Dawnnews Television Logo

خاموش طبع اور پُراثر سابق خاتونِ اول کلثوم نواز

بیگم کلثوم لٹریچر کی خاتون تھیں، ادب سے تعلق تھا، لکھتی بھی تھیں، مگر انہوں نے اس کو کبھی اپنی تشہیر کا ذریعہ نہیں بنایا
اپ ڈیٹ 12 ستمبر 2018 12:00pm

جیل میں سزا کاٹنے والے سابق وزیرِاعظم میاں نواز شریف اور اُن کی صاحبزادی مریم نواز کے لیے تو خونی رشتے کے حوالے سے یہ ایک بہت بڑا صدمہ اورسانحہ تو ہوگا ہی، مگر شریف خاندان سے دشمنی کی حد تک مخالفین نے بھی بیگم کلثوم نواز کے انتقال کی خبر کو دل کی گہرائیوں سے محسوس کیا اور اُس نیک نڈر خاتون کی مغفرت کے لیے ہاتھ اٹھائے ہوں گے۔

کہا جاتا ہے کہ مَردوں خاص طور پر سیاستدانوں کی زندگی میں اُن کی بیگمات کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ مثالوں کے لیے ایک طویل باب کھولا جاسکتا ہے مگر حالیہ تاریخ میں ایک مثال مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کی ہے۔

جب بھٹو کی حکومت ختم کی گئی اور پھر انہیں پھانسی کے تختے پر چڑھا کر فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق اور اُن کا ٹولہ یہ یقین کر بیٹھا تھا کہ انہوں نے بھٹو کے ساتھ پیپلز پارٹی کو بھی گڑھی خدا بخش میں دفن کردیا، تو یہ بیگم نصرت بھٹو اور اُن کی صاحبزادی ہی تھیں جنہوں نے نہ صرف پیپلز پارٹی کو زندہ کیا بلکہ بھٹو صاحب کی سیاسی وراثت کو بھی ایسا دوام بخشا کہ 4 دہائی بعد بھی بھٹو صاحب کروڑوں عوام کے دلوں میں دھڑکتے ہیں۔

پڑھیے: نواز شریف کی کلثوم نواز سے آخری گفتگو

اکتوبر 1999ء میں جب 2 تہائی اکثریت رکھنے والے وزیرِاعظم نواز شریف کو سیاسی منظرنامے سے ہٹایا گیا تو یہ اُن کی بیگم کلثوم نواز ہی تھیں جنہوں نے اپنے شوہر کی رہائی کے لیے ملک گیر مہم چلائی۔ نواز شریف کی سیاست کا آغاز 1985ء میں ہوا، 2 مرتبہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب بننے کے بعد 2 بار وزیرِ اعظم بنے مگر اس سارے دور میں کلثوم نواز کی حیثیت ایک Low Profile گھریلو خاتون کی ہی رہی۔

مگر جب اکتوبر 1999ء میں کڑا وقت آیا، جیل اور پھر جلاوطنی کی سختیوں کے دور کا آغاز ہوا تو اُن کے جانثار ساتھیوں سے بڑھ کر بیگم کلثوم نواز نے مشرف کی ڈکٹیٹرشپ کا مقابلہ کیا۔

14 سال بعد میاں نواز شریف جب تیسری بار اقتدار میں آئے تو ایک بار پھر بیگم کلثوم نواز نے ’گھر بار‘ سنبھال لیا۔ مریم نواز آج جس بہادری سے جیل کاٹ رہی ہیں اُس میں بھی بہت بڑی حد تک کلثوم نواز کا ہی ہاتھ ہے۔ ایک تکلیف دہ بیماری کے بعد اُن کا دیارِ غیر میں جس طرح انتقال ہوا، اُسے ایک قومی صدمہ ہی قرار دیا جائے گا۔

اپنے طویل صحافتی سفر میں بعض وجوہ کے سبب میں میاں صاحب اور ان کے خاندان سے بہت قریب تو نہیں رہا مگر سالِ گزشتہ اور اس سے پیوستہ میں اُن کے ساتھ 2 یادگار غیر ملکی سفر کیے، ایک آذربائیجان کا اور دوسرا سعودی عرب کا۔ خاموش طبع اور پُراثر، بیگم کلثوم نواز کی شخصیت کا حال ان 2 الفاظ میں کیا جاسکتا ہے۔

یہ بات کہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جب بھی میں نے ان کے ساتھ جہاز میں سفر کیا تو پورے سفر میں ان کی کوئی آواز تک نہیں آئی۔ حالانکہ یہ سفر کئی گھنٹوں پر محیط تھے، اور اتنے لمبے عرصے میں لوگوں کی آوازیں آتی ہی ہیں، مگر مجھے ان کی ہلکی سی بھی آواز نہیں آئی۔ ہاں یہ بات ٹھیک ہے کہ وہ سفر میں اپنے شوہر کے ساتھ سرگوشیوں میں گفتگو کرتی ہوئی نظر آتی تھیں، مگر یہ آواز کبھی بھی تیز نہیں ہوئی۔ بنیادی طور پر وہ لٹریچر کی خاتون تھیں، ادب سے ان کا تعلق تھا، لکھتی بھی تھیں، مگر انہوں نے اس کو کبھی اپنی تشہیر کا ذریعہ نہیں بنایا جو کہ عام طور پر ہوتا ہے۔

