Dawnnews Television Logo

پاکستانی سیاست کی جیپ چلانے کا حقدار کون؟

وہ 5 جماعتیں جو ملک میں سادہ اکثریت حاصل کرکے حکومت بنانے کے معیار پر پورا اترتی ہیں۔
اپ ڈیٹ 25 جولائ 2018 02:05pm

مملکتِ خداداد پاکستان کی سیاسی تاریخ کے 11ویں عام انتخابات اب چند دنوں کی دوری پر ہیں۔ 25 جولائی 2018ء کو منعقد ہونے والے عام انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن نے ملک کی 107 سیاسی جماعتوں کو انتخابی نشانات جاری کیے ہیں۔

ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ 2018ء کے حالیہ عام انتخابات میں 20 کروڑ سے زائد آبادی رکھنے والے ملک کے 10 کروڑ سے زائد ووٹرز میں سے آدھے سے زائد ووٹرز کی جانب سے اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کا امکان ہے۔ اگر ان انتخابات کا ٹرن آؤٹ 55 فیصد سے زائد ہوتا ہے تو یہ پاکستان کے عوام، سیاسی جماعتوں اور اداروں کے لیے خوشگوار حیرت کا باعث ہوگا۔

قومی اسمبلی کے 272 حلقوں پر مختلف سیاسی جماعتوں کے پلیٹ فارم اور آزاد حیثیت سے 3 ہزار 675 امیدوار ان انتخابات میں حصہ لینے جارہے ہیں۔

اگرچہ ان انتخابات میں چاروں صوبوں میں پاکستان کی 100 کے قریب سیاسی جماعتوں نے اپنے امیدوار میدان میں اتارے ہیں تاہم ماضی کے 3 عام انتخابات کے اعداد و شمار کو ٹٹولا جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ 80 سے زائد سیاسی اتحاد اور جماعتیں ایسی ہیں جو کُل ملا کر ایک لاکھ سے بھی کم ووٹ لیں گی، لہٰذا ہم یہاں صرف انہی 20 سیاسی جماعتوں پر بات کریں گے جو زیادہ ووٹ لے سکتی ہیں۔

گزشتہ عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی حاصل کی گئی نشستوں کے اعتبار سے ملک کی 3 بڑی سیاسی جماعتوں میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) شامل ہیں، تاہم حالیہ عام انتخابات میں چاروں صوبوں میں اپنے اپنے امیدوار میدان میں اتارنے کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی پہلے، پاکستان تحریکِ انصاف دوسرے جبکہ پاکستان مسلم لیگ نواز تیسرے نمبر پر ہے۔

عام انتخابات 2018ء میں حصہ لینے والی پاکستان کی 20 بڑی سیاسی جماعتیں کون سی ہیں اور قومی اسمبلی کے 272 حلقوں میں چاروں صوبوں سے ان کے امیدواروں کی تعداد کیا ہے؟ اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو صورت کچھ یوں بنتی ہے۔


پاکستان پیپلز پارٹی

قیادت: آصف علی زرداری/بلاول بھٹو زرداری

انتخابی نشان: تیر


قومی اسمبلی کے 272 حلقوں میں پاکستان پیپلز پارٹی نے کل 248 امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔ کس کس صوبے میں کتنے امیدوار میدان میں مقابلہ کررہے ہیں اس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔

خیبر پختونخوا، فاٹا

خیبر پختونخوا اور فاٹا میں قومی اسمبلی کے کُل 51 حلقوں میں سے پی پی پی نے 42 امیدوار کھڑے کیے ہیں۔

اسلام آباد اور پنجاب

اگر اسلام آباد اور پنجاب کی 144 نشستوں کی بات کی جائے تو پی پی پی نے 130 حلقوں لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔

سندھ

سندھ جو پی پی پی کا ہوم گراؤنڈ بھی ہے وہاں سے اس جماعت نے تمام حلقوں میں اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں۔

