کئی دہائیوں کا سیاسی تجربہ رکھنے والے جوبائیڈن امریکی صدر کے لیے ڈیموکریٹک کے اُمیدوار ہیں اور وہ تیسری مرتبہ اس عہدے کے لیے میدان میں موجود ہیں۔

ریاست پینسلوینیا کے شہر سکرینٹن میں پیدا ہونے والے 77 سالہ جوبائیڈن نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز 1972 میں اس وقت کیا جب وہ ریاست ڈیلاور سے امریکی سینیٹ کے لیے پہلی مرتبہ منتخب ہوئے۔

امریکی صدارتی اُمیدوار کو خارجہ پالیسی میں کافی تجربہ حاصل ہے جبکہ وہ اپنے کیریئر میں 2 مرتبہ سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کی صدارت بھی کرچکے ہیں۔

اس کے علاوہ وہ عدلیہ پر قائم کمیٹی کے چیئرپرسن کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔

جوبائیڈن کا یہ طویل اور نمایاں کیریئر یقینی طور پر داغ سے پاک نہیں ہے، انہیں 1994 کے وائلنٹ کرائم کنٹرول اینڈ لا انفورسمنٹ ایکٹ کی سرپرستی کرنے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا جبکہ ناقدین کہتے ہیں کہ یہ افریقی نژاد امریکیوں کو بڑے پیمانے پر قید میں رکھنے کا باعث بنا۔

سابق نائب صدر کو اپنے کیریئر میں ذاتی نقصان اور سانحہ سے بھی گزرنا پڑا، 1972 میں سینیٹ میں اپنی پہلی نشست جیتنے کے فوری بعد انہوں نے ایک کار حادثے میں اپنی اہلیہ اور بیٹی کو کھودیا، تاہم ان کے بیٹے بیو اور ہنٹر حادثے میں بچ گئے اور جو بائیڈن نے ہسپتال میں ہی اپنے بیٹوں کے ہمراہ حلف اٹھایا۔

سال 2015 میں جب جو بائیڈن نائب صدر تھے تو ان کے بیٹے بیو دماغ کے کینسر کی وجہ سے انتقال کرگئے، ان کی عمر 46 سال تھی اور انہوں نے سیاست میں اپنے سفر کا آغاز ہی کیا تھا۔

جو بائیڈن نے 1988 میں پہلی مرتبہ صدر کے لیے انتخاب کی دوڑ میں حصہ لیا لیکن وہ اس وقت اس سے پیچھے ہٹ گئے جب یہ انشکاف ہوا کہ انہوں نے اس وقت کی برطانوی لیبر پارٹی کے رہنما نیل کن ناک کی تقریر چوری کی تھی۔

2008 میں انہوں نے پھر اپنی قسمت آزمانے کی کوشش کی لیکن اس مرتبہ بھی ناکام رہے کیونکہ ڈیموکریٹک پارٹی نے باراک اوباما کو نامزد کردیا تھا تاہم بعد ازاں جو بائیڈن کو نائب صدر کے عہدے کے لیے نامزد کیا گیا اور انہوں نے اگلے 8 سال کے لیے اوباما کے ساتھ خدمات انجام دیں۔

2008 میں جوبائیڈن اور ریپبلکن امیدوار نے مباحثے میں شرکت کی—فوٹو: رائٹرز بذریعہ نیشنل پوسٹ
2008 میں جوبائیڈن اور ریپبلکن امیدوار نے مباحثے میں شرکت کی—فوٹو: رائٹرز بذریعہ نیشنل پوسٹ

جو بائیڈن، ڈونلڈ ٹرمپ کے ’پہلے امریکا‘ کے نعرے کا ’تنہا امریکا‘ کے طور پر مذاق اڑاتے ہیں، ان کا مقصد عالمی لیڈر کی حیثیت سے ملک کی پوزیشن بحال کرنا ہے۔

یہاں اہم جو بائیڈن کے مختلف اہم معاملات پر تجاویز کردہ پالیسیز کو دیکھیں گے جس سے نہ صرف امریکا بلکہ پوری دنیا کا تعلق ہے۔

