پاکستان میں گھروں کیلئے قرضوں کی سہولت، درست سمت میں ٹھوس قدم

گھروں کے لیے مالی اعانت حاصل کرنا اب تھوڑا آسان ہوگیا ہے جس کے لیے حکومت اور اسٹیٹ بینک کی کاوش قابل تحسین ہیں۔
شائع 19 جولائ 2021 05:56pm

جب سے تحریک انصاف کی حکومت اقتدار میں آئی ہے تب سے اس کی جانب سے رہائشی شعبے کو فروغ دینے کی بات کی جارہی ہے اور یہاں تک بھی ہوا کہ حکومت کی جانب سے ایک کروڑ گھروں کی تعمیر کا وعدہ بھی کیا گیا۔ اگرچہ یہ وعدہ غیر حقیقی ہے لیکن حکومت نے اس ضمن میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ساتھ مل کر رہائشی قرضوں کو آسان بنانے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔

ان اقدامات میں نیا پاکستان ہاؤسنگ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے لیے 30 ارب روپے بھی شامل ہیں جوکہ کم آمدن والے افراد کو 3 لاکھ روپے کی سبسڈی دینے کے لیے استعمال ہوں گے۔

ایک اور اہم بات یہ کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے مارکیٹ کے ریٹ سے کم شرح پر ری فنانسنگ اسکیم کو بھی متعارف کروایا گیا ہے۔ عام آدمی کی زبان میں اسے یوں سمجھایا جاسکتا ہے کہ مرکزی بینک نے بینکوں کو ایک خصوصی کریڈٹ لائن فراہم کردی ہے جو سرمائے کی ایک فیصد قیمت سے شروع ہوتی ہے۔ بینک اس بات کے مجاز ہیں کہ وہ صارفین کو پانچ پانچ سال کے دو مدت کے لیے مقررہ شرح پر قرض دیں گے اور اس مدت کے پورے ہونے کے بعد مارک اپ کا تعین کراچی انٹر بینک آفر ریٹ (کائبور) اور اس میں مختلف ٹیئر کے اضافے کے ساتھ کیا جائے گا۔

رہائشی قرضوں جیسے کسی طویل مدتی قرض میں مقررہ شرح کی اہمیت سمجھنے کے لیے کائبور کی تاریخ کو سمجھنا ضروری ہے۔ ہماری معیشت کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ ساتھ کائبور میں بھی اتار چڑھاؤ آتے رہے ہیں۔

اس کو یوں سمجھیے کہ مارچ 2020ء کے آغاز میں کائبور 6 ایم کی شرح 13 فیصد تھی جو کہ اپریل کے اختتام تک 7.5 فیصد پر آگئی۔ لیکن قرض لینے والے کے لیے مشکل اس وقت ہوتی ہے جب یہ شرح کم ہونے کے بجائے بڑھنے لگے جو کہ ہر 2 سے 3 سال میں ہوتا ہی ہے۔ یوں 50 لاکھ روپے کے قرض پر کائبور میں 7 فیصد کے فرق کا مطلب تقریباً ساڑھے 3 لاکھ روپے بنتے ہیں۔

اب ہم دوبارہ حکومتی اسکیم کی جانب واپس آتے ہیں۔ اس اسکیم میں رہائشی قرض لینے کی شرائط کو آسان بنادیا گیا ہے اور پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ قومی شناختی کارڈ رکھنے والا ہر مرد یا عورت جو پہلی مرتبہ گھر خرید رہا ہو وہ رہائشی قرضہ حاصل کرسکتا ہے۔ تنخواہ کی شرط میں بھی نرمی کی گئی ہے تاکہ کم آمدن والے افراد بھی اس اسکیم سے فائدہ اٹھاسکیں۔

اس اسکیم میں 0 سے 3 تک کُل 4 ٹیئر (درجے) متعارف کروائے گئے ہیں جن میں سے ہر ایک کے لیے رہائشی قرض کی مختلف حد اور مختلف شرح سود ہے۔

ٹیئر 0 مائیکرو فنانس بینکوں کے لیے ہے اور درخواست دہندگان پہلے پانچ سال کے لئے 5 فیصد اور اس کے بعد 7 فیصد کے لئے زیادہ سے زیادہ 20 لاکھ روپے قرض لے سکتے ہیں۔

دوسرا سلیب: ٹیئر1 - اس میں صرف ایک ہی آپشن ہے جو خصوصی طور پر حکومت کے NAPHDA منصوبوں کے لئے دستیاب ہے جس پر قرضے کی حد 27 لاکھ روپے ہے اور ہاؤسنگ یونٹ کی قیمت 35 لاکھ روپے ہے۔ اس زمرے میں پہلے اور دوسرے پانچ سالہ ادوار کے لئے بھی سب سے کم مارک اپ 3 اور 5 فیصد ہے۔

