ڈاکٹر عبدالقدیر خان: مغرب کا ناپسندیدہ ترین پاکستانی ہیرو

یہ تحریر ابتدائی طور پر 11 اکتوبر 2021ء کو شائع ہوئی جسے آج ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے یومِ وفات پر دوبارہ پیش کیا جارہا ہے۔


کل صبح سویرے جب ٹی وی کھولا تو ہر چینل پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے انتقال کی خبر چل رہی تھی۔ انٹرنیٹ کا معاملہ بھی اس سے کچھ مختلف نہیں تھا۔ بنیادی طور پر تمام معلومات ایک جیسی ہی تھیں، صرف انداز کا فرق تھا۔ ایک کے بعد ایک کرکے یہ خبریں پڑھتا، سنتا اور دیکھتا جارہا تھا، لیکن میرے ذہن میں یادوں کی ایک فلم چلتی جارہی تھی جو 3 عشروں سے کچھ زیادہ عرصے پر پھیلی ہوئی تھی۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے بارے میں اپنی یادیں کھنگالنے سے پہلے ایک غلط فہمی کا ازالہ ضروری سمجھتا ہوں۔ بیشتر جگہوں پر انہیں ’پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا بانی‘ لکھا گیا ہے جو غلط ہے۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم نے پاکستان کے ’عسکری جوہری پروگرام‘ (ملٹری نیوکلیئر پروگرام) میں اہم ترین کردار ضرور ادا کیا تھا لیکن پاکستان کے پُرامن (سویلین) ایٹمی پروگرام کا آغاز 1950ء کے عشرے میں ہوگیا تھا، جس کے تحت 1972ء میں عالمِ اسلام کا پہلا ایٹمی بجلی گھر ’کینپ‘ (KANUPP)، کراچی میں کام شروع کرچکا تھا۔

   انہوں نے اپنے کیریئر کے دوران ایک درجن سے زائد طلائی تمغے بھی حاصل کیے—فائل فوٹو: اے پی
انہوں نے اپنے کیریئر کے دوران ایک درجن سے زائد طلائی تمغے بھی حاصل کیے—فائل فوٹو: اے پی

یہ 1987ء کی بات ہے، میں ان دنوں نیا نیا اسکول سے کالج میں آیا تھا۔ اپنے ہم عمروں کے برعکس، میرے پرس میں ہر وقت ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی تصویر رہا کرتی تھی جو میں نے ماہنامہ ’عملی سائنس‘ کے ایک خصوصی شمارے سے کاٹ کر رکھی ہوئی تھی۔

تب تک ڈاکٹر صاحب کے بارے میں جو کچھ بھی پڑھا تھا، اس سے اتنا متاثر ہوا کہ ہزاروں دوسرے پاکستانی نوجوانوں کی طرح میں بھی ’ایٹمی سائنسدان‘ (نیوکلیئر سائنٹسٹ) بننے کے خواب دیکھنے لگا، اور اسی بنا پر سائنس میرا پسندیدہ ترین مضمون بن گیا۔ میں سائنسدان نہیں بن سکا لیکن ’سائنسی صحافی‘ ضرور بن گیا، اور یہی عنوان میری مستقل شناخت قرار پایا۔

ڈاکٹر صاحب کو دیے جانے والے اعزازات، ان کی خدمات کے اعترافات اور ان کی شخصیت سے وابستہ تمام تر تنازعات سے قطع نظر، یہ حقیقت ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان بلاشبہ پاکستان کے مقبول ترین سائنسدان رہے ہیں۔