امیگریشن

جو بائیڈن امیگریشن پر ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے اپنائی گئی پالیسیوں پر کھلے عام تنقید کرتے آرہے ہیں اور انہوں نے کئی پالیسیوں کو تبدیل کرنے پر زور دینے کا عزم کیا ہے کیونکہ ان کے بقول یہ ’ظالمانہ اور بے مطلب‘ ہیں اور یہ امریکی سرحد پر کئی خاندانوں کی علیحدگی کا سبب بنی ہیں۔

2017 میں ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کے خلاف مظاہرہ کیا گیا—فائل فوٹو: اے ایف پی
2017 میں ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کے خلاف مظاہرہ کیا گیا—فائل فوٹو: اے ایف پی

جوبائیڈن کی الیکشن ویب سائٹ پر امیگریشن کے حوالے سے شائع پالیسی پیپر میں کہا گیا ہے کہ ہم بحیثیت قوم کیا ہیں، ہماری بنیادی اقدار اور ہمارے مستقبل کے لیے ہماری امنگوں کے لیے امیگریشن ضروری ہے۔

امریکی صدارتی اُمیدوار کی جانب سے کچھ شعبوں جس میں کام کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے، ان میں مندرجہ ذیل شامل ہیں۔

  • صدر بننے کے 100 روز کے اندر ڈونلڈ ٹرمپ کی ان پالیسیوں جو امریکی سرحد پر خاندانوں کی علیحدگی کا باعث بنیں، انہیں تبدیل کرنے کے لیے فوری اقدامات اٹھانا۔
  • ٹرمپ کی سفری پابندی، جسے ’مسلمانوں پر پابندی‘ بھی قرار دیا جاتا ہے اس کو ختم کرنا۔
  • ویزا اصلاحات سمیت ایک کروڑ 10 لاکھ غیر دستاویز شدہ تارکین وطن کو شہریت فراہم کرنے کے لیے قانون سازی۔
  • دفتر میں پہلے سال کے دوران مہاجرین کے سالانہ داخل ہونے کی تعداد کو ایک لاکھ 25 ہزار تک بڑھانا، حال ہی میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے 2021 میں 15 ہزار کرنے کا دعویٰ کیا ہے جو تاریخ کی کم ترین سطح ہے۔
  • بچوں کی آمد (چائلڈ ہوڈ آرائیول) کے لیے مؤخر عمل کو بحال کرنا جو اوباما انتظامیہ کی جانب سے شروع کیا گیا تھا اور ٹرمپ نے اسے منسوخ کردیا تھا۔

پاک-امریکا تعلقات

اگرچہ جوبائیڈن نے یہ نہیں بتایا کہ جنوبی ایشیا کے لیے کیا پالیسی اپنائی جائے گی تاہم پاکستان پر ان کا ماضی کا مؤقف ملک کے ساتھ ساتھ خطے کی طرف ان کے نقطہ نظر کا کچھ اشارہ دے سکتا ہے۔

  • 2007 میں انہوں نے پاکستان کو ’ممکنہ طور پر دنیا میں سب سے خطرناک ملک‘ قرار دیا تھا۔
  • 2008 میں نائب صدر کے لیے اپنی مہم کے دوران جوبائیڈن نے اس پوزیشن پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ اگر ملک پر حملہ ہوتا ہے تو یہ افغانستان اور پاکستان کے پہاڑوں میں القاعدہ کی منصوبہ بندی سے ہوگا‘۔
  • اوباما انتظامیہ کے دور میں پاکستان پر امریکی ڈرون حملوں میں 631 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا تھا جبکہ جوبائیڈن بطور نائب صدر اس انتظامیہ کا لازمی حصہ تھے۔

ان کے ماضی کے مؤقف کے برعکس اگر وہ صدر منتخب ہوتے ہیں تو جنوبی ایشیا میں بدلتی صورتحال جوبائیڈن کی خارجہ پالیسی پر بھی اثرانداز ہوگی۔

2012 میں باراک اوباما کی فتح کے بعد تقریر کے موقع پر جوبائیڈن بھی موجود رہے—فائل فوٹو: رائٹرز
2012 میں باراک اوباما کی فتح کے بعد تقریر کے موقع پر جوبائیڈن بھی موجود رہے—فائل فوٹو: رائٹرز

