Dawnnews Television Logo

کراچی میں فراہمیِ آب کا نظام: مسائل، وجوہات اور حل

اگر کے 4 اگلے 3 سے 5 سال میں مکمل ہو بھی جاتا ہے تو اس دوران کراچی کی ضرورت مزید بڑھ چکی ہوگی اور پانی کی قلت برقرار رہے گی۔
اپ ڈیٹ 09 اپريل 2021 10:41am

مارچ کے آخری ایام کا ڈھلتا ہوا دن تھا۔ اچانک فون کی اسکرین پر اجنبی نمبر چمکنے لگا۔ بات شروع ہوئی تو دوسری جانب سے پریشان لہجے میں کوئی بزرگ بات کررہے تھے۔ کہنے لگے کہ 'ہمارے علاقے میں 40 سال سے سرکاری پانی سپلائی نہیں ہوا۔ ٹینکر سے پانی خریدتے ہیں اور اب کہا جا رہا ہے کہ ہمارے علاقے سے واٹر بورڈ کے سرکاری ہائیڈرینٹ کو کسی اور جگہ شفٹ کیا جائے گا۔ بھائی ہم تو پیاسے مرجائیں گے۔ ہزار روپے میں ملنے والا ٹینکر کم از کم 4 ہزار کا ملے گا۔ آپ کچھ تو ہماری مدد کریں۔ ہماری آواز ٹھنڈے کمروں والے ایوان تک ہی پہنچا دیں'۔

پہلے تو وقتی تسلی دے کر کال بند کردی۔ خیال یہی تھا کہ جو پانی 40 سال سے نہیں آیا وہ ہمارے رپورٹ کرنے سے کیسے آجائے گا؟ اور اب کون کراچی کے دُور دراز علاقے لانڈھی کی فیوچر کالونی تک جائے۔ کچھ دیر میں ہی دل ملامت کرنے لگا کہ بھائی اپنا کام تو کم از کم کرلو، سیاسی تماشا تو روز ہی رپورٹ ہوتا ہے۔ کراچی کے شہریوں کا مقدمہ لڑ نہیں سکتے تو کم از کم سُن تو لو۔ بس فوراً ہی لانڈھی فیوچر کالونی کا قصد کیا۔ کراچی کے سینئر صحافی اور شہر میں پانی کی سپلائی سمیت دیگر امور پر ماہرانہ رپورٹنگ کرنے والے مرتضٰی زلفی کو بھی فون کردیا۔ زلفی بھائی بھی فوری فیوچر کالونی پہنچنے پر راضی ہوگئے۔ اب کام بن گیا تھا۔

براستہ کورنگی انڈسٹریل ایریا لانڈھی کی طرف روانہ ہوچکا تھا۔ شہر میں رات 11 بجے سے قبل بھاری ٹریفک کے داخلے پر پابندی ہے لیکن دن بھر بڑے بڑے واٹر ٹینکر سڑکوں پر دندناتے پھرتے ہیں۔ سارے راستے ذہن میں سوالوں کی تکرار تھی کہ اگر پانی نلکے میں نہیں آتا تو ٹینکر کو کہاں سے ملتا ہے؟ مجھے کال کرنے والے شہری کو تو خوش ہونا چاہیے کہ اس کے علاقے میں ہائیڈرنٹ بند ہونے سے ٹینکر کے ذریعے بیچے جانے والا پانی شاید نلکے کی طرف ہی اپنا رخ کر لے۔ تو پھر کورنگی اور لانڈھی کے لوگ پریشان کیوں ہیں؟ کیا کراچی میں صرف لانڈھی کے لوگ ہی پریشان ہیں؟ سوال در سوال۔ ذہن میں گھنٹیاں بجتی رہیں۔

اب تو کے-4 پروجیکٹ سے لے کر کراچی میں پانی سپلائی کے نظام تک سب کا جواب حاصل کرنا ہی ہوگا۔ اس سوچ کے ساتھ لانڈھی فیوچر کالونی ہائیڈرنٹ پہنچ گیا۔ کچھ ہی دیر میں زلفی بھائی بھی پہنچ گئے۔ فیوچر کالونی کی تنگ گلی سے گزرتے ہوئے یہی خیال تھا کہ آگے کیچڑ میں قطار اندر قطار ٹینکر ہوں گے، چہار جانب دھول میں اٹا ماحول اور لائن میں کھڑے پریشان حال لوگ ہوں گے، لیکن یہاں منظر مختلف تھا۔ واٹر بورڈ کی سرکاری زمین پر صاف ستھری عمارت اور دُور دُور تک کوئی ٹینکر نہیں۔ فوری طور پر شکایت کرنے والے صاحب کو کال کی اور اگلے ہی لمحے گلی کی دوسری جانب سے 10، 12 پریشان حال افراد اپنی جانب آتے دکھائی دیے۔

