Dawnnews Television Logo

پاکستان کرکٹ کیلئے سال 2018 کیسا رہا؟

سال 2018 پاکستان کرکٹ کے لیے ملاجلا رہا، ٹی20 کے علاوہ بقیہ دونوں فارمیٹس میں قومی ٹیم اچھا کھیل پیش نہ کر سکی۔
اپ ڈیٹ 28 دسمبر 2018 12:53am

نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز میں 0-5 سے کلین سوئپ ہو، ایشیا کپ میں ناقص کارکردگی یا پھر ٹیسٹ کرکٹ ۔۔ سال 2018 اعدادوشمار کے لحاظ سے پاکستان کرکٹ کے لیے کچھ اچھا ثابت نہ ہوا لیکن ٹی20 کرکٹ میں ناقابل شکست کارکردگی اور خصوصاً پاکستان سپر لیگ کے میچز کا لاہور کے ساتھ کراچی میں انعقاد سال 2018 کو پاکستان کے لیے یادگار بنا گیا۔

سال کا آغاز ہی پاکستان کرکٹ کے لیے کسی بدترین خواب سے کم نہ تھا جب پاکستانی ٹیم بڑے بڑے خوابوں کے ساتھ سیریز کھیلنے کے لیے نیوزی لینڈ پہنچی تو چیمپیئنز ٹرافی سے مستقل ناقابل شکست ٹیم کو سیریز کے لیے فیورٹ قرار دیا جا رہا تھا لیکن پھر جو ہوا، اس نے کرکٹ شائقین کو ہلا کر رکھ دیا۔

یہ سال مجموعی طور پر پاکستان کرکٹ کے لیے مایوس کن ثابت ہوا اور ٹی20 کے علاوہ پاکستان کی بقیہ دونوں فارمیٹس میں پاکستان کی کارکردگی خاصی مایوس کن رہی۔

البتہ پاکستان میں عالمی کرکٹ کی بحالی کے حوالے سے یہ سال انتہائی شاندار ثابت ہوا اور پاکستان سپر لیگ کے فائنل کا کراچی میں انعقاد کر کے 2009 کے بعد پہلی مرتبہ شہر قائد نے انٹرنیشنل سطح کے میچ کی میزبانی کی۔

پی ایس ایل فائنل کی بدولت ہی کراچی میں عالمی کرکٹ کی واپسی کی راہ ہموار ہوئی اور ویسٹ انڈیز 9 سال میں کراچی کا دورہ کرنے والی پہلی ٹیم بنی۔

ون ڈے کرکٹ

کین ولیمسن کی زیر قیادت نیوزی لینڈ نے اپنے عمدہ کھیل اور پاکستان کی ناقص کارکردگی کی بدولت 5 میچوں کی ون ڈے سیریز میں کلین سوئپ کرتے ہوئے 0-5 سے فتح حاصل کی۔

پاکستان کے لیے سال کا آغاز کسی بڑے دھچکے سے کم نہ تھا اور نیوزی لینڈ نے ہوم گراؤنڈ کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کو چاروں شانے چت کر کے ون ڈے سیریز میں 0-5 سے زیر کیا۔

اس کے بعد پاکستان کی ٹیم ون ڈے سیریز کے لیے زمبابوے پہنچی اور اپنے سے کمزور ٹیم کے خلاف عمدہ کھیل پیش کرکے اس مرتبہ خود 0-5 سے کلین سوئپ کا کارنامہ انجام دیا۔

مذکورہ سیریز کی خاص بات فخر زمان کی عمدہ کارکردگی تھی اور اسی سیریز کے دوران انہوں نے پاکستان کی جانب سے ون ڈے کرکٹ میں پہلی ڈبل سنچری اسکور کرنے کا کارنامہ انجام دیا۔

بھارت نے روہت شرما کی زیر قیادت ایشیا کپ کے دونوں میچوں میں پاکستان کو شکست دی— فوٹو: اے ایف پی
بھارت نے روہت شرما کی زیر قیادت ایشیا کپ کے دونوں میچوں میں پاکستان کو شکست دی— فوٹو: اے ایف پی