ڈونلڈ ٹرمپ کے برعکس جوبائیڈن نے کہا ہے کہ وہ جب افغانستان میں فوجیوں کی تعداد کو کم کردیں گے تو وہ وہاں امریکی فوج کی موجودگی سے دستبردار نہیں ہوں گے۔

گزشتہ شال ڈیموکریٹک صدارتی اُمیدواروں کے درمیان مباحثے میں جوبائیڈن نے کہا تھا کہ ہم اڈوں کی فراہمی کے ذریعے امریکا کو افغانستان سے ہونے والی دہشتگردی کا نشانہ بننے سے روک سکتے ہیں، ساتھ ہی پاکستانیوں پر زور دیا تھا کہ وہ ہمیں اڈے فراہم کریں تاکہ ہم وہاں سے اڑیں اور ان کے خلاف کارروائی کریں جنہیں ہم جانتے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ امریکا خطے میں چین کے اثرورسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے بھارت کے قریب ہوسکتا ہے، جو واشنگٹن کے اسلام آباد کے ساتھ تعلقات پر اثر انداز ہو گا۔

بھارت جو رواں سال کے آغاز سے لداخ میں متنازع سرحد پر چین کے ساتھ جاری تنازع میں شامل ہونے سے قبل تک ایک غیرجانبدرانہ مؤقف رکھتا تھا وہ ممکنہ طور پر امریکا کے ساتھ قریبی تعلقات کا خیرمقدم کرے گا۔

اسی اثنا میں جوبائیڈن کی جانب سے 5 اگست 2019 کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے اقدامات، امتیازی شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) اور مسلم آبادی کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر کھلی مذمت ممکنہ طور پر بھارت کو اتنا ہی غصہ دلائے گی جتنا وہ پاکستان کو خوش کرے گی۔

اپنی الیکشن ویب سائٹ پر مسلم-امریکن کمیونٹیز کے لیے اپنے ایجنڈے پر شائع ایک پالیسی پیپر میں کہا گیا کہ جوبائیڈن نئی دہلی کی جانب سے شہریوں کی قومی رجسٹریشن اور سی اے اے کی منظوری کے اقدام پر ’مایوس‘ تھے۔

مقبوضہ کشمیر سے متعلق جوبائیڈن کے پالیسی پیپر میں کہا گیا کہ ’بھارتی حکومت کو کشمیر کے تمام لوگوں کے حقوق بحال کرنے کے تمام ضروری اقدامات اٹھانے چاہئیں، اختلاف رائے پر پابندیاں جیسے پرامن مظاہروں کو روکنا یا انٹرنیٹ کو بند یا سست کرنا جمہوریت کو کمزور کرتا ہے‘۔

اگست میں جوبائیڈن کی مہم کے مشیر خارجہ پالیسی انتونی بلنکن کا کہنا تھا کہ ڈیموکریٹک اُمیدوار مسئلہ کشمیر کو بھارت کے ساتھ اٹھائے گا۔

اسلاموفوبیا

سابق امریکی نائب صدر نے اسلاموفوبیا کی مذمت کی جس کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ اکثر امریکی مسلمانوں کی شراکت کو اوجھل کردیا جاتا ہے، ساتھ ہی انہوں نے مسلم برادری کے ساتھ ’مل کر کام‘ کرنے اور اس کے ’جائز خدشات‘ دور کرنے کا وعدہ کیا۔

جوبائیڈن امریکی صدارتی امیدوار ہیں—فائل فوٹو: رائٹرز
جوبائیڈن امریکی صدارتی امیدوار ہیں—فائل فوٹو: رائٹرز

امریکی مسلمان برادری کے لیے اپنے ایجنڈے میں جو بائیڈن نے تسلیم کیا کہ امریکا میں مسلمانوں کو مشکلات کا سامنا ہے اور انہوں نے ان حصوں کی نشاندہی کی جس میں وہ کام کریں گے، ان میں شامل ہیں۔

