لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔
لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔

کفایت شعاری کی لہر ہم تک آن پہنچی ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام ملنے کے قریب ہے اس لیے اب کٹوتیاں مزید گہری ہوتی جائیں گی۔ قرضے کی اقساط اور دفاعی اخراجات کو چھوڑ کر تمام تر حکومتی اخراجات کو ایک دھچکا پہنچنے والا ہے۔

قرضوں کی اقساط میں تبدیلی نہیں آئی گی کیونکہ اس حوالے سے پاکستان بین الاقوامی شرائط کا پابند ہے اور جب تک قرضہ دینے والے خود اقساط کی ادائیگی مؤخر نہیں کردیتے یا پھر نئی شرائط عائد نہیں کرتے تب تک ہمیں ہر صورت میں ان کا قرضہ چکاتے رہنا ہوگا۔

دفاعی اسٹیبلشمنٹ سویلین حکومتوں کو اپنے شعبے میں کسی قسم کی کٹوتی نہیں کرنے دے گی، حالانکہ ان کے اضافوں کو محدود کرنے کے حوالے سے ہمیشہ سوال اٹھایا جاتا ہے۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کو اطلاع دے دی گئی کہ اعلیٰ تعلیم کے شعبے کے بجٹ میں کٹوتی کی جائے گی، جس کی خبریں اب میڈیا میں بھی آچکی ہیں۔ اب ایچ ای سی جتنی مانگ کرنا چاہے گی اس کے مقابلے میں 10 سے 15 فیصد کے قریب ری کرنٹ اخراجات میں کٹوتی جبکہ ترقیاتی اخراجات میں 50 فیصد تک غیر معمولی کٹوتی ہوسکتی ہے۔ بہرحال، کتنی کٹوتی ہونی ہے اس کا اندازہ تو بجٹ کو آخری شکل دیے جانے کے بعد ہی ہوسکے گا۔

اگر لوگ کٹوتیوں کو کم سے کم رکھنے کے لیے ایچ ای سی کی حمایت کرتے ہیں تو اس کے لیے کسی حد تک حمایت کا مظاہرہ کرنا بھی ہوگا، لیکن اس کے باوجود یہ یاد رہے کہ کٹوتیوں کو مکمل طور پر روکنا ممکن نہیں ہوگا۔

10 سے 15 فیصد ری کرنٹ اخراجات میں کمی کا مطلب یہ ہے کہ سرکاری یورنیورسٹیوں میں جو اس وقت پروگرام چل رہے ہیں ان میں کمی دیکھنے کو ملے گی۔ جبکہ ترقیاتی اخراجات میں 50 فیصد کٹوتی کا مطلب یہ ہوگا کہ کم و بیش تمام نئے پروگرامز کو مؤخر یا پھر انہیں منسوخ کرنا پڑجائے گا۔ جو رقم ترقیاتی اخراجات کے لیے دی جائے گی اس سے زیادہ رقم تو موجودہ پروگرامز کے کام کو آگے تک جاری رکھنے کے لیے درکار ہوگی۔ لہٰذا نئی اسکیموں کے لیے کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہے گی۔

حال ہی میں اعلان کردہ نئے منصوبوں کو یا تو مؤخر کرنا پڑے گا یا پھر منسوخ۔ ان منصوبوں میں حیدرآباد میں یونیورسٹی اور وزیرِاعظم ہاؤس میں جدید اور اعلیٰ تعلیم کے مرکز کا قیام شامل ہیں۔ اسی طرح، موجودہ یونیورسٹیوں میں توسیع کے منصوبے اور اعلیٰ تعلیم کی سہولیات سے محروم اضلاع میں نئی جامعات کے قیام کے وعدوں کو بھی ایک طرف رکھ دیا جائے گا۔