بھوپال، پاکستان اور یورپ

اسناد کے مطابق، ڈاکٹر عبدالقدیر خان یکم اپریل 1936ء کے روز بھوپال میں پیدا ہوئے۔ تاہم ڈاکٹر صاحب کے مستند ترین سوانح نگار اور دیرینہ دوست، زاہد ملک مرحوم لکھتے ہیں کہ ’ڈاکٹر صاحب کی اصل تاریخِ پیدائش 27 اپریل 1936ء ہے: ’یہ فرق اس لیے پیدا ہوا کہ ریاست بھوپال میں 16 سال سے کم عمر کے بچے میٹرک کے امتحان میں شریک نہ ہوسکتے تھے اور امتحانات اپریل کے پہلے ہفتے میں شروع ہوئے تھے۔ بتایا گیا کہ جب ڈاکٹر صاحب کا داخلہ برائے امتحان بھیجنے کا مرحلہ آیا تو وہ 16 سال سے ایک ماہ چھوٹے تھے۔ حمیدیہ ہائی اسکول (بھوپال) کے ہیڈ ماسٹر محمد ذکی صدیقی نے ان کی ذہانت اور تعلیمی قابلیت کو دیکھتے ہوئے ان کا ایک سال ضائع کرنا کسی طرح بھی مناسب نہ سمجھا اور تاریخِ پیدائش یکم اپریل (1936ء) لکھوا دی، اور یوں ڈاکٹر صاحب کو میٹرک کے امتحان میں بیٹھنے کی اجازت مل گئی۔‘ (بحوالہ: ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور اسلامی بم (حصہ اوّل و دوم)؛ از: زاہد ملک، مطبوعہ 1998ء)

    ڈاکٹر عبدالقدیر خان—ڈان آرکائیوز
ڈاکٹر عبدالقدیر خان—ڈان آرکائیوز

قیامِ پاکستان کے بعد ڈاکٹر صاحب کے بیشتر اہلِ خانہ ہجرت کرکے پاکستان آگئے جبکہ انہوں نے بھوپال میں اپنے والدین کے پاس رہتے ہوئے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور 1952ء میں پاکستان آگئے۔ یہاں آکر اپنے بڑے بھائیوں کے ساتھ کراچی میں مستقل سکونت اختیار کی۔ 1954ء میں کچھ عرصے کےلیے ڈی جے سائنس کالج میں پڑھا اور پھر جامعہ کراچی میں داخلہ لے لیا جو ان دنوں شہر کے بیچوں بیچ ’اولڈ سٹی ایریا‘ میں، اردو کالج کے بالکل سامنے واقع تھی۔ آج یہ جگہ وفاقی اردو یونیورسٹی کا ’عبدالحق کیمپس‘ کہلاتی ہے۔

جامعہ کراچی سے 1957ء میں بی ایس سی کرنے کے بعد ڈاکٹر صاحب کچھ عرصے تک ’کے ایم سی‘ میں محکمہ اوزان و پیمانہ جات کے انسپیکٹر رہے لیکن وہ مزید اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی انہیں 1961ء میں مغربی جرمنی کے لیے اسکالر شپ ملی، وہ ملازمت کو خیرباد کہہ کر جرمنی چلے گئے۔

مغربی برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی میں دھات کاری (میٹلرجی) کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ 1965ء میں ڈیلفٹ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی، ہالینڈ چلے آئے جہاں سے 1967ء میں مٹیریلز ٹیکنالوجی کے تحت ’انجینئر‘ کی ڈگری حاصل کی جو پاکستان میں ’ایم ایس‘ کے برابر ہے۔ اسی دوران ڈاکٹر صاحب نے ایک جرمن خاتون ’ہینی‘ سے شادی کرلی تھی۔

ڈاکٹر صاحب کی اگلی منزل لیوون، بیلجیئم کی کیتھولک یونیورسٹی ٹھہری جہاں سے انہوں نے 1972ء میں ڈاکٹر مارٹن بریبرز کی نگرانی میں ’ڈاکٹر آف انجینئرنگ‘ یعنی انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ اسی سال ڈاکٹر صاحب کو ایمسٹرڈیم، ہالینڈ میں واقع ادارے ’ایف ڈی او‘ میں ملازمت مل گئی اور وہ اپنی بیوی اور دونوں بیٹیوں کے ساتھ ایمسٹرڈیم منتقل ہوگئے۔

ایک سب کنٹریکٹر کی حیثیت سے ایف ڈی او کا تعلق ’یورینکو گروپ‘ سے تھا جو امریکا، جرمنی، ہالینڈ اور برطانیہ میں ایٹمی بجلی گھروں کو افزودہ (enriched) یورینیم فراہم کرتا ہے۔ اس طرح ڈاکٹر صاحب کو یورینیم افزودگی (انرچمنٹ) کو بہت باریکی سے سمجھنے اور عملی طور پر آزمانے کا خوب موقع ملا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی یہی مہارت پاکستان کے عسکری ایٹمی پروگرام میں بھی بہت کام آئی۔

پاکستان واپسی

1971ء میں پاکستان کے دولخت ہونے کا ڈاکٹر صاحب کو بہت صدمہ پہنچا اور پھر جب ہندوستان نے ’مسکراتا بُدّھا‘ (Smiling Buddha) کے نام سے مئی 1974ء میں اپنا پہلا ایٹمی دھماکا کیا تو ڈاکٹر صاحب کی بے چینی انتہا کو چُھونے لگی۔ انہوں نے چند ماہ کی مختصر مدت میں کئی پاکستانی اداروں کو خط لکھے اور اپنی خدمات پیش کیں، لیکن کہیں سے کوئی جواب نہ ملا۔

آخرکار ڈاکٹر خان کسی طرح اس وقت کے وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو تک اپنا ایک خط پہنچوانے میں کامیاب ہوگئے جس میں انہوں نے یورینیم افزودگی (یورینیم انرچمنٹ) میں اپنی پیشہ ورانہ مہارت کا حوالہ دیتے ہوئے امید ظاہر کی تھی کہ وہ ایٹم بم بنانے میں مدد کرسکتے ہیں۔ بھٹو صاحب خود بھی یہی چاہتے تھے کہ پاکستان جلد از جلد ایٹم بم بنا کر بھارت کو منہ توڑ جواب دے۔ اس بارے میں وہ پہلے ہی ’ہم گھاس کھائیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے!‘ کا بیان دے چکے تھے۔

وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بغیر کسی تاخیر کے ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کی اور پھر انہیں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (پی اے ای سی) کے ماہرین سے بھی ملوایا گیا جو 1972ء سے ایٹم بم بنانے کے ایک خفیہ سرکاری منصوبے پر کام کررہے تھے۔ اس منصوبے کے تحت افزودہ پلوٹونیم (enriched Plutonium) سے ایٹم بم بنانے پر کام ہورہا تھا۔

دسمبر 1974ء میں ہونے والی اس ملاقات میں ڈاکٹر خان نے ایٹم بم کے لیے افزودہ یورینیم (enriched Uranium) کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے پلوٹونیم کے استعمال پر کڑی نکتہ چینی بھی کی۔ نتیجتاً انہیں یہ کہہ کر واپس بھیج دیا گیا کہ وہ ہالینڈ میں رہتے ہوئے اس منصوبے کے لیے اپنے ماہرانہ مشورے دیتے رہیں۔

لیکن ہالینڈ واپسی پر انہیں شک کی نگاہوں سے دیکھا جانے لگا اور، بالآخر، وہ 1976ء میں مستقل طور پر پاکستان واپس آگئےـ ہالینڈ میں ڈاکٹر خان کی عدم موجودگی میں ان کے خلاف ’خفیہ معلومات‘ چرانے کے مقدمات بھی درج ہوئے لیکن بعد میں تکنیکی جائزوں سے ثابت ہوا کہ یہ تمام خفیہ معلومات، میٹلرجی کی اعلیٰ نصابی کتابوں میں عام موجود تھیں۔ لہٰذا ڈاکٹر صاحب کو ان مقدمات سے بری کردیا گیا۔

1976ء میں پاکستان واپسی کے ساتھ ہی ڈاکٹر خان کی خدمات پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے سپرد کردی گئیں لیکن اس سے پی اے ای سی اور ڈاکٹر خان کے درمیان پہلے سے موجود تناؤ شدید تر ہوگیا۔ بھٹو صاحب نے معاملہ فہمی کا ثبوت دیتے ہوئے اسی سال ایک علیحدہ ادارہ ’انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹری‘ (ای آر ایل) بنا کر ڈاکٹر خان کو اس کا سربراہ مقرر کردیا۔ کہوٹہ میں قائم ہونے کی وجہ سے یہ تجربہ گاہ ’کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری‘ کے نام سے مشہور ہوئی جسے 1981ء میں صدر جنرل ضیاالحق کے حکم پر ’عبدالقدیر خان ریسرچ لیبارٹری‘ کا نام دے دیا گیا۔