سلام دعا کے ساتھ گفتگو شروع ہوئی تو کہنے لگے ’ہم ضلع کورنگی اور شاہ فیصل ٹاؤن کے مختلف علاقوں سے آئے ہیں۔ ہمارے علاقوں میں سرکاری پانی تقریباً 40 سال قبل ہی آیا ہوگا۔ ہماری زندگی تو ٹینکر کے پیچھے بھاگتے اور انتظار میں جاگتے ہی گزر رہی ہے۔ غریب لوگ ہیں لیکن پانی خرید کر ہی پیتے ہیں۔ سیاسی نعرے بھی ہماری پیاس نہیں بجھاتے‘۔

میں نے زلفی بھائی سے کان میں پوچھا۔ کیا یہ سب لوگ کسی غیر قانونی کچی بستی کے مکین ہیں؟ کہنے لگے کہ ان کی بات سُن لیں پھر تفصیل سے مسئلہ سمجھتے ہیں۔ ساتھ ہی کہا کہ یہ یاد رکھیں کہ یہ لوگ کسی غیر قانونی بستی کے رہنے والے نہیں بس غریب ہیں۔ ہم وہاں موجود لوگوں کی باتیں سنتے رہے، سوال ہوتے رہے اور جب جواب حاصل کرنے کی تشنگی بڑھ گئی تو وعدہ کیا کہ اس معاملے کو ضرور رپورٹ کریں گے اور وہاں سے چل دیے۔ آئیں اپنے ذہن میں کلبلاتے سوالات کی روشنی میں کراچی کے پانی کے مسئلے کو مختصراً سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

کورنگی کی اس بستی میں 40 سال سے پانی کیوں نہیں آیا؟

کراچی میں پانی کی تقسیم کے نظام کا تفصیلی جائزہ آگے چل کر پیش کرتے ہیں لیکن کورنگی کی اس بستی میں کراچی کے مختلف علاقوں کی طرح پانی کی تقسیم کا نظام کچھ ایسا تھا کہ شہر کے مختلف علاقوں کے مشہور چوک، چوراہوں یا کسی مخصوص میدان یا علاقے جہاں زیادہ سے زیادہ لوگ پہنچ سکیں وہاں واٹر بورڈ کا نلکہ ہوتا تھا۔ اس کے کھلنے کے اعلان شدہ اوقات کار تھے۔ واٹر بورڈ کا وال مین نلکہ کھولتا اور لوگ لائن بنا کر اپنی اپنی کوشش کے مطابق پانی جمع کرکے گھر لے جاتے تھے۔

پھر جب ٹینکر کا سلسلہ شروع ہوا تو لائن بنا کر نل سے پانی لینے کا سلسلہ ختم ہوتا گیا، وال مین نے علاقے میں آنا چھوڑ دیا اور نلکے تک آنے والا پائپ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا۔ اب لگ بھگ کورنگی کے اس علاقے سے نلکہ سسٹم ختم ہوئے 40 سال سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے۔ لوگ پیسے جمع کرکے ٹینکر بلواتے ہیں اور حسبِ استطاعت کوئی اپنے گھر کے زیرِ زمین ٹینک اور کوئی فائبر کی ٹینکی یا ڈرم میں پانی جمع کرلیتا ہے۔ اس دوران مختلف سیاسی جماعتیں اس طرح کے علاقوں میں پانی کی سپلائی کے مربوط سسٹم کو متعارف کروانے کے اعلانات اور وعدے ضرور کرتی رہی ہیں لیکن عملی طور پر صرف کورنگی ہی نہیں بلکہ کراچی کے ایسے اور بھی علاقے ہیں جو فراہمی آب کے سرکاری نظام سے محروم ہیں۔

کیا لانڈھی فیوچر کالونی کا ہائیڈرنٹ غیر قانونی تھا جو بند ہونے کا امکان ہے؟

سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق کراچی میں چلنے والے 6 قانونی ہائیڈرنٹ میں سے ایک فیوچر کالونی کا ہائیڈرنٹ بھی ہے، جس کا مقصد ضلع کورنگی اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں میں پانی کی ضروریات کو واٹر بورڈ کے طے شدہ ریٹ کے مطابق پورا کرنا ہے۔

دسمبر 2020ء میں ٹینڈر کی کامیاب بولی کے بعد اس ہائیڈرنٹ کے ٹھیکے دار کو کام شروع کرنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ ابھی ورک آرڈر کی سیاہی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ واٹر بورڈ کراچی میں مبینہ سیاسی عمل دخل پر زبانی آرڈر کے ذریعے پہلے طے شدہ سپلائی کا دورانیہ 18 گھنٹے سے کم کیا گیا اور اب زبانی اطلاع یہ دی گئی ہے کہ ہائیڈرنٹ کو 25 کلومیٹر دُور شفٹ کیا جائے گا۔

