تیو کو عبور کرنے کے بعد ہی آتا ہے۔ اس نام کا مطلب ہے ’باغ‘۔ سنسکرت میں اجین (udyana) علاقے کا یہ نام اس لیے پڑا، کیونکہ پہلے چکرورتی راجا کا باغ یہاں ہوا کرتا تھا۔ فاہیان اس بارے میں تذکرہ کرنے والا اولین چینی ہیں۔ ہیون سانگ نے اُسے اوچنگ نا لکھا ہے جو درست ترین مانا جاتا ہے۔

رانی گٹ کے آثار میں ایک بڑا کمرہ نما پتھر بھی ہے جہاں کسی زمانہ میں سنگتراش بیٹھا کرتا تھا۔ حیدر علی اخوند خیل کی کتاب کے مطابق، ’اس جگہ بیٹھ کر سنگتراش مورتیاں تیار کرتا تھا اور اس کی خاطر پتھر تخت بھائی سے اونٹوں کے ذریعے لائے جاتے تھے اور یہاں سے گوتم بدھ کی ان مورتیوں کو تبلیغی مقاصد کے لیے دوسرے علاقوں کو بھیج دیا جاتا تھا، اس وجہ سے اس علاقے کو بدھ پیروکاروں کے لیے ایک طرح سے مرکز کی حیثیت حاصل تھی۔‘

یہاں سنگ تراش بیٹھ کر مورتیاں تیار کیا کرتا تھا—تصویر امجد علی سحاب
یہاں سنگ تراش بیٹھ کر مورتیاں تیار کیا کرتا تھا—تصویر امجد علی سحاب

بدھ مت کے پیروکار کبھی اس منبر پر بیٹھ کر بودھ تعلیمات دیا کرتے تھے—تصویر امجد علی سحاب
بدھ مت کے پیروکار کبھی اس منبر پر بیٹھ کر بودھ تعلیمات دیا کرتے تھے—تصویر امجد علی سحاب

وہ بورڈ جس پر رانی گٹ کے حوالہ سے معلومات درج ہیں—تصویر امجد علی سحاب
وہ بورڈ جس پر رانی گٹ کے حوالہ سے معلومات درج ہیں—تصویر امجد علی سحاب

رانی گٹ پر روشنی ڈالتے ہوئے رقم کرتے ہیں کہ، ’گندھارا تہذیب میں رانی گٹ دنیا کی سب سے بڑی تہذیب ہے۔ یہاں بڑے اسٹوپے کے ساتھ لاتعداد چھوٹے چھوٹے اسٹوپے ہیں۔ مشرق میں چھوٹے چھوٹے بغیر چھت کے کمرے ہیں، جنہیں پتھروں کو تراش کر تعمیر کیا گیا ہے۔ یہاں مذہبی راہنماؤں کے بیٹھنے کے لیے علیحدہ اور شاگردوں کے بیٹھنے کے لیے علیحدہ نشست گاہ ہیں۔‘

آثار کے احاطے میں لگے ایک بورڈ کے مطابق، ’ایچ ایچ کول (H.H Cole) کی نگرانی میں پہلی بار 1883ء میں ان آثار کی کھدائی کی گئی، جس کے بعد اے اسٹین اور ایم اے فاؤچر (A. Stein & M.A Foucher) نے بھی ان آثار کی سیر کی۔ 1920ء میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی ٹیم نے بھی ان آثار کا معائنہ کیا۔ آخر میں کیوٹو یونیورسٹی جاپان کی آرکیالوجیکل مشن نے یہاں ایک بڑے پیمانے پر کھدائی کی اور آثار کو محفوظ کرنے کا بیڑا بھی اٹھایا۔ یہ کام 1959ء سے لے کر 2005ء تک جاری رکھا گیا۔ مذکورہ مشن نے نہ صرف کھدائی کی ہے بلکہ پہاڑی میں آثار تک تقریباً 500 سیڑھیاں اور لوہے کی باڑ بھی بنائی۔‘

مذکورہ بورڈ کے مطابق رانی گٹ کے موجودہ آثار پہلی صدی عیسوی سے لے کر چھٹی صدی عیسوی تک کے ہیں۔


امجد علی سحابؔ روزنامہ آزادی اسلام آباد اور باخبر سوات ڈاٹ کام کے ایڈیٹر ہیں۔ اردو کو بطور مضمون پڑھاتے ہیں۔ اس کے ساتھ فری لانس صحافی بھی ہیں۔ نئی دنیائیں کھوجنے کے ساتھ ساتھ تاریخ و تاریخی مقامات میں دلچسپی بھی رکھتے ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