زمبابوے کے خلاف سیریز سے پاکستان نے فتوحات اپنے نام کرکے ناقدین کا منہ تو وقتی طور پر بند کرا دیا اور ساتھ ساتھ قومی ٹیم کی خامیوں پر بھی پردہ ڈال دیا جو جوں کی توں تھی اور ایشیا کپ میں یہ خامیاں کھل کر سامنے آ گئیں۔

بلند و بانگ دعوؤں کے ساتھ ایشیا کپ میں شرکت کرنے والی پاکستانی ٹیم کے لیے یہ مہم بھی بدترین ثابت ہوئی اور وہ ہانک کانگ اور افغانستان کے سوا کسی بھی ٹیم کے خلاف کامیابی حاصل نہ کر سکی۔

ون ڈے کرکٹ میں عمدہ کھیل پیش کرنے والی بھارتی ٹیم نے اپنی برتری واضح طور پر ثابت کی اور پاکستان کا ایونٹ کے دونوں میچوں میں بدترین شکست سے دوچار کیا جبکہ بنگلہ دیش نے بھی پاکستان کو مات دے کر فائنل کی دوڑ سے باہر کردیا تھا۔

نیوزی لینڈ کے خلاف ون ڈے سیریز میں بھی ایشیا کپ کا آسیب قومی ٹیم سے چمٹا رہا جہاں اسے تین ون ڈے میچوں کی سیریز کے پہلے میچ میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا لیکن اگلے میچ میں گرین شرٹس نے عمدہ انداز میں کم بیک کرتے ہوئے سیریز برابر کردیا۔

سیریز کے فیصلہ کن میچ میں بھی پاکستان نے اچھا کھیل پیش کیا لیکن بارش کی بے جا مداخلت کے سبب یہ میچ بے نتیجہ ختم ہوا اور یہ سیریز 1-1 سے برابری پر اختتام پذیر ہوئی۔

ٹیسٹ کرکٹ

پاکستان کرکٹ بورڈ کی ناقص حکمت عملی کے سبب قومی ٹیم کو سال کے ابتدائی 4 ماہ کے دوران کوئی بھی ٹیسٹ میچ کھیلنے کا موقع نہ ملا لیکن اس کے بعد پاکستانی ٹیم ٹیسٹ اسٹیٹس حاصل کرنے والی آئرلینڈ کی ٹیم سے اس کی تاریخ کا پہلا ٹیسٹ میچ کھیلنے ان کے دیس پہنچی۔

2007 کے ورلڈ کپ میں پاکستان کو اپ سیٹ شکست دینے والی آئرلینڈ کی ٹیم اس مرتبہ بھی پاکستان کے لیے ترنوالہ ثابت نہ ہوئی اور پاکستان کے لیے اییک اور اپ سیٹ شکست کا سامان پیدا کردیا لیکن نوجوان بلے بازوں امام الحق اور بابر اعظم کی ذمے دارانہ بیٹنگ نے پاکستان کو بڑی خفت سے بچا لیا۔

میچ کے پہلے دن بارش کے باعث کوئی کھیل نہ ہو سکا اور آئرلینڈ نے ٹیسٹ کرکٹ میں اپنا پہلا ہی ٹاس جیت کر پاکستان کو مشکل وکٹ پر بیٹنگ کی دعوت دی۔

قومی ٹیم نے 310 رنز 9 کھلاڑی آؤٹ پر پہلی اننگز ڈکلیئر کردی جس کے جواب میں میزبان ٹیم پہلی اننگز میں 130رنزس پر ڈھیر ہو گئی اور پاکستان نے فالو آن کرانے کا فیصلہ کیا۔

دوسری اننگز میں کیون اوبرائن کی شاندار سنچری کی بدولت آئرش ٹیم نے بہتر بیٹنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے 339رنز بنائے اور پاکستان کو فتح کے لیے 160رنز کا ہدف دیا۔

