Dawnnews Television Logo

'ہو شربا انکشافات' سامنے لانے والی مہم کے دو سال مکمل ہونے پر کیا ہوا؟

میڈیا، شوبز سے تعلق رکھنے والی معروف شخصیات اور ماہر نفسیات نے مہم کے اثرات پر بات چیت کی۔
اپ ڈیٹ 18 اکتوبر 2019 07:05am

دو سال قبل اکتوبر 2017 میں ہولی وڈ کے نامور پروڈیوسر ہاروی وائنسٹن کے خلاف تقریباً 18 اداکاراؤں و خواتین نے جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا تھا جبکہ 5 اداکاراؤں نے ان پر ’ریپ‘ کے الزامات بھی لگائے۔

ہاروی وائنسٹن کے خلاف جنسی طور پر ہراساں کرنے اور ’ریپ‘ جیسے سنگین الزامات لگانے والی اداکاراؤں، ماڈلز، گلوکاراؤں، فیشن ڈیزائنرز اور صحافیوں میں انجلینا جولی، ایشلے جڈ، جیسیکا بارتھ، کیتھرین کنڈیل، گوینتھ پالٹرو، ہیدر گراہم، روسانا آرکوئٹے، امبرا بٹیلانا، زوئے بروک، ایما دی کانس، کارا دیلوگنے، لوشیا ایونز، رومولا گرائے، ایلزبتھ ویسٹوڈ، جوڈتھ گودریچے، ڈان ڈیننگ، جیسیکا ہائنز، روز میکگوان، ٹومی این رابرٹس، لیا سینڈوئکس، لورین سوین اور مرا سرینو شامل ہیں۔

ہولی وڈ پروڈیوسر پر لگائے جانے والے الزامات کے بعد نامور اداکارہ ایلسا میلانو نے ٹوئٹر پر ’می ٹو‘ (MeToo#) یعنی ’میں بھی‘ کے عنوان سے ایک ٹرینڈ کا آغاز کیا تھا۔

جنسی طور پر ہراساں ہونے والی خواتین کی اس مہم کے ذریعے دنیا بھر میں ہو شربا انکشافات سامنے آئے۔

ایلسا میلانو نے اس ٹرینڈ کا آغاز خواتین سے مطالبہ کرنے کے ساتھ کیا کہ اگر انہیں بھی زندگی کے کسی موڑ پر جنسی طور پر ہراساں کیا گیا ہے تو وہ ’می ٹو‘ کے ہیش ٹیگ کا استعمال کریں تاکہ دنیا کو اندازہ ہو کہ یہ مسئلہ کتنا سنگین ہے۔

اور پھر ایسا ہی کچھ ہوا، دنیا کے ہر کونے سے خواتین نے می ٹو کا ہیش ٹیگ استعمال کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں کس طرح سے جنسی طور پر ہراساں کیا گیا۔

ہولی وڈ پروڈیوسر پر ہراسانی کے الزامات لگانے والوں میں


• انجلینا جولی

• ایشلے جڈ

• جیسیکا بارتھ

• کیتھرین کنڈیل

• گوینتھ پالٹرو

• ہیدر گراہم

• روسانا آرکوئٹے

بھی شامل ہیں۔

اس موقع پر بہت سے افراد نے خواتین کو اتنے عرصے خاموش رہنے پر تنقید کا نشانہ بھی بنایا، البتہ ایسے بھی چند لوگ سامنے آئے جنہوں نے خواتین سے معافی مانگی۔

'می ٹو' کے ساتھ ساتھ 'آل مین' جیسے ہیش ٹیگز بھی بنائے گئے۔

ہر عمر کی خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات آئے دن سامنے آتے رہتے ہیں، پہلے ان واقعات پر لوگ کھل کر بات نہیں کرتے تھے لیکن اب خواتین خود سامنے آکر اپنے ساتھ ہونے والے ایسے ناخوشگوار واقعات کا برملا اظہار کرتی ہیں۔

ایک وقت تھا جب جنسی ہراساں، تشدد اور ریپ جیسے واقعات کے لیے خواتین کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا جاتا تھا لیکن آج نا صرف خواتین خود اپنے ساتھ ہوئے ان واقعات کے خلاف آواز اٹھا رہی ہیں بلکہ دنیا بھی ان کے سپورٹ میں سامنے آرہی ہے۔

بھارت اور پاکستان پر بھی مہم کے اثرات مرتب ہوئے

یہ مہم صرف ہولی وڈ ہی نہیں بلکہ بولی وڈ اور لولی وڈ انڈسٹری پر بھی اثر انداز ہوئی۔ اس کے علاوہ می ٹو مہم شروع ہونے کے بعد بھارت میں سیاستدانوں پر بھی ہراسانی کے الزامات لگے۔

جہاں بولی وڈ اداکارہ تنوشری دتہ اداکارہ نانا پاٹیکر کے خلاف کھڑی ہوئیں، تو وہیں پاکستانی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کی خواتین بھی سامنے آئیں۔

بولی وڈ اداکار الوک ناتھ کے خلاف لکھاری ونتا نندا نے جنسی ہراساں اور ریپ کرنے کا الزام عائد کیا، تو دوسری جانب کنگنا رناوٹ نے بھی وکاس بہل پر جنسی ہراساں کرنے کا الزام لگایا۔

اس کے علاوہ بولی وڈ ہدایت کار سبھاش گھائے پر بھی ایک خاتون نے جنسی ہراساں اور ریپ کرنے کا الزام عائد کیا تھا، البتہ ہدایت کار نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیا جبکہ 2018 میں بولی وڈ ہدایت کار ساجد خان پر بھی 3 خواتین نے جنسی ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا تھا، جس کے بعد ساجد خان کو کئی بڑے پروجیکٹس سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔

معروف بھارتی موسیقار انوملک کو بھی ہراسانی کے الزامات کے بعد ٹی وی پروگرام کو خیر باد کہنا پڑا تھا۔

علاوہ ازیں پاکستانی شوبز انڈسٹری کے نامور گلوکار و اداکار علی ظفر پر ہم وطن گلوکارہ میشا شفیع نے گزشتہ سال جیمنگ سیشن کے دوران جنسی ہراساں کرنے کا الزام لگاتے ہوئے معاملہ سوشل میڈیا پر اٹھایا تھا، جس کے بعد سے علی ظفر کو سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا جبکہ شوبز انڈسٹری سے تعلق رکھنے والی متعدد شخصیات نے بھی علی ظفر کا ساتھ چھوڑ دیا۔

مہم نے صرف ہولی وڈ ہی نہیں بلکہ بولی وڈ اور لولی وڈ کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا— فوٹو: شٹر اسٹاک
مہم نے صرف ہولی وڈ ہی نہیں بلکہ بولی وڈ اور لولی وڈ کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا— فوٹو: شٹر اسٹاک

جس کے بعد شوبز کی دونوں شخصیات نے ایک دوسرے کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا اور گزشتہ ڈیڑھ سال سے علی ظفر اور میشا شفیع کے درمیان یہ تنازع عدالت میں زیر سماعت ہے جس میں اب تک علی ظفر کی جانب ان کے موقف کی حمایت میں پیش کیے گئے 12 گواہوں کے بیانات قلم بند کیے جاچکے ہیں جبکہ عدالت کی جانب سے متعدد مرتبہ طلب کیے جانے کے باوجود میشا شفیع پیش نہیں ہوسکی ہیں۔

2018 میں میوزک اسٹریمنگ ویب سائٹ پٹاری کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) خالد باجوہ پر بھی 2 خواتین نے جنسی ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا تھا جس کے بعد ثبوت سامنے آنے پر انہیں عہدے سے برطرف کردیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ کامیڈین جنید اکرم اور معروف سماجی رضا کار مرحوم عبدالستار ایدھی کے صاحبزادے فیصل ایدھی پر بھی جنسی ہراساں اور بلیک میل کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ تاہم دنوں افراد نے خواتین کے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے یکسر مسترد کردیا تھا۔


اقوام متحدہ کی رپورٹ

ہراسمنٹ (ہراساں) کے لفظی معانی کسی بھی فرد کو 'زچ یا مستقل تنگ کرنا' ہیں لیکن اس کی ایک سے زائد شکلیں ہو سکتی ہیں۔

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے UN WOMEN یا یو این ویمن کی ایک رپورٹ 'عورت پر جبر کا خاتمہ' کے عنوان سے 2018 میں شائع ہوئی تھی جس سے ہراسمنٹ کے متعلق صورتحال کی سنگینی کا بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 12 کروڑ لڑکیوں کو اپنی زندگی میں کبھی نہ کبھی جبراً جنسی عمل یا اس سے ملتے جلتے کام کرنا پڑے ہیں۔