بلوچستان

بلوچستان میں قومی اسمبلی کی کُل 16 نشستوں میں سے پی پی پی نے 15 حلقوں میں مقابلے کا فیصلہ کیا ہے۔


پاکستان تحریکِ انصاف

قیادت: عمران خان

انتخابی نشان: بلا


پاکستان تحریکِ انصاف نے قومی اسمبلی کے 272 حلقوں میں 244 امیدوار سامنے لانے کا فیصلہ ہے۔ کس صوبے میں کتنے امیدوار مقابلہ کر رہے ہیں آئیے جانتے ہیں۔

خیبر پختونخوا، فاٹا

خیبر پختونخوا اور فاٹا جہاں پی ٹی آئی خود کو مضبوط سمجھتی ہے اور حکومت بنانے کا دعویٰ کر رہی ہے وہاں سے اس جماعت نے قومی اسمبلی کے 51 حلقوں میں سے 48 حلقوں میں مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اسلام آباد اور پنجاب

گزشتہ 5 انتخابات میں اگر تحریکِ انصاف نے سب سے زیادہ کہیں توجہ دی ہے تو وہ صوبہ پنجاب ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں اس نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سے بھی زیادہ یعنی 144 میں سے 136 حلقوں میں اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں۔

سندھ

سندھ کے 61 حلقوں میں سے پی ٹی آئی نے 46 حلقوں میں لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔

بلوچستان

بلوچستان میں قومی اسمبلی کی کُل 16 نشستوں میں سے پی ٹی آئی نے 14 امیدوار کھڑے کیے ہیں۔


پاکستان مسلم لیگ (ن)

قیادت: نواز شریف/شہباز شریف

انتخابی نشان: شیر


5 سال وفاق میں حکمرانی کرنے والی مسلم لیگ (ن) نے اس مرتبہ ملک بھر سے قومی اسمبلی کے 272 حلقوں میں سے 216 پر مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

خیبر پختونخوا، فاٹا

خیبر پختونخوا اور فاٹا میں مسلم لیگ (ن) نے ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کرلیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں قومی اسمبلی کے کُل 51 حلقوں میں سے (ن) لیگ نے 41 امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔

اسلام آباد اور پنجاب

اسلام آباد اور پنجاب کو مسلم لیگ (ن) کا اپنا گھر تصور کیا جاتا ہے اور اس جماعت نے جب بھی وفاق میں حکومت بنائی ہے وہ اسی صوبے کی مدد سے بنائی ہے۔ اس بار اس جماعت نے یہاں قومی اسمبلی کی 144 حلقوں میں سے 132 حلقوں میں مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

سندھ

عام طور پر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ سندھ میں مسلم لیگ (ن) کی توجہ کم رہتی ہے اور اس بار بھی صورتحال کچھ ایسی ہی نظر آتی ہے کیونکہ یہاں قومی اسمبلی کی 61 نشستوں میں سے (ن) نے تقریباً آدھی یعنی 32 پر مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

بلوچستان

گزشتہ انتخابات میں بلوچستان سے اچھی کامیابی حاصل کرنے والی مسلم لیگ (ن) نے یہاں قومی اسمبلی کی کُل 16 نشستوں میں سے 11 پر اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں۔


متحدہ مجلس عمل

قیادت: مولانا فضل الرحمن/ سراج الحق

انتخابی نشان: کتاب


2002ء میں پہلی مرتبہ متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے نام سے سامنے آنا والا اتحاد ایک بار پھر سامنے آیا ہے اور ملک بھر سے قومی اسمبلی کے 272 حلقوں میں سے اس اتحاد نے کُل 188 امیدوار میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے۔

خیبر پختونخوا، فاٹا

2002ء میں خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے والے اس اتحاد نے اس مرتبہ بھی یہاں بہت توجہ دی ہے اور پختوںخوا اور فاٹا میں قومی اسمبلی کے 51 حلقوں میں سے اس نے 46 امیدوار اتارے ہیں۔