160 جیسے کم ہدف کا تعاقب بھی پاکستان کے لیے کچھ آسان ثابت نہ ہوا اور 14رنز پر تین کھلاڑیوں کے آؤٹ ہونے کے بعد پاکستان پر تاریخ کی بدترین شکست کے سائے منڈلانے لگے لیکن امام اور بابر کی نصف سنچریوں کی قومی ٹیم کو بدترین ناکامی سے محفوظ کر لیا اور پاکستان نے میچ میں 5 وکٹ سے فتح اپنے نام کر لی۔

آئرلینڈ میں سیریز جیتنے کے بعد پاکستانی ٹیم نے دو میچوں کی سیریز کے لیے انگلینڈ میں پڑاؤ ڈالا اور محمد عباس کی شاندار باؤلنگ کی بدولت پاکستان نے لارڈز کے تاریخی میدان پر عمدہ کھیل پیش کرتے ہوئے میزبان ٹیم کو 9وکٹوں سے شکست دے دی۔

محمد عباس اور حسن علی کی 4، 4 وکٹوں کی بدولت پاکستان نے انگلینڈ کو پہلی اننگز میں 184 رنز پر ٹھکانے لگا دیا اور پھر اظہر علی، شاداب خان، بابر اعظم اور اسد شفیق کی نصف سنچریوں کی بدولت پہلی اننگز میں 363 رنز بنائے۔

پاکستان نے پہلی اننگز میں 179رنز کی برتری حاصل کی اور ایک موقع پر انگلینڈ کی ٹیم 110 رنز پر 6وکٹیں گنوا کر اننگز کی شکست کے خطرے سے دوچار تھی لیکن جوز بٹلر اور ڈومینک بیس نے سنچری شراکت قائم کر کے اپنی ٹیم کو بڑی رسوائی سے بچا لیا۔

لیکن اس کے باوجود محمد عامر اور محمد عباس کی 4، 4 وکٹوں کی بدولت میزبان ٹیم دوسری اننگز میں 242رنز ہی بنا سکی اور پاکستان کو فتح کے لیے 64رنز کا ہدف دیا جو اس نے ایک وکٹ کے نقصان پر حاصل کر لیا۔

سیریز میں 0-1 کی برتری کے ساتھ پاکستانی ٹیم دوسرے میچ کے لیے لیڈز پہنچی تو پہلے میچ میں عمدہ کارکردگی دکھانے والی ٹیم دوسرے میچ میں بدترین ناکامی سے دوچار ہوئی۔

پاکستان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا جو بالکل غلط ثابت ہوا اور پوری ٹیم 174 رنز بنا کر ڈھیر ہو گئی جس کے جواب میں جوز بٹلر سمیت دیگر بلے بازوں کی شاندار کارکردگی کی بدولت 363رنز بنائے۔

پاکستانی ٹیم 189 رنز کے خسارے میں جانے کے بعد دوسری اننگز کے لیے میدان میں اتری تو ایک اور تباہی اس کی منتظر تھی اور پوری ٹیم پہلی اننگز سے کم تر اسکور پر ڈھیر ہو کر 134رنز پر پویلین لوٹ گئی اور انگلینڈ نے میچ میں اننگز اور 55رنز سے فتح حاصل کر کے سیریز 1-1 سے برابر کردی۔

ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کا اگلا امتحان آسٹریلیا سے متحدہ عرب امارات میں ہوم سیریز تھی جس میں قومی ٹیم فیورٹ کی حیثیت سے میدان میں اتری۔

پاکستان نے محمد حفیظ اور حارث سہیل کی سنچری کی بدولت 482رنز بنائے جس کے جواب میں محمد عباس اور بلال آصف کی عمدہ باؤلنگ کے سامنے پوری آسٹریلین ٹیم اوپنرز کے اچھے آغاز کے باوجود 202 رنز پر ڈھیر ہو گئی۔

