Dawnnews Television Logo

ملک ریاض اور ڈیلنگ کا فن

بحریہ ٹاؤن کراچی کے زیر قبضہ زمین پر برسوں سے آباد لوگوں کے لیے پیغام واضح ہے: زمین چھوڑو یا مرجاؤ۔
شائع 21 اپريل 2021 04:18pm

2019ء کے اواخر میں اسلام آباد میں جاری کابینہ اجلاس کے دوران معمول سے کچھ ہٹ کر ہوا۔ وزیرِاعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کو 'ایجنڈا سے ہٹ کر' ایک معاملہ پیش کرنے کی اجازت دی گئی۔ ان کے پاس ایک بند لفافہ تھا، انہوں نے بتایا کہ اس لفافے میں ایک غیر اعلانیہ معاہدہ موجود ہے۔

یہ معاہدہ کروڑوں پاؤنڈ کے تصفیے کے بارے میں تھا جو برطانوی ادارے نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے حال ہی میں ملک ریاض کے ساتھ کیا تھا۔ اجلاس میں موجود ایک ذریعے کے مطابق، ''(انسانی حقوق کی وزیر) شیریں مزاری نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ، 'جب ہمیں یہ معلوم ہی نہیں کہ اس میں کیا لکھا ہے تو آخر ہم کس بات کی منظوری دے رہے ہیں؟' ہمیں بتایا گیا تھا کہ اگر اسے کھولا گیا تو اس کے قومی سلامتی پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور برطانوی حکومت بھی تحفظات رکھتی ہے''۔

این سی اے کا کام منی لانڈرنگ اور برطانیہ و بیرونِ ملک ہونے والی مجرمانہ سرگرمی سے حاصل ہونے والے غیر قانونی رقوم کی تحقیقات کرنا ہے، مؤخرالذکر صورتحال میں چوری شدہ پیسہ متاثرہ ریاستوں کو لوٹا دیا جاتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ 'کالے دھن' کے حوالے سے جاری تحقیقات کے دوران ملک ریاض کچھ عرصے کے لیے ادارے کے زیرِ تفتیش رہے تھے۔ 3 دسمبر 2019ء کو ادارے نے اعلان کیا کہ ملک ریاض کے ساتھ عدالت کے باہر 19 کروڑ پاؤنڈ (اب تک کا سب سے بڑا) کا تصفیہ کیا گیا ہے اور مزید یہ بھی بتایا گیا کہ اس 'تصفیے میں جرم تسلیم کرنے کا پہلو نہیں نکلتا‘۔

اس ملک میں غیر اعلانیہ معاہدے کی آڑ میں اکثر معاملات کو دبا دیا جاتا ہے۔ کرپٹ کو انصاف کے کٹھہرے میں لانے اور بیرونِ ملک پاکستانیوں کے غیر قانونی پیسے کو واپس لانے کے اپنے دعوؤں کے باوجود تعجب ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت اثاثہ ضبطگی سے متعلق اس ڈیل پر خاموش رہی ہے۔

ایک برس سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے لیکن اس پورے معاملے کی رازداری برقرار رہی ہے۔ برطانوی تحقیقاتی صحافت کے پروجیکٹ فنانس ان کوَرڈ سے حاصل ہونے والی دستاویزات کی مدد سے ڈان نے معاملے کی مکمل تصویر جوڑی ہے۔

این سی اے سے ہونے والی ڈیل کا پاکستانی شہریوں کے ساتھ خاص تعلق اس وقت قائم ہوگیا جب ملک ریاض نے ٹوئیٹ میں بتایا کہ، 'میں نے سپریم کورٹ کو کراچی بحریہ ٹاؤن مقدمے میں 19 کروڑ پاؤنڈ کے مساوی رقم دینے کے لیے برطانیہ میں قانونی طور پر حاصل کی گئی ظاہر شدہ جائیداد کو فروخت کیا'۔

یہاں اس بات کو بھی یاد کیا جاسکتا ہے کہ جب یہ ثابت ہوگیا تھا کہ ان کے ریئل اسٹیٹ ادارے بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ نے کراچی کے ضلع ملیر کے مضافات میں ہزاروں ایکڑوں پر محیط زمین پر غیر قانونی قبضہ کیا ہے تو چند ماہ قبل مارچ 2019ء میں ملک ریاض کی جانب سے سپریم کورٹ کو 460 ارب روپے بطور جرمانہ دینے کی پیش کش کی گئی، جسے قبول کرلیا گیا۔