  • امریکی مسلمانوں کے آئینی حقوق کا تحفظ
  • ’پہلے دن‘ ہی ٹرمپ کے مسلم پابندی کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ ایسی قانون سازی پر کام کرنا جو مستقبل میں اس طرح کے قانون کو پاس ہونے سے روکے۔
  • حکومتی انتظامیہ کی جانب سے کیسز سے کس طرح نمٹا جاتا ہے کہ ’طویل عرصے سے جاری مسئلے کو حل کرکے‘ مسلمانوں کے خلاف بڑھتے نفرت انگیز جرائم کو کم کرنا۔
  • نفرت انگیز جرائم کے سزایافتہ افراد کے آتشی اسلحہ خریدنے یا رکھنے کی ممانعت
  • امریکی مسلمانوں کو ہدف بنانے اور پوری برادری کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کی پالیسی کو بھی دیکھا جائے گا۔
  • اسلاموفوبیا کا براہ راست مقابلہ کیا جائے گا اور مسلم برادری کی خدمات کو سراہا جائے گا۔
  • وائٹ ہاؤس کی عید منانے کی روایت کو بحال کیا جائے گا۔
  • وائٹ ہاؤس دفتر کی عوامی رابطے کی مسلم امریکن لائژن کی اسامی کو بھرا جائے گا۔
  • عالمی رابطے کے لیے ’امریکی قیادت کی بحالی‘ کے جوبائیڈن کے مقصد کے طور پر اسلامی تعاون تنظیم کے لیے خصوصی سفیر بھی مقرر کیا جائے گا۔
  • اس بات کو یقینی بنانا بھی شامل ہوگا کہ ان کی صدارت میں تمام وفاقی ایجنسیوں میں مسلم نمائندگی شامل ہو۔
  • یہ یقینی بنانے کے لیے کہ مسلمان اور مساجد اسلاموفوبیا کے حملوں سے محفوظ ہیں وسائل مختص کیے جائیں گے۔
  • مسلمانوں سمیت قیدیوں کی عبات کے ساتھ ساتھ بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانا اور ان کی بحالی میں مدد کرنا۔
  • چین میں ایغور مسلمانوں، میانمار میں روہنگیا مسلمانوں اور مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں سمیت دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف حقوق کی پامالی کے خلاف اظہار خیال کرنا۔
  • یمن جنگ سمیت ٹرمپ کا ’سعودی عرب کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے بلینک چیک‘ کا خاتمہ
  • غزہ میں اسرائیلی بستیوں اور مغربی کنارے میں اراضی کے قبضے کے خلاف بات کرنا۔

یہاں یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ اوباما انتظامیہ، جس میں جوبائیڈن نے بھی 8 سال خدمات انجام دی اس میں مسلمان مخالف جذبات سے لڑنے کے لیے ان کی کوششیں بہت تھوڑی نظر آئی تھیں۔

اپنی حکومت کے 8 برسوں میں اوباما کی حکومت نے تمام مسلم اکثریتی ممالک عراق، شام، لیبیا، افغانستان، پاکستان، یمن اور صومالیہ میں بموں کی بارش کی تھی جبکہ صرف 2016 میں امریکا نے کم از کم 26 ہزار 171 بم برسائے تھے۔

بش حکومت، جس نے نام نہاد ’وار آن ٹیرر‘ (دہشتگردی کے خلاف جنگ) شروع کی تھی ان کے مقابلے میں اوباما انتظامیہ کی جانب سے ڈرون حملے زیادہ تواتر سے کیے گئے تھے، یہی نہیں بلکہ افغانستان اور عراق میں جنگ کے خاتمے میں ناکامی کے باوجود اوباما حکومت نے شام، لیبیا اور یمن میں فوجی مداخلت کی قیادت کی اور یہ سب مشرق وسطیٰ کو غیرمستحکم کرنے کا باعث ہوا اور مبینہ طور پر عسکریت پسند داعش گروپ کو ابھارنے کی وجہ بنا۔

تاہم کچھ رپورٹس کے مطابق جوبائیڈن نے اس وقت صدر باراک اوباما سے اعتراض کیا تھا کہ وہ لیبیا میں مداخلت یا کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر شام کو کارروائی کی دھمکی نہ دیں۔

افغان جنگ

جو بائیڈن افغانستان سے مکمل فوجی انخلا کے ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے سے اتفاق نہیں کرتے، اپنی مہم کے دوران ایک سے زائد مرتبہ سابق نائب صدر یہ کہہ چکے ہیں کہ امریکا کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ القاعدہ اور داعش جیسے دہشت گرد گروپ افغانستان کی تعمیر کے بجائے وہاں دوبارہ قدم نہ جما لیں۔

انہوں نے مندرجہ ذیل وعدے کیے ہیں

  • وہ دوبارہ بڑی تعداد میں امریکی فوجیوں کو وطن واپس لائیں گے۔
  • افغانستان میں فوج رکھیں گے تاکہ داعش اور القاعدہ جیسے دہشت گروپوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔
  • فروری میں ڈیموکریٹک صدارتی اُمیدوار سے مباحثے میں انہوں نے افغانستان کے بارے میں کہا تھا کہ اس ملک کو متحد کرنے کا کوئی امکان نہیں، اسے ایک مکمل ملک بنانے کا کوئی امکان نہیں۔
  • ان کا یہ مؤقف ان کے اس سابقہ مؤقف سے مطابقت رکھتا ہے جو انہوں نے نائب صدر رہتے ہوئے اپنایا تھا، انہوں نے کہا تھا کہ امریکا کو انسداد دہشت گردی پالیسی پر توجہ دینی چاہیے اور صرف کم تعداد میں افغانستان میں فوجی دستوں کو تعینات کرنا چاہیے، بحیثیت نائب صدر انہوں نے افغانستان میں کم تعداد میں فوجی دستوں کی موجودگی کی حمایت کی تھی لیکن ناکام رہے۔
ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار اور سابق نائب صدر جو بائیڈن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بیلمونٹ یونیورسٹی میں ہوئے آخری صدارتی مباحثے میں بحث کر رہے ہیں— فوٹو: اے ایف پی
ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار اور سابق نائب صدر جو بائیڈن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بیلمونٹ یونیورسٹی میں ہوئے آخری صدارتی مباحثے میں بحث کر رہے ہیں— فوٹو: اے ایف پی

فلسطین-اسرائیل

اسرائیل اور فلسطین کے معاملے میں جوبائیڈن کی پالیسی میں دونوں فریقین کو کچھ پیشکش کی گئی ہے جہاں فلسطین کو امداد اور اسرائیلی کو توسیعی دفاع کی پیشکش کی گئی۔

اسرائیل اور یہودی برادری کے حوالے سے پالیسی پیپر میں جوبائیڈن نے عزم ظاہر کیا تھا کہ

  • فلسطینی بھائیوں سے تعلقات بحال کریں گے اور غزہ اور مغربی کنارے کے لیے دوبارہ سے امدادی پروگرام کا آغاز کریں گے۔
  • اسرائیل اور فلسطین دونوں کی قیادت سے بات کر کے دو ریاستی حل کی کوشش کریں گے۔
  • اسرائیل سے فوجی اور خفیہ تعاون کو بحال کریں گے جس کا اوباما انتظامیہ نے آغاز کیا تھا اور اس میں معیاری فوجی برتری کا عنصر برقرار رکھیں گے۔
  • عرب ریاستوں پر زور دیں گے کہ وہ اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کے لیے جرات مندانہ اقدامات اٹھائیں اور معاملہ گفتگو سے آگے بڑھائیں۔
  • اسرائیل کو ناجائز قرار دیتے ہوئے عالمی سطح پر بائیکاٹ، سرمایہ کاری نہ کرنے اور پابندیاں عائد کرنے سمیت اسرائیل کو ناجائز قرار دینے کی تمام کوششوں کی مخالفت کریں گے۔
  • ایران کو جوہری صلاحیت سے محروم کرنے کے لیے تمام سفارتی ذرائع بحال کریں گے۔
  • اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ اسرائیل اور امریکا کے تعلقات دوطرفہ رہیں۔

امریکا کی مسلمان برادری کے حوالے سے اپنے علیحدہ پالیسی پیپر میں جو بائیڈن نے کہا تھا کہ وہ اسرائیلی بستیوں کی توسیع کی مخالفت کرتے رہیں گے اور وہ مغربی کنارے سے اسرائیل کے انضمام کے خلاف بات کر چکے ہیں۔