281 رنز کی برتری کے بعد پاکستان نے دوسری اننگز 181 رنز 6 کھلاڑی آؤٹ پر ڈکلیئر کردی اور آسٹریلیا کو 462رنز کا ہدف دیا۔

ایک بڑے ہدف کے تعاقب میں آسٹریلیا کو میچ بچانے کے لیے تقریباً 140اوورز تک بیٹنگ کرنے کا چیلنج درپیش تھا لیکن عثمان خواجہ نے ناممکن کو ممکن بناتے ہوئے 141رنز کی اننگز کھیل کر پاکستان کو یقینی فتح سے محروم کر کے میچ کو ڈرا کردیا۔

ابوظہبی میں کھیلے گئے دوسرے ٹیسٹ میچ کی پہلی اننگز میں پاکستانی ٹیم 57رنز پر 5وکٹیں گنوا کر مشکلات سے دوچار ہے لیکن اس موقع پر کپتان سرفراز احمد اور فخر زمان کی 94، 94 رنز کی اننگز کھیل کر پاکستان نے پہلی اننگز میں 282رنز بنائے۔

جواب میں آسٹریلین بیٹنگ لائن بھی محمد عباس کے سامنے بے بس نظر آئی اور پوری ٹیم 145 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی اور پاکستان نے 137رنز کی برتری حاصل کی۔

پاکستان نے دوسری اننگز میں بھی فخر زمان، بابر اعظم اور سرفراز احمد کی نصف سنچری کی بدولت 400رنز 9 کھلاڑی آؤٹ پر اننگز ڈکلیئر کردی اور آسٹریلیا کو فتح کے لیے 538رنز کا ہدف دیا۔

محمد عباس کی دوسری اننگز میں بھی 5 وکٹوں کی بدولت پاکستان نے آسٹریلیا کو 164رنز پر ڈھیر کردیا اور آسٹریلیا کو 373رنز سے شکست دیتے ہوئے سیریز 0-1 سے اپنے نام کر لی۔

آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں فتح کے بعد قومی ٹیم کا ٹرافی کے ہمراہ گروپ فوٹو— فوٹو: اے پی
آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں فتح کے بعد قومی ٹیم کا ٹرافی کے ہمراہ گروپ فوٹو— فوٹو: اے پی

محمد عباس کو میچ میں 10وکٹیں لینے پر میچ کے ساتھ ساتھ سیریز کا بھی بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔

اس کے فوراً بعد متحدہ عرب امارات میں ہی پاکستان کا مقابلہ کرنے نیوزی لینڈ کی ٹیم پہنچی جس نے میزبان ٹیم کی غیر ذمے دارانہ بیٹنگ کی بدولت پہلا میچ 4رنز سے جیت کر سیریز میں برتری حاصل کی۔

دوسرے ٹیسٹ میچ میں یاسر شاہ کی 14وکٹوں کی شاندار کارکردگی کی بدولت پاکستان نے نیوزی لینڈ کو یکطرفہ مقابلے کے بعد اننگز اور 16رنز سے مات دے کر سیریز برابر کردی۔

دونوں ٹیمیں فیصلہ کن ٹیسٹ میچ کے لیے ابوظہبی پہنچیں تو باؤلرز کے عمدہ کھیل کے باوجود ایک مرتبہ پھر بیٹنگ لائن نے دغا دے دیا اور نیوزی لینڈ نے میچ میں 123رنز سے فتح سمیٹ کر سیریز 1-2 سے جیتنے کا اعزاز حاصل کر لیا۔

اس ٹیسٹ سیریز کے اختتام کے ساتھ ہی تجربہ کار آل راؤنڈر محمد حفیظ کا ٹیسٹ کیریئر بھی اختتام کو پہنچا جنہوں نے مستقل ناقص کارکردگی پر کھیل کے سب سے بڑے فارمیٹ سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا اعلان کردیا۔

پاکستان کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں فتح کے بعد نیوزی لینڈ کی ٹیم کا گروپ فوٹو— فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں فتح کے بعد نیوزی لینڈ کی ٹیم کا گروپ فوٹو— فوٹو: اے ایف پی

