Dawnnews Television Logo

‘عظیم قوم’ سانحات کو نہیں بھولتی! لیکن ہم نے کیا سیکھا؟

ایسے اقدامات اٹھائے جاسکتے تھے جن سے سانحہ اے پی ایس کا غم تازہ رہتا اور قوم ہمیشہ دشمنوں کے خلاف متحد رہتی۔
شائع 29 اکتوبر 2019 12:20pm

دنیا میں ہر قوم سانحات اور حادثات کا شکار ہوتی ہے، مگر ان حوادث اور المیوں کو ہمیشہ یاد رکھتے ہوئے ذمہ داروں کو منطقی انجام تک پہنچانا اور متاثرہ افراد کی قربانی کو کبھی نہ بھولنا عظیم قوم کی نشانی ہے۔

قوموں کی ترقی میں ان کی تاریخ کی بہت اہمیت ہوتی ہے اور جو قومیں اپنے ماضی کو فراموش کردیتی ہیں اور اپنی غلطیوں کو نہیں سدھارتیں وہ ترقی نہیں کرسکتیں اور نہ ہی ان قوموں کے معاشروں میں انسانی جان کی اہمیت باقی رہتی ہے۔

امریکا کی نسبتاً پسماندہ ریاست اوکلاہوما میں آج سے تقریباً 24 سال قبل 19 اپریل 1995 وفاقی عمارت الفریڈ پی موراہ میں خوفناک دھماکے کے نتیجے میں 19 بچوں سمیت 168 افراد موت کی آغوش میں چلے گئے، یہ امریکا کی تاریخ کا ایک ایسا واقعہ تھا جس سے متعلق کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا اور اس واقعے سے ملنے والے سبق کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کے لیے حکومت نے جو طریقہ اپنایا اس سے متعلق کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔

وفاقی عمارت الفریڈ پی موراہ میں خوفناک دھماکے کے بعد کا منظر — فوٹو: سمیر سلیم
وفاقی عمارت الفریڈ پی موراہ میں خوفناک دھماکے کے بعد کا منظر — فوٹو: سمیر سلیم

بم دھماکے کے واقعے کے بعد اوکلاہوما سٹی کے میئر آفس، گورنر کے دفتر، غیر سرکاری تنظیموں کو عوام کے مختلف طبقات کی طرف سے بم دھماکے میں اپنی جانیں گنوانے والوں کی یاد میں ایک 'یادگار' تعمیر کرنے کی تجویز دی گئی جسے منظور کیا گیا اور ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کے خیالات اور رائے کو شامل کرتے ہوئے طویل منصوبہ بندی کے بعد یادگار کی تعمیر شروع ہوئی۔

امریکی محکمہ خارجہ اور اوکلاہوما یونیورسٹی کے اشتراک سے پیشہ ورانہ صحافیوں کے دورہ امریکا کے پروگرام کے دوران ہم نے بھی اس یادگار کا دورہ کیا جسے کچھ اس انداز میں تعمیر کیا گیا ہے کہ وہاں جانے والا کوئی بھی شخص رنج و غم کی کیفیت کو محسوس کیے بغیر نہیں رہ پاتا۔

دھماکے سے ایک منٹ قبل اور بعد کا وقت — فوٹو: سمیر سلیم
دھماکے سے ایک منٹ قبل اور بعد کا وقت — فوٹو: سمیر سلیم

یادگار کے بیرونی حصے سے لے کر اندرونی حصے تک ہر چیز اور ماحول اس قدر پرسوز ہے کہ آنے والے ہر شخص کو لگتا ہے کہ اس نے بھی اپنے کسی پیارے کو اس ہولناک دھماکے میں کھویا ہو جبکہ ہر چیز میں کوئی نہ کوئی معنیٰ پنہاں ہیں، مثال کے طور پر یادگار کے بیرونی حصے کے درمیان میں بہتا پانی اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ بڑے سے بڑے سانحے کے بعد بھی زندگی رواں دواں رہتی ہے جبکہ واقعے کے ایک طرف کھڑی یادگاری دیوار پر 9 بج کر ایک منٹ یہ بتاتا ہے کہ اس وقت تک سب کچھ ٹھیک تھا اور دوسری طرف دیوار پر 9 بج کر 3 منٹ کا وقت اس لیے لکھا گیا ہے کہ دو منٹ بعد ہی پورا منظر تبدیل ہو چکا تھا۔

دھماکے میں ہلاک افراد کی یاد میں لگائی گئی کرسیاں — فوٹو: سمیر سلیم
دھماکے میں ہلاک افراد کی یاد میں لگائی گئی کرسیاں — فوٹو: سمیر سلیم

بیرونی حصے کے ایک طرف ہری بھری جگہ پر دھماکے میں لقمہ اجل بننے والوں کی یاد میں ان کے ناموں سے درج 168 کرسیاں رکھی گئی ہیں جن میں سے 19 کو بچوں کی یاد میں قصداً چھوٹا رکھا گیا ہے، تو دوسری طرف وہ اونچا درخت نظر آتا ہے تو اس تباہ کن دھماکے میں بچ جانے والی واحد چیز تھی۔

دھماکے میں بچ جانے والا واحد درخت — فوٹو: سمیر سلیم
دھماکے میں بچ جانے والا واحد درخت — فوٹو: سمیر سلیم