کٹوتیاں اس قدر زیادہ ہوسکتی ہیں کہ چند زیرِ تکمیل ترقیاتی منصوبوں کو بند کرنا پڑسکتا ہے۔ اگر یونیورسٹیوں نے گزشتہ یا اس سے ایک برس قبل ایک سے زائد برسوں پر محیط منصوبوں کا آغاز کیا ہو اور ان کے لیے مالی امداد اگلے چند برسوں میں آنی ہو، تو ایسے منصوبوں کو دباؤ کا سامنا ہوسکتا ہے اور یونیورسٹیوں کو اب یا تو ان منصوبوں کے لیے وسائل حاصل کرنے کی خاطر دیگر ذرائع تلاش کرنے ہوں گے یا پھر ان میں سے چند منصوبوں کو ترک کرنا ہوگا۔

تاہم ری کرنٹ بجٹ میں کٹوتیاں زیادہ مشکلات کا باعث بنیں گی۔ تعلیمی شعبے میں زیادہ تر ری کرنٹ بجٹ کا تعلق تنخواہوں سے ہوتا ہے۔ اگر ایچ ای سی بجٹ میں 10 سے 15 فیصد تک کٹوتی کی جاتی ہے تو پھر یونیورسٹیاں کس طرح اپنی ضروریات پوری کر پائیں گی؟

زیادہ تر سرکاری یونیورسٹیاں سبسڈی کے ساتھ تعلیم فراہم کرتی ہیں: تعلیم کی فراہمی میں زیادہ لاگت آتی ہے اور ٹیوشن فیسیں یہ خرچہ پورا نہیں کرپاتی ہیں، یعنی اس اضافی اور بقیہ خرچے کا بوجھ ایچ ای سی ہی اٹھاتی ہے۔ لیکن اگر ایچ ای سی سے ملنے والی رقم میں کمی ہوتی ہے تو کیا یونیورسٹیاں اخراجات کو پورا کرنے کے لیے اپنی فیسوں میں اضافہ کرسکتی ہیں؟ یہ اقدام اعلیٰ تعلیم کی راہ میں رکاوٹ جیسے نتائج برآمد کرسکتا ہے۔

پاکستان میں اس وقت طلبا کی بہت محدود تعداد یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم ہے، ایسی صورت میں اگر فیسوں میں اضافہ ہوتا ہے تو یہ تعداد مزید کم تر ہوجائے گی اور فیسوں میں اس اضافے سے ناگزیر طور پر غریب طلبہ کو دھچکا پہنچے گا۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت، جس نے نوجوانوں کے لیے مواقع میں اضافے کے کئی وعدے کیے تھے اور جو پاکستان کی آبادی میں شامل نوجوانوں کے لیے تعلیم و روزگار کے ذریعے فی کس آمدن اور معیشت میں بہتری لانے (demographic dividend) پر زور دیتی ہے، کیا وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے فنڈنگ میں کٹوتی کو برداشت کرسکتی ہے اور خود کو فیسوں میں اضافے کی وجہ سے نوجوانوں میں پیدا ہونے والی بے چینی کا باعث بننے دے سکتی ہے؟

یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اگر یونیورسٹیوں کو 10 سے 15 فیصد ری کرنٹ اخراجات اور اپنے ترقیاتی اخراجات کے کچھ حصے کو پورا کرنے کے لیے فیسوں میں اضافہ کرنا پڑجاتا ہے تو ایسے میں یہ اضافہ اچھا خاصا ہوگا۔ چند جگہوں پر یہ اضافے 50 سے 100 فیصد تک بھی کرنے پڑسکتے ہیں اور پھر بھی یہ ناکافی ثابت ہوں گے۔

کیا حکومت ایسی صورتحال کو برداشت کرسکتی ہے؟ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ کہ آیا پیسہ حاصل کرنے کی خاطر حکومت کو یونیورسٹیوں پر فیس بڑھانے کے لیے زور ڈالنا چاہیے یا پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے جاری کی جانے والی رقم میں ایسی زبردست کٹوتی کی اجازت نہیں دینی چاہیے؟

کیا یونیورسٹیاں دیگر ذرائع سے مالی ضروریات کو پورا کرسکتی ہیں؟ عام طور پر یونیورسٹیاں فیس یا حکومت سے ملنے والی رقوم کے ذریعے پوری طرح اپنے اخراجات پورے نہیں کرسکتی ہیں۔ ان کے پاس عام طور پر المنائی (سابق طلبا)، فلاح انسانی کے لیے کام کرنے والے افراد اور دیگر دلچسپی رکھنے والے فریقین کی جانب سے حاصل ہونے والے عطیات پر مشتمل انڈوومنٹ فنڈز ہوتے ہیں جن سے ایک حد تک اخراجات کو پورا کیا جاتا ہے۔