پڑھیے: بیگم کلثوم نواز 3 مرتبہ خاتونِ اول رہیں

باکو میں ناشتے کی میز پر جب میں نے شکوہ کیا کہ، ’میاں صاحب یہ کیسا ناشتہ ہے، نہ سری پائے نہ مغز، نہ ربڑی ملائی‘ تو پاس بیٹھیں کلثوم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’بھئی انہوں نے سب پر پابندی لگا دی ہے‘۔ کلثوم نواز ہلکا سا مسکرا کر رہ گئیں۔

سعودی عرب کا دورہ کافی مختصر تھا اور قیام زیادہ تر جدہ اور بعد میں مدینہ شریف میں تھا اور کچھ صحافیوں کی خواہش تھی کہ وہ خانہ کعبہ جائیں اور عمرہ ادا کریں۔

لیکن پھر میاں صاحب نے لنچ کے وقت ہمیں بلوا لیا اور کچھ تاخیر ہوئی تو پھر میں نے اپنا ارادہ بدلا کہ میں اپنا باقی وقت مدینہ منورہ میں ہی گزاروں۔ روضہ مبارک پر میں جب شام کے وقت وہاں بیٹھا ہوا تھا تو میں نے دیکھا کہ میاں نواز شریف اور ان کی بیگم وہاں تشریف لائے، اور اس دوران کچھ گھنٹوں تک وہاں قیام کیا۔

ماضی میں تقریباً تمام ہی وزرائے اعظم اور صدور کے ساتھ سفر کرچکا ہوں لیکن معذرت کے ساتھ لندن میں جب ایک وزیرِاعظم کے ساتھ سفر کیا تو عموماً ہوٹل کی لابی میں دیکھتا کہ صبح کو وہ خالی ہاتھ باہر جاتے تھے اور ان کے (سیکریٹری) سامانوں کے تھیلے اٹھائے ہوئے ساتھ چلتے ہوئے آتے تھے۔

لیکن جو سفر میں نے نواز شریف اور ان کی بیگم کے ساتھ کیے، ان کے ساتھ مجھے ایسا نہیں لگا کہ اپنے لیے انہوں نے بہت بڑی خریداری کی ہو۔ دوسری خاص بات جو مجھے دیگر حکمرانوں کی بیگمات سے الگ لگتی ہے، وہ یہ کہ ان کا لباس ہمیشہ سادہ ہوا کرتا تھا۔

مشرف آمریت کے خلاف وہ ڈٹ کر کھڑی ہوگئیں لیکن بعد میں انہوں نے نہ کبھی اپنی تقریروں میں نہ تحریروں میں اس بات کا اظہار کیا کہ انہوں نے جدوجہد میں کوئی حصہ لیا۔ وہ کبھی یہ نہیں چاہتی تھیں کہ وہ عوام کے سامنے ایک سیاستدان کی حیثیت سے آئیں۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر وہ سیاست میں کبھی آئیں بھی تو مجبور میں، اس میدان میں آنے کی خواہش انہوں نے کبھی نہیں کی.

ایک سال سے چونکہ وہ پاکستان میں موجود نہیں تھیں، اور ہمارے کچھ سیاستدانوں اور ہمارے کچھ میڈیا پرسنز نے ان کی بیماری کے حوالے سے جو کچھ کہا، مجھے اس پر آج بڑی شرمندگی محسوس ہو رہی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ جن لوگوں نے ان کی بیماری کو سوالیہ نشان بنایا وہ اس پر معذرت کا اظہار کریں گے یا نہیں، لیکن اگر وہ ایسا کریں بھی تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ لیکن اس سے ہماری صحافی برادری اور سیاستدانوں کو سیکھنا چاہیے کہ آپ سیاستدانوں کو تنقید کا نشانہ ضرور بنائیں مگر انہیں یا ان کے خاندان میں سے کسی کو بیماری ہوجائے تو اسے سوالیہ نشان نہ بنائیں۔


مجاہد بریلوی ’جالب جالب‘، ’فسانہ رقم کریں‘ اور ’بلوچستان مسئلہ کیا ہے‘ کے مصنف ہیں۔ 2002ء میں پاکستان کے پہلے نجی چینل پر مجاہد آن لائن نامی پروگرام کی میزبانی کی اور پھر 8 سال تک سی این بی سی پر پروگرام ’دوسرا پہلو‘ کی میزبانی کرتے رہے اور اب ڈان نیوز ٹی وی پر ’سوال سے آگے‘ کی میزبانی کررہے ہیں۔