عمیراتی منصوبوں کی منظوری کا طریقہ کار شفاف، آسان اور تیز ہونا چاہیے
عمیراتی منصوبوں کی منظوری کا طریقہ کار شفاف، آسان اور تیز ہونا چاہیے

پاکستان میں بلڈرز کن مشکلات کا شکار ہیں؟

تعمیراتی صنعت کو حائل رکاوٹوں کو دور کردیا جائے تو اس کا ملکی جی ڈی پی میں حصہ 2.53 سے 10 فیصد تک جاسکتا ہے۔
شائع 15 جولائ 2021 01:56pm

دنیا بھر میں تعمیراتی صنعت کو ’مدر انڈسٹری‘ یا صنعتوں کی ماں کہا جاتا ہے اور پاکستان میں بھی زراعت کے بعد ہنر مند، نیم ہنر مند اور غیر ہنر مند افراد کے لیے روزگار کے سب سے زیادہ مواقع اسی صنعت میں ہیں۔ یہ صنعت سیمنٹ، الیکٹریکل فٹنگز، پینٹ، اسٹیل اور ٹائل سمیت 50 سے زائد صنعتوں کو بھی کاروبار کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو اس صنعت کا پاکستان کی معیشت میں اہم کردار ہے اور ملکی جی ڈی پی میں اس کا حصہ 2.53 فیصد ہے۔ اگر کچھ رکاوٹوں کو دور کردیا جائے جو شرح دو برس کے اندر 10 فیصد سے بھی اوپر جاسکتی ہے۔

مغرب میں جب بھی کوئی معاشی بحران آتا ہے تو حکومت معیشت کو سہارا دینے کے لیے تعمیراتی صنعت کو خصوصی مراعات دیتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں اب تک کسی بھی حکومت نے تعمیرات کے شعبے پر توجہ نہیں دی تھی۔ اسی وجہ سے یہ بات خوش آئند ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے تعمیرات کے شعبے کو صنعت کا درجہ دیتے ہوئے اپریل 2020ء میں اس کے لیے ایک سو ارب روپے کے ریلیف پیکج کا بھی اعلان کیا۔

اس ریلیف پیکج کے دو بنیادی مقاصد ہیں۔ پہلا مقصد تو اپریل 2019ء میں شروع ہونے والے 5 سال میں 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کے نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام (این پی ایچ پی) کے تحت سستی رہائش کی دستیابی میں سہولت دینا ہے۔ اس کا دوسرا مقصد روزگار کے مواقع پیدا کرکے معیشت کو سہارا دینا ہے۔ اس پیکج میں ٹیکس مراعات، بلڈرز اور ڈیولپرز اور مالکان کے لیے سبسڈی شامل ہے۔ اس پیکج کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ سرمایہ کاروں سے ان کے ذرائع آمدن نہیں پوچھے جائیں گے۔

مزید یہ کہ حکومت کی ہدایت پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے کمرشل بینکوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے پورٹ فولیو کا کل 5 فیصد حصہ کم مارک اپ کے رہائشی قرضوں کے لیے مختص کریں۔ ساتھ ہی حکومت نے پہلے ایک لاکھ گھروں کے لیے 3 لاکھ روپے کی سبسڈی کا بھی اعلان کیا۔ کم قیمت کے رہائشی منصوبے ہمیشہ سے ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز (آباد) کے مقاصد میں شامل رہا ہے۔

اگرچہ ان مراعات کی وجہ سے اس صنعت میں تیزی آئی ہے لیکن حکومت سندھ اور وفاقی حکومت کے مابین سیاسی اختلافات کی وجہ سے این پی ایچ پی سندھ میں شروع نہیں ہوسکا۔ مجھے امید ہے کہ دونوں حکومتیں اس بات کا احساس کریں گی کہ ان کے اختلاف کی وجہ سے ملکی معیشت کو نقصان ہورہا ہے اور وہ اس کے مثبت حل کی کوشش کریں گی تاکہ کم قیمت رہائشی اسکیم شروع کی جاسکے لوگوں کے گھروں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ تعمیراتی صنعت کو بھی پروان چڑھایا جاسکے۔

یہ اقدام اس وقت مزید اہمیت اختیار کرجاتا ہے جب آپ حکومت کی انسداد تجاوزات مہم اور خاص طور پر گجر نالے اور اورنگی نالے کے اطراف چلنے والی انسداد تجاوزات مہم کی وجہ سے بے گھر ہونے والوں کی فریاد سنتے ہیں۔ اس مہم میں گھروں کو بھی گرادیا گیا جن کی باضابطہ سب لیز مالکان کے پاس موجود تھی۔ یہ معاملہ ایک بین الاقوامی مسئلہ بن گیا ہے اور اقوام متحدہ نے بھی تقریباً ایک لاکھ افراد کو بے گھر کرنے کے اقدام کو روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق کراچی کی 54 فیصد آبادی کچی آبادیوں میں رہتی ہے، یہی وقت ہے کہ ان لوگوں مناسب رہائشی سہولیات فراہم کی جائیں۔ آباد نے کچی آبادیوں میں نئے سرے سے تعمیرات کرنے (اوراس عمل کے دوران شہر کو خوبصورت بنانے) کی پیشکش کی ہے لیکن ہمیں ابھی تک اس کی اجازت نہیں ملی ہے۔

تعمیراتی صنعت کو کچھ ایسی رکاوٹوں کا سامنا ہے جس نے بلڈرز، ڈیولپرز اور ساتھ ہی سرمایہ کاروں اور الاٹیز کے حوصلے پست کردیے ہیں۔ مثال کے طور پر اس صنعت کو اس وقت ایک دھچکا لگا جب مئی 2017ء میں اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کراچی میں کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر پر پابندی عائد کردی تھی۔ اس وقت 300 سے زائد منصوبوں پر تعمیراتی کام جاری تھا اور وہ اس سے متاثر ہوئے تھے۔ یہ پابندی ایک سال بعد اٹھالی گئی تھی تاہم اس دوران 600 ارب کی سرمایہ کاری پھنسی رہی تھی اور ہزاروں دیہاڑی دار مزدور بے روزگار ہوگئے تھے، ساتھ ہی بلڈرز میں بھی مایوسی اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی۔

بعد ازاں موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان نے کراچی کے کمرشل روڈز پر موجود رہائشی پلاٹوں کو کمرشل پلاٹ میں منتقل کرنے پر پابندی عائد کردی۔ اس کے نتیجے میں کئی بلڈرز اور ڈیولپرز کا کام رک گیا جبکہ وہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) پلاٹ منتقلی کی فیس بھی ادا کرچکے تھے (ایک ہزار مربع گز کے پلاٹ کی فیس 2 کروڑ 20 لاکھ روپے تھی) لیکن ایس بی سی اے انہیں منظوری نہ دے سکی۔ اس سے بلڈرز اور ڈیولپرز شدید متاثر ہوئے ہیں اور اب وہ اپنا سرمایہ ایسے ممالک میں منتقل کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں جہاں کی پالیسیاں تعمیری صنعت کے لیے بہتر ہوں۔


تعمیراتی صنعت میں آنے والے موجودہ عروج کو برقرار رکھنے کے لیے کیا کچھ کیا جاسکتا ہے؟

1- تعمیراتی منصوبوں کی منظوری کا طریقہ کار شفاف، آسان اور تیز ہونا چاہیے۔ اس وقت منظوری حاصل کرنے میں تقریباً 18 ماہ لگتے ہیں، حتمی منظوری سے پہلے بلڈرز کو متعلقہ اداروں سے تقریباً 20 این او سیز لینا پڑتی ہیں (خاص طور پر سے سندھ میں۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں یہ مرحلہ نسبتاً آسان ہے) حکومت کو نجی شعبے کے انجینیئروں اور آرکیٹیکٹس پر مبنی ایک پینل یا بورڈ تشکیل دینا چاہیے جو کم وقت میں (2 سے 4 ہفتوں میں) منظوری دے۔ اسی طرح پانی، بجلی اور گیس جیسی بنیادی سہولیات کی منظوری کو ایک چھت تلے فراہم کرنا چاہیے۔

2- تمام شہروں اور قصبوں کے ماسٹر پلان پر نظر ثانی کرنی چاہیے تاکہ ان شہروں کا نظام بہتر کیا جاسکے۔

3- وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ’لینڈ بینک‘ قائم کرنا چاہیے جہاں تجارتی اور رہائشی منصوبوں کے لیے مخصوص علاقوں کے ڈیجیٹائز ریکارڈ موجود ہوں۔ اس بینک کے تحت اراضی نیلامی کے ذریعے شفاف طریقے سے بلڈرز کو دی جانی چاہیے۔

4- ایک ہی جگہ آبادی میں اضافے کو روکنے کے لیے بڑے شہروں کے ساتھ ’نئے شہر‘ بسانے چاہئیں۔

5- تعمیراتی سامان کی قیمت کو قابو میں رکھنے کے لیے تعمیرات سے منسلک صنعتوں کو بھی خصوصی مراعات دی جانی چاہئیں۔ حکومت کو ایک ایسا نظام تشکیل دینا چاہیے جس کے تحت کم از کم 3 سال ( اکثر منصوبے کی تکمیل کی اوسط مدت) تک تعمیراتی سامان کی قمیت میں اضافہ نہ ہو۔

6- بلڈرز اور ڈیولپرز کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک خصوصی مالیاتی ادارہ تشکیل دیا جائے جو روایتی بینکوں کی نسبت کم مارک اپ پر قرضے فراہم کرے۔

7- قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے غیر قانونی تعمیرات کو رکوایا جائے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ناقص عمارتیں تعمیر نہ ہوں۔ بلڈرز اور ڈیولپرز کی جانب سے قانون پر علمدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے ایک علیحدہ بورڈ تشکیل دیا جائے۔

8- ایک ڈیجیٹل ون ونڈو نظام متعارف کروایا جائے جہاں عوام اور بلڈرز الیکٹرانک طریقے سے تعمیراتی منصوبے جمع کراسکیں اور تیز اور شفاف طریقے سے اس کی منظوری حاصل کرسکیں۔


محسن شیخانی چار مرتبہ ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈولپرز آف پاکستان (اے بی اے ڈی) کے چیئرمین رہ چکے ہیں، اور وہ اے بی اے ڈی کے اتحادی پینل کے سرپرست اعلیٰ بھی ہیں۔ وہ ورلڈ بینک اور ایشین ڈیولپمنٹ بینک میں بھی پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ [email protected]*