کھیل کے بقیہ دونوں فارمیٹس سے قطع نظر ٹی20 کرکٹ میں پاکستان نے اس سال بھی شاندار کھیل پیش کرتے ہوئے کوئی بھی سیریز ہارے بغیر سرفراز احمد کی زیر قیادت ٹی20 سیریز نہ ہارنے کا ریکارڈ برقرار رکھا۔

نیوزی لینڈ سے ون ڈے سیریز ہارنے کے بعد پاکستان کو پہلے ٹی20 میچ میں بھی شکست ہوئی لیکن اس کے بعد سیریز میں عمدہ کم بیک کرتے ہوئے آکلینڈ اور ماؤنٹ ماؤنگاؤنی میں میچ جیت کر سیریز 1-2 سے اپنے نام کر لی۔

اس سے اگلی سیریز پاکستان کرکٹ کے لیے کسی بڑی کامیابی سے کم نہ تھی اور ویسٹ انڈیز نے کراچی میں تین ون ڈے میچوں کے لیے پاکستان آنے پر رضامندی ظاہر کر کے ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کی جانب ایک اور قدم بڑھایا۔

ملک میں سیکیورٹی وجوہات کے ویسٹ انڈیز کے بیشتر اسٹارز میچ کھیلنے کے لیے پاکستان نہیں آئے لیکن اس کے باوجود ویسٹ انڈیز کے چند اسٹارز نے انٹرنیشنل ٹی20 سیریز کے لیے کراچی آ کر شہر قائد عالمی کرٹ کے انعقاد کی راہیں کھول دیں۔

پاکستان نے ویسٹ انڈیز کو تینوں ٹی20 میچوں میں باآسانی شکست دے کر سیریز 0-3 سے اپنے نام کر لی اور کراچی کے باسیوں کو انٹرنیشنل کرکٹ سے لطف اندوز کیا۔

اس کے بعد پاکستانی ٹیم دو ٹی20 میچوں کی سیریز کھیلنے اسکاٹ لینڈ پہنچی اور ایک مرتبہ پھر عمدہ کھیل پیش کرتے ہوئے سیریز میں 0-2 سے کلین سوئپ کر لیا۔

پاکستان نے سہ ملکی سیریز کے فائنل میں آسٹریلیا کو شکست دی— فوٹو: اے ایف پی
پاکستان نے سہ ملکی سیریز کے فائنل میں آسٹریلیا کو شکست دی— فوٹو: اے ایف پی

کھیل کے سب سے چھوٹے فارمیٹ میں پاکستان کی اگلی منزل زمبابوے تھی جہاں اس کا سہ ملکی سیریز میں میزبان ٹیم کے ساتھ ساتھ آسٹریلیا سے بھی مقابلہ تھا۔

پاکستان نے اس سیریز میں بھی بہترین کھیل پیش کرتے ہوئے سوائے ایک میچ کے تمام مقابلوں میں فتح سمیٹی اور سہ ملکی سیریز کے فائنل میں آسٹریلیا کو شکست دے کر چیمپیئن بننے کا اعزاز حاصل کیا۔

ٹی ٹوئنٹی کرکٹ

اس کے بعد پاکستانی ٹیم آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے متحدہ عرب امارات میں مدمقابل آئیں اور دونوں ہی سیریز میں ایک مرتبہ پھر بہترین کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے فتوحات سمیٹیں۔

پاکستان نے آسٹریلیا کے خلاف 0-3 سے کلین سوئپ کرے کے بعد نیوزی لینڈ کو بھی تینوں میچوں میں زیر کیا۔

پاکستان کے کپتان سرفراز احمد سیریز جیتنے کے محمد حفیظ کے بغل گیر ہیں— فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کے کپتان سرفراز احمد سیریز جیتنے کے محمد حفیظ کے بغل گیر ہیں— فوٹو: اے ایف پی