ٹھیکے دار نے اس تمام صورتحال اور زبانی احکامات کے خلاف سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا ہے جہاں ابھی واٹر بورڈ کا جواب داخل نہیں ہوا ہے۔ علاقہ مکین بدلتی صورتحال سے اس لیے بھی پریشان ہیں کہ اب ہائیڈرنٹ دن کے 18 گھنٹے چلنے کے بجائے صرف رات کے 8 گھنٹے چلایا جاتا ہے جس سے پانی کی قلت بڑھ گئی ہے۔

ہم نے زلفی بھائی سے درخواست کی کہ واٹر بورڈ کا مؤقف لینے کے لیے ان صاحب سے ہی بات کرلیں جن کے زبانی حکم پر لانڈھی ہائیڈرنٹ کے کام کرنے کا دورانیہ کم ہوچکا ہے۔ رابطہ کرنے پر واٹر بورڈ اینٹی تھیفٹ سیل کے سربراہ راشد صدیقی نے بتایا کہ ’واٹر بورڈ کسی بھی ہائیڈرینٹ ٹھیکے دار کے ٹینڈر کو نہ صرف منسوخ کرنے کا اختیار رکھتا ہے بلکہ اگر علاقہ مکین ہائیڈرنٹ کی موجودگی کی وجہ سے پریشان ہوں یا شکایت کریں تو واٹر بورڈ اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ہائیڈرنٹ کو کسی اور جگہ منتقل کرسکتا ہے‘۔

لانڈھی فیوچر کالونی کا ہائیڈرنٹ
لانڈھی فیوچر کالونی کا ہائیڈرنٹ

قانونی اور غیر قانونی ہائیڈرنٹ ہوتے کیا ہیں اور پانی کی قیمت کون طے کرتا ہے؟

کراچی میں اس وقت صرف 6 قانونی ایسے ہائیڈرنٹ ہیں جنہیں سپریم کورٹ کے حکم کے تحت ٹھیکے پر دیا گیا ہے، ان کے علاوہ شہر میں ہر قسم کا واٹر ہائیڈرینٹ غیر قانونی کہلائے گا۔

اس حوالے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کراچی میں بدامنی کا جب سراغ لگایا تو معلوم ہوا کہ غیر قانونی ہائیڈرنٹ سے پانی بیچ بیچ کر کمایا گیا پیسہ دہشتگردی کی کارروائیوں میں استعمال ہوتا رہا ہے۔

2017ء سے قبل شہر میں تقریباً 90 ہائیڈرنٹ تھے جن میں سے 22 کے قریب قانونی اور باقی مافیا کے زیرِ انتظام تھے۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ ضلعی سطح پر صرف ایک ہائیڈرنٹ بنایا جائے، جس کے لیے واٹر بورڈ پانی کے نرخ کا تعین کرے اور تشہیر بھی کرے۔ پھر جسٹس (ر) امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں واٹر کمیشن بنایا گیا جس نے کئی فیصلے کیے اور عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد بھی کروایا۔ 2017ء میں واٹر کمیشن نے ہر ضلع کے لیے ایک ہائیڈرنٹ والے فیصلے پر عمل کروانا شروع کردیا تھا۔

اس وقت پانی کی فی ہزار گیلن قیمت ایک ہزار روپے ہے جبکہ ٹینکر 10 کلومیٹر کے دائرے سے باہر ہر کلومیٹر کے 65 روپے فی کلو میٹر کرایہ وصول کرنے کا مجاز ہوگا۔ پانی کے ٹینکر کی پیشگی بکنگ کروانا ہوتی ہے جو واٹر بورڈ کی ویب سائٹ سے آن لائن کروائی جاتی ہے۔

اس کے علاوہ ہر ضلع کے ڈی سی کا اپنا کوٹہ ہوتا ہے، ڈی سی کے حکم پر اس کے کوٹے سے پانی کی قلت والے مقامات پر مفت واٹر ٹینکر سپلائی کیا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ مساجد سمیت دیگر عبادت گاہوں کو بھی مفت ٹینکر سپلائی کیا جاتا ہے۔ ہائیڈرینٹ کے وال پر واٹر بورڈ کا میٹر نصب ہوتا ہے جس کے مطابق ہائیڈرنٹ سے بل وصول کیا جاتا ہے۔ ہائیڈرنٹ ٹھیکے دار تمام پیسے کا آڈٹ شدہ حساب واٹر بورڈ کو پیش کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ 2017ء سے قبل کراچی میں لاقانونیت اس قدر بڑھ گئی تھی کہ یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ کون سا ہائیڈرنٹ قانونی ہے اور کون سا غیر قانونی؟

