کہتے ہیں کہ ایک دن کسی اخبار کے ایڈیٹر نے اداریہ میں اپنے شہر کے لوگوں کے بارے میں لکھا کہ،

'اس شہر کے آدھے مکین پاگل ہیں‘۔

بس پھر کیا تھا سارا شہر اخبار کے دفتر کے باہر مظاہروں اور دھرنوں کی صورت اُمڈ آیا۔ یہ دیکھ کر اخبار کے ایڈیٹر نے یقین دہانی کرائی کہ آپ مجھے ایک دن کا وقت دیں، میں کل اس خبر کی تردید شائع کردوں گا۔

اگلے دن اخبار کی سرخی میں خبر لگی کہ،

’اس شہر کے آدھے مکین پاگل نہیں ہیں‘۔

جس پر اہلِ شہر نے بہت اطمینان اور خوشی کا اظہار کیا۔

کچھ ایسا ہی حال پاکستان میں عام انتخابات برائے 2018ء کے لیے جاری مہم کے دوران دیکھنے میں آیا۔ کچھ روز قبل پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ایک کروڑ نوکریاں پیدا کرنے کا دعوی کیا، ملک بھر میں معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والوں نے بھی خوب مضحکہ اُڑایا، جبکہ اس سے کہیں زیادہ بڑا دعوی پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری نے کیا اور ہر شخص خاموش اور مطمئن رہا کہ کم از کم میں تو پاگل نہیں۔

عمران خان اور اسد عمر نے اپنی حکومت کی معاشی ترجیحات میں 11 نکات پیش کیے، جس میں ایک کروڑ نوکریاں فراہم کرنے کے دعوے پر سوشل میڈیا میں پی ٹی آئی کی قیادت کو آڑے ہاتھوں لیا گیا۔

دوسری جانب آصف زرداری نے اقتدار میں آنے پر فی گھر جہاں کوئی سرکاری ملازم نہیں، وہاں ایک سرکاری نوکری دینے کا اعلان کیا۔ یہ بات بھی وہی ہے مگر اندازِ بیان نے مبالغہ آرائی کے تاثر کو زائل کردیا ہے یہاں تک کہ کسی نے بھی جائزہ لینے کی کوشش نہیں کی۔

یہ دعوے بے حد کھوکلے اور پاکستانی معیشت کی بنیادی سوجھ بوجھ سے کوسوں دور ہیں، یا یوں کہیں کہ بھولے بھالے ووٹرز کو ایک سُہانا خواب دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ جب ہمارا دور ہوگا تو ہر شخص روز صبح دودھ کی نہر میں نہائے گا اور شام کو شہد کی نہر میں، ہر شخص خوشحال ہوگا، ہر گھر میں ایک سرکاری نوکر ہوگا، جاب سیکورٹی کا مسئلہ بھی نہیں۔

خود بھی دن میں خواب دیکھنا اور ووٹرز کو بھی دکھانا شاید بہترین سیاسی حکمتِ عملی ہے۔

شاید زرداری صاحب کو معلوم نہیں کہ کئی سرکاری ادارے اپنی موت کے دہانے تک کیسے پہنچے ہیں؟ اور کس نے پہنچائے ہیں؟ سیاسی بھرتیوں کی وجہ سے اوور اسٹافنگ ہوگئی اور اداروں کے بجٹ کا بڑا حصہ تنخواہوں پر اٹھنے لگا۔ ادارے قومیائے جانے کے بعد تو ہر ادارے میں سیاسی بھرتیوں کا سلسلہ عام ہوگیا۔

اگر ہم 1998 کی مردم شماری کے مطابق حساب کریں تو پاکستان کے کُل گھرانوں کی تعداد 1 کروڑ 94 لاکھ 63ہزار 570 ہے۔ اس اعتبار سے فی گھر ایک سرکاری نوکری کا مطلب ہے 5 سالوں میں تقریباََ 2 کروڑ سرکاری نوکریاں، یعنی پی ٹی آئی کے دعوے سے دُگنا بڑا ہدف۔

پاکستان کی آبادی اور گھرانوں کی تعداد - پی ٹی آئی اور پی پی پی کے نوکریوں کے اہدف کا تقابلی جائزہ

پانچ سالوں میں نوکریوں کے اہداف

اگر حالیہ مردم شماری 2017ء کے مطابق حساب لگائیں تو پاکستان میں کل گھرانوں کی تعداد ہے 3 کروڑ 22 لاکھ پانچ ہزار 111 یعنی 5 سالوں میں تقریباََ سوا 3 کروڑ نوکریاں، یعنی پی ٹی آئی کے دعوے سے سوا 3 گنا بڑا ہدف۔