یہ رقم تقریباً 3 ارب ڈالر کے برابر بنتی ہے، جو تاریخی حجم رکھتی تھی۔ مگر اسی سال آگے چل کر این سی اے کے ساتھ ہونے والا تصفیہ تو ایک مذاق ثابت ہوا کیونکہ پاکستانی حکومت کی مہربانی سے ملک ریاض کو حیران کن سزا سے چُھوٹ مل گئی۔

صمدانی اینڈ قریشی کے وکیل فرخ قریشی نے اس تصفیے کو یوں بیان کیا: 'یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کسی جرم کے ذریعے حاصل کی گئی رقم کے ساتھ پکڑا گیا ہو اور ایسی رقوم کو متاثرہ شخص کو دینے کے بجائے انہیں ایک دوسرے جرم کی تلافی کے طور پر استعمال کیا جائے۔ ری کور کی گئی رقم کو دوبارہ ملک ریاض کی جیب میں ڈالنے کے بجائے سیدھے پاکستان آنا چاہیے تھا'۔

یقیناً برطانیہ کے قانون نافذ کرنے والے ادارے نے اس معاملے پر پاکستان کے طاقتور بروکرز کی سازبازی کا شکار بننے کے لیے خود ہی گنجائش پیدا کی ہوگی۔

'شہنشاہِ احتساب' اکبر صاحب سے ڈان کے سوالوں کے جواب دینے کی بار بار درخواست کی گئی لیکن ان کی جانب سے کوئی ردعمل نہیں آیا۔

5 کروڑ پاؤنڈ کی وہ جائیداد جو 19 کروڑ پاؤنڈ کے تصفیے کا حصہ قرار دی گئی۔ ڈیزائن و فوٹوگرافی: ٹیسوٹو انٹیریئرز لندن
5 کروڑ پاؤنڈ کی وہ جائیداد جو 19 کروڑ پاؤنڈ کے تصفیے کا حصہ قرار دی گئی۔ ڈیزائن و فوٹوگرافی: ٹیسوٹو انٹیریئرز لندن

اس تفصیے میں 1 ہائیڈ پارک پلیس شامل ہے جو 5 کروڑ پاؤنڈ مالیت کی جائیداد ہے۔ لندن کے مہنگے ترین علاقوں میں سے ایک میں واقع اس رہائشی عمارت کو 2007ء میں سابق وزیرِاعظم نواز شریف کے بیٹے حسن نواز نے خریدا تھا۔ اگلے 4 برسوں کے دوران متعدد بڑی بڑی فرمز، بشمول انٹیریئر ڈیزائنرز کے ادارے ٹیسوٹو نے ایک دفتری عمارت اور فلیٹوں کو واحد رہائشی عمارت میں بدلنے کے لیے زبردست تبدیلیاں کی تھیں۔ ان تبدیلیوں میں بیسمنٹ میں کھدائی اور سوئمنگ پول کی تعمیر بھی شامل ہے۔

21 مارچ 2016ء کو یہ جائیداد نواز شریف کے بیٹے حسن نواز نے 4 کروڑ 25 لاکھ پاؤنڈ کے عوض برٹش ورجن آئی لینڈز کی الٹیمیٹ ہولڈنگز منیجمنٹ لمیٹڈ نامی ایک کمپنی کو بیچ دی تھی۔ الٹیمیٹ ہولڈنگز کی جانب سے ملک ریاض کے بیٹے علی ریاض ملک نے دستخط کیے۔ ان کی نمائندگی Mischon de Reya نامی قانونی فرم نے کی تھی۔ حسن نواز نے اپنی طرف سے خود دستخط کیے اور ان کے وکیل جیریمی فری مین گواہ بنے۔ (چند ہفتے قبل انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس کی جانب سے شریف خاندان کی اُن آف شور کمپنیوں کے بارے میں سوالات پوچھنے کے لیے حسن نواز سے رابطہ کیا تھا، جو پاناما پیپرز کے ذریعے زیرِ توجہ آئی تھیں)

حسن نواز کی جانب سے الٹیمیٹ ہولڈنگز کو فروخت کیے گئے1 ہائیڈ پارک پیلس کے انتقالی دستاویز

دلچسپ بات یہ ہے کہ یو کے لینڈ رجسٹری میں جمع کی جانے والی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جائیداد عین فروخت کے وقت ہی زیرِ الزام آئی تھی: حسن نواز کو الٹیمیٹ ہولڈنگز کے قرض دہندہ کے طور پر ظاہر کیا گیا ہے۔ قرضے کی شرائط '21 مارچ 2016ء کو ہونے والے فریقین کے مابین معاہدے کے مطابق' طے کی گئی تھیں۔ تاہم زمین کی رجسٹری کے ساتھ یہ معاہدہ شامل ہی نہیں کیا گیا تھا۔ فروخت اور الٹیمیٹ ہولڈنگز کو دیے گئے قرضے کے وقت سے اندازہ ہوتا ہے کہ حسن نواز خود کو برطانیہ میں شریف خاندان کی اس مہنگی ترین جائداد سے الگ کردینا چاہتے تھے۔ 19 ستمبر 2016ء کو حسن نواز کا دیا ہوا قرض ڈسچارج یا خارج کردیا گیا۔

یہ فروخت اس باہمی مفاد کے تعلقات کو ظاہر کرتی ہے جو پاکستان کی نایاب اشرافیہ میں پایا جاتا ہے۔

ان دستاویز سے ثابت ہوتا ہے کہ حسن نواز نے الٹیمیٹ ہولڈنگز کو قرضہ دیا تھا

پاکستانی ریاست کی مداخت

2019ء میں ملک ریاض کا برطانیہ میں 19 کروڑ پاؤنڈ کا تصفیہ اکاؤنٹ فریزنگ یا کھاتہ منجمد آرڈرز (اے ایف اوز) نامی نئے سول اختیارات کے استعمال سے ممکن ہوپایا تھا۔ ان اختیارات کے تحت قانون نافذ کرنے والا ادارہ مشتبہ طور پر جرم سے حاصل کردہ رقم پر کارروائی کے لیے فوجداری کے بجائے سول طریقہ کار استعمال کرسکتا ہے۔ اب چونکہ یہ ایک سول کیس تھا اس لیے این سی اے ضبطگی آرڈر حاصل کرنے کے لیے عدالت جانے کے بجائے ملک ریاض سے نجی طور پر معاملہ حل کرسکی تھی۔

اگست 2019ء میں ملک ریاض کے خلاف ہونے والی تحقیقات سے متعلق 8 اے ایف اوز لندن کی ویسٹمنسٹر مجسٹریٹ کورٹ سے حاصل کیے گئے تھے۔ اے ایف اوز پر عمل کرتے ہوئے 10 کروڑ پاؤنڈ سے زائد کی رقم 12 اگست کو منجمد کی گئی تھی (گارجیئن اخبار کے مطابق این سی اے کو شک تھا کہ یہ رقم رشوت اور بیرون ملک ہونے والی کرپشن کے ذریعے حاصل کی گئی تھی)۔ اس سے پہلے دسمبر 2018ء میں ملک ریاض کے خاندان سے جڑے 2 کروڑ پاؤنڈ کو منجمد کیا گیا تھا۔ ملک ریاض کی اہلیہ بینا ریاض، بیٹی ثنا سلمان، بیٹے علی ریاض، بہو مبشریٰ علی اور فورچون ایونٹز اور الٹیمیٹ ہولڈنگز سمیت کئی مختلف کمپنیوں کے اکاؤنٹس کے خلاف اے ایف اوز جاری کیے گئے تھے۔

پھر پاکستانی ریاست نے اطلاعات کے مطابق ملک ریاض کی ایما پر مداخلت کی۔

مانا جاتا ہے کہ ستمبر 2019ء کے دوران شہزاد اکبر کی ملک ریاض سے ڈورچیسٹر ہوٹل اور بعدازاں ملک ریاض کی بیٹی کی شادی کے موقعے پر متعدد بار ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ وسیع پیمانے پر گردش کرنے والی ویڈیو میں شہزاد اکبر کو پراپرٹی ٹائیکون سے ان کی بیٹی کے پیڈنگٹن فلیٹ کے باہر ملاقات کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔

برطانوی سیاسی اسٹیبلشمنٹ اور برطانیہ کی انسدادِ بدعنوانی پر کام کرنے والی تنظیموں سے گہرا رابطہ رکھنے والے لندن میں مقیم ایک پاکستانی ذریعے کے مطابق، 'شہزاد اکبر نے این سی اے کو یہ تجویز دی تھی کہ وہ ان (ملک ریاض) کے ساتھ سمجھوتہ کرلیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ، بصورتِ دیگر ملک ریاض (اپنے طاقتور وکلا کے ذریعے عدالتی کارروائیوں کو اتنا کھینچیں گے کہ) ان کے استغاثہ کا بجٹ ختم ہوجائے گا'۔