انڈوومنٹ فنڈ کو سرمایہ کاری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تاکہ ایک باقاعدگی سے حاصل ہونے والی آمدن کا سلسلہ بن سکے جس کی مدد سے ری کرنٹ اخراجات کو پورا کرنا ممکن ہوسکے۔ اس کے علاوہ خصوصی فنڈز کو بھی قائم کیا جاتا ہے تاکہ کسی حد تک سرمایہ اور ترقیاتی اخراجات (جیسے عمارت کے لیے عطیات وغیرہ) کا خیال رکھا جاسکے۔

پاکستان میں اس وقت طلبا کی بہت محدود تعداد یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم ہے، ایسی صورت میں اگر فیسوں میں اضافہ ہوتا ہے تو یہ تعداد مزید کم تر ہوجائے گی اور فیسوں میں اس اضافے سے ناگزیر طور پر غریب طلبہ کو دھچکا پہنچے گا۔

پاکستان میں ایک یا 2 سرکاری یونیورسٹیوں کو چھوڑ کر زیادہ تر جامعات نے کبھی بھی عطیات اکٹھا کرنے کے عمل کو سنجیدگی سے نہیں لیا ہے۔ آئی بی اے کا نیا کیمپس ممکنات کی ایک دلچسپ جھلک پیش کرتا ہے، لیکن یہ ادارہ سرکاری یونیورسٹیوں میں ایک الگ حیثیت رکھتا ہے۔

چند ہفتے قبل جب اعلیٰ تعلیم کی فنڈنگ میں کٹوتی کی خبر شائع ہوئی تب اخبارات میں یہ بھی لکھا گیا تھا کہ یونیورسٹیوں کو ’خیرات‘ کا حجم بڑھانے کا مشورہ دیا گیا ہے تاکہ وہ مالی کمی کو پورا کرسکیں۔ لہٰذا اگر المنائی اور/یا فلاح انسانی کے لیے کام کرنے والوں کے ذریعے مالی ضروریات کو پورا کرنے کے بارے میں سوچا جا رہا ہے تو سرکاری یونیورسٹیوں کو کچھ خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہونے والی۔ فنڈنگ کے ذرائع اور مواقع کے بارے میں ذہنیت کو تبدیل کرنا ہی ہوگا۔

اگر یونیورسٹیاں ذہنیت کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں اور نجی سطح پر مالی معاونت حاصل کرنے کے کام پر لگ جاتی ہیں تب بھی مطلوبہ مقاصد تھوڑے وقت میں حاصل کرنے ممکن نہیں۔ فنڈنگ مہمات کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں کئی کئی سال لگ جاتے ہیں، جبکہ پاکستان میں فلاح انسانی کے نام پر تعلیمی شعبے میں عطیات دینے کا رجحان کچھ زیادہ نہیں پایا جاتا۔ لہٰذا یہ قلیل مدتی حل نہیں ہے۔

اگر فنڈنگ میں ہر صورت کٹوتیاں ہوئیں تو اس طرح یونیورسٹیوں اور ان طلبہ کے لیے دشواریاں پیدا ہوجائیں گی جو کم فیس والے پروگرامز پر منحصر ہیں۔ سرکاری یونیورسٹیاں تھوڑے وقت میں متبادل مالی ذرائع پیدا نہیں کرسکتی ہیں، لہٰذا انہیں اپنے پروگرامز کو محدود کرنا ہوگا اور/یا ٹیوشن فیس میں اضافہ کرنا پڑے گا، جس کی ملک کے نوجوانوں اور حکمران جماعت کو بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ اعلیٰ تعلیم کی فنڈنگ میں کٹوتی پر باضابطہ طور پر عمل کروانے سے قبل بہتر ہوگا کہ پی ٹی آئی حکومت یہ یقینی بنالے گہ اس کی ترجیحات کیا ہیں؟


یہ مضمون 3 مئی 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں