ماہر علی
ماہر علی

کاش کہ یہ کالم لکھنے کی کبھی نوبت نہ آتی۔ میں ایسا اس میں لکھے الفاظ کی وجہ سے نہیں بلکہ جن حالات میں اسے لکھا جا رہا ہے اس کی وجہ سے کہہ رہا ہوں۔

پیر کے روز آئی اے رحمٰن کی موت کی خبر نے ہزاروں کو غمزدہ کردیا۔ لوگوں کے اس غم کو دیکھتے ہوئے ان کی اثرانگیزی کی وسعت و قوت کا پتا چلتا ہے۔ پاکستان نے شاید اپنی سب سے روشن مشعلِ راہ کھو دی ہے۔

ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کو اس سوچ کے ساتھ یہ خیال بھی ستا رہا ہو کہ قوم کو اپنی سیاہ ترین گھڑیوں میں اس نقصان کو برداشت کرنے پڑے گا۔ مگر شاید آئی اے آر، انہیں پیار سے انہی حروف سے پکارا جاتا تھا، اس خیال سے متفق نہ ہوتے کیونکہ قیامِ پاکستان کے وقت وہ تقریباً جواں سال لڑکے ہی تھے، لہٰذا وہ دہائیوں سے اس کے دُکھ تکلیفوں کو دیکھتے رہے تھے، اور وہ مختلف معاملات کو مختلف نکتہ نظر سے سمجھانے کا کمال سلیقہ رکھتے تھے۔

مجھے یاد نہیں کہ آئی اے آر سے میری پہلی ملاقات کب اور کہاں ہوئی تھی، لیکن نوعمری اور 20 کے پیٹے میں جب انہیں بہتر انداز میں جاننے کا موقع ملا تو ایسا محسوس ہوا کہ زندگی بھر کی شناسائی ہے۔

پڑھیے: صحافی اور انسانی حقوق کے علمبردار آئی اے رحمٰن کا انتقال

یہ میری خوش نصیبی ہے کہ ہائی اسکول اور یونیورسٹی کے زمانے میں کئی مہینوں تک مجھے رحمٰن صاحب کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور یونیورسٹی کے 3 سال کے بعد ایک بار پھر ہفتہ وار 'ویو پوائنٹ' میں انٹرن شپ کے دوران ان کی رہنمائی حاصل ہوئی۔ صحافی بننے کے خواہشمند شخص کے لیے اس سے بڑھ کر سیر حاصل ٹریننگ گراؤنڈ بھلا اور کیا ہوگا۔

لاہور میں لارینس روڈ پر واقع ہفتہ وار 'ویو پوائنٹ' کے غیر دلکش دفتر میں, مَیں اس تنگ کمرے میں آئی اے آر کے ساتھ ڈیسک پر بیٹھتا تھا جو ویو پوائنٹ میں کام کرنے والے دیگر ساتھیوں (جو پارکنگ کی جگہ کے طور پر استعمال ہونے والے غبار آلود تقسیمی رقبے کی دوسری جانب نسبتاً بڑے لیکن تنگ کمروں میں بیٹھ کر کام کرتے تھے) کے لیے بیٹھک کی حیثیت رکھتا تھا اور جہاں نمایاں شخصیات کی آمد و رفت بھی جاری رہتی تھی۔

دفتری ساتھیوں میں پروفیسر امین مغل، ظفر اقبال مرزا (جنہیں Zim کہہ کر پکارا جاتا تھا)، ایلس فیض اور اکرام الحق شامل تھے۔ مہمانوں میں نامور صحافیوں، جیسے عبداللہ ملک، حمید اختر، حسین نقی، م ش (میاں محمد شافی)، بہترین فوٹوگرافر ایف ای چوہدری، اور ڈان کے لاہور میں اس وقت تعینات نمائندے اور باوقار شخصیت کے مالک نثار عثمانی شامل تھے، سے لے کر شاعر (حبیب جالب و دیگر)، کچھ بھڑکانے والے اور کچھ ڈرامہ باز افراد شامل تھے۔

آئی اے آر ہر ایک سے بلاتفریق رویہ روا رکھتے تھے۔ ان کی فطرت میں ہی گرم جوشی اور ملنساری پنہاں تھی۔ اکثر جو کبھی مباحثے میں گرما گرمی بڑھ جاتی تو وہ اپنی لطیفہ گوئی اور حسِ مزاح سے اسے ٹھنڈا کردیتے۔ میری عادت تھی کہ میں اپنے سے بڑی عمر کے افراد (جو کہ اس وقت تقریباً سارے ہی تھے) کے لیے اکثر کھڑا ہوکر اپنی کرسی خالی کردیا کرتا تھا، اس پر ایک بار انہوں نے بڑے نفیس انداز میں مجھے جھڑکا تھا۔ ان کے کہے الفاظ مجھے 40 برس بعد حرف بہ حرف تو یاد نہیں ہیں لیکن انہوں نے کچھ یوں کہا تھا کہ، کرسیوں کی طلب کبھی ختم نہیں ہوسکتی، کبھی بھی اپنی کرسی مت چھوڑنا۔