پاکستان نے 2018 میں مجموعی طور پر 19 ٹی20 میچ کھیلتے ہوئے 17 میں کامیابی حاصل کی جبکہ اسے صرف 2 میچوں میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔

پاکستان سپر لیگ

پاکستان سپر لیگ(پی ایس ایل) کا تیسرا ایڈیشن گزشتہ بقیہ ایڈیشنز کی نسبت کامیاب اور ہر لحاظ سے بڑا ثابت ہوا اور پاکستان نے انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کی جانب ایک اور قدم بڑھتے ہوئے لیگ کے تین میچز کا پاکستان میں انعقاد کیا۔

لیگ کا تیسرا ایڈیشن اس لحاظ سے بھی یادگار تھا کہ پہلی مرتبہ پاکستان سپر لیگ میں پانچ کی جگہ چھ ٹیموں نے شرکت کی اور ملتان سلطانز کی ٹیم کا اضافہ ہوا اور اس نے ایونٹ کا بہترین انداز میں آغاز کرتے ہوئے ابتدا میں متعدد فتوحات سمیٹیں۔

البتہ ان کی فتوحات کا تسلسل زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا اور پھر ایک ایسا موقع آیا کہ وہ ایونٹ میں فتوحات کے لیے ترس گئے اور اپنے پہلے ہی ایڈیشن میں کوالیفائرز کے لیے بھی کوالیفائی نہ کر سکے۔

لاہور قلندرز اور کراچی کنگز کی ٹیمیں لگاتار تیسرے ایڈیشن میں ناکامی سے دوچار ہوئیں اور بڑے ناموں کی موجودگی کے باوجود بھی دونوں ٹیموں کی قسمت گزشتہ سیزن سے بدل نہ سکیں۔

پی ایس ایل کے ابتدائی دونوں ایڈیشنز کے فائنل کے لیے کوالیفائی کرنے والی فرنچائز کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اس مرتبہ اس معیار کی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکیں جس کی ان سے توقع کی جا رہی تھی اور وہ فائنل میں جگہ بنانے میں ناکام رہی۔

البتہ پشاور زلمی اور خصوصا اسلام آباد یونائیٹڈ نے ایونٹ میں بہترین کھیل پیش کرتے ہوئے دیگر ٹیموں پر اپنی سبقت ثابت کی اور ایونٹ کے فائنل کے لیے کوالیفائی کیا۔

لیکن اس سب سے بڑھ کر تیسرے سیزن کی سب سے بڑی بات لیگ کے تین میچز کا پاکستان میں انعقاد تھا جہاں زندہ دلان لاہور نے دو کوالیفائرز کی میزبانی کی اور پھر کراچی کو پہلی مرتبہ پاکستان سپر لیگ کے فائنل کی میزبانی کا اعزاز حاصل ہوا۔

کراچی میں منعقدہ فائنل میں اسلام آباد یونائیٹڈ نے اپنی فتوحات کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے کپتان مصباح الحق کی عدم موجودگی میں بھی بہترین کھیل پیش کیا اور فتح حاصل کر کے دوسری مرتبہ لیگ کی چیمپیئن بننے کا کارنامہ انجام دیا۔

البتہ سال کے اختتام سے قبل لیگ کو بڑا دھچکا لگا اور مالی معاملات کے سبب ملتان سلطانز کی ٹیم کی ملکیت واپس پاکستان کرکٹ بورڈ کو منتقل ہو گئی اور اب فرنچائز کی نیلامی کر کے اسے نئے مالک کے سپرد کیا جائے گا۔

پاکستان کرکٹ بورڈ میں قیادت کی تبدیلی

پاکستان میں اقتدار کی تبدیلی اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آنے کے ساتھ ہی پاکستان کرکٹ بورڈ میں بھی تبدیلی واقع ہوئی اور سابق چیئرمین نجم سیٹھی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