ہائیڈرنٹ پر نصب پانی کا میٹر
ہائیڈرنٹ پر نصب پانی کا میٹر

کیا اب کراچی میں غیر قانونی ہائیڈرینٹ موجود نہیں؟

واٹر مافیا کبھی مفت کی کمائی سے باز نہیں آئے گا۔ سپریم کورٹ اور واٹر کمیشن کے احکامات سے اندھیر نگری کا اندھیرا کچھ کم ضرور ہوگیا لیکن پانی کی چوری اب بھی جاری ہے۔ تاہم اب طریقہ واردات بدل چکا ہے۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ کوئی اپنی فیکٹری کے لیے ظاہری طور پر چھوٹا کنکشن منظور کروائے لیکن ساتھ ہی زیرِ زمین واٹر بورڈ کی بڑی لائن سے خفیہ کنکشن فیکٹری یا متعلقہ جگہ تک لے آئے۔ اس کے لیے ظاہری طور پر زیرِ زمین پانی نکالنے کی منظوری کا قانونی جواز فراہم کیا جاتا ہے جس میں دراصل پانی واٹر بورڈ کی لائن سے ہی چرایا جا رہا ہوتا ہے لیکن اسے بورنگ کا پانی بتایا جاتا ہے۔

اب سپریم کورٹ نے زیرِ زمین پانی کا اجازت نامہ جاری کرنے پر پابندی عائد کردی ہے۔ اسی طرح دھابیجی سے آنے والی لائنوں میں مختلف جگہ پمپ ڈال کر جنریٹر اور موٹر کی مدد سے رات کے اوقات میں بھاری مقدار میں پانی چوری کیا جاتا ہے اور یہ پانی زراعت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ چوری کا پانی استعمال کرنے والوں میں مختلف فارم ہاؤس اور کیٹل فارم بھی شامل ہوتے ہیں۔

ٹینکر مافیا کا ایک طریقہ واردات یہ بھی ہے کہ کسی ویران علاقے میں پانی کی لائن میں سوراخ کردیا جاتا ہے جہاں سے ہونے والا رساؤ قریب موجود کسی بڑے سے گڑھے میں جمع کرلیا جاتا ہے اور پھر ٹینکر سے سپلائی کردیا جاتا ہے۔

کراچی کے لیے کتنا پانی چاہیے اور یہ آتا کہاں سے ہے؟

کراچی میں پانی کی تقسیم کا انتظام تقسیمِ ہند سے قبل کا ہے۔ انگریز سرکار نے شہر کو پانی کی سپلائی کے لیے ڈملوٹی کنڈیوٹ کا نظام متعارف کروایا تھا۔ کنڈیوٹ سے مراد پانی سپلائی کرنے والی ایک بڑی سرنگ سے ہے جس کا سائز مختلف ہوسکتا ہے۔ ڈملوٹی کنڈیوٹ ملیر کینٹ سے شروع ہوکر لائنز ایریا کے علاقے میں واقع ٹیمپل کری ریزوائر (لائنز ایریا میں زیرِ زمین پانی کا ایک بڑا ذخیرہ) تک پانی پہنچاتی ہے۔ ملیر کے گردونواح میں بہت سے کنویں موجود تھے جن سے پانی نکال کر ڈملوٹی کنڈیوٹ کے ذریعے شہر کی جانب بھیجا جاتا تھا۔

قیامِ پاکستان کے بعد کراچی شہر کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا اور ڈملوٹی کے کنویں خشک ہوتے گئے۔ بعد ازاں واٹر بورڈ نے جامعہ کراچی کیمپس کے اندر سے گزرنے والی 84 انچ قطر کی بڑی لائن سے انٹر کنکٹ کرکے ڈملوٹی کنڈیوٹ میں پانی ڈالنا شروع کردیا جو شہر کے ایک جانب ملیر کینٹ اور دوسری طرف لائنز ایریا تک جاتا ہے۔ لائنز ایریا کے بڑے ذخیرہ آب سے سپریم کورٹ رجسٹری اور برنس روڈ تک اور دوسری طرف ایف ٹی سی بلڈنگ، شاہراہ فیصل کے اطراف کے علاقوں تک پانی سپلائی ہوتا ہے۔

قیامِ پاکستان کے وقت کراچی کو فراہمی آب کے لیے صرف ڈملوٹی کنڈیوٹ موجود تھی۔ 1957ء میں پہلی مرتبہ کراچی کے لیے پانی کا کوٹہ تجویز کیا گیا جس کے مطابق دریائے سندھ سے 242 ملین گیلن روزانہ ربیع کے موسم میں جبکہ خریف کے موسم میں 280 ملین گیلن پانی سپلائی کیا جانا تھا جو تقریباً 475 کیوسک بنتا ہے۔

1957ء سے 1988ء تک یہ صرف ایک تجویز ہی رہی اور اس پانی کی فراہمی کے لیے کوئی عملی کام نہیں ہوسکا تھا۔ 1988ء میں صدارتی حکم نامے کے ذریعے جنرل ضیا الحق کے دور میں پہلی مرتبہ گریٹر کراچی منصوبہ برائے فراہمی آب شروع کیا گیا۔ اس منصوبے کے تحت روزانہ سپلائی کا کوٹہ 1200 کیوسک مختص کیا گیا۔ اس منصوبے پر مکمل عمل درآمد سال 2006ء میں پانی کی سپلائی کے منصوبے کے 3 کی تکمیل کے بعد ممکن ہوسکا۔

اس وقت واٹر بورڈ کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق کراچی کو 562 ملین گیلن پانی کی سپلائی درکار ہے جس میں سے 472 ملین گیلن پانی دریائے سندھ اور کینجھر جھیل سے بذریعہ دھابیجی پمپنگ اسٹیشن اور باقی 90 ملین گیلن حب ڈیم سے سپلائی کیا جاتا ہے۔ تاہم ملک میں بارشوں کی صورتحال کے مطابق اس میں کمی ضرور ہوجاتی ہے۔

اگر کراچی کی موجودہ ضرورت کا جائزہ لیں تو ایک کروڑ آبادی کے لیے روزانہ تقریباً 550 ملین گیلن پانی کی ضرورت ہوگی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق کراچی کی آبادی اس وقت 2 کروڑ سے زائد ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ کراچی کو روزانہ ایک ہزار 600 ملین گیلن پانی کی فراہمی کو ممکن بنانا ہوگا، اور اس وقت کراچی میں روزانہ کی بنیاد پر پانی کی قلت تقریباً ایک ہزار ملین گیلن ہے جو تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اب کتنا ہی اچھا سپلائی سسٹم موجود کیوں نہ ہو، جب تک ضرورت کے مطابق پانی سپلائی نہیں ہوگا قلت یونہی برقرار رہے گی۔ پانی کی ضرورت کے عالمی پیمانے کو دیکھا جائے تو فی کس پانی کی طلب 54 گیلن ہے۔

واٹر بورڈ کی ویب سائٹ کے مطابق یکم جنوری 2021ء کو کراچی کو ملنے والے پانی کی تفصیل
واٹر بورڈ کی ویب سائٹ کے مطابق یکم جنوری 2021ء کو کراچی کو ملنے والے پانی کی تفصیل

کینجھر جھیل اور حب ڈیم سے کراچی شہر تک پانی آتا کیسے ہے؟

کراچی کو پانی کی فراہمی دریائے سندھ اور حب ڈیم سے کی جاتی ہے۔ دریائے سندھ کا پانی پہلے کینجھر جھیل میں جمع کیا جاتا ہے جہاں سے کینال کے ذریعے دھابیجی پمپنگ اسٹیشن تک لایا جاتا ہے۔ دھابیجی سے 72 انچ قطر کی 10 لائنیں 200 فٹ بلند مقام ’فور بے‘ تک پانی پہنچاتی ہیں۔ فور بے کے مقام سے یہ پانی کشش ثقل کے ذریعے نارتھ ایسٹ کراچی سپر ہائی وے پلانٹ پہنچایا جاتا ہے۔ دھابیجی سے نارتھ ایسٹ پہنچنے کا دورانیہ 24 گھنٹے ہوتا ہے۔

نارتھ ایسٹ کراچی پلانٹ جسے ’این ای کے‘ کہا جاتا ہے وہاں ’کے 2‘ فلٹر پلانٹ موجود ہے۔ اسی جگہ پر این ای کے اولڈ اور نیو پمپنگ اسٹیشنز بھی ہیں۔ این ای کے سے ایک پمپنگ اسٹیشن جامعہ کراچی کے سامنے بنے ہوئے بڑے ذخیرہ آب تک پانی پہنچاتا ہے اور وہاں سے پانی سی او ڈی فلٹر پلانٹ عقب بیت المکرم مسجد تک چلا جاتا ہے۔ فلٹر ہونے کے بعد پانی اب شہر بھر کو سپلائی کیا جاتا ہے۔

شہر کے دوسری جانب این ای کے سے پمپنگ کے ذریعے ضلع وسطی اور غربی کے مختلف علاقوں کو پانی سپلائی کیا جاتا ہے۔ کراچی کو پانی کی سپلائی میں ایک چھوٹا سا حصہ جو 22 ملین گیلن ہے وہ گھارو فلٹر پلانٹ کا بھی ہے۔ دھابیجی پمپنگ اسٹیشن سے روزانہ 145 ملین گیلن پانی پپری پمپنگ اسٹیشن پر بھیجا جاتا ہے۔ لانڈھی قائد آباد تک 54 انچ قطر کی 2 لائنیں ہیں جن میں سے ایک لانڈھی کورنگی کے صنعتی اور رہائشی علاقوں کو پانی فراہم کرتی ہوئی ڈیفینس ویو تک آتی ہے اور یہاں پر ڈیفنس کا پمپنگ اسٹیشن موجود ہے جسے واٹر بورڈ طے شدہ معاہدے کے تحت 80 ملین گیلن پانی روزانہ فراہم کرتا ہے۔ دوسری لائن ملیر تک پانی سپلائی کرتی ہے۔

حب ڈیم سے سندھ کو پانی سپلائی کرنے کا دار و مدار بلوچستان کے پہاڑی علاقوں میں ہونے والی بارشوں پر ہے۔ حب ڈیم میں صرف بارش کا پانی ہی جمع ہوتا ہے جسے بلوچستان اور سندھ کے علاقوں کو سپلائی کردیا جاتا ہے۔ حب ڈیم سے نکلنے والی حب کینال سے منگھوپیر پمپنگ اسٹیشن تک پانی آتا ہے جہاں روزانہ 80 ملین گیلن فلٹر شدہ اور 20 ملین بغیر فلٹر پانی کراچی کے 4 ٹاؤنز کو سپلائی کیا جاتا ہے۔ حب ڈیم کا پانی بلوچستان میں صرف زراعت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

حب ڈیم کی حالیہ تصویر، بشکریہ — حامد الرحمٰن
حب ڈیم کی حالیہ تصویر، بشکریہ — حامد الرحمٰن

بجلی کے بریک ڈاؤن سے پانی کی لائن کیوں پھٹ جاتی ہے؟

دھابیجی پمپنگ اسٹیشن پر پانی کی سپلائی کے دوران 72 انچ قطر کی 9 لائنیں 200 فٹ کی بلندی پر پانی پہنچاتی ہیں ان میں شامل سیمنٹ کی بنی قدیم اور بوسیدہ لائن بجلی کے تعطل کی صورت میں بیک پریشر سے پھٹ جاتی ہے۔ بجلی کا تعطل اچانک پمپنگ روک دیتا ہے اور لائن میں شہر کی جانب چلنے والا پانی پچھلا پریشر ٹوٹ جانے کی وجہ سے تیزی سے واپس آنا شروع ہوتا ہے جسے بیک پریشر کہا جاتا ہے۔ بیک پریشر سے پھٹنے والی لائن کی مرمت میں اکثر 2 سے 3 دن لگ جاتے ہیں۔ اس دوران ناصرف لاکھوں گیلن پانی ضائع ہوجاتا ہے بلکہ شہر میں پانی کی شدید قلت بھی پیدا ہوجاتی ہے۔

اگر کراچی شہر میں پانی کی کمی ہے تو ٹینکر کو پانی کیسے ملتا ہے؟

شہر بھر میں پانی کی سپلائی کے لیے ایک مکمل اور جدید نظام کی ضرورت ہے جس کے لیے خطیر رقم درکار ہوگی۔ اس وقت ہمارا سارا بجٹ فرسودہ اور ناقص نظام کو چلانے اور تھوڑی بہت دیکھ بھال پر ہی خرچ ہوجاتا ہے۔ پانی کی تقسیم کے نئے نظام کے لیے پیسہ موجود نہیں ہے اس لیے عارضی بنیادوں پر ٹینکر سسٹم شروع کیا گیا تھا تاکہ اگر سپلائی لائن ڈالنے میں تاخیر ہے یا بہت سے علاقوں میں سپلائی لائن موجود نہیں تو پھر ان ٹینکروں کے ذریعے پانی سپلائی کیا جاسکے۔

کراچی ضلع غربی میں ایک پمپنگ اسٹیشن—فوٹو PCRWR
کراچی ضلع غربی میں ایک پمپنگ اسٹیشن—فوٹو PCRWR

سپریم کورٹ کی ہدایت پر بننے والے واٹر کمیشن نے ابتدا میں نئے بلڈنگ منصوبوں کے لیے واٹر بورڈ کی اجازت کو لازمی قرار دیا تھا لیکن اس سے تعمیراتی صنعت بحران کا شکار ہوکر تقریباً بند ہونے کے نزدیک پہنچ گئی تھی۔