اسلام آباد اور پنجاب

اسلام آباد اور پنجاب کو اس اتحاد کی توجہ نسبتاً کم ملی جہاں اس نے 144 حلقوں میں سے صرف 76 حلقوں میں مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

سندھ

پنجاب کے مقابلے میں سندھ میں ایم ایم اے زیادہ متحرک نظر آرہی ہے اور یہاں اس نے 61 نشستوں میں سے 52 نشستوں پر اپنے امیدوار اتارے ہیں۔

بلوچستان

بلوچستان میں مضبوط سمجھی جانے والی ایم ایم اے نے قومی اسمبلی کی کُل 16 نشستوں میں سے 14 پر لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔


تحریکِ لبیک پاکستان

قیادت: مولانا خادم رضوی

انتخابی نشان: کرین


پہلی مرتبہ ملکی سیاست میں حصہ لینے والی تحریک لبیک پاکستان نے غیر معمولی طور پر ملک بھر سے قومی اسمبلی کے 272 حلقوں میں 174 امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔

خیبر پختونخوا، فاٹا

خیبر پختوںخوا اور فاٹا میں پی ٹی آئی اور ایم ایم اے کی مضبوط موجودگی وجہ ہے یا کچھ اور، لیکن ملک بھر سے قومی اسمبلی کے 174 حلقوں سے انتخابات لڑنے والی تحریک لیبک پاکستان نے یہاں سے صرف 16 پر مقابلے کے لیے امیدوار کھڑے کیے ہیں۔

اسلام آباد اور پنجاب

تمام بڑی جماعتوں کی طرح تحریک لبیک پاکستان نے بھی اسلام آباد اور پنجاب پر خاص توجہ رکھی اور 144 حلقوں میں سے 125 پر مقابلے کے لیے امیدوار کھڑے کیے ہیں۔

سندھ

اس نئی سیاسی جماعت نے سندھ کے 61 حلقوں میں سے صرف 28 پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔

بلوچستان

بلوچستان میں بھی اس کی توجہ کم نظر آئی اور کُل 16 نشستوں میں سے صرف 5 امیدوار کھڑے کیے۔


ملی مسلم لیگ/اللہ اکبر تحریک

قیادت: حافظ سعید/ڈاکٹر میاں احسان باری

انتخابی نشان: کرسی


یہ سیاسی جماعت بھی پہلی مرتبہ عام اتنخابات میں حصہ لینے جارہی ہے اور قومی اسمبلی کے 272 حلقوں میں اللہ اکبر تحریک/ ملی مسلم لیگ کے کل 71 امیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔

خیبر پختونخوا، فاٹا

خیبر پختوںخوا اور فاٹا میں ملی مسلم لیگ / اللہ اکبر تحریک نے 51 حلقوں میں سے صرف 7 پر امیدوار کھڑے کیے ہیں۔

اسلام آباد اور پنجاب

اسلام آباد اور پنجاب میں بھی صورتحال بہت اچھی نہیں اور 144 نشستوں میں سے 49 پر لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔

سندھ

سندھ کی بات کی جائے تو یہاں 61 نشستوں میں سے 9 میں مقابلہ کیا جارہا ہے۔

بلوچستان

بلوچستان کی کُل 16 نشستوں پر 6 میں امیدوار کھڑے کیے گئے ہیں۔


عوامی نیشنل پارٹی

قیادت: اسفند یار ولی

انتخابی نشان: لالٹین


قومی اسمبلی کے 272 حلقوں میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے کُل 60 امیدوار عام انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔

خیبر پختونخوا، فاٹا

2008 سے 2013 تک خیبر پختوںخوا میں حکومت کرنے والی عوامی نیشنل پارٹی نے اس بار بھی سب سے زیادہ توجہ یہیں دی ہے اور پختونخوا کے کُل 51 حلقوں میں سے 37 پر انتخابات لڑنے کا ٖفیصلہ کیا ہے۔

اسلام آباد اور پنجاب

اسلام آباد اور پنجاب میں کمزور سمجھے جانے والی اے این پی نے 144 حلقوں میں سے صرف 4 میں اپنے امیدوار کھڑے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

سندھ

سندھ میں بھی اس جماعت نے زیادہ توجہ نہیں دکھائی اور 61 نشستوں میں سے 11 پر مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

بلوچستان

بلوچستان کی کُل 16 نشستوں پر اے این پی نے 8 میں امیدوار کھڑے کیے ہیں۔


پاک سرزمین پارٹی

قیادت: مصطفی کمال

انتخابی نشان: ڈولفن


پاک سر زمین پارٹی میں ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ انتخابات میں حصہ لینے جارہی ہے اور قومی اسمبلی کے 272 حلقوں میں سے پاک سرزمین پارٹی نے 45 نشستوں میں اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں۔

خیبر پختونخوا، فاٹا

پاک سر زمین پارٹی نے پختوںخوا اور فاٹا میں قومی اسمبلی کی 51 نشستوں میں سے صرف 5 پر مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اسلام آباد اور پنجاب

اس پارٹی کی پوزیشن اسلام آباد اور پنجاب میں زیادہ کمزور دکھائی دے رہی ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ یہاں موجود 114 نشستوں میں سے اس جماعت نے صرف 7 حلقوں میں اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں۔

سندھ

کراچی سے اٹھنے والی اس سیاسی جماعت نے سندھ کے 61 حلقوں میں سے 28 پر لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔

بلوچستان

پاک سر زمین پارٹی بلوچستان کی کُل 16 نشستوں میں سے 5 پر مقابلہ کررہی ہے۔


آل پاکستان مسلم لیگ

قیادت: پرویز مشرف

انتخابی نشان: عقاب


قومی اسمبلی کے 272 حلقوں میں آل پاکستان مسلم لیگ (اے پی ایم ایل) نے 42 حلقوں میں اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں۔

خیبر پختونخوا، فاٹا

آل پاکستان مسلم لیگ نے پختوںخوا اور فاٹا میں 8 حلقوں سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اسلام آباد اور پنجاب

اگر اسلام آباد اور پنجاب کی بات کی جائے تو اے پی ایم ایل نے 144 حلقوں میں سے 24 پر اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں۔

سندھ

سندھ میں بھی اس جماعت کی پوزیشن اچھی نہیں دکھائی دیتی اور یہاں 61 حلقوں میں سے 9 پر الیکشن میں حصہ لیا جارہا ہے۔

بلوچستان

بلوچستان کی بات کی جائے تو وہاں اس جماعت نے 16 میں سے صرف ایک پر مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔


گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس

قیادت: پیر پگارا/ ایاز لطیف پلیجو

انتخابی نشان: ستارہ


یہ اتحاد پورے ملک کے بجائے محض سندھ اور بلوچستان میں ہی مقابلہ کر رہا ہے اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائںس قومی اسمبلی کے 272 حلقوں میں سے کل 29 حلقوں میں حصہ لے رہی ہے۔

خیبر پختونخوا، فاٹا

یہاں یہ اتحاد مقابلہ نہیں کررہا۔

اسلام آباد اور پنجاب

یہاں یہ اتحاد مقابلہ نہیں کررہا۔

سندھ

سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کو مشکل صورتحال سے دوچار کرنے کے لیے سندھ کی مختلف سیاسی جماعتوں پر مشتمل اس اتحاد نے 61 حلقوں میں سے 28 پر مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

بلوچستان

بلوچستان کی بات کی جائے تو وہاں اس اتحاد نے 16 میں سے ایک پر مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔


متحدہ قومی موومنٹ پاکستان

قیادت: خالد مقبول صدیقی/فاروق ستار

انتخابی نشان: پتنگ


کراچی اور سندھ سے تعلق رکھنے والی متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم پی) نے اس بار قومی اسمبلی کے 272 حلقوں میں سے 27 پر الیکشن کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

خیبر پختونخوا، فاٹا

یہاں یہ جماعت مقابلہ نہیں کررہی۔

اسلام آباد اور پنجاب

اسلام آباد اور پنجاب کے 144 حلقوں سے ایم کیو ایم نے صرف 2 امیدوار کھڑے کیے ہیں۔

سندھ

ایم کیو ایم کے لیے مضبوط میدان سمجھے جانے والے سندھ میں بھی اس بار کم امیدوار دیکھنے کو ملے اور اس جماعت نے 61 میں سے صرف 24 پر مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

بلوچستان

بلوچستان میں ایم کیو ایم نے بھی صرف ایک ہی نشست پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔


نیشنل پارٹی

قیادت: میر حاصل خان بزنجو۔

انتخابی نشان: آری


بلوچستان سے تعلق رکھنے والی نیشنل پارٹی قومی اسمبلی کے 272 حلقوں سے 17 نشستوں پر الیکشن لڑ رہی ہے۔

خیبر پختونخوا، فاٹا

خیبر پختونخوا اور فاٹا کے 51 حلقوں سے میں اس جماعت کا صرف ایک امیدوار میدان میں ہے۔

اسلام آباد اور پنجاب

اسلام آباد اور پنجاب کے 144 حلقوں سے نیشنل پارٹی نے امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔

سندھ

سندھ سے نیشنل پارٹی نے کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا۔

بلوچستان

بلوچستان کے 16 حلقوں سے نیشنل پارٹی نے 9 امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔


بلوچستان عوامی پارٹی

قیادت: جام کمال خان

انتخابی نشان: گائے


نام سے ہی معلوم چل رہا ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی صرف بلوچستان سے ہی الیکشن لڑ رہی ہے اور قومی اسمبلی کے 272 حلقوں سے کُل 15 امیدوار میدان میں اترے ہیں۔

خیبر پختونخوا، فاٹا

کوئی امیدوار الیکشن نہیں لڑ رہا

اسلام آباد اور پنجاب

کوئی امیدوار الیکشن نہیں لڑ رہا

سندھ

کوئی امیدوار الیکشن نہیں لڑ رہا

بلوچستان

بلوچستان عوامی پارٹی کے تمام 15 امیدوار بلوچستان سے ہی الیکشن لڑ رہے ہیں۔


پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی

قیادت: محمود خان اچکزئی۔

انتخابی نشان: درخت


پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کا بھی ہوم گراونڈ بلوچستان ہی ہے اور اس پارٹی نے ملک بھر سے 14 امیدواروں کو میدان میں اتارا ہے۔

خیبر پختونخوا، فاٹا

خیبر پختونخوا اور فاٹا کے 51 حلقوں سے 5 امیدوار الیکشن لڑ رہے ہیں۔

اسلام آباد اور پنجاب

اسلام آباد اور پنجاب کے 144 حلقوں میں سے پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی 2 حلقوں سے الیکشن لڑ رہی ہے۔

سندھ

سندھ کی بات کی جائے تو اس پارٹی نے 61 میں سے 2 حلقوں میں اپنے امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔

بلوچستان

بلوچستان میں قومی اسمبلی کی 16 نشستوں میں سے 5 پر الیکشن لڑا جارہا ہے۔


بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل

قییادت: اختر مینگل۔

انتخابی نشان: کلہاڑا


اگر بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کی بات کی جائے تو قومی اسمبلی کے 272 حلقوں سے اس کے 13 امیدوار الیکشن لڑ رہے ہیں۔