انہوں نے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے 2019 میں مشرقی یروشلم میں بند کیے گئے امریکی قونصلیٹ کو بھی دوبارہ کھولنے کا وعدہ کیا البتہ یہ واضح نہیں کیا کہ وہ یروشلم میں امریکی سفارتخانہ کھولنے کے ٹرمپ کے فیصلے کو واپس لیں گے یا نہیں۔

2010 میں لی گئی اس تصویر میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کو اس وقت کے امریکی نائب صدر جو بائیڈن کے ساتھ خوشگوار موڈ میں دیکھا جا سکتا ہے— فوٹو: رائٹرز
2010 میں لی گئی اس تصویر میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کو اس وقت کے امریکی نائب صدر جو بائیڈن کے ساتھ خوشگوار موڈ میں دیکھا جا سکتا ہے— فوٹو: رائٹرز

ماحولیاتی تبدیلی

ڈونلڈ ٹرمپ کے برعکس جوبائیڈن ماحولیاتی تبدیلی کو امریکا کے ساتھ ساتھ دنیا کے لیے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں اور انہوں نے خیالی دنیا کے بجائے سائنس کی مکمل حمایت کا عزم ظاہر کیا، ان کی انتظامیہ ماحولیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے عالمی سطح پر جو اقدامات کرے گی اس کے بارے میں بتاتے ہوئے انہوں نے خصوصی طور پر دو ملکوں چین اور روس کا نام لیا جنہیں ان کی حکومت ماحول کو نقصان پہنچانے سے روکے گی۔

ان کی ویب سائٹ پر ماحولیات کے حوالے سے منصوبے کے مطابق جوبائیڈن جو کام کریں گے ان میں:

  • ایک پالیسی متعارف کرتے ہوئے آئندہ 10 سال میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی تاکہ ملک ماحولیاتی تبدیلی کا مقابلہ کر سکے۔
  • اس بات کو یقینی بنانا جائے گا کہ امریکا صاف توانائی کی حامل معیشت ہے اور 2050 تک توانائی کا صفر اخراج ہو گا۔
  • مختلف رنگ و نسل کی قوموں کے ساتھ ساتھ ایسے کاروبار کو بھی ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے محفوظ رکھا جائے گا جو ماحول کے تحفظ پر سمجھوتہ کرتے ہیں۔
  • عالمی برادری کی مہم کی حمایت کریں گے تاکہ چین ماحول کے تحفظ کے اعلیٰ معیار کو یقینی بنائے۔
  • آرکٹک کونسل کے ساتھ مل کر آرکٹک خطے میں روسی کی کھدائی کو روکیں گے۔

تجارت اور ٹیرف

ٹرمپ کی طرح جوبائیڈن نے مقامی صنعت اور مینوفیکچرنگ کو فروغ دینے کا وعدہ کیا ہے، گو کہ انہوں نے موجودہ صدر کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا لیکن ان کی اپنی پالیسیاں بھی اس سے کچھ مختلف نہیں، بین الاقوامی تجارت کی اپنی پالیسی میں جوبائیڈن نے درج ذیل اقدامات اٹھانے کا وعدہ کیا۔

  • چین سمیت امریکی مصنوعات ترک کرنے والے کسی بھی ملک کے خلاف جارحانہ تجارتی لائحہ عمل لاگو کیا جائے گا۔
  • چین سمیت تجارتی زیادتیوں کے مرتکب تمام ممالک کے خلاف اتحادیوں کے ساتھ مل کر مشترکہ لائحہ عمل بنایا جائے گا۔
  • امریکی دانشورانہ مصنوعات کی چوری روکنے کے لیے کوششیں کی جائیں گی۔
  • چین کو امریکی کمپنیوں کی سائبر جاسوسی اور امریکی ٹیکنالوجی چرانے والی چینی کمپنیوں کو اس کے سنگین نتائج سے آگاہ کیا جائے گا۔
  • 'پنجے گاڑنے' کے قانون کو متعارف کرایا جائے گا جس میں کاروبار کو امریکا سے دوسرے ممالک کی بھی راہ لینے کی ترغیب دی جائے گی تاکہ وہ عوامی سرمایہ اور ٹیکس کی چھوٹ سے پہنچنے والے ثمرات ملک کو لوٹا سکیں۔
  • ایسی ٹیکس پالیسیوں کو ختم کیا جائے گا جو امریکا کے باہر موجود بڑی امریکی کمپنیوں کو کم ٹیکس ادا کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔
  • ملک میں تجارتی یونینز کی حمایت کی جائے گی۔