وزیر اعظم پاکستان نے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل(آئی سی سی) کے سابق صدر احسان مانی کو بورڈ کے چیئرمین کے عہدے کے لیے نامزد کیا جو گورننگ بورڈ کے اجلاس میں بلامقابلہ چیئرمین منتخب ہو گئے۔

احسان مانی پاکستان کرکٹ بورڈ کے نئے چیئرمین منتخب ہوئے— فوٹو: اے ایف پی
احسان مانی پاکستان کرکٹ بورڈ کے نئے چیئرمین منتخب ہوئے— فوٹو: اے ایف پی

چیئرمین پی سی بی نے آتے ہی بورڈ اور خصوصاً پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ میں تبدیلیوں کا عندیہ دیتے ہوئے اسے جدید خطوط پر استوار کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔

احسانی مانی نے پاکستان کرکٹ ٹیم کے ساتھ ساتھ ڈومیسٹک کرکٹ میں بہتری کے لیے محسن حسن خان کی زیر سربراہی ایک کرکٹ کمیٹی تشکیل دی جس میں وسیم اکرم، مصباح الحق اور عروج ممتاز جیسے سابق کپتان شامل ہیں اور امید ہے کہ یہ کمیٹی مستقبل میں پاکستان کرکٹ کی بہتری کے لیے پالیسیاں مرتب کرنے میں کامیاب رہے گی۔

حرفِ آخر

مجموعی طور پر یہ سال پاکستان کرکٹ کے لیے زیادہ اچھا ثابت نہیں ہوا اور ٹی20 کرکٹ کے علاوہ کھیل کے بقیہ دونوں فارمیٹس میں اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا خصوصاً بیٹنگ لائن کی ناکامی قومی ٹیم کے لیے درد سر بنی ہوئی ہے۔

تاہم اگلا سال پاکستان کرکٹ کے لیے اس لحاظ سے مزید خوش آئند ہے کہ پاکستان سپر لیگ کے چوتھے ایڈیشن کے 8 میچوں کی میزبانی کراچی اور لاہور کریں گے جس سے ملک میں عالمی کرکٹ کی مستقل واپسی کے امکانات مزید روشن ہو جائیں گے خصوصاً ایونٹ میں مزید بڑے اسٹارز کی موجودگی اس امر کو مزید تقویت فراہم کرتی ہے۔

البتہ اگلا سال پاکستان سمیت دنیا بھر کی ٹیموں کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ 2019 میں انگلینڈ میں ون ڈے کرکٹ کا ورلڈ کپ کھیلا جائے جس میں آسٹریلیا کی ٹیم اپنے اعزاز کا دفاع کرے گی۔

بیٹنگ آرڈر میں مشکلات سے دوچار پاکستانی ٹیم کے لیے ورلڈ کپ میں اچھی کارکردگی کسی چیلنج سے کم نہیں ہو گی لیکن امید ہے کہ انگلینڈ کی سرزمین پر چیمپیئنز ٹرافی جیتنے والی پاکستانی ٹیم ایک مرتبہ پھر بہترین کھیل پیش کرتے ہوئے انگلش سرزمین پر کامیابی سمیٹتے ہوئے دوسری مرتبہ عالمی چیمپیئن بننے کا اعزاز حاصل کرے گی۔

اس وقت پاکستانی ٹیم جنوبی افریقہ میں موجود ہے اور 26دسمبر سے میزبان ٹیم کے خلاف پہلا ٹیسٹ کھیل کر سیریز کا آغاز کرے گی اور ہمیں امید ہے کہ پاکستانی ٹیم جنوبی افریقہ کی مشکل کنڈیشنز میں بہترین کھیل پیش کر کے ناصرف رواں سال کا بہترین انداز میں اختتام کرے گی بلکہ اگلے سال بھی عمدہ کھیل پیش کرتے ہوئے ورلڈ کپ جیت کر عالمی چیمپیئن کا تاج سر پر سجائے گی۔

لکھاری ڈان ڈاٹ کام کے اسٹاف ممبر ہیں، ان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ UsamaSaiyed ہے۔