شہری منصوبہ بندی کے لیے ماسٹر پلان انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔
شہری منصوبہ بندی کے لیے ماسٹر پلان انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔

ماسٹر پلان کی تیاری: شہری تغیر کے اصول

اسلام آباد سے ایک نئے پاکستان کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ ایک ایسا...
شائع 14 جولائ 2021 06:58pm

اسلام آباد سے ایک نئے پاکستان کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ ایک ایسا پاکستان جہاں اونچی عمارتیں اور سستی رہائش کی سہولت موجود ہوگی اور تعمیراتی شعبے کی مدد سے معیشت کو سہارا دیا جائے گا۔

ہم نے اپنے وزیر اعظم کو یہ کہتے سنا کہ ’مستقبل کے شہروں میں ہماری شہری عمارتوں کو عمودی سمت میں بڑھنا ہوگا اور درختوں کے لیے جگہ چھوڑنی ہوگی‘۔ ظاہر ہے کہ وہ شہری پالیسی کا اصول بیان کرتے ہوئے شہری تمدد کے مقابلے میں زیادہ کثافت کی حمایت کر رہے تھے۔ اس تعمیراتی عروج کی باتوں میں شاید ہی کوئی ایسی چیز ہو جو ہمیں یہ سمجھا سکے کہ اس ملک کو بدلنے کا روڈ میپ کیا ہے؟ اب تک ہم نے اس شہری تغیر کے لیے نہ ہی کوئی بہترین ماسٹر پلان دیکھے ہیں اور نہ ہی انتظامی ڈھانچے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ وزیر اعظم اور ان کی معاشی ٹیم واقعی تعمیراتی شعبے کو معاشی ترقی کے لیے استعمال کرنے کے بار میں سوچ رہی ہے۔ تاہم خدشات یہ ہیں کہ اب جو پالیسیاں پیش کی جارہی ہیں وہ پچھلی حکومتوں کی تجویز کردہ پالیسیوں سے بہت مختلف نہیں ہیں۔ ان پالیسیوں کے دور رس اثرات کے بارے میں نہیں سوچا گیا تھا اور وہ پائیدار بھی نہیں تھی۔ یہاں کبھی سماجی ترقی اور شہری انفراسٹرکچر کی تیاری کے بارے میں سوچا ہی نہیں گیا۔

اس بات کو آسان الفاظ میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ موجودہ شہروں میں مجموعی طور پر معیار زندگی کو بہتر بنانا کبھی ایجنڈے کا حصہ تھا ہی نہیں۔ کراچی کے ماس ٹرانسپورٹیشن پر لیکچر دیتے ہوئے بوگوٹا (کولمبیا) کے سابق میئر کا کہنا تھا کہ ’ایک جدید شہر وہ نہیں ہوتا جہاں غریب بھی ذاتی گاڑیاں استعمال کرتے ہوں بلکہ وہ ہوتا ہے جہاں امیر بھی پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرتے ہوں۔ جمہوریت کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ پیدل گرزگاہوں پر پیدل چلنے والے موجود ہوں نہ کے وہاں گاڑیاں پارک کی گئی ہوں‘۔

یہ بات شہری ترقی کے تناظر میں حکومتی کوششوں سے بالکل مختلف ہے۔ ہم یہ سوچ کر حیران ہی ہوسکتے ہیں کہ راوی ریور فرنٹ منصوبہ، بنڈل آئی لینڈ کی تعمیر اور لاہور ڈاؤن ٹاؤن منصوبہ پاکستان کے شہروں میں رہنے والے کروڑوں لوگوں کے لیے بہتر شہری زندگی کے وعدے کو کس طرح پورا کرے گا؟ یہ بات ناقابل فہم ہے کہ ایک ایسی حکومت جس کا وزیر اعظم ماحولیات، اس کی تباہی اور شہری تمدد کے بارے میں اتنا حساس ہے وہ حکومت ان ہی خدشات کو فروغ دینے والے منصوبوں کی کس طرح حمایت کرسکتی ہے؟

آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے شہر تباہی کے دہانے پر ہیں۔ کراچی اپنی روشنیوں، ٹرام، پرقانی عمارتوں، چوراہوں، بازاروں اور کشادہ جگہوں سے محروم ہوگیا ہے۔ یہ شہر اب سمندر کنارے موجود شہر کی جگہ گندے تالاب کے کنارے موجود شہر بن گیا ہے۔ لاہور بھی اپنی اصل رونق، راوی کی موجوں، رومانوی باغات اور شاعری اور ہنسی مذاق سے گونجتے محلوں سے محروم ہوگیا ہے۔ پھر پشاور ہے کہ جہاں اب نہ قصے ہیں اور نہ بازار، نہ ہی مجمع لگانے کے لیے چوک باقی بچے ہیں اور نہ پیدل چلنے کے لیے گلیاں۔

ہمارے شہر اب میڑوپولس اور ہمارے قصبے ان شہروں میں تبدیل ہوگئے ہیں کہ جن کی شرح نمو کی نظیر شاید تاریخِ انسانی میں نہ ملتی ہو۔ تاہم یہ بات واضح ہے کہ ہمارے شہر پنی اصل روح اور ثقافت سے محروم ہوچکے ہیں۔ وہ بے روح اجسام کی طرح اپنی موجودگی اور تفاخر کے احساس سے خالی ہوگئے ہیں۔ اس بات میں کوئی حیرانی نہیں کہ ہمارے شہر رہائش کے لیے دنیا کے بدترین شہروں کی فہرست میں شامل ہیں۔

ہم اعلیٰ عدالتوں کی جانب سے ہمارے شہروں کی بدحالی پر دی جانے والی تنبیہہ سنتے رہتے ہیں۔ ہم شہری تعمیر میں جانے مانے ناموں جیسے مرحوم اردیشر کاؤسجی، عارف حسن اور ڈاکٹر نعمان احمد کے کالم پڑھتے رہتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ہم شہری تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ گزشتہ 73 سال کی شہری بدانتظامی کو درست کرنے کے لیے ہمارے عوام اور حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔

کیا لاکھوں کی آبادی والے ہمارے شہروں میں شہری ترقی اور منصوبندی کے آزاد اور خودمختار ادارے موجود ہیں جو ایک منظم شہری منصوبہ بندی اور پالیسی سازی پر حکومت کی سایسی اور انتظامی مشنری کی رہنمائی کرسکیں؟ اس کا سادہ سا جواب ہے کہ نہیں۔

یہ بات درست ہے کہ شہر سازی ایک مشکل کام ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام برادریوں اور اسٹیک ہولڈرز کو مناسب نمائندگی دے کر ان سے بات چیت کی جائے اور اور اتفاق رائے کے ساتھ ایک عزم کا تعین کیا جائے۔ یہی عزم ایک ماسٹر پلان میں تبدیل ہوگا جس کے نتیجے میں بننے والے پالیسی سازی کے اصول شہر سازوں کی ایک نسل کو باہم مربوط محلے تشکیل دینے کی جانب راغب کریں گے۔ یوں ایک خیال کو کچھ دہائیوں میں ہی عملی جامہ پہنایا جاسکے گا۔

شہر سازی، شہری منصوبہ بندی اور ماسٹر پلان کے انتظام میں ایک اہم عنصر ادارہ جاتی منصوبہ بندی اور ترقیاتی ادارے ہیں یہ ادارے خودمختار بھی ہونے چاہئیں اور ان میں قابل ترین افراد کو شامل کیا جانا چاہیے۔ دوسری جانب اعلیٰ افسران کا تقرر بھی میرٹ کی بنیاد پر ہونا چاہیے اور انہیں آزادانہ طور پر اور بغیر کسی سایسی دباؤ کے کام کرنے کی آزادی ہونی چاہیے۔ صرف اسی صورت میں شہری منصوبہ بندی سے متعلق یہ افراد ہمارے شہروں کی قسمت کو بدل سکیں گے۔ ہمارے سامنے چین، دبئی، سنگاپور اور ویتنام کی مثالیں موجود ہیں جہاں منصوبہ بندی کے اداروں کی رہنمائی میں ہونے والی مستقل ترقی کی وجہ سے شرح نمو 2 ہندسوں میں چلی گئی ہے۔

شہر سازی اپنے آپ میں مقاصد کے حصول کے لیے کیا جانے والا ایک اجتماعی کام ہے۔ ہمارے شہروں کے بارے میں ہماری تفہیم اور ہمارے خیالات حقیقت پر مبنی ہونے چاہئیں اور انہیں شہریوں کی ثقافتی اور سماجی و معاشرتی ضروریات کے بارے میں بھی حساس ہونا چاہیے۔

ہمیں اس بات کا احساس کرنا ہوگا کہ آج ہم جو فیصلے کریں وہ کروڑوں لوگوں پر اثر انداز ہوں گے۔ یہ اثرات صرف موجودہ ہی بلکہ آنے والی نسلوں تک بھی پہنچیں گے۔ اگر حکومت واقعی معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ ہمارے شہروں اور قصبوں میں رہنے والوں کے طرز زندگی کو بہتر بنانا چاہتی ہے تو انہیں گزشتہ 73 سالوں کی کوتاہیوں پر غور کرنا ہوگا۔ ہمیں ایک نیا آغاز کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں چاہیے کہ مدرج مقاصد اور واضح پالیسی اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بات چیت کا آغاز کریں۔ اس مثبت بات چیت کے نتیجے میں ہی ہمارے شہر ترقی کریں گے۔

تعمیرات اور شہری منصوبہ بندی کی پائیدار اور کامیاب حکمت عملی تشکیل دینے کی بنیاد قومی، علاقائی اور مقامی سطح پر اصول و ضوابط کی تیاری پر ہے۔ یہ اصول ایسے ہونے چاہئیں جو ہر شہر کے جغرافیہ اور تاریخ کو برقرار رکھتے ہوئے اس کی بقا کو ممکن بناسکیں۔


تمام اسٹیک ہولڈرز جیسے کہ پاکستان کونسل آف آرکیٹیکٹس اینڈ ٹاؤن پلانرز، انسٹیٹوٹ آف آرکیٹیکٹس، پاکستان، پاکستان انجینئیرنگ کونسل، ماہرین معیشت، شہری منصوبہ بندی کے ماہرین اور سول سوسائیٹی کے افراد کو ساتھ ملاکر مندرجہ ذیل نکات پر کام کیا جانا چاہیے:

1- ہمارے منصوبہ بندی اور ترقیاتی اداروں کے لیے اختیارات کا ایسا ڈھانچہ تیار کیا جائے جو ان کے کام کرنے کے انداز کو تبدیل کردے انہیں ادارہ جاتی آزادی مہیا کرے۔

2- قومی، علاقائی، اور مقامی سطح پر شہری منصوبہ بندی پر نظر ثانی کی جائے۔

3- ہر اس شہر کے لیے جس کی آبادی 10 لاکھ سے زیادہ ہو 20 سے 25 سال کے ماسٹر پلان تشکیل دیے جائیں۔

4- بہتر معاشرے کے قیام سے منسلک تعمیرات میں مراعات دی جائیں۔

حکومتی پالیسیوں سے ہمیں اپنے شہروں کے لیے امید کی کرن نظر آتی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ جلد ہی یہ امید سے بڑھ کر حقیقت کا روپ دھار لے گی اور ہمارے شہروں کو تبدیل کردے دی۔


یاور جیلانی آرکیٹیکٹ اور ایکروپ کے شراکت دار ہیں۔