   ڈاکٹر عبدالقدیر خان قدیر خان نیوکلیر ریسرچ لیبارٹری کے زیر اہتمام اسلام آباد میں ہونے والے سمپوزیم کے افتتاح کے لیے آنے والے وزیراعظم نواز شریف کا استقبال کر رہے ہیں—ڈان آرکائیوز
ڈاکٹر عبدالقدیر خان قدیر خان نیوکلیر ریسرچ لیبارٹری کے زیر اہتمام اسلام آباد میں ہونے والے سمپوزیم کے افتتاح کے لیے آنے والے وزیراعظم نواز شریف کا استقبال کر رہے ہیں—ڈان آرکائیوز

یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ قدرتی طور پر یورینیم کی دو اقسام زیادہ پائی جاتی ہیں: یورینیم 238 اور یورینیم 235؛ جنہیں یورینیم کے ہم جاء (آئسوٹوپس) کہا جاتا ہے۔ ایٹمی بجلی گھر یا ایٹم بم میں استعمال کے لیے صرف یورینیم 235 ہی کارآمد ہے جبکہ اس مقصد میں یورینیم 238 کسی کام کی نہیں ہوتی۔

یورینیم کے خالص نمونے میں یورینیم 235 کا تناسب صرف 0.7 فیصد (صفر اعشاریہ سات فیصد) ہوتا ہے جسے یورینیم 238 سے الگ کرنا پڑتا ہے۔ ایٹمی بجلی گھر میں صرف 5 فیصد سے 20 فیصد تک خالص شدہ (افزودہ) یورینیم 235 بھی کافی رہتی ہے لیکن ایٹم بم بنانے کے لیے 90 فیصد یا اس سے بھی زیادہ افزودگی والی یورینیم 235 درکار ہوتی ہے جسے ’بم گریڈ یورینیم‘ بھی کہا جاتا ہے۔

اسلامی بم اور پروفیسر قادر حسین کا دعویٰ

کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز میں اسی ’بم گریڈ یورینیم‘ پر کام تیزی سے آگے بڑھایا گیا اور اس ضمن میں کئی تکنیکی مسائل بھی حل کیے گئے۔ جناب زاہد ملک مرحوم کے مطابق، ’ڈاکٹر خان کی قیادت میں پاکستان نے 1978ء ہی میں بم گریڈ یورینیم کی تیاری میں پہلی کامیابی حاصل کرلی تھی۔ یہ بات اس لیے بھی درست قرار دی جاسکتی ہے کہ اسی زمانے میں مغربی میڈیا میں ’اسلامی بم‘ کی اصطلاح مشہور ہوئی۔ اس عنوان سے دستاویزی فلمیں بنائی گئیں، مضامین لکھے گئے اور کتابیں تک شائع کروائی گئیں۔ اس تمام ’تفتیشی صحافت‘ میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام، بالخصوص ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور کہوٹہ لیبارٹریز کو تنقید کا مرکزی نشانہ بنایا جاتا اور انہیں دنیا کے سامنے ایک ’ولن‘ کی طرح پیش کیا جاتا‘۔

البتہ، معاملہ صرف مغربی دنیا کا نہیں تھا بلکہ 1979ء میں اردو سائنس کالج، کراچی میں فزکس کے ایک استاد، پروفیسر قادر حسین بھی ایک نئے دعوے کے ساتھ سامنے آگئے کہ یورینیم افزودہ کرنے کا جو طریقہ کہوٹہ لیبارٹری میں استعمال کیا جارہا ہے وہ انہوں نے کچھ سال پہلے، اٹامک انرجی کمیشن میں تحقیق کے دوران ایجاد کیا تھا۔

   آبپارہ چوک کے تاجر کامیاب ایٹمی دھماکے کے موقعے پر مٹھائیاں بانٹ رہے ہیں
آبپارہ چوک کے تاجر کامیاب ایٹمی دھماکے کے موقعے پر مٹھائیاں بانٹ رہے ہیں