حیرت انگیز بات یہ تھی کہ یہ جبر نافذ کرنے والوں کی اکثریت شوہر، پارٹنر یا بوائے فرینڈ پر مشتمل تھی۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ 35 فیصد خواتین، زندگی میں کبھی نہ کبھی جسمانی یا جنسی جبر کا نشانہ بنتی ہیں۔

امریکا میں کیے ایک سروے کے نتائج بھی اس رپورٹ کا حصہ بنائے گئے، اس سرورے کے مطابق ہر چار میں سے ایک سے زیادہ خواتین نے پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتے ہوئے جنسی ہراسمنٹ کا سامنا کیا۔

2015 کے ایک اور سروے کے مطابق 23 فیصد طالبات جنسی حملوں یا بدتمیزی کا شکار ہوئی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق یورپی یونین میں ہر 10 میں سے ایک خاتون نے 15 سال کی عمر سے سائبر ہراسمنٹ کا سامنا کیا۔

یاد رہے کہ اب اس مہم کو دو سال مکمل ہوچکے ہیں لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا می ٹو مہم سے خواتین کو کوئی فائدہ ہوا ہے؟

اس مہم کے حوالے سے ڈان نیوز نے میڈیا و شوبز سے تعلق رکھنے والی چند نامور شخصیات سے بات کی، جنہوں نے می ٹو مہم پر اپنی رائے کا اظہار کیا۔

تاہم شوبز سے تعلق رکھنے والی کئی معروف شخصیات نے می ٹو مہم پر کسی بھی قسم کا مؤقف دینے سے احتراز کیا۔


شوبز ستارے


منشا پاشا

منشا پاشا اس سے قبل بھی می ٹو مہم پر کئی بار بات کرچکی ہیں — فوٹو/ منشا پاشا انسٹاگرام
منشا پاشا اس سے قبل بھی می ٹو مہم پر کئی بار بات کرچکی ہیں — فوٹو/ منشا پاشا انسٹاگرام

پاکستانی میڈیا انڈسٹری سے تعلق رکھنے والی نامور اداکارہ منشا پاشا ہمیشہ ہی خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتی نظر آتی ہیں، وہ صرف اپنے انٹرویوز میں ہی اس حوالے سے بات نہیں کرتی بلکہ فلموں اور ڈراموں میں بھی ایسے کردار قبول کرتی ہیں جو بااختیار خواتین کی عکاسی کررہے ہوں۔



'می ٹو مہم' سے ایسا نتیجہ نہیں
نکلا جس کا ہم معاشرے پر
اثر ہوتا ہوا دیکھیں،

عدنان صدیقی

می ٹو مہم کے دو سال مکمل ہونے پر ڈان نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے اداکارہ نے بتایا کہ 'مجھے لگتا ہے اس مہم سے نہ صرف خواتین کو بلکہ مردوں کو بھی فائدہ ہوا ہے، لوگوں میں اس مہم کے ذریعے آگاہی پیدا ہورہی ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'پہلے جو غلط ہورہا تھا، لوگ اس پر خاموش رہتے تھے، البتہ اب لوگ کھل کر بات کررہے ہیں'۔

اداکارہ نے کہا کہ 'می ٹو مہم سے قبل عورتوں کو یہ سمجھ نہیں تھی کہ وہ اپنے ساتھ ہوئے ایسے واقعات کے حوالے سے کس سے بات کریں، ایک ڈر تھا، تاہم اب وہ ڈر ختم ہوچکا ہے، اب خواتین کو ایک جگہ ملی ہے جہاں وہ کھل کر اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر بات کرسکتی ہیں'۔

منشا کے مطابق 'اس مہم کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ لوگ اب محتاط ہوچکے ہیں'۔


عدنان صدیقی

عدنان صدیقی کا شمار پاکستان کے نامور اداکاروں میں کیا جاتا ہے — فوٹو/عدنان صدیقی انسٹاگرام
عدنان صدیقی کا شمار پاکستان کے نامور اداکاروں میں کیا جاتا ہے — فوٹو/عدنان صدیقی انسٹاگرام

معروف اداکار عدنان صدیقی نے اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ می ٹو مہم کا اب تک جو استعمال نظر آیا ہے اس کا نتیجہ منفی نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کا کوئی ٹھوس نتیجہ سامنے آنا چاہیے۔