خیبر پختونخوا، فاٹا

کوئی امیدوار الیکشن نہیں لڑ رہا

اسلام آباد اور پنجاب

کوئی امیدوار الیکشن نہیں لڑ رہا

سندھ

کوئی امیدوار الیکشن نہیں لڑ رہا

بلوچستان

بلوچستان کے 16 حلقوں میں سے بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے 13 امیدوار میدان میں اترے ہیں۔


پاکستان مسلم لیگ (ق)

قیادت: چوہدری شجاعت، چوہدری پرویز الہی

انتخابی نشان: ٹریکٹر


2002ء کنگز پارٹی کے طور پر سامنے آنے والی مسلم لیگ (ق) اس مرتبہ قومی اسمبلی کے 272 حلقوں سے صرف 12 حلقوں میں الیکشن لڑ رہی ہے۔

خیبر پختونخوا، فاٹا

خیبر پختونخوا اور فاٹا کے 51 حلقوں سے 6 امیدوار الیکشن لڑ رہے ہیں۔

اسلام آباد اور پنجاب

اسلام آباد اور پنجاب میں اس پارٹی کا مرکز ہونے کے باوجود یہاں کے 144 حلقوں میں سے اس پارٹی کے صرف 4 امیدوار میدان میں اترے ہیں۔

سندھ

سندھ میں بھی حالت اچھی نہیں اور 61 میں سے محض 1 حلقے میں الیکشن لڑا جارہا ہے۔

بلوچستان

بلوچستان میں بھی ایک ہی سیٹ پر الیکشن لڑا جارہا ہے۔


قومی وطن پارٹی

قیادت: آفتاب شیر پاؤ

انتخابی نشان: چراغ


آفتاب شیر پاو کی قومی وطن پارٹی ملک بھر سے قومی اسمبلی کے 10 حلقوں سے الیکشن لڑ رہی ہے۔

خیبر پختونخوا، فاٹا

خیبر پختونخوا اور فاٹا کے 51 حلقوں سے اس پارٹی نے 9 امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔

اسلام آباد اور پنجاب

کوئی امیدوار الیکشن نہیں لڑ رہا

سندھ

کوئی امیدوار الیکشن نہیں لڑ رہا

بلوچستان

قومی وطن پارٹی بلوچستان میں صرف ایک ہی سیٹ پر الیکشن لڑ رہی ہے۔


بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی

قیادت: اسرار اللہ زہری

انتخابی نشان: اونٹ


قومی اسمبلی کے 272 حلقوں سے بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے 7 امیدوار میدان میں اترے ہیں۔

خیبر پختونخوا، فاٹا

کوئی امیدوار الیکشن نہیں لڑ رہا

اسلام آباد اور پنجاب

کوئی امیدوار الیکشن نہیں لڑ رہا

سندھ

کوئی امیدوار الیکشن نہیں لڑ رہا

بلوچستان

بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے تمام 7 امیدوار بلوچستان سے ہی لڑ رہے ہیں۔


عوامی مسلم لیگ

قیادت: شیخ رشید احمد

انتخابی نشان: قلم دوات


سینئر سیاستدان شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ ملک بھر سے قومی اسمبلی کے 272 حلقوں سے صرف 2 پر الیکشن لڑ رہی ہے۔

خیبر پختونخوا، فاٹا

کوئی امیدوار الیکشن نہیں لڑ رہا

اسلام آباد اور پنجاب

عوامی مسلم لیگ اسلام آباد اور پنجاب کے محض 2 حلقوں سے الیکشن لڑ رہی ہے۔

سندھ

کوئی امیدوار الیکشن نہیں لڑ رہا

بلوچستان

کوئی امیدوار الیکشن نہیں لڑ رہا

پنجاب کے 141 حلقوں سے 2 امیدوار

خیبر پختونخوا، فاٹا، اسلام آباد، سندھ اور بلوچستان سے کوئی امیدوار نہیں۔


پاکستان مسلم لیگ ضیاء

قیادت: اعجاز الحق

انتخابی نشان: ہیلی کاپٹر


سابق آرمی چیف ضیاء الحق کے نام پر بننے والی پاکستان مسلم لیگ ضیاء ملک بھر سے قومی اسمبلی کے 272 حلقوں سے کل 2 نشستوں پر الیکشن لڑ رہی ہے۔

خیبر پختونخوا، فاٹا

کوئی امیدوار الیکشن نہیں لڑ رہا

اسلام آباد اور پنجاب

مسلم لیگ ضیاء اسلام آباد اور پنجاب کے محض 2 حلقوں سے الیکشن لڑ رہی ہے۔

سندھ

کوئی امیدوار الیکشن نہیں لڑ رہا

بلوچستان

کوئی امیدوار الیکشن نہیں لڑ رہا


قومی اسمبلی کے 272 حلقوں میں سے جیپ کے نشان پر الیکش لڑنے والے آزاد ارکان کی تعداد 137 تک پہنچ گئی ہے۔

خیبر پختونخوا، فاٹا

خیبر پختونخوا اور فاٹا کے 51 حلقوں سے ان کی تعداد 23 ہے۔

اسلام آباد اور پنجاب

اسلام اور پنجاب سے جیپ کے نشان پر انتخاب لڑنے والی آزاد امیدواروں کی تعداد 77 تک پہنچ گئی ہے۔

سندھ

سندھ کے 61 حلقوں میں 25 امیدوار جیپ کے نشان پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔

بلوچستان

بلوچستان کے 16 حلقوں سے 12 امیدواروں نے جیپ کا نشان اختیار کیا ہے۔


کس جماعت کے امیدواروں کی تعداد، سادہ اکثریت کی گولڈن فگر سے زائد ہے؟

پاکستان کے 11ویں عام انتخابات میں صوبہ خیبر پختونخوا سے قومی اسمبلی کے حلقوں کی تعداد 39، قبائلی علاقہ جات کی تعداد 12، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی تعداد 3، صوبہ پنجاب کی تعداد 141، صوبہ سندھ کی تعداد 61 جبکہ صوبہ بلوچستان میں قومی اسمبلی کے 16 حلقے ہیں۔

قومی اسمبلی کے 272 حلقوں میں سے اگر کوئی سیاسی جماعت 137 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے تو وہ سادہ اکثریت سے حکومت بناسکتی ہے مگر اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ پارٹی 137 حلقوں سے اپنے ٹکٹ یافتہ امیدوار کھڑے کرے۔

موجودہ صورتحال میں ملک کی صرف 5 سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریکِ انصاف، پاکستان مسلم لیگ نواز، متحدہ مجلسِ عمل اور تحریکِ لبیک پاکستان ہی اس شرط پر پوری اترتی نظر آتی ہیں کیونکہ پانچوں جماعتوں نے قومی اسمبلی کے 272 حلقوں پر بالترتیب 248، 244، 216، 188 اور 174 امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔

ویسے تو پاکستانی سیاست کی جیپ چلانے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریکِ انصاف، پاکستان مسلم لیگ نواز، متحدہ مجلسِ عمل پاکستان اور تحریکِ لبیک پاکستان اپنا پورا زور لگا رہی ہیں مگر دلچسپ ترین بات یہ ہے کہ چاروں صوبوں میں قومی اسمبلی کے حلقوں سے جیپ کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑنے والے آزاد امیدواروں کی تعداد کم نہ زیادہ پوری 137 ہی بنتی ہے۔

اگر دل بہلانے کو ہم یہ بات فرض کرلیں کہ ملک میں آئندہ حکومت صرف جیپ والوں کی ہوگی تو 272 انتخابی حلقوں میں جیپ کا انتخابی نشان رکھنے والے تمام 137 امیدواروں کے لیے ہر صورت انتخاب جیتنا ضروری ہوگا۔