شہر میں پرانا سپلائی سسٹم جان بوجھ کر بھی خراب کیا گیا تاکہ ٹینکر چلتے رہیں اور بے حساب آمدن ہوتی رہے۔ اب واٹر کمیشن کے بعد ہر ضلع کا ایک ہائیڈرینٹ ہے جہاں واٹر بورڈ کے میٹر کے ساتھ 48 انچ قطر کی لائن سے نکلنے والا 6 انچ کا کنکشن ہوتا ہے جہاں سے ٹینکر بھر کر پانی کی قلت کے شکار علاقوں میں پانی بھیجا جاتا ہے۔

اس وقت ہائیڈرینٹ کو سپلائی کیا جانے والا پانی شہر کو ملنے والے کُل پانی کا تقریباً 20 فیصد ہے۔ سادہ الفاظ میں 20 فیصد پانی ٹینکر کے ذریعے تقسیم ہوتا ہے۔ ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ بڑے بڑے ٹینکر ہائیڈرینٹ سے پانی بھر کر مختلف علاقوں میں کھڑے ہوجاتے ہیں اور وہاں نجی ٹینکر سروس کے نام پر من پسند قیمت پر لوگوں کو پانی سپلائی کردیا جاتا ہے۔ اس کے خریدار زیادہ تر وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں فوری ٹینکر مطلوب ہوتا ہے اور وہ آن لائن بکنگ اور پھر انتظار کے جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتے۔

کراچی شہر میں پانی کی سپلائی کی مجموعی صورتحال

کراچی کنکریٹ کا جنگل ہے۔ بغیر کسی پلاننگ کے ہزاروں عمارتیں بن چکی ہیں جنہیں اب ترتیب میں لانا یا خالی کروانا ممکن نہیں رہا۔ کسی زبردستی کی کوشش سے انسانی المیہ جنم لینے کا اندیشہ ہوتا ہے۔

کراچی میں اس وقت کسی بھی علاقے کے لیے یہ کہنا ناممکن ہے کہ وہاں ضرورت کے عالمی معیار کے مطابق پانی سپلائی کیا جا رہا ہے۔ بہت سے علاقوں میں پانی کی قلت دُور کرنے کے لیے زیرِ زمین بورنگ کی جاتی رہی ہے لیکن اب شہر کے زیادہ تر علاقوں میں زیرِ زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک نیچے جاچکی ہے۔ اکثر بالائی علاقوں میں بورنگ ممکن نہیں یا پھر زیرِ زمین پانی قابلِ استعمال نہیں ہے، ایسے علاقوں میں ہمیشہ ہی پانی کی قلت رہتی ہے۔

کراچی کے علاقے توحید کالونی کے رہائشی بورنگ کروا رہے ہیں—تصویر بشکریہ نوشاد عالم
کراچی کے علاقے توحید کالونی کے رہائشی بورنگ کروا رہے ہیں—تصویر بشکریہ نوشاد عالم

واٹر بورڈ کی جانب سے مختلف ادوار میں کیے گئے دعوؤں کے مطابق شہر میں رہائشی اور کمرشل کنکشنز کی تعداد 2 لاکھ کے قریب ہے۔ تقریباً 3 کروڑ آبادی کے شہر میں 2 لاکھ کنکشن ہی خط کا مضمون بتانے کے لیے کافی ہیں۔ باقی علاقوں میں اس وقت تک سرکاری پانی کی لائن صرف سیاسی نعروں میں ہی بند ہے۔ ہر علاقے میں واٹر سپلائی کا مختلف طریقہ ہے۔ کسی علاقے میں 4 دن میں ایک مرتبہ یا ہفتے میں ایک مرتبہ پانی سپلائی کیا جاتا ہے۔ اس طریقہ کار کو ناغہ سسٹم کہا جاتا ہے جس کا اعتراف واٹر بورڈ خود کرتا ہے۔ سپلائی کا دورانیہ اس وقت بڑھ جاتا ہے جب کسی بھی وجہ سے شہر کو پانی کی سپلائی میں کمی کا سامنا ہو۔ ایسے مواقع پر واٹر بورڈ ایک اعلامیہ جاری کرکے اپنی ذمہ داری پوری کردیتا ہے۔

کراچی میں پانی کا اوسط خرچ کیا ہوسکتا ہے؟

اگر کسی کے گھر سپلائی کا پانی طے شدہ اسکیم کے تحت اکثر آجاتا ہے تو وہ خوش نصیب علاقے کا رہائشی کہلائے گا۔ ایسے گھر کے پانی کا خرچ بھی تقریباً 700 روپے سے ایک ہزار تک ہی ہوتا ہے۔ واٹر بورڈ نے پانی کے بل کی رقم کو گھر کے سائز سے مشروط کیا ہوا ہے لیکن پانی چونکہ ضرورت کے مطابق ملنا نہیں اس لیے فی خاندان کی ایک سے لے کر 5 ہزار گیلن پانی کی ضرورت ٹینکروں سے پوری کی جاتی ہے یعنی اضافی 2 سے 15 ہزار روپے خرچ ہوجاتے ہیں۔