پہلے تو انہوں نے پاکستان میں اپنے ایجاد کردہ اس طریقے کا پیٹنٹ حاصل کرنا چاہا لیکن ناکامی ہوئی۔ اگلے مرحلے میں انہوں نے حکومتِ پاکستان اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے خلاف مقدمہ دائر کردیا جسے عالمی میڈیا میں بہت پذیرائی ملی۔ 1987ء میں پروفیسر صاحب نے امریکا میں پیٹنٹ کی درخواست دائر کردی جو بالآخر 1995ء میں منظور کرلی گئی اور انہیں اپنی ’ایجاد‘ کا امریکی پیٹنٹ (نمبر 5,417,944) دے دیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اب تک امریکا میں بھی کوئی اس پیٹنٹ کو خرید کر استعمال کرنے کے لیے تیار نہیں ہوا ہے۔

مجھے آج بھی یاد ہے کہ ماہنامہ سائنس ڈائجسٹ، کراچی میں پروفیسر قادر حسین کے حق میں اور اس مقدمے کی روداد سے متعلق بڑے اہتمام سے مضامین شائع کیے جاتے تھے۔ پاکستان کی تاریخ میں اسے ’قادر قدیر تنازعہ‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، جس میں ایک وقت وہ بھی آیا کہ ہفت روزہ تکبیر (ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے حق میں) اور ماہنامہ سائنس ڈائجسٹ (پروفیسر قادر حسین کی حمایت میں) ایک دوسرے کے خلاف مقدمے بازی پر اُتر آئے۔

استادِ محترم جناب سید قاسم محمود کی ادارت میں شائع ہونے والے ’ماہنامہ سائنس میگزین‘ نے جنوری 1991ء میں جب اپنا 75واں شمارہ (پلاٹینم جوبلی نمبر) شائع کیا تو اس میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ایک خصوصی مضمون بھی شامل تھا جو انہوں نے سید صاحب کی فرمائش پر بھجوایا تھا۔ اس مضمون میں ڈاکٹر خان نے یورینیم افزودگی کا خاصی تفصیل سے جائزہ لیا تھا۔ البتہ پروفیسر قادر حسین کے دعوے سے متعلق کچھ زیادہ بات نہیں کی تھی۔ (یہ واقعہ مجھے اس لیے بھی یاد ہے کیونکہ اسی شمارے سے سید صاحب نے مجھے ’نائب مدیر‘ سے ترقی دے کر سائنس میگزین کا ’مدیر‘ بنایا تھا۔)

وسیع تر خدمات

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ 1990ء کا عشرہ شروع ہوتے ہوتے پاکستان میں ایٹم بم سے متعلق بہت سے معاملات پختہ ہوچکے تھے کیونکہ اسی زمانے میں کہوٹہ لیبارٹریز نے اپنی خدمات کا دائرہ کار یورینیم افزودگی سے بڑھا کر میزائل سازی اور دوسرے دفاعی آلات کی تیاری تک وسیع کردیا۔ ان میں بکتر شکن اینٹی ٹینک گائیڈڈ میزائل، عنزہ میزائل، ریڈار سسٹمز، الیکٹرونک سسٹمز اور لیزر رینج فائنڈرز کے علاوہ غوری اوّل، غوری دوم اور حتف اوّل جیسے بیلسٹک میزائل بھی شامل ہیں۔

پاکستان کے ایٹمی دھماکے

مئی 1998ء میں بھارتی ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان پر بھی جوابی ایٹمی دھماکوں کے لیے دباؤ شدید تر ہوگیا اور 28 مئی 1998ء کے روز پاکستان نے بھی چاغی میں ایٹمی دھماکے کرکے برِصغیر میں طاقت کا تیزی سے بگڑتا ہوا توازن ایک بار پھر بحال کردیا۔

یہ کہنا زیادہ صحیح رہے گا کہ یہ دھماکے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن اور کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز کے ہزاروں ماہرین کی عشروں پر پھیلی ہوئی محنت کا حاصل تھے۔ اس موقع پر ایک دوسرے سے شدید مخاصمت کے باوجود، ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند، دونوں ہی چاغی میں موجود تھے۔ حسبِ توقع، ان دھماکوں کے ساتھ ہی پاکستان پر نئی پابندیاں لگا دی گئیں لیکن اندرونِ ملک اس عظیم کامیابی کا ’کریڈٹ‘ لینے کی دوڑ لگ گئی جس میں سیاستدان اور سائنسدان برابر کے شریک تھے۔

   ایٹمی دھماکے کے اگلے روز ڈان اخبار کا سرورق—ڈان آرکائیوز
ایٹمی دھماکے کے اگلے روز ڈان اخبار کا سرورق—ڈان آرکائیوز

مجھے آج بھی یاد ہے کہ ان دنوں ہفت روزہ تکبیر نے پاکستان کے ایٹمی دھماکوں سے متعلق ایک مضمون شائع کیا تھا جس میں پروفیسر قادر حسین کو ’اصل ہیرو‘ قرار دیا گیا تھا۔ میرے لیے یہ بات حیرت انگیز تھی کیونکہ تکبیر وہی جریدہ تھا جس نے ماضی میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی حمایت میں سائنس ڈائجسٹ کے خلاف مقدمہ کیا تھا۔

ایٹمی راز برائے فروخت

وقت گزرتا گیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے 2004ء کا سال آن پہنچا۔ جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ’ڈی بریفنگ‘ ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب نے پوری قوم کے سامنے، پی ٹی وی پر خطاب کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ وہ دیگر ممالک کو ’ایٹمی راز‘ فراہم کرتے رہے ہیں اور اپنی اس حرکت پر ’قوم سے معافی‘ چاہتے ہیں۔

سب جانتے تھے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو قربانی کا بکرا بنا کر کچھ ’اصلی بڑوں‘ کی گردن بچائی جارہی ہے لیکن یہ بات کہنے کی کسی میں ہمت نہیں تھی۔ اپنے اس ’اعتراف‘ کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو کئی سال تک ان کے اپنے ہی گھر میں نظربند کردیا گیا۔ جنرل مشرف کے بعد ڈاکٹر خان کے حق میں فیصلہ ہوا اور انہیں ایک بار پھر آزادی نصیب ہوئی۔

   ایٹمی دھماکے کی پہلی سالگرہ کے موقع پر منعقدہ تقریب سے سابق وزیرِ خارجہ سرتاج عزیز خطاب کر رہے ہیں، اسٹیج پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور سابق خارجہ سیکریٹری شمشاد احمد خان بھی موجود ہیں—ڈان آرکائیوز
ایٹمی دھماکے کی پہلی سالگرہ کے موقع پر منعقدہ تقریب سے سابق وزیرِ خارجہ سرتاج عزیز خطاب کر رہے ہیں، اسٹیج پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور سابق خارجہ سیکریٹری شمشاد احمد خان بھی موجود ہیں—ڈان آرکائیوز

لیکن تب تک ڈاکٹر عبدالقدیر خان بُری طرح سے ٹوٹ چکے تھے۔ 2014ء میں ڈاکٹر صاحب سے میری پہلی اور آخری ملاقات ان کی بہن کے گھر پر ہوئی جو کراچی میں رہتی ہیں۔ میں صدیق شیخ صاحب کے ساتھ تھا، جنہوں نے میرا تعارف بہت اچھے لفظوں میں کروایا۔ تعارف سن کر ڈاکٹر صاحب کہنے لگے: ’ارے بھئی اتنے قابل ہیں تو پاکستان میں کیا کر رہے ہیں؟ جائیے، کہیں اور جائیے۔ یہاں رہیں گے تو مجھ جیسا ہی انجام ہوگا!‘

ایک پاکستانی کی حیثیت سے یہ جملہ مجھے بہت عجیب محسوس ہوا۔ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ سرکاری اور ادارہ جاتی معاملات چاہے جیسے بھی رہے ہوں، لیکن عام پاکستانیوں کے دلوں میں ان کی عزت و احترام میں کبھی کمی نہیں آئی۔ ایک طبقہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر مسلسل اور شدید تنقید کرتا رہتا ہے لیکن اس سے انکار ممکن نہیں کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان آج بھی پاکستان میں سائنس کے حوالے سے مقبول ترین نام ہیں۔

ان کی شخصیت سے متاثر ہوکر آج بھی لاکھوں پاکستانی نوجوان سائنس اور ٹیکنالوجی کی طرف راغب ہورہے ہیں۔ پاکستانی قوم کی یہی محبت ڈاکٹر صاحب کے لیے سب سے بڑا اعزاز ہے۔