یادگار کے اندرونی حصے کی بات کی جائے تو وہاں دھماکے کا منظر محفوظ کرنے والے کیمرے اور ہلاک ہونے والوں کی عینکوں کے شیشے کے ٹکروں سے لے کر دھماکے کے نتیجے میں مخدوش ہونے والی عمارت (جسے بعد ازاں حفاظت کے پیش نظر منہدم کردیا گیا) کے ملبے اور ہلاک ہونے والوں کی یاد میں چیزیں بالخصوص بچوں کے چھوٹے چھوٹے کھلونے رکھے گئے ہیں جنہیں دیکھ کر آنکھیں بے ساختہ آبدیدہ ہوجاتی ہیں۔

میوزیم کی چند بیرونی دیواروں کو دھماکے کے بعد والی شکل میں ہی رکھا گیا ہے — فوٹو: سمیر سلیم
میوزیم کی چند بیرونی دیواروں کو دھماکے کے بعد والی شکل میں ہی رکھا گیا ہے — فوٹو: سمیر سلیم

ان تمام مناظر کو دیکھ کر نہ جانے ہمارے ذہن میں 2014 کے سانحہ آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پشاور کیسے آیا اور ملک کی تاریخ میں دہشت گردی کے ہولناک واقعات میں سے ایک کی کیسٹ جیسے نظروں کے سامنے چلنے لگی اور اوکلاہوما سٹی میموریل میوزیم میں مناظر دیکھ کر غمزدہ ہونے والا دل مزید غمگین ہوگیا۔

اپنے جذبات پر جیسے ہی قابو پایا تو ذہن میں کئی سوالات اٹھے۔ بلاشبہ سانحہ اے پی ایس ایک ایسا واقعہ تھا جس کے بارے میں سوچ کر آج بھی دل خون کے آنسو روتا ہے اور اس واقعے نے پوری قوم اور ملکی قیادت کو پاک سرزمین سے دہشت گردی کے ناسور کو ختم کرنے کے لیے نیا جذبہ دیا اور سیاسی و عسکری قیادت نے پرعزم ہو کر نیشنل ایکشن پلان (نیپ) ترتیب دیا۔

دھماکے کے مناظر محفوظ کرنے والا کیمرا — فوٹو: سمیر سلیم
دھماکے کے مناظر محفوظ کرنے والا کیمرا — فوٹو: سمیر سلیم

لیکن کیا ہم نے اس واقعے سے سبق سیکھنے اور دہشت گردی کے خلاف اپنے عزم کو تازہ رکھنے لیے کچھ کیا؟ کیا ہم شہیدوں کے لواحقین کا غم بھول چکے ہیں؟ کیا ہمارے بچے اپنے تعلیمی اداروں میں بلاخوف تعلیم حاصل کر پارہے ہیں؟

انتظامیہ چاہتی تو ایسے کئی اقدامات اٹھا سکتی تھی جس سے اس سانحے کا غم ہمیشہ تازہ رہتا اور ہماری آنے والی نسلیں اس اندوہناک واقعے کو یاد رکھ کر دہشت گردوں اور اندرونی و بیرونی دشمنوں کے خلاف ہمیشہ متحد رہتیں۔

دھماکے کا شکار ہونے والی وفاقی عمارت کا ملبہ — فوٹو: سمیر سلیم
دھماکے کا شکار ہونے والی وفاقی عمارت کا ملبہ — فوٹو: سمیر سلیم

سانحہ اے پی ایس کے بعد صرف متاثرہ اسکول کے اندر ہی ایک حصے میں یادگار شہدا بنادی گئی، صوبے بھر میں 144 سرکاری اسکولوں کو سانحے میں شہید افراد کے ناموں سے منسوب کردیا گیا اور طلبہ و اساتذہ کے لواحقین کو امدادی رقم تقسیم کردی گئی۔

اوکلاہوما سٹی کی وفاقی عمارت میں دھماکا کرنے والا ایک سفید فام دہشت گرد ٹِموتھی جیمز مِکوے تھا جسے واقعے کے تقریباً دو سال بعد مجرم قرار دیتے ہوئے 2001 میں موت کی سزا بھی دے دی گئی۔

دوسری جانب سانحہ اے پی ایس کے بعد سب سے زیادہ افسوسناک پہلو تو سامنے آیا کہ اسکول کے جس آڈیٹوریم ہال میں سفاک دہشت گردوں نے معصوم بچوں کا خون بہایا تھا اسے ٹیبل ٹینس کورٹ بنادیا گیا۔

ہلاک ہونے والوں کی چند یادگار اشیا — فوٹو: سمیر سلیم
ہلاک ہونے والوں کی چند یادگار اشیا — فوٹو: سمیر سلیم

کیا مستقبل کے معمار وہ بچے اور قیمتی اساتذہ اس کے بھی حقدار نہ تھے کہ ان کے گزرنے کے بعد ایسے اقدامات اٹھائے جاتے جن کے ذریعے قوم کے لیے قربانی دینے والوں کو ہمیشہ یاد رکھا جاتا۔

اگر ہم واقعی دنیا میں ایک بیدار، ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ رکھنے، ملک کے لیے مرمٹنے کا عزم رکھنے والی اور اس کے لیے جانوں کی قربانی دینے پر فخر کرنے والی قوم کے طور پر سامنے آنا چاہتے ہیں تو ہمیں آج ہی اپنے رویے پر نظر ڈالنی ہوگی، قومی غیرت کو للکارنا ہوگا اور اپنے کردار سے ثابت کرنا ہوگا کہ ہم واقعی ایک زندہ قوم ہیں جو اپنے شہیدوں کے خون کا قرض اتارنا بھی جانتی ہے اور دنیا میں ہر سطح پر اپنا لوہا منوانا بھی۔

ہلاک ہونے والوں کی چند یادگار اشیا — فوٹو: سمیر سلیم
ہلاک ہونے والوں کی چند یادگار اشیا — فوٹو: سمیر سلیم