ذیل میں عمران خان اور آصف زرداری کے دعوؤں کا تقابلی جائزہ کریں گے اور یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ کون کس پوزیشن پر ہے؟ صرف بیانیے کو گھروں سے منسلک کرنے کے سبب آصف زرداری کی مبالغہ آرائی چھپ گئی ورنہ اپنے دعوے میں زرداری، خان سے کہیں آگے ہیں۔ گوکہ دونوں کے بلند و بانگ دعوؤں کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں، بس بھولے ووٹرز کے جذبات سے کھیلنے کی اچھی تکنیک ہے۔

اگر موجودہ سرکاری ملازمین کے گھرانوں کی تعداد کو کل گھرانوں میں سے منہا کردیا جائے پھر بھی یہ تعداد 3 کروڑ کے لگ بھگ بنتی ہے۔

ہم انہیں گھرانوں کی تعداد کو فرضی طور پر آسان حساب کتاب کے لیے لیں تو بھی پی پی پی کا دعوی پی ٹی آئی کے دعوے سے 3 گنا زیادہ ہے۔

زراعت میں مخفی بیروزگاری

زرعی شعبے کی بات کریں تو چند فصلوں کو چھوڑ کر پاکستان میں پیداواری صلاحیت میں اضافے کی رفتار بہت کم رہی ہے۔ پیداواری صلاحیت اپنی جگہ پر ہے لیکن آبادی میں اضافے کی وجہ سے کاشتکاری کا کام کرنے والے گھرانوں کے افراد بھی بڑھتے جاتے ہیں، یوں فی ایکڑ پیداوار تو اتنی ہی رہتی ہے جبکہ فی مزدور پیداوار کم ہوتی جاتی ہے، اس تصور کو مخفی بیروزگاری کہتے ہیں۔

بے روزگار افراد کی شماریات میں کہیں بھی نہ ان افراد کا ڈیٹا ہے اور نہ ہی انہیں بے روزگار تصور کیا جاتا ہے۔ پی ٹی آئی اور پی پی پی دونوں میں سے کسی نے بھی اس بیروزگاری کے خاتمے کو اپنے منشور کا حصہ نہیں بنایا۔

اوپر دیے گئے ٹیبل کے مطابق تحریکِ انصاف کو ہر ایک منٹ میں 4 اور پی پی پی کو 12 افراد کو نوکریاں فراہم کرنی ہوں گی، ہر ایک گھنٹے میں بالترتیب 228 اور 735 نوکریاں اور ایک دن میں 5479 اور 17647 نوکریاں۔

خان صاحب کی نسبت زرداری صاحب کا مسئلہ زیادہ گھمبیر اور پیچیدہ ہے۔ ایک تو ہدف 3 گنا بڑا اور دوسرا یہ کہ سرکاری نوکریاں۔

سرکار میں نوکری کے لیے لوازمات میں سروسز ہسپتال سے میڈیکل ٹیسٹ، پولیس سے تصدیق نامہ، اکاؤنٹنٹ جنرل آفس کے سرکاری کاغذات وغیرہ شامل ہیں۔ اب بھلا کوئی بتائے کہ یہ سب اتنا جلدی کیسے ممکن ہے؟

نوکریوں کے اشتہار، ٹیسٹ، نتیجہ، امیدواران کو تقرری کے خطوط اور یہ سب ایک منٹ میں 12 نوکریوں کے لیے۔ ایں خیال است و محال است و جنوں۔

شاید پی پی پی، اس مقصد کے لیے سُپر کمپیوٹر روبوٹس سے مدد لے گی اور ہر کام نینو سیکنڈز کی رفتار سے ہوگا۔

اس سارے آسان حسابی تجزیے سے آپ اندازہ لگائیے کہ سیاسی جماعتوں کی قیادتیں اور انہیں فیڈ بیک دینے والے مشیرانِ کرام پاکستانی معیشت تو چھوڑیے، سادہ گنتی تک نہیں جانتے۔ عمران خان کو تو بہت تنقید کا سامنا رہا لیکن مجال ہے آصف علی زرداری کے دعوے پر کسی نے کوئی اعتراض کیا ہو کوئی شورو غوغا کیا ہو؟

کیونکہ 'اس شہر کے آدھے مکین پاگل نہیں ہیں۔‘

تبصرے (1) بند ہیں

qurban Ali Jun 30, 2018 08:40am
its is business for politicians to provide jobs on cash ..Is't it??