انہوں نے اس مہم میں صرف مردوں کو ہراسانی کا مرتکب ٹھہرانے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی خاتون کسی مرد کو ہراساں کرنے کی کوشش کرتی ہے تو اس سے کون جواب لے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ کام کی جگہ پر ہراسانی جیسے قبیح فعل کے سخت خلاف ہیں تاہم اب تک سامنے آنے والی می ٹو مہم سے کوئی ایسا نتیجہ نہیں نکل سکا جس کا ہم معاشرے پر اثر پڑتا ہوا دیکھیں یا قصوروار کو سزا ملی ہو۔

انہوں نے کہا کہ اس بات کو بھی واضح ہونا چاہیے کہ کون سے افعال ہراسانی کے زمرے میں آتے ہیں کیوں کہ کام کی جگہ کا ماحول خاصہ دوستانہ ہونا چاہیے جبکہ جرم ثابت ہونے سے پہلے مردوں کو مجرم ٹھہرانا بھی کسی طور پر بھی درست نہیں۔

عدنان صدیقی کا کہنا تھا کہ می ٹو مہم کو صرف شوبز انڈسٹری سے جوڑنا درست نہیں کیوں کہ ہراسانی کا واقعہ کام کی کسی بھی جگہ پر ہوسکتا ہے۔


صحافی


ماریہ میمن

ماریہ میمن نے بھی می ٹو مہم پر اپنے خیالات کا اظہار کیا — فوٹو/ ماریہ میمن ٹوئٹر
ماریہ میمن نے بھی می ٹو مہم پر اپنے خیالات کا اظہار کیا — فوٹو/ ماریہ میمن ٹوئٹر

می ٹو مہم کے بارے میں معروف صحافی اور اینکر پرسن ماریہ میمن نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اسے ایک خوشگوار آغاز قرار دیا 'جسے منفی عناصر سے بچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ اس مہم کے ذریعے لوگوں، بالخصوص خواتین میں اس بات کا شعور آیا ہے کہ اگر کوئی اپنی حرکات سے آپ کو غیر آرام دہ یا غیر محفوظ محسوس کرواتا ہے تو وہ اس کے خلاف آواز اٹھا سکیں جبکہ اس سے قبل خواتین کو اس بات کا ادراک ہی نہیں تھا کہ اگر کوئی اپنے رویے سے آپ کے لیے پریشانی کا باعث بن رہا ہے تو اس کے خلاف بولنا آپ کا حق ہے۔



'مہم کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے
کہ لوگ محتاط ہوچکے ہیں'

منشا پاشا

ماریہ نے می ٹو مہم کو پاکستانی معاشرے میں امید کی ایک کرن قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ اس طرح کی مہم کو ہائی جیک ہونے سے روکا جائے کیوں کہ منفی عناصر اس مہم کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کررہے ہیں جن سے ہمیں خبردار رہنا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ می ٹو مہم سے نہ صرف تعلیم یافتہ خواتین بلکہ مردوں میں بھی بہت حد تک شعور آیا ہے اور جو پہلے اس چیز کا احساس بھی نہیں کرتے تھے کہ اپنی کسی بات یا حرکت سے وہ اپنی خاتون ساتھی کے لیے پریشانی کا سبب بن رہے ہیں اور وہ اب بہت احتیاط کرنے لگے ہیں۔

انہوں نے اپنے تجربے سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’دفتر میں میرے کسی ساتھی کو مجھ سے کوئی کام ہوتا ہے تو پہلے وہ مجھ سے اجازت لیتے ہیں اور اس بات کا احساس کر کے کہ اس سے میں پریشان نہ ہوں پھر بات کرتے ہیں‘۔

تاہم انہوں نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا کہ اس مہم کے اثرات ہمارے معاشرے کے نچلے طبقے یا کام کے مقامات پر نہیں آئے لیکن ہمیں اس امید کو پروان چڑھانا ہے تاکہ معاشرے سے جنسی ہراسانی کا خاتمہ ہوسکے۔


ضرار کھوڑو

ضرار کھوڑو پاکستان کے معروف صحافی مانے جاتے ہیں — فوٹو/ ضرار کھوڑو فیس بک
ضرار کھوڑو پاکستان کے معروف صحافی مانے جاتے ہیں — فوٹو/ ضرار کھوڑو فیس بک

'می ٹو' مہم سے متعلق بات کرتے ہوئے معروف صحافی ضرار کھوڑو نے کہا کہ جس طرح کا ہمارا معاشرہ ہے میں اس بات کو مسترد کرتا ہوں کہ اس تحریک کے کوئی اثرات مرتب نہ ہوئے ہوں بہت بڑے پیمانے پر نہ سہی لیکن اس کے تھوڑے بہت اثرات سامنے آنا شروع ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں شاید ہی کوئی خاتون ہوگی جسے زندگی میں کبھی بھی ہراسانی کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو، کسی نہ کسی حد تک تقریبا ہر خاتون کو ہراسانی کا سامنا رہا ہے چاہے وہ سر سے لے کر پاؤں تک عبایا میں ہی کیوں نہ ہو، اس حوالے سے میشا شفیع کا کیس بھی سامنے آیا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے یہاں اسے معمولی بات سمجھا جاتا ہے کہ کسی نے خاتون کو چھیڑ دیا تو کیا ہوا! لیکن اس تحریک کے بعد سے بدلاؤ آنا شروع ہوا ہے، لوگ اب ایسے ہی جانے نہیں دیتے بلکہ وہ اپنی آواز سوشل میڈیا کے ذریعےاٹھاتے ہیں، ہراساں کرنے والے شخص کو کارنر کرتے ہیں جبکہ ہراساں کیے جانے سے متعلق ایک دو کیسز پولیس میں بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔

ضرار کھوڑو نے کہا کہ اس حد تک اثرات آئے ہیں کہ لوگ اب ہراساں کیے جانے پر خاموش نہیں رہتے۔


عظمیٰ الکریم

عظمیٰ الکریم نجی چیننل میں صنفی مساوات کے شعبے کی سربراہ ہیں — فوٹو/ عظمیٰ الکیم فیش بک
عظمیٰ الکریم نجی چیننل میں صنفی مساوات کے شعبے کی سربراہ ہیں — فوٹو/ عظمیٰ الکیم فیش بک

اس مہم کے حوالے سے معروف اینکر اور ایک نجی چیننل میں صنفی مساوات کے شعبے کی سربراہ عظمیٰ الکریم کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد کسی قسم کی تبدیلی لانا نہیں تھا بلکہ یہ ایک ایسا موقع فراہم کرنے کے لیے تھی جس کے تحت لوگوں نے اپنے ایسے تجربات سے آگاہ کیا جس کے بارے میں اس سے قبل بات نہیں کی گئی تھی۔

انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 'اور جس طرح یہ سلسلہ آگے بڑھتا رہا تو ایک مہم کی صورت اختیار کرگیا اور لوگوں کو اندازہ ہوا کہ یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جس سے تقریباً ہر عورت اور کچھ مرد بھی اپنی زندگی میں متاثر ہوئے ہیں'۔



ہولی وڈ کے پروڈیوسر پر 18 اداکاراؤں نے جنسی ہراسانی کا الزام عائد کیا تھا۔


عظیٰ الکریم نے کہا کہ 'تاہم اس مہم کے سامنے آنے کی سب سے مثبت بات یہ ہے کہ چاہے اس کا کوئی ٹھوس نتیجہ نکلا یا نہیں لیکن اس سے لوگوں میں یہ حوصلہ پیدا ہوا کہ ہراساں کرنے والوں کے خلاف آواز بلند کریں اور اس سے ان میں انہیں روکنے کی ہمت بھی آئی ہے جس کی وجہ سے پہلے بے خوفی سے ہراساں کرنے والوں میں ایک خوف اور دباؤ ضرور آیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس مہم سے پہلے لوگوں کو معلوم ہی نہیں تھا کہ کسی کے کپڑوں، کسی کی شکل و صورت پر تبصرہ کرنا، چائے کی آفر کرنا اور گھر والوں کے بارے میں پوچھ گچھ کرنا ہراساں کرنے کے زمرے میں آتا ہے بلکہ یہ ایک معمول کی بات سمجھی جاتی تھی تاہم اب خواتین میں ذاتیات پر بات کرنے کے حوالے سے عدم برداشت سامنے آئی ہے۔

اس کے ساتھ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’می ٹو‘ ایک مہم ضرور ہے لیکن کوئی قانون نہیں لہٰذا اگر کسی پر بھی ہراساں کرنے کا الزام لگایا گیا ہے تو اسے مجرم سمجھ کر کردار کشی کی جاتی ہے، جو انتہائی نامناسب عمل ہے۔


وجیہ ثانی

وجیہ ثانی کئی بڑے چینلز پر اینکر پرسن کے طور پر کام کرچکے ہیں — فوٹو/ وجیہ ثانی فیس بک
وجیہ ثانی کئی بڑے چینلز پر اینکر پرسن کے طور پر کام کرچکے ہیں — فوٹو/ وجیہ ثانی فیس بک