شہزاد اکبر نے واضح طور پر یہ معاملہ برطانوی حکومت میں اعلیٰ سطح تک پہنچا دیا تھا۔ معلومات کے حصول کی آزادی ایکٹ (ایف او آئی اے) کے تحت کیس سے متعلق معلومات کی فراہمی کی درخواست کرنے کے باوجود ان کی ہوم آفس کی جانب سے معلومات کی فراہمی سے انکار کو اور کس طرح کوئی بیان کرسکتا ہے؟

ہوم آفس کی کرمنل فنانس ٹیم کو شہزاد اکبر کی ملک ریاض سے ہونے والی ملاقاتوں سے متعلق تفصیلات جاننے کے لیے ایک ای میل بھیجی گئی تھی، جس کا جواب یکم فروری کو آیا۔ اس جواب میں انہوں نے 'مکمل ردِعمل' کے لیے زیادہ وقت مانگنے کی درخواست بھی کی۔ ان کے جواب کا نچوڑ یہ تھا کہ، 'جو معلومات آپ کو مطلوب ہیں، وہ ہم رکھتے ہیں یا نہیں اس کی ہم نہ تو تصدیق کرسکتے ہیں نہ ہی اس سے انکار کرسکتے ہیں'۔ یہ جواب ایف او آئی اے کی ان چند شقوں کی بنیاد پر دیا گیا تھا جو ایسی کسی راز افشائی کی چھوٹ دیتی ہیں جس کی وجہ سے دوسری ریاست کے ساتھ تعلقات میں خرابی یا بدگمانی پیدا ہونے کا خدشہ ہو یا پھر جرم کو روکنے یا پتا لگانے کا عمل متاثر ہوتا ہو۔

(این سی اے کا ادارہ ایف او آئی اے سے مستثنیٰ ہے اور اس کی کارروائیوں پر صرف عدالت عدالتی نظرثانی کی کارروائیوں کے ذریعے سوال کھڑا کرسکتی ہے۔ تاہم تفتیشی نتائج کے ذریعے نتیجے پر پہنچنے کے بجائے جس انداز میں فیصلہ کیا گیا ہے، اس پر عدالتی نظرثانی کسی چیلنج سے کم نہیں ہوگی۔)

1 ہائیڈ پارک پلیس میں موجود ہوم سنیما — تصویر بشکریہ نائیٹ فرینک ریئل اسٹیٹ
1 ہائیڈ پارک پلیس میں موجود ہوم سنیما — تصویر بشکریہ نائیٹ فرینک ریئل اسٹیٹ

شہزاد اکبر نے چاہے جو بھی طریقہ اختیار کیا ہو، ایسا لگتا ہے کہ وہ طریقہ کام کرگیا اور این سی اے دسمبر 2019ء کی ابتدا میں ملک ریاض کے ساتھ سول نوعیت کے سمجھوتے پر راضی ہوگئی۔ این سی اے نے اپنی سالانہ رپورٹ میں اس معاملے کی تفصیلات درج کرتے ہوئے ملک ریاض کا نام شامل نہیں کیا بلکہ انہیں ایک ایسے پاکستانی شہری کے طور پر بیان کیا ہے جس کا کاروبار پاکستان میں سب سے بڑے نجی شعبے کے آجرین employers میں شمار ہوتا ہے۔

یہاں پر بات تھوڑی گھوم جاتی ہے: بحریہ ٹاؤن جیسے بڑے منصوبے نے یقیناً بڑے پیمانے پر روزگار فراہم کیا ہے، تاہم 4 مئی 2018ء کو سپریم کورٹ کے علیحدہ اہم فیصلوں کے مطابق بحریہ ٹاؤن نے اپنے 3 رہائشی منصوبوں کے لیے سرکاری اور جنگل کی زمین کے حصول کی خاطر بڑے پیمانے پر بے قاعدگیاں کیں اور یوں فیصلے میں ان تمام منصوبوں کو کالعدم قرار دیا گیا۔

سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کراچی (جو غیر سرکاری اندازے کے مطابق 30 ہزار ایکڑ پر محیط جنوبی ایشیا میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا منصوبہ ہے) سے متعلق اپنے فیصلے میں کہا کہ 'ہم ماضی میں چھوٹے پیمانے پر ایسی مدموم سرگرمیاں دیکھتے چلے آئے ہیں لیکن اس قدر بڑے، وسیع و عریض سطح پر اس طرح کی سرگرمیوں کا تو ہم نے خواب بھی نہیں سوچا تھا۔ اگر سرکاری جائیداد کی نگرانی کرنے والے محض ہڈی یا گوشت کے ٹکڑے کی خاطر قبضہ خوروں کو اس پر قبضہ کرنے کی اجازت دینے لگیں تو ایکشن نہ لینا ریاست کے لیے تباہ کن اور شدید المناک ثابت ہوگا'۔

اس میں یہ بھی کہا گیا کہ، 'ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو انکریمینٹل (کم لاگت والی) ہاؤسنگ اسکیم کے لیے زمین کی فراہمی دراصل ملک ریاض کے اس یجنڈا کو پورا کرنے کی ایک چال تھی جس کا مقصد ریاست اور عوام کو نقصان پہنچا کر اپنی دولت کو بڑھانا تھا'۔

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی تحقیقی رپورٹس میں مفصل انداز میں بیان کیا جاچکا ہے کہ کس طرح مقامی آبادیوں کو اپنی زمین 'بیچنے' پر بزور بازو مجبور کیا جاتا رہا ہے۔ ایک طرف پولیس گوٹھوں پر ریڈ کرتی ہے اور مقامیوں پر دہشتگردی کے جھوٹے الزامات لگا کر پرچہ کاٹ دیتی ہے، تو دوسری طرف وہ یہ کہتے ہوئے پائی جاتی ہے کہ بحریہ ٹاؤن کا عملہ انہیں مسلسل ڈراتا دھمکاتا رہتا ہے۔

ڈان نے ملک ریاض سے ان سوالوں کے جواب مانگنے کے لیے بارہا کوششیں کیں لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا۔

1 ہائیڈ پارک پلیس کا ایک اندرونی منظر—تصویر بشکریہ ٹیسوٹو انٹیریئرز لندن
1 ہائیڈ پارک پلیس کا ایک اندرونی منظر—تصویر بشکریہ ٹیسوٹو انٹیریئرز لندن

ویسٹمنسٹر مجسٹریٹ کورٹس نے تصفیے کی انجام دہی کے لیے ایسیکس میں واقع ہیسلرز اکاؤنٹنٹس کو بطور وصول کنندہ مقرر کیا۔ 5 دسمبر 2019ء کو شہزاد اکبر نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران اعلان کیا کہ بیرونِ ملک سے پاکستان سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ، جو شاید بحریہ ٹاؤن کے واجبات کی وصولی کے لیے عدالت نے کھولا ہو، میں 14 کروڑ پاؤنڈ کی رقم آچکی ہے اور بقیہ 5 کروڑ پاؤنڈ کی رقم 1 ہائیڈ پارک پلیس کی فروخت پر منتقل ہوجائے گی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں رقم کی منتقلی کس طرح ہوئی تو انہوں نے جواب یہ کہتے ہوئے ٹال دیا کہ حکومت، این سی اے اور ملک ریاض نے 'رازداری کے قانونی دستاویز' پر دستخط کیے ہیں جس کی وجہ سے وہ اس معاملے پر زیادہ بات کرنے سے قاصر ہیں۔

'یہاں تو شیخ حکمرانوں کی عمل داری ہو جیسے'

'قومی سلامتی' کے نام پر حقائق کو چھپانے کی یہ کوشش دراصل پاکستانی عوام کو حاصل اس حق سے متعلق بڑا مذاق ہے جس میں وہ عوامی مفاد کے معاملے سے جڑی معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔

حیدر وحید پارٹنزز سے بطور پارٹنر وابستہ عبدالمعیز جعفری کے مطابق، 'عام لفظوں میں کہیں تو یہ شیخ حکمراں کی عمل داری کے عوامل ہیں۔ ایک غیر منتخب شخص (شہزاد اکبر) ایسا اختیار رکھتا ہے جس سے عوام انجان ہے اور اس اختیار کے تحت عوام کی نظروں سے اوجھل معاملے پر سمجھوتہ کرواتے ہیں اور شرائط کو بھی صیغہ راز میں رکھنے کے پابند بنتے ہیں۔ رازداری کا لبادہ ایک بہانے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے، پاکستانی ریاست یہاں صرف اس واحد رازداری کی پابند ہوسکتی ہے جس پر وہ خود اپنی مرضی سے ملزم شخص سے راضی ہوئی ہو نہ کہ ایسی رازداری کی پاپند ہوسکتی ہے جو این سی اے نے اس پر مسلط کی ہوئی ہو'۔

لندن میں واقع کورکر بِننگ لا فرم سے بطور سینئر پارٹنز وابستہ ڈیوڈ کورکر کے مطابق اس طرح کے خفیہ سمجھوتے اس مالیاتی جرم کی حکمتِ عملی (financial crime strategy) کا نتیجہ ہیں جس میں مجرموں کے خلاف مقدمہ بازی سے زیادہ رقوم کی ری کوری پر توجہ دی جاتی ہے۔ 'سفید پوش اور مالیاتی جرم سے وابستہ نفاذِ قانون کا عمل ادارہ جیوری ٹرائل کی کارروائیوں، حاضری میں تاخیروں اور اخراجات کی وجہ سے بہت زیادہ متاثر ہوتا ہے اور کتنی رقم انہوں نے ضبط کی اور کتنے مبینہ پلاٹ انہوں نے متاثر کیے، اس کی بنیاد پر اپنے مؤثر کام کی حیثیت میں تبدیلی کا خواہاں ہے۔ اس عمل کا یہ ایک فطری نتیجہ ہے: این سی اے اچھا نتیجہ تو حاصل کرتا ہے لیکن وہ یہاں تک پہنچنے کے لیے رعایتیں دینے پر بھی راضی ہوجاتا ہے۔'

وہاں لندن میں 1 ہائیڈ پارک پلیس کو نائیٹ فرینک نامی ریئلٹرز یا جائیداد کی خرید و فروخت کے ادارے کے ذریعے فروخت کے لیے پیش کیا گیا: ان کے بروشر میں اسے 'لندن میں کھڑی آخری جارجیئن عمارات میں سے ایک عمارت' کے طور پر بیان کیا گیا۔ تاہم اس کا کوئی خریدار نہیں مل سکا جس کی وجہ بظاہر 4 کروڑ 50 لاکھ پاؤنڈ کی بھاری قیمت ہے۔

لندن میں مقیم ایک ذریعے کے مطابق جائیداد کے نگران ریئلٹرز میں سے ایک نے بتایا کہ اس کی قیمت '3 کروڑ پاؤنڈ یا اس کے درمیان کی کوئی رقم' بنتی ہے۔ یہ جائیداد اس وقت بیوچیمپ اسٹیٹس کے حوالے ہے جس نے اس کی خرید و فروخت کے حوالے سے سنجیدہ سوالات کھڑے کیے ہیں۔ اس کے مطابق کہیں کسی مقصد کے تحت تو اتنی بھاری قیمت پر یہ جائیداد فروخت نہیں کی گئی تھی؟

ڈان نے حسن نواز سے بارہا رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

1 ہائیڈ پارک پلیس میں موجود اسٹڈی روم— تصویر بشکریہ ٹیسوٹو انٹیریئرز لندن
1 ہائیڈ پارک پلیس میں موجود اسٹڈی روم— تصویر بشکریہ ٹیسوٹو انٹیریئرز لندن

تاہم فی الحال 1 ہائیڈ پارک پلیس فروخت کے لیے دستیاب نہیں ہے۔ اس عمل سے جڑے ایک ذریعے کے مطابق 'اس وقت اس جائیداد کی فروخت کو روک دیا گیا ہے لیکن یہ جلد ہی فروخت کے لیے دستیاب ہونی چاہیے، دراصل فروخت کے عمل سے قبل اس میں تھوڑا بہت کام ہونا باقی ہے'۔

این سی اے نے جائیداد کی موجودہ حیثیت کے حوالے سے متضاد پیغامات دیے ہیں اور معاملہ پُراسراریت میں لپٹا ہوا ہے۔ ادارے کے ایک سینئر افسر نے دسمبر 2019ء میں ڈان کو بتایا تھا کہ 'این سی اے نے جائیداد کا قبضہ حاصل کرلیا ہے اور اس کی فروخت سے ملنے والے پیسے پاکستان بھیج دیے جائیں گے‘، تاہم اگلی ای میل میں یہ ادارہ اپنے الفاظ سے پیچھے ہٹ گیا۔

دوسری جانب ملک ریاض کے خاندان کے کئی افراد 1 ہائیڈ پارک پلیس سے چند قدم کی دوری پر واقع ڈیلکس لینکیسٹر گیٹ میں رہائش پذیر ہیں۔ برٹش ورجن آئی لینڈز میں واقع فورچون ایونٹس لمیٹڈ نامی ایک آف شور کمپنی نے یہاں 2011ء اور 2018ء کے درمیان تقریباً ساڑھے 3 کروڑ پاؤنڈ کی مالیت کے کُل 9 اپارٹمنٹ خریدے تھے۔

یہ اشارے ملتے ہیں کہ ملک ریاض کا خاندان ان 9 اپارٹمنٹس کا حقیقی مالک ہے۔ ملکیت کی دستاویزات میں سے ایک پر علی ریاض کی ای میل کو رابطے کے پتے کے طور پر لکھا گیا ہے، دوسری دستاویز میں دبئی پی او باکس ایڈریس درج ہے جس کا تعلق علی ریاض کی پی 69 ایمیریٹس ہلز میں واقع جائیداد سے ہے۔ کئی جگہوں پر مسکون ڈی ریال نامی لا فرم کا پتا بھی رابطے کے پتے کے طور پر لکھا ملتا ہے۔

22 نومبر 2019ء کو ویسٹمنسٹر مجسٹریٹ کورٹ نے 21 اگست 2019ء کو جاری ہونے والے ان 8 اے ایف اوز اور دسمبر 2018ء کو جاری ہونے والے اس ایک اے ایف او کو ایک طرف رکھ دیا تاکہ اکاؤنٹس میں موجود پیسہ پاکستان واپس بھیجا جاسکے۔

2 اکاؤنٹس فورچون ایونٹس کے تھے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک ریاض کا خاندان ہی لینکیسٹر گیٹ کی ملکیت کا حقیقی مالک ہے۔ تصفیے سے بظاہر ملک ریاض کے اس 3 کروڑ 60 لاکھ پاؤنڈ کی مالیت کے لگژری سرمایے کو دُور رکھا گیا ہے جو ایک ایسی کمپنی کی ملکیت ہے جسے 2 اے ایف اوز موصول ہوچکے ہیں۔

اے ایف اوز کو ایک طرف رکھنے سے متعلق عدالتی حکم نامہ


مندرجہ ذیل میں لینکیسٹر گیٹ میں واقع 9 اپارٹمنٹ کے دستاویزِ ملکیت دیکھے جاسکتے ہیں


برطانیہ میں انسدادِ بدعنوانی کے نگران ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اس تصفیے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل سے بطور ایڈووکیسی ہیڈ وابستہ ریچل ڈیویز ٹیکا نے بذریعہ ای میل بتایا کہ، 'چوری شدہ دولت کو واپس لوٹانا کسی بھی کرپشن کیس کا سب سے پیچیدہ اور مشکل حصہ ہوتا ہے، لیکن یہ سب سے اہم مرحلہ بھی ہوتا ہے۔ اگر غیر قانونی طور پر حاصل کی گئی دولت کو بند دروازوں کے پیچھے سول سوسائٹی کی نگرانی کے بغیر لوٹایا جائے تو یہ پتا لگانا مشکل ہوجاتا ہے کہ آیا انصاف ہوا ہے یا نہیں؟'

لندن میں واقع 1 ہائیڈ پارک پلیس کا ایک اندرونی منظر۔ ڈیزائن و تصویر نگاری بشکریہ ٹیسوٹو انٹیریئرز لندن
لندن میں واقع 1 ہائیڈ پارک پلیس کا ایک اندرونی منظر۔ ڈیزائن و تصویر نگاری بشکریہ ٹیسوٹو انٹیریئرز لندن

حال ہی میں این سی اے نے اپنی سول مالیاتی تحقیقات کو انجام دینے اور عوام کے سامنے پیش کرنے کے طریقوں میں اہم تبدیلیاں کی ہیں۔

برطانیہ میں انسدادِ بدعنوانی پر کام کرنے والے اسپاٹ لائٹ آن کرپشن نامی ادارے کی ایگزیکیٹو ڈائریکٹر سوزان ہالے ان اقدامات کو مثبت تصور کرتی ہیں۔ انہوں نے بذریعہ ای میل ڈان کو بتایا کہ 'ملک ریاض کے تصفیے اور اس کی وجہ سے پاکستان میں پیدا ہونے والے تنازع کے بعد این اسی اے نے واضح طور پر اپنے کام کے طریقوں پر سوچ بچار کیا ہے۔ ان کی جانب سے شفافیت اور کسی بھی تصفیے سے عوامی اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچانے کی یقین دہانی کروانا ایک خوش آئند امر ہے۔ ان کی جانب سے صحافیوں اور این جی اوز کو کھلی عدالت میں چلنے والی ان کی آئندہ سماعتوں سے متعلق تفصیلات کی فراہمی کے عزم کا اظہار کیا ہے جو ایک بڑی پیش رفت ہے۔ ہم نہیں چاہیں گے کہ برطانیہ میں ضبط ہونے والا پیسہ جب کسی ملک کو لوٹایا جائے تو یہ گمان پیدا ہو کہ وہ دوبارہ مجرموں کی جیبوں تک پہنچ گیا ہے یا پھر مجرم سزا سے بچ گیا ہے'۔

تاہم این سی اے کی نئی سوچ کا بحریہ ٹاؤن کراچی کے تیز پھیلاؤ سے متاثر ہونے والی مقامی کسانوں کی آبادیوں کی زندگیوں پر زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ ان کے سر پر اپنی آبائی زمینوں سے نقل مکانی کا منڈلاتا خطرہ ہر دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔

چند ماہ قبل دیہات کے چند باسیوں نے صحافیوں کو دعوت دی کہ وہ سپریم کورٹ کے 21 مارچ 2019ء کے اس متنازع حکم نامے سے متاثر علاقے کا دورہ کریں، جس کے تحت بحریہ ٹاؤن کو کراچی کے منصوبے کے لیے 16 ہزار 896 ایکڑوں پر تعمیراتی کام کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ صحافی خود آکر دیکھیں کہ کس طرح انہیں ان کی ہی زمینیں خالی کروانے کے لیے تنگ کیا جا رہا ہے۔

گزشتہ شام ایک تشویشناک واقعہ پیش آیا۔ چند مقامی افراد جب گڈاپ سے اپنے گھر کو لوٹ رہے تھے تو گاؤں تک پہنچنے کے اپنے روایتی راستے کو ناقابلِ رساں پایا کیونکہ بحریہ ٹاؤن کے گارڈز نے بحریہ ٹاؤن کراچی کی حدود پر کھڑے دروازے پر تالا چڑھا کر ان کا داخلہ روک دیا تھا۔ گھوم کر جانے میں 45 منٹ کا وقت لگ جاتا۔ جب وہاں زیادہ گاؤں والے جمع ہوگئے تو ٹکراؤ شروع ہوگیا۔ بحریہ ٹاؤن کے چند عہدیداران واقعے کی جگہ پر پہنچے۔ وہاں موجود کم از کم ایک شخص پستول سے لیس تھا جس نے گاؤں والوں کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ شروع کردی۔ ایک دیہاتی نے کڑوے لہجے میں کہا کہ، 'ہمیں فلسطین کی طرح گھیرا ہوا ہے'۔

حاجی علی محمد گبول نامی گوٹھ کے اسکول ہیڈ ماسٹر رستم گبول نے بتایا کہ کس طرح بحریہ ٹاؤن کی جانب سے اسکول میں موجود کھیل کے میدان کے بیچ میں سڑک تعمیر کی جارہی ہے اور میدان کی زمین سکڑتی جا رہی ہے۔ شکستہ حال اس گاؤں کے چھوٹے اسکول کے پیچھے بحریہ ٹاؤن کراچی کے گالف سٹی میں فائیو اسٹار ہوٹل کی عمارت زیرِ تعمیر ہے۔ یاد رہے کہ یہ گالف سٹی پاکستان کا پہلا 36 ہول پی جی اے اسٹینڈرڈ گالف کورس کی آسائش کا اعزاز رکھتا ہے۔

چند دن قبل اسی دیہات میں بحریہ ٹاؤن نے ایک غیر ضروری مصنوعی 'پیدل چلنے کا راستہ' بنانے کی خاطر برساتی پانی کے قدرتی آبی ذخیرے کو ٹنوں مٹی سے بھر کر اسے 2 حصوں میں تقسیم کردیا۔ اس عمل سے کیرتھر کے پہاڑی سلسلے سے آنے والے برساتی پانی کا راستہ رُکے گا اور آبی ذخیرے میں پانی جمع نہیں ہوپائے گا۔ یاد رہے کہ یہ آبی ذخیرہ گاؤں والوں اور ان کے کم ہوتے مویشیوں کے لیے حصولِ آب کا قریب ترین ذریعہ ہے۔ اس زمین پر بسنے والوں کے لیے پیغام واضح ہے: زمین چھوڑو یا مرجاؤ۔


بالائی تصویر میں 1 ہائیڈ پارک پیلس کا ماسٹر بیڈروم دیکھا جاسکتا ہے۔ بشکریہ: نائیٹ فرینک ریئل اسٹیٹ


اضافی معلومات: عاتکہ رحمٰن


یہ مضمون 17 اپریل 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