بقیہ دو اقسام - ٹیر 2 اور 3 - بالترتیب شرح سود 5 سے 7 اور 7 سے 9 فیصد میں قرض کی سب سے زیادہ رقم 60 لاکھ سے ایک کروڑ روپے تک ہے، مارچ 2023 تک عارضی چھوٹ دی گئی ہے جس کے مطابق یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ جو گھر لے رہے ہیں وہ گھر نیا تعمیر شدہ ہو۔

پہلے تین سلیب کے مطابق گھر کا سائز 125 مربع گز (5 مرلہ) سے بڑا نہیں ہونا چاہئے یا 1،250 مربع فٹ (یا ٹیئر 1 ، 850 مربع فٹ کی صورت میں) تک نہیں ہونا چاہیے۔ ٹیئر 4 بہت زیادہ نرم ہے کیونکہ یہ کسی مکان کے لیے زیادہ سے زیادہ 250 مربع گز کی پراپرٹی کی اجازت دیتا ہے یا فلیٹ کی صورت میں 2 ہزار مربع فٹ کی اجازت دیتا ہے۔

بینکوں کو تھوڑا سا دبانے کے لیے ، اسٹیٹ بینک نے لازمی قرار دیا ہے کہ وہ اپنے قرض دینے والے پورٹ فولیو کا کم سے کم 5 فیصد گھروں کی تعمیر اور رئیل اسٹیٹ کے لیے مختص کریں۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اور ریگولیٹر کا یہ دباؤ کام کررہا ہے۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک کامیاب درخواست گزار کا کہنا ہے کہ ’درخواست سے منظوری تک کے پورے عمل میں 14 دن لگے ،" جنہوں نے دوسرے درجے کے تحت ساڑھے سات لاکھ روپے کا قرض لیا ہے اور اب وہ اپنے کرایے والے اپارٹمنٹ کو ایک رہن (مارگیج) میں تبدیل کرنے کے منتظر ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ’میں نے اپنی درخواست حبیب میٹرو بینک کو دی، جہاں میرا اکاؤنٹ ہے، عام دستاویزات جیسے تنخواہ اور جائیداد کے کاغذات کے ثبوت درخواست کے جمع کروائیں اور چودہویں دن تک قرض کی منظوری دے دی گئی‘۔

نجی بینک کے سی ای او کے مطابق ، نظرثانی شدہ سرکلر متعارف کروانے کے بعد سے مالی ادارے بہت زیادہ جارحانہ ہوچکے ہیں، جس کی وجہ سے نئی تعمیراتی ضروریات کو ختم کرکے ٹیئر 2 اور 3 کی شرائط میں نرمی پیدا کردی گئی ہے اور بعد میں مالی اعانت کی حد بڑھا دی گئی ہے، اس سے قبل قرض کی فراہمی کی شدید کمی تھی۔

تاہم ، پرانی تعمیرات سے متعلق نرمی صرف مارچ 2023 تک ہے ، جس کے بعد ہاؤسنگ فنانس میں کسی بھی سرگرمی کا انحصار نئی پالیسی کے براہ راست آنے پر ہوگا۔ اس کے لیے ، حکومت امید کر رہی ہے کہ بلڈرز کو اس سہولت سے کافی مدد ملے گی ، لیکن فی الحال فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں درج منصوبوں کو دیکھتے ہوئے یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ ان میں سے اکثر منصوبے اوسط شہریوں کی پہنچ سے دور ہیں۔

جب ٹیئر کے مطابق درخواستوں اور اخراجات کے اعداد و شمار جاری کیے جائیں گے تو تصویرزیادہ واضح ہوگی کہ یہ اسکیم کم آمدنی والے طبقے پر ہاؤسنگ کو فروغ دینے کے کتنے اثرات مرتب کررہی ہے۔

ٹیئر 0 (ٹی زیرو) (الف) 125 مربع گز تک مکان (5 مرلہ) اور (ب) فلیٹ یا اپارٹمنٹ 1250 مربع فٹ۔

ٹیئر 1 (ٹی ون) (الف) 125 مربع گز تک مکان (5 مرلہ) یا 850 مربع فٹ اور (ب) فلیٹ یا اپارٹمنٹ 850 مربع فٹ۔

ٹیئر2 (ٹی ٹو) (الف) 125 مربع گز تک مکان (5 مرلہ) اور (ب) فلیٹ یا اپارٹمنٹ جس کا زیادہ سے زیادہ رقبہ 1،250 مربع فٹ۔

ٹیر 3 (ٹی تھری) (الف) 250 مربع گز تک مکان (10 مرلہ) اور (ب) فلیٹ یا اپارٹمنٹ جس کا زیادہ سے زیادہ رقبہ 2 ہزار مربع فٹ۔