معروف اینکر پرسن وجیہ ثانی نے می ٹو مہم سے متعلق بات کرتے ہوئے ڈان نیوز کو بتایا کہ اس تحریک کے مثبت اثرات سامنے آئے ہیں، پہلے اسے ممنوعہ سمجھا جاتا تھا اور خواتین اپنے حق میں آواز نہیں اٹھاتی تھیں لیکن اب سوشل میڈیا پر اس حوالے سے آواز اٹھائے جانے لگی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں می ٹو مہم کو سپورٹ کرتا ہوں کہ اس کی وجہ سے خواتین اپنے ساتھ ہراسانی کے واقعات کے خلاف بات کرنے لگی ہیں۔

وجیہ ثانی نے کہا کہ لیکن کچھ ایک یا 2 کیسز ایسے بھی سامنے آئے جس کی وجہ سے اس مہم کے منفی اثرات نمایاں ہوئے کہ جیسا کہ میشا شفیع نے اس حوالے سے آواز اٹھائی لیکن وہ عدالت میں علی ظفر کے خلاف ثبوت پیش نہیں کرسکیں، اسی طرح محسن عباس کی اہلیہ کا کیس بھی تھا وہ گھریلو معاملہ تھا اور ان کی اہلیہ بھی اپنے حق میں ثبوت پیش نہیں کرسکیں تھیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس حوالے سے باقاعدہ ایک فورم تشکیل دیا جانا چاہیے تاکہ خواتین باقاعدہ طریقے سے اپنے ساتھ ہوئے ظلم کو بیان کرسکیں، ہر چیز کی طرح اس تحریک میں بھی توازن ضروری ہے تاکہ وہ خواتین جن کے ساتھ ہراسانی کے واقعات پیش آئے ان کی حوصلہ شکنی نہ ہو۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں الزام تراشی کا پہلو نہیں ہونا چاہیے کہ کسی کو اگر مجھ سے کوئی ذاتی عناد ہے تو وہ الزام تراشی کرے، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔


ماہر نفسیات


آشا بیدار

کلینل سائیکولوجسٹ آشا بیدار نے ڈان نیوز سے جنسی ہراساں کرنے سے متعلق بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ جنسی ہراساں کرنے کی تعریف یہ ہے کہ کوئی بھی ایسا عمل یا رویہ، جس سے ہم کسی عورت، لڑکی، مرد یا لڑکے کے ساتھ جان بوجھ کر اس طرح سے پیش آئیں جس سے انہیں شرمندگی ہو، جس کی وجہ سے وہ اپنے عورت یا مرد ہونے سے متعلق بُرا یا غیر آرام دہ تصور کریں یعنی ان کے ساتھ نامناسب رویہ روا رکھنا۔

انہوں نے کہا کہ یہ کسی بھی معاشرے میں ہوسکتا ہے دنیا کے کسی بھی ملک میں ہوسکتا ہے لیکن ظاہر ہے ہم پاکستان کی بات کررہے ہیں تو سڑکوں پر ہوسکتا ہے، دفاتر میں، اسکولوں میں، گھر میں اور بازاروں میں ہوسکتا ہے۔

ماہر نفسیات نے کہا کہ پاکستان میں جو قانون ہے وہ خاص طور پر ورک پلیس ہراسمنٹ (ملازمت کی جگہ پر ہراسانی) سے متعلق بات کرتا ہے، اس حوالے سے ماہر نفسیات نے کہا کہ عموماً دفاتر میں جنسی ہراساں کیا جاتا ہے اور یہ بات بہت عام ہوتی جارہی ہے کیونکہ یہ زیادہ تر خواتین کے ساتھ ہوتا ہے تاہم مردوں کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے لیکن متاثرین مردوں کی تعداد خواتین کے مقابلے میں کم ہے۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دفتر میں کئی مرتبہ یہ براہ راست بھی ہوتا ہے، دباؤ کے طور پر بھی اس طرح کی ترکیبیں استعمال ہوتی ہیں، جو خواتین ملازمین کے ساتھ پیش آتی ہیں اور کوئی ان کا باس یا سپروائزر یا پھر کسی بھی بااختیار عہدے پر موجود فرد انہیں ہراساں کرنے کو ایک شرط بنالیتا ہے کہ تعلقات قائم کرنے پر ہی پروموشن بھی ملے گی، جس کے لیے انہیں ہر قسم کی نا مناسب باتوں کا حصہ بننا پڑے گا یا نا چاہتے ہوئے بھی گپ شپ کرنا پڑے گی، یہ سب باتیں ہراساں کرنے کے زمرے میں آتی ہیں۔

آشا بیدار نے کہا کہ ان کو مجبور کردینا کہ ان کی پروموشن کا انحصار، کسی قسم کے تعلقات پر مبنی ہوگا یا پھر خواتین نہیں کریں گی تو انہیں دھمکیاں دینا یا یہ شرط رکھنا کہ وہ ان مطالبات کو پورا نہیں کرتیں، اس لیے انہیں ان کے جائز مطالبات یا حقوق فراہم نہیں کیے جاسکتے۔

ماہرِ نفسیات نے کہا کہ یہ پوری ایک رینج ہے بات چیت سے لے کر، تصاویر سے لے کر جنسی حملے، ریپ، زبردستی جنسی عمل تک بھی جنسی ہراساں کرنے کی رینج جاسکتی ہے۔

کلینل سائیکولوجسٹ آشا بیدار — فوٹو: بشکریہ فیس بک
کلینل سائیکولوجسٹ آشا بیدار — فوٹو: بشکریہ فیس بک

آشا بیدار نے کہا کہ مردوں کو بھی ہراساں کیا جاسکتا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں یہ خاص طور پر عورتوں کے ساتھ ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ہراسانی کے محرکات کو دیکھیں تو یہ کوئی ذہنی بیماری نہیں جو مرد اس طرح کرتے ہیں انہیں کوئی نفسیاتی بیماری نہیں ہوتی، بنیادی طور پر یہ طاقت کا استعمال ہوتا ہے انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ایک خاتون یا جوان لڑکی جو اپنے گھر سے نکل کر آئی ہے اسے جاب کی ضرورت ہے یا وہ اس ملازمت میں آگے بڑھنا چاہ رہی ہے پروموشن چاہ رہی ہے یا کسی طرح سے بھی کامیاب ہونا چاہ رہی ہے تو یہ ایک چیز ہے جسے استعمال کرکے اس خاتون کو دبایا جاسکتا ہے یا اپنی ضروریات ناجائز طریقہ اختیار کرکے پوری کروائی جاسکتی ہیں یا مزہ لینے کے لیے کہ ایک عورت اس ماحول میں موجود ہے۔

آشا بیدار نے کہا کہ جس انسان کو جنسی ہراساں کیا جاتا ہے اس کی شخصیت پر شدید اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، ایک تو کام متاثر ہوتا ہے کیونکہ جہاں کمانے کے لیے، شوق کے لیے اور ترقی کے لیے جارہے ہیں، وہاں اس طرح کا ماحول بن گیا ہے کہ وہاں پر عزت نفس کو بحال رکھتے ہوئے کام نہیں کرپا رہے ہوں تو مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔

ہراسانی کی مزید تشریح کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دھکے دینا، جان بوجھ کر چھونے کی کوشش کرنا، مذاق یا دباؤ ڈالنا، علاوہ ازیں ہراساں کرنے والے شخص کی جانب سے بات چیت، رات کو فون کرنے یا علیحدہ ملنے کا مطالبہ کرنا جبکہ متاثرہ خاتون اپنی مرضی سے ایسا نہیں کرنا چاہ رہیں، رات کو دیر تک دفتر میں غیر ضروری طور پر رکنے کا کہنا جبکہ اس کی ضرورت نہیں اور مرد ساتھیوں کے ساتھ ایسا نہیں کررہے تو ظاہر ہے اس سے نا صرف آفس کا ماحول خراب ہوگا بلکہ متاثرہ فرد کا کام کرنے کا دل بھی نہیں چاہے گا۔

آشا بیدار نے کہا کہ ہر ایک کے پاس وہ چوائس نہیں کہ نوکری چھوڑ دے اور اپنی ملازمت کیوں چھوڑیں جب کام بھی ٹھیک طرح سے کررہے ہیں لیکن جو رویہ رکھا جارہا ہے وہ غلط ہے، کئی دفعہ چوائس بھی نہیں ہوتی کیونکہ رقم کی ضرورت ہوتی ہے، ملازمت کیریئر کے لیے اچھی ہوتی ہے جبکہ بیشر خواتین کو ملازمت چھوڑنی پڑتی ہیں، مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑتا ہے یا ان کی پروموشن رک جاتی ہے یا اتنا زیادہ تنگ کیا جاتا ہے اور مذکورہ تعلقات سے انکار کردیا تو انہیں دی گئی سہولیات روک دی جاتی ہیں یا ماحول اتنا برا کردیا جاتا ہے کہ وہاں کام کرنا ناممکن ہوجاتا ہے اور بہت سی خواتین ڈپریشن، انزائٹی (پریشانی، بے چینی) کا بھی شکار ہوجاتی ہیں۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کے پاس ایسی خواتین بھی آئیں کہ ان کے لیے آفس میں کام کرنا ناممکن ہوگیا، جس کے مالی نقصانات تو ہیں لیکن بہت زیادہ اسٹریس، ذہنی دباؤ، انزائٹی ہوتی ہے اور دفتر میں کام نہیں کیا جاسکتا، اس کے ساتھ ساتھ ہراسانی کا شکار ہونے والی خواتین خوف میں مبتلا ہوجاتی ہیں، جو خود کو الزام دیتی ہیں اور قصوروار ٹھہراتی ہیں۔

می ٹو مہم سے مثبت تبدیلی

ڈاکٹر آشا بیدار نے کہا کہ ’می ٹو‘ مہم سے کافی تبدیلی آئی ہے، ہراسانی سے متعلق قانون کافی سالوں سے بنا ہوا ہے اس پر شاید اتنا زیادہ عمل نہیں ہورہا یا اسے شاید زیادہ استعمال نہیں کیا جارہا کیونکہ اس میں کچھ خامیاں بھی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ می ٹو مہم کے بعد سے آگاہی کے حوالے سے بہت زیادہ تبدیلی آئی، اس پر خواتین، لڑکیاں، لڑکے، مرد الغرض بہت لوگوں نے بات کی، اس حوالے سے معلومات میں بھی اضافہ ہوا۔

ماہرِ نفسیات نے کہا کہ متعدد مرتبہ ہراسانی محسوس نہیں ہوتی اور متاثرہ فرد خود بھی کنفیوژن کا شکار ہوتا ہے کیونکہ یہ ایک کافی پیچیدہ مسئلہ ہے لیکن اب با آسانی اس پر سوشل میڈیا، ٹی وی پر بات ہورہی ہے، اس حوالے سے کچھ ہائی پروفائل کیسز بھی سامنے آئے ہیں میرے خیال میں یہ اس مہم کا ایک بہت مثبت پہلو ہے۔

آشا بیدار نے کہا کہ ہم اس پر جتنی زیادہ بات چیت کریں گے ہراسانی کے واقعات میں کمی آئے گی کیونکہ جو لوگ جنسی طور پر ہراساں کرتے ہیں یا خواتین اور مرد جو جنسی ہراساں ہوتے ہیں اگر انہیں اس حوالے سے آگاہی ہوگی تو اس سے بچ بھی سکیں گے۔

ایک جانب جہاں شوبز انڈسٹری سے تعلق رکھنے والی نامور شخصیات اسکرین پر خواتین کے حقوق کے حوالے سے کھل کر بات کرتی نظر آتی ہیں تو وہیں می ٹو مہم پاکستان میں ہر گزرتے وقت کے ساتھ ایسا سنگین معاملہ بنتی جارہی ہے جس کے بعد شوبز کے متعدد ستاروں نے ڈان نیوز سے اس پر بات کرنے سے گریز کیا۔

مذکورہ مہم کے پاکستان سمیت دیگر ممالک پر اثرات اس حد تک دکھائی نہیں دے رہے جیسا کہ اس سے توقع کی جارہی تھی اور آج بھی ان ممالک میں کام کے مقامات پر خواتین کو مختلف طریقوں سے ہراساں کرنے کے واقعات پیش آرہے ہیں اور ان میں سے انتہائی کم یا نا ہونے کے برابر واقعات رپورٹ ہوتے ہیں، جس کی ایک وجہ معاشرے میں ورکنگ خواتین کے حوالے سے پایا جانے والے منفی خیالات بھی ہیں۔

لیکن اس سب کے باوجود یہ مہم ان متاثرین کی کسی حد تک داد رسی کا باعث بھی بنی ہے جو کم سے کم خود کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو سوشل میڈیا کے ذریعے عوامی سطح پر سامنے لاتے ہیں اور اس کی وجہ بننے والے محرکات اور افراد کے چہروں کو بے نقاب کرتے ہیں۔