سابق نائب صدر نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ آیا وہ موجودہ انتظامیہ کی جانب سے چین پر عائد ٹیرف ختم کریں گے یا نہیں، ماہرین کو توقع ہے کہ کم از کم چند ٹیرف تو جوبائیڈن انتظامیہ کے دور میں بھی برقرار رہیں گے۔

چین اور روس

موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے برعکس جوبائیڈن کا روس کے خلاف مؤقف ممکنہ طور پر جارحانہ ہو سکتا ہے جبکہ چین کے بارے میں ماہرین کا ماننا ہے کہ جوبائیڈن کا مؤقف بھی ٹرمپ جیسا ہی ہو گا۔

گوکہ انہوں نے امریکا کے روایتی حریفوں، چین اور روس کے حوالے سے تعلقات پر باقاعدہ خصوصی طور پر کسی پالیسی کا اعلان نہیں کیا البتہ ان دونوں ممالک کا جوبائیڈن کی الیکشن ویب سائٹ پر شائع پالیسی پیپرز میں ذکر کیا گیا ہے جس میں تجارت اور ماحولیاتی تبدیلی کے معاملات پر خصوصی تذکرہ بھی شامل ہے۔

اگر جوبائیڈن صدر منتخب ہوتے ہیں تو وہ

  • روس اور دیگر غیرملکی حکومتوں کے خلاف نوٹس لیتے ہوئے جارحانہ طرز عمل اپنائیں گے تاکہ امریکی انتخابات میں کسی بھی مداخلت کا انسداد کیا جا سکے۔
  • اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ چین آرکٹک خطے کو فوجی طاقت کی نذر نہ کرے۔
  • روس کے ساتھ امریکا کے اسٹریٹجک ہتھیاروں میں کمی کے معاہدے کو توسیع دیں گے تاکہ ہتھیاروں کے بہاؤ کو کنٹرول میں رکھا جا سکے۔
  • چین پر دباؤ ڈالا جائے گا کہ وہ کوئلے کی برآمد پر سبسڈی دے۔
  • چین اور دیگر ممالک کے ساتھ مل کر شمالی کوریا کے خطے کو فوج کی موجودگی سے پاک کیا جائے گا۔

کووڈ-19 پر ردعمل

جو بائیڈن کورونا وائرس پر ڈونلڈ ٹرمپ کے ردعل کو شدید تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں جس کے نتیجے میں اب تک کم از کم 91 لاکھ سے زائد امریکی وائرس کا شکار اور 2 لاکھ 30 ہزار سے زائد وائرس سے ہلاک ہوئے ہیں، امریکا اس وقت دنیا بھر میں وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے جس میں سب سے زیادہ کیسز اور اموات رپورٹ ہوئی ہیں۔

جو بائیڈن کورونا وائرس پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کو روز اول سے تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں— فوٹو: رائٹرز
جو بائیڈن کورونا وائرس پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کو روز اول سے تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں— فوٹو: رائٹرز

صحت کے اس بحران سے نمٹنے کے لیے ان کی الیکشن ویب سائٹ پر موجود تفصیلی منصوبے میں جو بائیڈن نے وعدہ کیا ہے کہ

  • ٹیسٹ کی سہولت کو توسیع دی جائے گی اور زیادہ سے زیادہ لوگوں تک رسائی یقینی بنائی جائے گی۔
  • ہیلتھ ورکرز کو حفاظتی کٹ فراہم کر کے انہیں محفوظ بنایا جائے گا اور ذہنی صحت اور تنخواہوں کو بہتر کیا جائے گا۔
  • ویکسین کی تیاری کے لیے عالمی سطح پر ایک سوچ اپنائی جائے گی۔
  • صحت کی ہدایات کی روشنی میں معشیت کو دوبارہ کھولا جائے گا۔
  • بزرگ اور زیادہ خطرات کا شکار آبادی کو محفوظ بنایا جائے گا۔