سندھ حکومت کی منظوری سے کراچی واٹر بورڈ شہریوں سے درج ذیل ٹیرف کے تحت بل وصول کرنے کا مجاز ہے۔ یاد رہے کہ ایسے کسی کنکشن پر میٹر موجود نہیں یعنی اگر کسی وجہ سے پورا مہینہ پانی سپلائی نہ بھی ہو تب بھی بل ادا کرنا ہی ہوگا۔

کراچی والوں کو نلکے میں پانی کیسے ملے گا؟

اس کا سادہ جواب یہی ہے کہ ہماری اور آپ کی زندگی میں شاید ایسا ممکن نہ ہوسکے کیونکہ کراچی کے لیے جب بھی کوئی منصوبہ منظور کیا جاتا ہے تو اس کی تکمیل اس مطلوبہ عرصے میں نہیں ہوپاتی اور طویل انتظار کے بعد جیسے ہی منصوبہ مکمل ہوتا ہے تو اس وقت تک پانی کی ضرورت اس قدر بڑھ چکی ہوتی ہے کہ واٹر بورڈ اگلے ہی روز پانی کی مزید ضرورت کا اعلان کردیتا ہے لہٰذا ایک اور نئے منصوبے کے پیچھے بھاگنا شروع کردیا جاتا ہے۔

اگر کے-4 منصوبے کو ہی دیکھا جائے تو اس کی منظوری 2011ء میں مصطفیٰ کمال کے دور میں ایکنیک سے ہوچکی تھی لیکن کام بس کاغذوں میں ہی ہوتا رہا۔ کے-4 منصوبے کے 3 فیز تھے جنہیں 2015ء سے 2019ء کے دوران مکمل ہوجانا تھا۔ لیکن ایسا ہو نہیں سکا۔ اب بھی اس بحث میں مزید تاخیر ہو رہی ہے کہ وفاق اور سندھ میں سے کون کتنا بجٹ دے گا اور یہی تعین نہیں ہوتا کہ تاخیر کا ذمہ دار کون ہے؟

متعدد مرتبہ کے-4 کے روٹ کو تبدیل کیا جاچکا ہے جس سے تاخیر در تاخیر ہو رہی ہے۔ کے-4 منصوبے سے تقریباً 120 کلو میٹر طویل 2 سے 3 بڑی کینال کے ذریعے تقریباً 650 ملین گیلن پانی روزانہ کراچی کو سپلائی ہونا ہے جس کے آخری سرے پر پمپنگ اسٹیشن بھی ہوں گے۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اگر کے-4 اگلے 3 سے 5 سال میں مکمل ہو بھی جاتا ہے تو اس دوران کراچی کی ضرورت مزید بڑھ چکی ہوگی اور پانی کی قلت برقرار رہے گی۔ پھر کے-4 کے ساتھ کے-5 بھی شروع کرنا ہوگا۔

اس وقت کراچی میں پانی کی یومیہ قلت 400 ملین گیلن ہے اور آج اگر کے-4 پر سنجیدگی سے کام شروع ہو بھی جائے تو اس کے مکمل ہونے تک دوبارہ یومیہ پانی کی قلت مزید 400 ملین گیلن بڑھ جائے گی۔ دوسری جانب شہر میں موجود پانی کی سپلائی کے سسٹم پر بھی بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔

بوسیدہ پانی کی لائنیں تبدیل کرنا ہوں گی تاکہ ضائع ہونے والے پانی کو استعمال میں لایا جاسکے۔ آہستہ آہستہ شہر کے مختلف علاقوں میں پانی کی لائن ڈالنا ہوگی جس کے لیے سالانہ ایریا ٹارگٹ کیا جاسکتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ واٹر بورڈ کے ڈیفالٹرز میں عام آدمی سے لے کر بہت سے خواص کا نام بھی آتا ہے اور فہرست میں سرکاری ادارے بھی شامل ہیں۔ اگر صرف سرکاری ادارے ہی ادائیگی کو یقینی بنا دیں تو شہریوں کے لیے بہت سی سہولیات پیدا ہوسکتی ہیں ورنہ پانی کی قلت کا رونا تو ہمیشہ ہی جاری رہے گا۔


لکھاری نیو ٹی وی کے پروگرام کرنٹ افیئرز کی میزبانی کرتے ہیں۔