چیف جسٹس کے الوداعی 'فل کورٹ ریفرنسز': کبھی یادگار، کبھی متنازع

پاکستان میں سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس کے اعزاز میں 'فل کورٹ ریفرنس' کی روایت پرانی ہے جس میں ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس کی عدلیہ کے لیے خدمات پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔

لیکن سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دور سے اب تک کے فل کورٹ ریفرنسز پر نظر دوڑائی جائے تو ان میں چند چیف جسٹس کی رخصتی یادگار نظر نہیں آتی۔

کوئی فل کورٹ ریفرنس وکلا کے احتجاج اور بائیکاٹ کے باعث متنازع بنا تو کسی میں سپریم کورٹ کے جج ہی غیر حاضر رہے۔

جسٹس افتخار محمد چوہدری

— فائل فوٹو
— فائل فوٹو

11 دسمبر 2013 کو افتخار محمد چوہدری نے اپنے اعزاز میں منعقدہ 'فل کورٹ ریفرنس' سے خطاب کے دوران کہا کہ 'بحالی کے بعد عدلیہ نے خوب کارکردگی دکھائی۔'

نامزد چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے اپنے خطاب میں کہا کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی کارکردگی قابل تحسین رہی۔

جسٹس ناصر الملک کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس مضبوط اعصاب کے مالک ہیں اور وہ قائدانہ صلاحیتیں اور وژن رکھتے ہیں۔

جسٹس ثاقب نثار نے چیف جسٹس کو سپریم کورٹ کا ٹنڈولکر قرار دیا، ان کا کہنا تھا چیف جسٹس نے اپنی اننگز بہت بہترین کھیلی

تاہم افتخار محمد چوہدری کے اعزاز میں 'فل کورٹ ریفرنس' دیگر الوداعی تقریبات سے مختلف تھا کیونکہ اس میں صحافیوں کی جانب سے احتجاج دیکھنے میں آیا۔

کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والے اس احتجاج سے اس بات اظہار کیا گیا کہ چیف جسٹس افتخار چوہدری کے الوداعی عشایہ سے انہیں خوشی کے بجائے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

عام طور پر سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت میں ٹی وی کیمروں کو لے جانے کی اجازت نہیں ہوتی، لیکن ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس افتخار چوہدری کے اعزاز میں منعقدہ فل کورٹ ریفرنس کے دوران ایک ٹی وی چینل کا کیمرہ سپریم کورٹ کی گیلری میں دیکھا گیا، جس کی مدد سے اس تقریب کی مکمل فلمبندی کی گئی۔

جسٹس تصدق حسین جیلانی

— فائل فوٹو
— فائل فوٹو

5 جولائی 2014 کو سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کے اعزاز میں 'فل کورٹ ریفرنس' منعقد کیا گیا، جس میں اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ، پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین محمد رمضان چوہدری اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کامران مرتضٰی نے ان کی خدمات کو سراہا۔

تصدق حسین جیلانی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 'صرف قوانین اور فیصلوں کا نفاذ ہی برداشت اور اعتماد کے رویوں کو فروغ دے سکتا ہے۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'ایک ایسا معاشرہ جو تعلیم کے خسارے سے دوچار ہے، جو ایمان کی کمزوری میں مبتلا ہے، جسے نسل پرستی نے اپنا شکار بنایا ہوا ہے، فرقہ واریت نے جسے تقسیم کر رکھا ہے اور جو دہشت گردی سے مقابلہ کررہا ہے، ایسے معاشرے میں اعلیٰ عدالت ناصرف آئینی اقدار کا نفاذ کرسکتی ہے، بلکہ بطور ایک تعلیمی ادارے کے بھی اپنا کردار ادا کرسکتی ہے۔'

انہوں نے کہا کہ 'پاکستان جیسے ایک پیچیدہ ملک میں سپریم کورٹ کے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ وہ محض قانون کا نفاذ کرے، بلکہ کسی حد تک یہ ضروری ہے کہ وہ آئینی اقدار کے چیلنجوں کا جرأت مندی کے ساتھ سامنا کرے اور اس کے لیے پہل ظاہر کرے۔'

جسٹس ناصرالملک

— فائل فوٹو
— فائل فوٹو

ملک کے اگلے چیف جسٹس ناصرالملک 16 اگست 2015 کو اپنے عہدے سے ریٹائر ہوئے، جس سے تین روز قبل یعنی 13 اگست کو ان کے اعزاز میں بھی 'فل کورٹ ریفرنس' کا انعقاد کیا گیا۔

ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جمہوریت اور بہتر طرز حکمرانی کے لیے عدلیہ نے ہمیشہ آئین کا تحفظ اور دفاع کیا ہے اور آئندہ بھی ماورائے آئین کسی بھی کام کی صورت میں آئین کا تحفظ کرنے کیلئے پرعزم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ عوام کے حقوق کا تحفظ جاری رکھے گی جبکہ عدلیہ آئین شکنی کی کوشش کرنے والے کو روکتی رہے گی۔

فل کورٹ ریفرنس میں ججز نے چیف جسٹس کی عدالتی خدمات کو سراہا اور انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس ناصر الملک نے پیشہ ورانہ زندگی میں انصاف کی فراہمی کے لیے موثر کردار ادا کیا ہے جو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

جسٹس جواد ایس خواجہ

— فائل فوٹو
— فائل فوٹو

چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس 9 ستمبر 2015 کو منعقد ہوا جس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ بدقسمتی سے ملک میں سائلین کو فوری اور سستا انصاف نہیں مل رہا۔

ان کا کہنا تھا کہ کمزور نظام کے نتیجے میں احتساب کی روایت کمزور سے کمزور تر ہوتی جارہی ہے، جبکہ بعض وکلا کے منفی کردار کا منہ بولتا ثبوت روز افزوں ہڑتالوں کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔

تاہم یہ ریفرنس یادگار ثابت نہ ہوسکا کیونکہ اظہار وجوہ کے نوٹس میں بیرسٹر علی ظفر ایڈووکیٹ کے دلائل کے دوران سینئر قانون دانوں کے ساتھ چیف جسٹس سمیت عدالت کے نامناسب رویے پر پاکستان بار کونسل نے جواد ایس خواجہ کی ریٹائرمنٹ پر ان کے اعزاز میں دیئے جانے والے فل کورٹ ریفرنس اورعشائیے کے بائیکاٹ اور انہیں خود بھی عشائیہ نہ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔

جسٹس انور ظہیر جمالی

— فائل فوٹو
— فائل فوٹو

15 دسمبر 2016 کو سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کے اعزاز میں 'فل کورٹ ریفرنس' سپریم کورٹ میں ہوا۔

ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انور ظہیر جمالی نے کہا کہ 'آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے لیے ادارے مضبوط ہونا ضروری ہیں، جبکہ میں نے حکومتی اداروں میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی ہرممکن کوشش کی۔'

چیف جسٹس انورظہیر جمالی کے اعزاز میں ہونے والے فل کورٹ ریفرنس میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اورپاکستان بار کے وائس چیئرمین کے علاوہ اس وقت کے اٹارنی جنرل فار پاکستان اور نامزد چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

جسٹس میاں ثاقب نثار

— فائل فوٹو
— فائل فوٹو

سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کے اعزاز میں سپریم کورٹ میں فل کورٹ ریفرنس کا 17 جنوری 2019 کو انعقاد ہوا۔

لیکن یہ ریفرنس میں زیادہ یادگار ثابت نہ ہو سکا کیونکہ اس میں سپریم کورٹ کے 17 کے بجائے 16 ججز نے شرکت کی جبکہ چیف جسٹس کے ایک حکم سے اختلاف کرتے ہوئے نوٹ تحریر کرنے والے جسٹس منصور علی شاہ ریفرنس کی کارروائی سے غیر حاضر رہے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 'فوج اور حساس اداروں کا سویلین معاملات میں کوئی دخل نہیں ہونا چاہیے۔'

انہوں نے سوال کیا کہ 'عدلیہ نے کہاں دوسرے اداروں کے اختیارات میں مداخلت کی، مقننہ کا کام صرف قانون سازی ہے ترقیاتی فنڈز دینا نہیں اور نہ ہی کسی کا ٹرانسفر یا پوسٹنگ کرنا ہے۔'

اس موقع پر نامزد چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ از خود نوٹس کا اختیار بہت کم استعمال کیا جائے گا۔

انہوں نے سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بہت مشکل حالات میں عدالت چلائی اور سیاسی، سماجی، معاشرتی اور آئینی مشکلات سمیت کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی انسانی حقوق کے حوالے سے خدمات یاد رکھی جائیں گی۔