ناختم ہونے والی چائے کی چسکیوں، سگریٹ کے کشوں اور انمول بصیرتوں سے بھرپور ان قیمتی مہینوں کے دوران جو قابلِ قدر سبق سیکھے ان میں سے ایک چھوٹا لیکن قیمتی سبق یہ بھی تھا۔ ان بصیرتوں کا تعلق صرف صحافتی پیشے یا سیاست سے ہی نہیں بلکہ زندگی سے بھی تھا۔

ان مہینوں کے بعد ہماری کبھی کبھار اتفاقی ملاقاتیں ہی ہوئیں۔ اسی اثنا میں آئی اے آر ایک محبوب اور من پسند صحافی سے ایک قابلِ قدر ادارے میں بدل گئے۔ مگر ان کی قدآوری، جو راتو رات نہیں بلکہ ایک سفر طے کرنے کے بعد ممکن ہوئی تھی، ان کی شخصیت پر اثر انداز نہیں ہوئی۔ آئی اے رحمٰن کا پُرکشش انداز، گرم جوشی، فراخدلی کا جذبہ اور پُراثر حسِ مزاح ویسا کا ویسا ہی رہا۔

پڑھیے: ہجرت کی تلخ داستان اور آئی اے رحمٰن

شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے چاہنے والوں میں صرف وہی لوگ شامل نہیں تھے جو ان کے نظریات سے کُلی یا جزوی طور پر اتفاق رکھتے تھے بلکہ انہوں نے ان لوگوں سے بھی عزت حاصل کی جو ان کے انسانیت پسند نظریے سے اختلاف رکھتے تھے۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ انہیں ان لوگوں سے بھی احترام ملا جن کی بیوقوفیوں اور خامیوں پر وہ بھرپور آواز اٹھاتے رہے۔

رحمٰن صاحب کو کبھی مقصد کی طلب نہیں ہوئی بلکہ مقاصد تو خود چل کر ان کے پاس آئے اور آئی اے رحمٰن نے بھی ان کا خوب ساتھ دیا۔ ان کی دلچسپی کے موضوعات کی فہرست مرتب کرنا تو مشکل ہے لیکن یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ انسانی حقوق کا جذبہ ان کی زندگی اور ان کی زندگی کے کام پر غالب رہا۔

کوئی بھی مسئلہ ہو، چاہے بچوں سے مشقت، اقلیتوں کے خلاف امتیاز، حقوقِ نسواں، دیہی یا صنعتی مزدور طبقے کا استحصال ہو یا پھر بلوچستان میں گمشدگیاں ہوں، وہ نہ صرف مجرموں کو کھری کھری سنانے بلکہ بہتر حل پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔

سیاست اور اقتصادیات کے بنیادی موضوعات کے علاوہ ان کی ثقافت، ادب، فنِ تعمیر اور زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی دلچسپی پیدا ہوئی۔ ان کی دانشوری کمال کی تھی اور ہم میں سے بہت لوگ شاید پوری زندگی یہ سوچتے گزاریں گے کہ ایک بار ملی زندگی میں وہ اتنا زیادہ علم کیسے حاصل کرپائے تھے۔ ان کی دانشوری کی وسعت ان کی ناقابلِ تسخیر شخصیت کی فراخدلی کے عین برابر تھی۔

رحمٰن صاحب اپنی 90 سالہ زندگی کے آخری وقت تک ایک عامل صحافی اور انسانی حقوق کی لڑائی لڑنے والے بے خوف جنگجو رہے، جو اپنے آپ میں ہی ایک قابلِ ذکر اعزاز ہے۔ انہوں نے اپنے پیچھے ایک خاندان کے ساتھ پورے برِصغیر میں بسے اپنے دکھی چاہنے والوں کے لشکروں کو بھی چھوڑا ہے۔

ہم میں سے بہتوں کا غم فطری ہے۔ مگر لگتا ہے کہ وہ غم منانے والوں کو ناک بھویں چڑھائے دیکھ رہے ہوں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ بے غرض ہوکر انہوں نے جن ان گنت لڑائیوں میں حصہ لیا ہے ان میں سے کسی ایک لڑائی کو بھی جاری رکھنے کے لیے اپنی سی کوشش کرکے ان کا دل جیتا جاسکتا ہے۔


یہ مضمون 14 اپریل 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں